اسباب زوال امت: ایک مطالعہ

ایڈمن

امت مسلمہ کے زوال کے سلسلے میں کوئی حتمی یا یقینی بات متعین طور سے نہیں کہی جاسکتی کہ اس کا زوال کب شروع ہوا، البتہ محققین کی رائے کے مطابق شروع دور سے ہی عروج وزوال کا سلسلہ جاری…

امت مسلمہ کے زوال کے سلسلے میں کوئی حتمی یا یقینی بات متعین طور سے نہیں کہی جاسکتی کہ اس کا زوال کب شروع ہوا، البتہ محققین کی رائے کے مطابق شروع دور سے ہی عروج وزوال کا سلسلہ جاری رہا ، لیکن تاریخ بتاتی ہے کہ بارہویں صدی کے اواخر میں جب مسلمانوں کا سیاسی وعسکری زوال سامنے آیا، اور پھر تحقیق وتصنیف، اجتہاد وحرکت اور نئی دریافتوں اور ایجادوں کی راہ چھوڑ کر امت مسلمہ جمود وتعطل کا شکار ہوتی چلی گئی، اور اس کے نتیجے میں مسلسل پسماندگی میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔ اس امت کا تنزل ہر میدان میں ہوا، سائنس، ٹکنالوجی، صنعت کاری، تہذیب وثقافت، علوم وفنون اور ادب وآرٹ وغیرہ وغیرہ۔ یہاں تک کہ ایک ترقی یافتہ قوم کی حالت یہ ہوگئی کہ وہ ثریا سے تحت الثری تک پہنچ گئی اور ہر میدان میں ذلیل وخوار ہوکر رہ گئی۔
ذرا ہم یاد کریں کہ یہی وہ امت محمدیہ ہے جسے غلبے کے لیے برپا کیا گیا تھا، جس نے ایک طویل مدت تک اس دنیا پر حکمرانی کی تھی، جس کے وجود کا مقصد ہی یہی تھا کہ اس دنیا میں اللہ کے دین کو غالب کیا جائے، دنیا کا سارا نظام اسی کی ہدایت کے مطابق ہو، ایک ایسی امت جو اپنی ایک شاندار تاریخ رکھتی تھی، جس کا ڈنکا پورے عالم میں بج رہا تھا، اور جس کو اس عالم کے اکثر حصے پر غلبہ حاصل تھا، اورجس کی فتوحات کا سلسلہ کبھی رکتا نہیں تھا،علامہ اقبال کے بقول ؂

دشت تو دشت ہیں دریا بھی نہ چھوڑے ہم نے
بحر ظلمات میں دوڑا دیئے گھوڑے ہم نے

جس کا سورج کبھی غروب نہیں ہوتا تھا، جس نے ایسی ایسی عظیم شخصیات جنم دیں کہ جنہوں نے اپنے کارناموں سے اس دنیا کو ترقی کی نئی نئی شاہراہوں سے روشناس کرایا، اور جنہوں نے علم وفن کے ہر میدان میں بنیاد رکھنے کا کام کیا، مثال کے طور پر ابن سینا ماہر طب وعظیم فلاسفر، البیرونی ماہر علم نجوم وماہر ریاضی، فارابی ماہر فلسفی، جابر بن حیان ماہر علم کیمیا (علم کیمیا کے بابا آدم)، وغیرہ وغیرہ۔ یقیناًاسلامی تاریخ میں ایسے لوگ کثیر تعداد میں ملتے ہیں جنہوں نے مختلف علوم وفنون میں نہ صرف مہارت حاصل کی، بلکہ ایسے کارنامے انجام دیئے کہ اُن سے آج بھی ایک دنیا مستفید ہورہی ہے، لیکن افسوس ؂
گنوادی ہم نے جو اسلاف سے میراث پائی تھی

