ذیل میں معروف اسلامی دانشور ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی کی ایک اہم گفتگو پیش ہے، جو موصوف نے ایس آئی او مہاراشٹر ساؤتھ کے ایک تربیتی کیمپ میں پیش کی تھی۔ (ادارہ)
آج کل یہ غلط فہمی عام ہے کہ اجتہاد کچھ مخصوص لوگوں کا کام ہے، ہم عام لوگ یعنی طلبہ واساتذہ جو طبقہ علماء میں شمار نہیں کئے جاتے وہ اس کام میں صرفPassive Recipient کی حیثیت رکھتے ہیں۔ میں آج اس غلط فہمی کو دور کرنا چاہتا ہوں اور بتانا چاہتا ہوں کہ ہم سب مسلمان اجتہادپر مأمور ہیں، اور یقیناًاپنے اپنے دائرے میں حسب موقع ہم سب کو اجتہاد کرنا ہی ہوتا ہے۔ اس لیے سب کے لیے یہ جاننا ضروری ہے کہ اجتہاد کا طریقِ کار کیا ہے، اور اس کی ضرورت کیاہے۔
عربی زبان کی معمولی شدبد رکھنے والے افراد جانتے ہیں کہ ہر لفظ کا عربی میں ایک Root ہوتا ہے جو عام طور پر تین یا چار اورکبھی کبھی پانچ حروف پر مشتمل ہوتا ہے۔ چنانچہ ’’جہاد، مجاہدۂ نفس، جدو جہد‘‘ ان سب میں ایک کامن Root ہے’’ج ھ د‘‘ جس کی آسان شکل جہد ہے، اردو میں بھی کہا جاتا ہے جدو جہد۔ جہدکے معنی ہیں کوشش کرنا، اور ایسی کوشش جس میں جسمانی محنت (physical exertion) ہو۔ دماغی محنت بھی ہوتی ہے۔ اسی سے اجتہاد او رجہاد بھی نکلا ہے۔ بس فرق یہ ہے کہ جہاد قتال کے مفہوم میں چلا گیا ہے، حالانکہ اس کا دائرہ کافی وسیع ہے، اور اجتہاد کا توزیادہ تر مفہوم لڑائی سے دور Intellectual Activity سے متعلق ہے۔
اجتہاد کی ضرورت منطقی طور پر بھی سمجھی جاسکتی ہے اور اللہ کی کتاب اور رسول اللہؐ کے اقوال سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس بات پرمأمور کیا ہے کہ ہم اس کی مرضی کے مطابق زندگی گزاریں، اوراس نے وعدہ کیا ہے کہ اگر ہم زندگی کے اس آزمائشی دور میں اس کی مرضی کے مطابق رہیں گے تو وہ جزاء و سزا کے دن ہمیشہ ہمیش کے لیے انعام کے طور پر آرام دہ زندگی دے گا، جسے جنت کہا گیا ہے۔ اور یہ تنبیہ بھی کی گئی ہے کہ اگر ہم نے جانتے بوجھتے اللہ کی مرضی کے خلاف کام کیے، اور ایک طرح سے بغاوت کی، تو مرنے کے بعد ہمارا انجام بہت ہی برا ہوگا۔ یہ بات ہر انسان سے کہی گئی ہے۔ جو اللہ کو پہچان کر ایمان لے آئے اور یہ بھی جان لے کہ محمدؐ اللہ کے آخری رسول تھے تو گویا اس نے عہد کرلیا کہ وہ رضائے الٰہی کے مطابق زندگی گزارے گا۔ اللہ کی مرضی کیا ہے، اس کا بیان وحی کے ذریعہ ہوا ہے، جو قرآن و سنت میں محفوظ ہے، اور اس کے متعین الفاظ ہیں، جو نہ گھٹ سکتے ہیں اور نہ ہی بڑھ سکتے ہیں۔ قرآن نے ہمیں حکم دیا ہے کہ اس طریقے کو اختیار کرو جو نبیؐ تمہیں سکھائیں، اس طرح سے سنت یا اسوۂ رسالت بھی ہمارے لیے وہی حیثیت رکھتا ہے جو قرآن۔ اگر صحیح حدیث ہوتو ہم اس پر بھی اسی طرح عمل کرتے ہیں جیسا کہ قرآن مجید پر عمل کرتے ہیں۔ زمانہ آگے بڑھ جانے سے بہت سے نئے مسئلے پیداہوتے ہیں، زندگی میں بہت سی تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں، اور یہ جو ہدایت (قرآن وسنت)ہے، وہ عرب میں آئی۔ جغرافیہ بدلنے سے بہت سے نئے مسائل پیدا ہوتے ہیں، کسی نے دنیا کی تقسیم چار طرح کے علاقوں میں کی ہے۔ کچھ پہاڑی علاقے ہیں، کچھ میدانی علاقے ہیں، کچھ صحرائی علاقے ہیں اور کچھ ساحلی علاقے ہیں۔ ان تمام کے حالات ایک دوسرے سے بہت مختلف ہیں کیوں کہ انسان کو زندگی گزارنے کے لیے زمین سے جو کچھ اُگانا ہے یا جانوروں، درختوں سے جو کچھ لینا ہے، و ہ ان چاروں قسم کے علاقوں میں مختلف طرح سے حاصل کیا جاسکتا ہے۔ ساحلی لوگ سمندر سے مچھلی پکڑ کر اپنی معیشت چلاتے ہیں، ریگستانی لوگ پانی تلاش کرتے ہیں ان کی معیشت پانی پر منحصر ہے، وہ پانی کی تلاش میں اِدھر اُدھر جاتے ہیں۔ میدانی لوگ اپنی معیشت کھیتی باڑی سے چلاتے ہیں، اور جانوروں کے چمڑے وغیرہ استعمال کرتے ہیں۔ پہاڑی علاقے میں پھل، سبزیاں، جانور مختلف رہتے ہیں۔ یعنی ایک تو زمانے سے فرق ہوتا ہے اور ایک جگہ سے فرق ہوتا ہے اور دونوں 21؍ویں صدی میں مختلف ہوں گے۔
آج پوری دنیا میں مسلمان پھیلے ہوئے ہیں، ان سب کے جغرافیائی حالات اور بہت سی چیزیں مختلف ہیں۔ ان تمام جگہ کے مسلمانوں کو یہ معلوم کرنا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہم سے کیا چاہتا ہے، اور یہ معلوم کرنا صرف یہی نہیں ہے کہ نماز کا حکم ملا ہے تو نماز کیسے پڑھی جائے، روزہ کیسے رکھا جائے، حج کیسے کیا جائے۔ یہ چند چیزیں تو عبادات سے متعلق ہیں کہ ان میں بہت زیادہ زمان و مکاں کے فرق سے فرق نہیں ہوتا، لیکن اس سے آگے بڑھ کر سیاست، معیشت، معاشرت وغیرہ پر نظر ڈالیے تو ان کے مسائل الگ ہیں۔ پہلے زمانے میں سونے چاندی کے سکے چلتے تھے، پھر نوٹ چلے، پھر موبائل بینکنگ آگئی۔ آپ مختلف طرح سے مالی معاملات کرسکتے ہیں۔ ہر ملک کی کرنسی الگ ہے۔ کرنسی تبدیل ہوتی ہے تو بہت سے مسائل تبدیل ہوجاتے ہیں، اور ان میں کچھ کی اہمیت بہت زیادہ ہوتی ہے۔ اِن سب وجوہات کی بنا پر جو انسان اللہ کی مرضی کے مطابق زندگی گزارے گا تو اس کو دماغی محنت کی ضرورت پڑتی ہے اسی کو اجتہاد کہتے ہیں۔ اس کو سوچنا پڑتا ہے کہ نبیؐ نے اس وقت کیا کیا تھا اور حالات اس وقت کیا تھے، مجھے کیا کرنا ہے، میرے کیا حالات ہیں، اس کے تناظر میں میں کیا کروں۔ اس میں کچھ لوگ دوسرے لوگوں سے زیادہ ماہر ہوسکتے ہیں اس سے کوئی انکار نہیں ۔ اس میں جو آدمی تجارت کر رہا ہو۔ ملٹی نیشنل کارخانے چلا رہا ہو، کئی کرنسی میں لین دین کر رہا ہو، اس کی سمجھ، اور اس کی جانکاری ہم جیسے لوگوں سے زیادہ ہوگی، اور کسانوں اور مچھواروں سے تو اور بھی زیادہ ہوگی۔
