ادعوا ربکم

0

دعا کے معنی کسی کو پکارنے اور بلانے کے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو مشکلات میں پیدا کیا۔(خلق الانسان فی کبد)ان مشکلوں اور مصیبتوں سے انسان ہمیشہ پریشان و مضطر رہتا ہے۔ یہ دنیا انسان کے لیے آزمائش ہے، ہر آن اس کو چیلنجز کا سامنا کرنا ہوتا ہے،ایسی صورت میں ان کٹھن راہوں میں انسان کیا کرے…؟ کس سے مدد لے…؟کہاں سکون پائے…؟
ادْعُواْ رَبَّکُمْ تَضَرُّعاً وَخُفْیَۃً إِنَّہُ لاَ یُحِبُّ الْمُعْتَدِیْن۔ (سورہ الاعراف: 55)
(لوگو) اپنے پروردگار سے عاجزی سے اور چپکے چپکے دعائیں مانگا کرو۔ وہ حد سے بڑھنے والوں کو دوست نہیں رکھتا۔
وَلاَ تُفْسِدُواْ فِیْ الأَرْضِ بَعْدَ إِصْلاَحِہَا وَادْعُوہُ خَوْفاً وَطَمَعاً إِنَّ رَحْمَتَ اللّہِ قَرِیْبٌ مِّنَ الْمُحْسِنِیْن۔(سورہ الاعراف:56)
اور ملک میں اصلاح کے بعد خرابی نہ کرنا اور خدا سے خوف کرتے ہوئے اور امید رکھ کر دعائیں مانگتے رہنا۔ کچھ شک نہیں کہ خدا کی رحمت نیکی کرنے والوں سے قریب ہے۔
اللہ اپنے بندوں کو دعا کی ہدایت کرتا ہے۔جس میں ان کی دنیا و آخرت کی بھلائی ہے۔فرمان الہی ہے کہ عاجزی، اور آہستگی سے پکارو۔ بخاری و مسلم میں حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ سفر میں ہم ایک وادی میں پہنچے، لوگ زور زور سے دعا مانگنے لگے، اس پر اللہ کے رسول نے کہا کہ لوگو اپنی جانوں پر رحم کرو جسے تم پکار رہے ہو وہ غائب یا بہرہ نہیں ہے، وہ بہت نزدیک اور بہت سننے والا ہے۔
تضرعاََ کے معنی ذلت، مسکینی اور اطاعت کے ہیں،اور خفیتہ سے مراد دلوں کا خشوع و خضوع ہے۔اس میں پوشیدگی اختیار کر نے کو کہا جارہا ہے۔ نہ ریا کاری کی جائے، نہ زور زور سے آہ وبکا کی جائے۔ دل کے کامل یقین کے ساتھ چپکے چپکے پکارا جائے۔۔۔ آہستگی اور عاجزی اختیار کی جائے۔ خواہ مخواہ حد سے بڑھنے والوں کو اللہ دوست نہیں رکھتا، دعا میں خاص کر اس کا لحاظ رکھنا چاہیے۔ حضرت سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسولؐ نے کہا کہ عنقریب کچھ لوگ ہوں گے جو دعا میں حد سے تجاوز کر جائیں گے۔ پھر آپؐ نے یہی آیت تلاوت فرمائی اور کہا کہ اتنا کہہ دینا کافی ہے کہ اے اللہ میں تجھ سے جنت اور اس سے قریب کرنے والے قول وفعل کی توفیق چاہتا ہوں،اور جہنم اور اس سے قریب کرنے والے ہر قول و فعل سے تیری پناہ چاہتا ہوں۔ (سنن ابو داؤد)
بس اتنا کہہ دینا کافی ہے،حالانکہ آج کل اجتماعی دعاؤں میں اس کا لحاظ نہیں رکھا جا تا،خوب چیخ چیخ کر دعا کی جاتی ہے، دعا کا ایک مخصوص ڈھب اختیار کیا گیا ہے جو سنت سے ٹکراتاہے۔ یہ منا سب طریقہ نہیں ہے۔
دعا عمل کے بعد ہے، اسی لیے کہا گیا کہ خوف اور امید کے ساتھ دعا مانگو۔۔۔خوف اور لالچ دونوں بھی عمل کے محرک ہیں، آدمی ایک قدم بھی نہیں اٹھا تا جب تک کسی کا خوف نہ ہو یا پھر لالچ… خوف اور لالچ کی وجہ سے آدمی کے اندر کام کرنے کا حوصلہ پیدا ہوتا ہے،اسی لئے کہا گیا ہے کہ عمل کرو لیکن زمین میں فسا د نہ پھیلاؤ …عمل کے بعد دعا ہے…یہ نہیں کہ صرف زبان سے کہہ دیں کہ \’اے اللہ باطل کو رسوا اور ناکام کردے\’ او ر \’ اسلام کا بول بالا کردے\’ اور اس کے لئے خو د کچھ نہ کریں…ہمیں جان لینا چاہیے کہ اسی کام کے لئے ہمیں پیدا کیا گیا ہے،اور اسی کے لیے امت مسلمہ کی تشکیل ہوئی ہے۔ اس کے لیے تو سخت جدو جہد کرنی پڑے گی۔۔۔اسی جذبۂ عمل کو ابھارنے میں دعا مددگار ثابت ہوتی ہے۔
(ایس ایم رحمان، ناندیڑ۔ مہاراشٹر )

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Verified by MonsterInsights