ثریا سے زمیں پر آسماں نے ہم کو دے مارا

آج یہ امت زبردست جمود وتعطل کا شکار ہے، اپنے اصل مقصد سے غافل ہے، اس کی اس غفلت کو دیکھ کر ایک عام انسان شکوک وشبہات کا شکار ہوجاتا ہے کہ کیا واقعی یہ وہی امت ہے جس کے پاس اپنی ایک اس قدر شاندار تاریخ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہمارے پاس اسلاف کے کارنامے صرف اور صرف زبانی دعووں تک محدود ہوکر رہ گئے ہیں۔ ہم نے کبھی اس سے درس وعبرت حاصل کرنے کی کوشش نہیں کی، ہماری اس تاریخ سے مغربی دنیا نے اپنی ترقیات میں نہ جانے کتنا فائدہ اٹھایا، وہ اپنے تاریک دور سے نکل کر تاریخ ساز دور میں داخل ہوگئی، اس کے افرادمختلف میدانوں میں آج نئی نئی دریافتوں اور انکشافات میں مصروف ہیں، ہمارے اسلاف نے جو کارنامے انجام دیئے تھے، ہمیں ان کو آگے بڑھانا چاہئے تھا، لیکن ہم مست مئے پندار ہیں، جبکہ مغربی دنیا نے ان ہی پر اپنی بنیادوں کو استوار کیا، اور آگے بڑھتے چلے گئے۔ آج یہ امت اس قدرغفلت کا شکار ہے کہ جس کا اندازہ نہیں کیا جاسکتا، اورصورتحال یہ ہے کہ دن بہ دن یہ مزید پسماندگی کا شکار ہوتی جارہی ہے۔
قوموں کا عروج وزوال قوم کے افراد پر منحصر ہوتا ہے، جب کسی قوم کے افراد بیدار ہوتے ہیں تو وہ قوم ترقی کرتی ہے، اور جب اس کے افراد غفلت کا شکار ہوجاتے ہیں تو اس قوم کو بھی پسماندگی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ امت مسلمہ کے زوال کے پیچھے بھی اس کے اپنے افراد کاہاتھ ہے، ان میں چند ایسی خطرناک قسم کی بیماریاں پیدا ہوگئیں جو اس کے زوال کا سبب بن گئیں، یا جنہوں نے اس کے زوال کو بدترین صورتحال سے دوچار کرنے کا کام کیا، ذیل کی سطور میں ان ہی کا جائزہ لینے کی کوشش کی گئی ہے:
قرآن مجید سے دوری: یہ وہ پہلا سبب ہے جس سے امت مسلمہ کا زوال شروع ہوا، امت کے عام افراد نے قرآن مجید کو حصول برکت اور ثواب کی کتاب سمجھ کر اس کے نزول کا اصل مقصد فراموش کر دیا، حصول ہدایت سے زیادہ حصول برکت اور ثواب پر زور دیا جانے لگا، قرآن سے براہ راست رہنمائی حاصل کرنے کو اتنا دشوار بنادیا گیا کہ اِس کے نتیجے میں عام لوگوں نے تفکر وتدبر کا میدان بالکل ہی چھوڑ دیا، قرآن مجید سے زیادہ اس کی تفاسیر کو اہمیت دی جانے لگی، یہاں تک کہ تعلیمی اداروں میں قرآن کی تدریس کے نام پر تفاسیرِ قرآن کی تعلیم دی جانے لگی، امت مسلمہ کا یہ دعوی ہے کہ اسلام ایک مکمل نظام ہے، اور اس سلسلے میں قرآن مجید ہماری بہترین رہنمائی کرتا ہے، لیکن ہماری اپنی زندگی اور قرآنی زندگی میں نمایاں فرق نظر آتا ہے، قرآن کا یہ تصور گفتگو یا تحریروں تک محدود ہوکر رہ گیا ہے، عملی زندگی اس سے خالی نظر آتی ہے، قرآن کو اپنی خواہشات کے تابع بنادیا گیاہے، علامہ اقبال نے اس کا نقشہ کیا ہی خوب کھینچا ہے ؂
ہوئے کس درجہ فقیہان حرم بے توفیق
خود بدلتے نہیں قرآں کو بدل دیتے ہیں