آج کے دور میں ہر مسلمان کو اللہ کی مرضی جاننے کے لیے کچھ نہ کچھ دماغی محنت کرنی ہوگی، اسی کا نام اجتہاد ہے۔ بہت سے لوگوں کو اس میں ذرا تردد ہوتا ہے کہ کیانص کافی نہیں ہے۔ جو لکھا ہے اس کو ہم یاد کرلیں یا کتاب میں لکھا مسئلہ دیکھ کر کام چلالیں۔ ایک مشہور حدیث ہے جس کو ہم حدیث معاذ کے نام سے جانتے ہیں: معاذ بن جبل کو نبیؐ نے یمن کا گورنر بناکر بھیجا، تو ان کو روانہ کرنے سے پہلے آپؐ نے ان سے فرمایا: جب کوئی معاملہ تمھارے سامنے آئے گا تو کیسے فیصلہ کروگے؟ معاذ بن جبلؓ نے فرمایا: میں اللہ کی کتاب کے مطابق فیصلہ کروں گا۔ نبیؐ نے فرمایا: اگر اللہ کی کتاب میں تمھیں اس کا جواب نہیں ملا تو؟ معاذ نے کہا: پھر اس کے رسول کی سنت کے مطابق فیصلہ کروں گا۔ آپؐ نے پوچھا: اگر تمھیں رسول اللہ کی سنت میں بھی جواب نہ ملا تو کیا کروگے۔ معاذ بولے پوری کوشش کرکے رائے قائم کروں گا اور کوشش میں کوئی کسر باقی نہ رکھوں گا۔ یہ سن کر رسول اللہ نے سینے پر ہاتھ مارا، اور فرمایا: شکر ہے اس خدا کا جس نے اللہ کے رسول کے پیغمبر کو اس طریقے کی توفیق دی جس سے اللہ کا رسول راضی ہے۔ یہ حدیث اجتہاد کی تائید کرتی ہے۔ یقیناًہر مسئلہ کا حل ہر زمانے میں اور ہر مقام کے لیے براہ راست نص میں موجود نہیں ملے گا، اور اگر نہ ملے تو ہمیں اجتہاد کرنا پڑے گا۔ آپ کو یہ شک ہوسکتا ہے کہ معاذ بن جبلؓ بڑے صحابی تھے رسول اللہ ؐکے زمانے میں تھے، ہم لوگ عام لوگ ہیں اور نہ ہی رسول اللہؐ کا زمانہ ہمیں ملا ہے اور نہ ہی وہ علاقہ۔ غیر عربی زبان بولنے والے لوگ کیسے ایسا کرسکتے ہیں۔
میں آپ کو شیخ الہند مولانا محمود الحسن صاحب، مشہور مترجم قرآن کے مقدمے کی ایک عبارت پڑھ کر سنانا چاہتا ہوں۔ وہ اپنے مقدمے میں لکھتے ہیں:
’’سب مسلمانوں پر فرض ہے کہ وہ اپنے رب کو پہچانیں اور اس کی صفات اور احکام کو معلوم کریں، اور تحقیق کریں کہ حق تعالیٰ کن باتوں سے خوش ہوتا ہے اور کن باتوں سے غصہ ہوتا ہے، اس کی خوشی کے کاموں کو کرنا اور اس کی ناخوشی کے کاموں سے بچنا اسی کا نام بندگی ہے اور جو بندگی نہ کرے وہ بندہ نہیں ہے، اور سب کو معلوم ہے کہ آدمی جب پیدا ہوتا ہے تو سب چیزوں سے ناواقف محض انجان ہوتا ہے، پھر سکھلانے سے سب کچھ سیکھ لیتا ہے، اور بتلانے سے ہر چیز جان لیتا ہے، لیکن جیسا کہ حق تعالیٰ نے ان باتوں کو قرآن و سنت میں خود بتایا ہے ویسا کوئی نہیں بتلا سکتا ،اور جو اثر و برکت و ہدایت خدا کے کلام میں ہے وہ کسی کے کلام میں نہیں ہے اس لیے عام خاص جملہ اہل اسلام کو لازم ہے کہ اپنے اپنے درجہ کے مطابق کلام اللہ کے سمجھنے میں غفلت اور کوتاہی نہ کریں‘‘
میں نے یہ اقتباس آپ کو جماعت اسلامی کی کسی شخصیت کا نہیں پڑھ کر سنایا ہے، یہ شیخ الہند مولانا محمود الحسنؒ کا ہے، ان کا شمار دیوبند کے اکابر میں ہوتا ہے، یہ جماعت کے وجود سے پہلے کی شخصیت ہیں۔ ایک زمانے میں سعودی عرب نے ان کے ترجمہ کو بہت بڑی تعداد میں چھاپ کر تقسیم کیا تھا۔ ہر زمانے کا مسلمان اس بات کا مکلف ہے کہ وہ فرداً فرداً یہ جاننے کی کوشش کرے کہ اللہ کا حکم کیا ہے۔ یہ غلط فہمی ہمارے معاشرے میں عام ہوگئی ہے کہ عام لوگ کچھ سمجھ نہیں سکتے، ان کو مولوی صاحب کی پیروی کرنی چاہئے، حتی کہ کچھ لوگ قرآن کے ترجمہ کو بھی نہیں پڑھنے دیتے یا اس سے روکتے ہیں۔
