اسلامائزشن آف نالج

0

سوال: اسلامائزیشن آف نالج کا کیا مطلب ہے؟ کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ جدید علوم کو اسلامی بنیادوں پر تشکیل دیا جائے۔ یا اسلام کو جدید علوم کے نقشہ میں فٹ کرنا؟ (شیخ اطہر نوید)

جواب: آپ کے سوال کے دوسرے حصہ سے صرفِ نظر کرتے ہوئے میں صرف پہلے حصہ پر توجہ دو ں گا۔ ممکن ہے اسی میں دوسرے کا جواب بھی آپ کو مل جائے۔

اسلامائزیشن آف نالج معاصر اسلامی فکر کا نمونہ ہے۔ یہ فی الاصل ایک علمی تحریک ہے جس کے سرخیل ڈاکٹر اسماعیل راجی الفاروقی ہیں۔ ڈاکٹر الفاروقی نے اس اصطلاح کی تشکیل اس ضرورت کے پیشِ نظر کی ہے جسے ان سے پہلے کے علماء و مفکرین پیش کرتے رہے ہیں۔ مثلاً شبلی نعمانی نے ایک نئے انداز کے طرزِ تحقیق کی بناء رکھی۔ مولانا مودودیؒ نے تعلیم کے مقاصد اور طرزِ تدریس سے متعلق بڑی تفصیل سے محاکمہ کیا ہے۔ علامہ رشید رضا، محمد عبدہ وغیرہ کی کوششیں بھی اسی سمت میں تھیں۔ ان علماء کا بنیادی مقصد اسلام اور اس کے احکامات کو دنیا کے سامنے معقول انداز سے پیش کرنا تھا۔ لیکن یہ کام مغربی طرز علوم اور اصول تحقیق کے دائروں میں رہ کر انجام دینا ممکن نہیں تھا۔ مثلاً وحی کو رہنمائی اور علم کا ذریعہ تسلیم کئے بغیر وجودِ باری تعالیٰ اور رسالت کی ضرورت کا ادراک کرنا ممکن نہیں ہے۔ اس لئے کہ مغربی تہذیب اور طرزعلوم ،وحی کو تسلیم نہیں کرتے ہیں اس لئے علوم تک پہنچنے کے لئے جہاں انسان کے حواس خمسہ ، وجدان ، تاریخ و تجربہ ذرائع بنتے ہیں وہیں وحی بھی ایک ذریعہ ہے۔

گو کہ یہ کام پہلے بھی ہوتا رہا ہے لیکن ڈاکٹر الفاروقی نے اسے سب سے بہتر شکل میں پیش کیا ہے۔ ان کا یہ ماننا ہے کہ مسلمانوں میں علوم کے حصول کا جو طریقہ ہے وہ غیر اسلامی ہے۔ اس غیر اسلامی طریقے کے نتیجہ میں مذہب اسلام صرف ایک ضمیمہ کی حیثیت سے پڑھا جاتاہے ۔ مثلاً معاشیات کے اصول و ضوابط بہت سارے ہو سکتے ہیں ، ان میں صرف سود کو نکال دو تو اسلام کے لئے قابلِ قبول ہے، کافی نہیں ہے۔ بلکہ سود کو نکال کر قرآنی تعلیمات کے مطابق خداکے وجود کا اقرار کرتے ہوئے جو علوم تشکیل پائے جائیں گے اسے ہم اسلامی علوم کہیں گے۔

انہوں نے دینی تعلیمی اداروں کے طریقہ تدریس پر بھی تنقید کی ہے وہ یہ کہتے ہیں کہ فقہ اور قانون کی تعلیم ، تصور اور عمل کا تعلق ، مذہبی اور غیر مذہبی ، دینی کا دنیاوی علوم کی تفریق کی وجہ سے ہمارے دینی ادارے اسلامی علوم کی ترویج و اشاعت میں ناکام ثابت ہوتے ہیں۔ اسی کے ساتھ ڈاکٹر صاحب حصولِ علم کی بنیادیں تشکیل دیتے ہیں۔ جس میں خدا کا وجود، اس کی رہنمائی کی حیثیت اور انسان کا مقام و فرض منصبی وغیرہ سے تعرض کیا گیا ہے۔ اس تصور کو مزید تقویت دینے کی خاطر انہوں نے امریکہ میں انٹرنیشنل انسٹیٹیوٹ فار اسلامک تھاٹ کی بنیاد رکھی جو تاحال بہت بہتر انداز میں اس سلسلہ میں کوشاں ہے۔ اگر اللہ کی مدد شامل حال رہی تو بہت جلد رفیقِ منزل میں ہم اس موضوع کے تحت ایک جامع شمارہ پیش کریں گے۔

اس کالم کے تحت قارئین کے سوالات کے جوابات دینے کی کوشش کی جائے گی۔ اپنے سوالات بذریعہ ای میل یا وہاٹس ایپ (اس نمبر 9673022736 پر) بھیج سکتے ہیں۔

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Verified by MonsterInsights