دین کے اصولوں سے انحراف: دوسرا سبب یہ ہے کہ امت کے اندر اصولی چیزوں کے بالمقابل فروعی چیزوں کو زیادہ اہمیت دے دی گئی، مقاصد اور اصول پیچھے چلے گئے اورامت فروعی مسائل میں الجھ کر رہ گئی ،فروعات کو اصولی چیزوں پر فوقیت دی جانے لگی، اور اسی کو اسلام کا شعار سمجھ لیا گیا ہے۔ ہمیں جس مقصد کے لیے برپا کیا گیا تھا کہ ’’کنتم خیر امۃ اخرجت للناس تامرون بالمعروف وتنھون عن المنکر وتومنون باللہ‘‘، امت اس سے بالکل ہی ناآشنا ہوگئی، اور اپنے فرض منصبی کے سلسلے میں مجرمانہ غفلت کا شکار ہوگئی۔ صورتحال یہ ہے کہ فروعی مسائل کو لے کر دوسرے فرقوں پر لعن طعن اور جنگ وجدال کا ایک بازار گرم ہے، کفر کے فتوے عام ہیں، چنانچہ طرح طرح کی بیماریاں امت کے داخل میں عام ہوگئیں۔ یہ سب تنگ نظری کی علامت ہے کہ جس امت میں اتنی لچک ہو، اس امت کا آج اولین مسئلہ یہ ہوگیا کہ پانی پاک اور ناپاک کب ہوتا ہے، امت اپنے اصولوں اور مقاصد سے کوسوں دور جاچکی ہے۔ یقیناًاس چیز نے بھی امت مسلمہ کے زوال میں ایک خطرناک اضافہ کیا ہے۔

مسالک کے نام پر فرقہ بندی: پچھلی صدیوں یا دور زوال میں ایک چیز یہ بھی سامنے آئی کہ لوگوں نے اسلام سے زیادہ مسالک پر زور دینا شروع کردیا، ان کے نزدیک اسلام سے زیادہ مسالک کی اہمیت ہوگئی، سب نے اسلام کی نشرواشاعت کے بجائے اپنے اپنے مسالک کی نشرواشاعت شروع کردی، اسلام کا تعارف اپنے مذہب کے مطابق پیش کیا گیا، قرآن وحدیث سے زیادہ مسلکی علماء کے اقوال کو اہمیت دی جانے لگی، مسائل کا حل تلاش کرنے کے لیے قرآن وسنت کے بجائے علماء کے اقوال کا سہارا لیا جانے لگا۔ اس سے زیادہ افسوس یہ کہ مذہب کے کچھ علماء کو قرآن وسنت پر بھی فوقیت دی جانے لگی۔ آج اس امت کی حالات یہ ہوگئی کہ آپس ہی میں مختلف مسائل کو لے کر لوگ الجھے ہوئے ہیں، اصل مقصد سے کوئی سروکار نہیں۔ اتحادواتفاق کی جگہ مسلکی تعصب اور انتشار میں اضافہ ہوتا جارہا ہے، علامہ اقبال نے صورتحال کی بہت خوب ترجمانی کی ہے ؂

فرقہ بندی ہے کہیں اور کہیں ذاتیں ہیں

کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں

ہرفرقہ دوسرے فرقے یا مسلک کو غلط ثابت کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگارہا ہے۔ لوگوں کے اندر سے خیرخواہی کا جذبہ بالکل ختم ہوگیا ہے،تعلیمی اداروں میں ہرکوئی اپنے اپنے مکتب فکر پر زور دے رہا ہے، طلبہ کو اسلام کے بجائے مسالک کی تعلیم دی جارہی ہے۔ ان اداروں سے کوئی باشعور مسلمان بن کر نکلے یا نہیں، لیکن ایک مسلکی مسلمان بن کر ضرور نکلے گا۔ آج تعلیمی اداروں میں دوسرے مسلک یا دوسری رائے کو سننے کے لیے برداشت کا جو مادہ پایا جاتا ہے اس کو ختم کردیا جاتا ہے۔ پاکستان کے ایک عالم نے اپنے طلبہ سے بہت اچھی بات کہی تھی کہ ’’اس میں کوئی مشکل نہیں کہ تم حنفی مسلک سے چمٹے رہو، یا اس کو مدلل کرنے کی کوشش کرو، لیکن حدیث کو ہرگز حنفی بنانے کی کوشش نہ کرو‘‘۔ یقیناًقرآن وحدیث کو تمام ہی مسالک پر فوقیت حاصل ہے، وہی سب کا مرجع ہے اور اسی کے ہاتھ میں ہر صحیح اور غلط کا فیصلہ ہے، لیکن اس امت کے اندر سے یہ تصور ہی ختم ہوگیا، اور مسلک پرستی کا نتیجہ یہ ہوا کہ ’’ثریا سے زمیں پر آسماں نے ہم کو دے مارا‘‘۔
تعلیمی پسماندگی:ہمارے سلف صالحین نے علمی میدان میں عظیم کارنامے انجام دیئے، مختلف میدانوں میں بہت ہی بنیادی اور اہم کارنامے انجام دیئے، امت اسلامیہ کی آئندہ نسلوں کو ان کاموں کو آگے بڑھانا تھا، لیکن افسوس کہ آج ان کی جگہ مغربی دنیا نے اس کام کا بیڑا اٹھا رکھا ہے، اور آج امت اسلامیہ ’’ہاتھ پر ہاتھ دھرے منتظر فردا ہے‘‘۔ آج ہم تعلیمی میدان میں بہت پیچھے مانے جاتے ہیں، ولیم ہیٹرنے برصغیر ہند میں مسلمانوں کی تعلیمی صورتحال پر اپنا جو جائزہ پیش کیا تھا، اس میں اس نے کہا تھا: ’’مسلمان قوم دوسری ترقی یافتہ قوموں سے تعلیمی میدان میں بہت پیچھے ہے‘‘۔ ہمارے پاس مختلف علوم وفنون میں مہارت رکھنے والوں کی تعداد بالکل نہ کے برابر ہے، ہم نے مختلف علوم وفنون کو یہ کہہ کر نظرانداز کردیا کہ یہ دنیاوی علوم ہیں، جن کا سیکھنا ہم مسلمانوں کا کام نہیں ہے، اس چیز نے بھی امت کے زوال اور پسماندگی میں کافی اضافہ کیا ہے۔
آخری بات: اس کے علاوہ بھی دیگر اسباب ہیں جو امت اسلامیہ کے زوال کا سبب بنے، جن میں سے کچھ اصولی نوعیت کے ہیں اور کچھ فروعی، جن کی تفصیل کا یہاں موقع نہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ پھر سے ایک بیداری عام کی جائے، بھولا ہوا مقصد دوبارہ یاد دلایا جائے، امت اسلامیہ کے اندر اس کے مقصد وجود کے سلسلے میں شعور عام کیا جائے، دین کے اصولوں اور مقاصد کی طرف دوبارہ واپسی کی جائے، ہرمیدان میں پیش رفت کی جائے اور نمونہ اور مثال پیش کی جائے، اپنی زندگیوں کو قرآن کے رنگ میں ڈھال دیا جائے، تمام اختلافات کے باوجود فکرمیں وسعت پیداکی جائے، اور آپسی تعلقات کو بہتر اور مضبوط بنانے کی کوشش ہو۔ یقیناًاس کے لیے ہمیں پیدائشی اور روایتی مسلمان کی جگہ ایک باشعور مسلمان بننا ہوگا۔ قرآنی تعلیمات کو اچھی طرح، اور تدبروتفکر کے ساتھ سمجھنا ہوگا۔ ہمیں پھر سے اپنا کھویا ہوا مقام حاصل کرنے کے لیے ان تمام پہلوؤں سے طویل اور سخت جدوجہد کرنا ہوگی، رب کائنات سے دعا ہے کہ
پھروادئ فاراں کے ہر ذرے کو چمکا دے

پھر شوق تماشہ دے، پھر ذوق تقاضا دے
رفعت میں مقاصد کو ہم دوش ثریا کر
خوددارئ ساحل دے، آزادئ دریا دے

محمد شاہد، الجامعۃ الاسلامیۃ شانتاپرم، کیرلا

حالیہ شمارے

براہیمی نظر پیدا مگر مشکل سے ہوتی ہے

شمارہ پڑھیں

امتیازی سلوک کے خلاف منظم جدو جہد کی ضرورت

شمارہ پڑھیں