ہماری زندگی میں بہت سے مسائل ایسے آتے ہیں جس میں زیادہ پوچھنے کا وقت نہیں رہتا، فوراً ہی آدمی کو فیصلہ لینا پڑتا ہے، تو ایسی صورت میں مولوی صاحب کہاں ملیں گے۔ یہ وہ معلومات ہیں جو عام آدمی بھی سن کر یاپڑھ کر اُن کی جانکاری حاصل کرسکتا ہے۔ نماز روزے کے مسائل تو معلوم بھی رہتے ہیں اور آسانی سے معلوم بھی کیے جاسکتے ہیں، لیکن کبھی کبھی ایسے مسائل آتے ہیں جس میں آدمی پھنس جاتا ہے، اور آناً فاناً فیصلہ کرنا ہوتا ہے، اِس وقت اگر اُس کے پاس کچھ دین کی شدبد ہوگی تو وہ اجتہاد کے ذریعہ سے فیصلہ کرسکتا ہے۔ اس بارے میں احادیث بھی موجود ہیں۔ ایک حدیث سنن دارمی، کتاب البیوع کی ہے:
رسولؐ نے وابصہ سے کہا۔ اے وابصہ تم نیکی اور بدی کے بارے میں پوچھنے آئے ہو۔ وابصہ بولے ہاں، یہ سن کر آپؐ نے انگلیاں یکجا کرے اپنے سینے کو ٹھونکا اور فرمایا: اپنے دل سے پوچھو۔ آپ نے تین مرتبہ یہ کہا۔ نیکی وہ ہے جس پر طبیعت کو اطمینان ہوجائے اور بدی وہ ہے جو جی میں کھٹکے اور جس پر جی میں بار بار خلش ہو، چاہے لوگ کچھ بھی فتوی دیں۔ اس حدیث سے یہ معلوم ہوا کہ منطقی استدلال اور حسابی انداز فکر ہر طرح کے سوالات کے جوابات تلاش کرنے کا واحد طریقہ نہیں ہے، بلکہ انسان میں براہ راست جواب تک پہنچ جانے کا ملکہ اللہ تعالیٰ نے دیا ہے۔
ایک اور حدیث سے اس کی تائید ہوتی ہے۔ ابو جوزاء السعدی سے روایت ہے کہ انھوں نے حسن بن علیؓ سے پوچھا کہ آپ کو رسول اللہؐ کی فرمائی ہوئی کوئی بات یا دہے انھوں نے کہا: ہاں، ایک آدمی نے آپ سے ایک بات پوچھی، مجھے یاد نہیں کہ وہ بات کیا تھی، آپؐ نے فرمایا: جو بات جی میں کھٹک رہی ہو وہ چھوڑدو اور جس میں تردد نہ ہو وہ طریقہ اختیار کرو۔ مطلب یہ کہ اگر آدمی کے دل میں یہ ہے کہ اللہ کی مرضی کے مطابق زندہ رہنا میرا کام ہے تو ایسے وقت میں جب کہ کوئی کتاب وغیرہ بھی نہ موجود ہو، اور نہ ہی وہ کسی سے معلوم کرسکتا ہو وہ اپنے ضمیر کی آواز پر عمل کرے، یہ گویا مرضیات الٰہی کا اتباع ہوگا۔ اس کی بڑی دل چسپ مثالیں بھی ہیں۔
یہ سمجھنا کہ ہر سوال کا ایک ہی جواب ہوتا ہے یہ بھی غلط ہے۔ ایک ہی سوال کے الگ الگ حالات میں کئی جوابات ہوسکتے ہیں۔ ایک بار دو صحابی ایک ساتھ جار ہے تھے، اور ان کا وضو نہیں تھا، اور نماز کا وقت تنگ ہورہا تھا، تو ایک صاحب نے تیمم کرکے نماز پڑھ لی۔ دوسرے صحابی نے نہیں پڑھی، تھوڑی دوری پر پانی مل گیا تو ان دوسرے صاحب نے وضو کرکے نماز پڑھ لی۔ لیکن پہلے صحابی نے جنھوں نے تیمم سے نماز پڑھ لی تھی انہوں نے دہرائی نہیں۔ دونوں نے رسولؐ کے پاس اپنا مسئلہ رکھا تو آپؐ نے فرمایا: دونوں نے ٹھیک کیا، اور رسولؐ نے کسی کو بھی غلط نہیں ٹھہرایا۔
ایک مرتبہ آپ نے دو صحابیوں کو بنی قریظہ بھیجا اور کہا کہ بنی قریظہ پہنچ کر نماز پڑھنا۔ راستے میں نماز کا وقت ہوگیا تو ایک صحابی نے تو نماز پڑھ لی، البتہ دوسرے صحابی نے بنی قریظہ پہنچ کر نماز پڑھی۔ دونوں نے اپنا مسئلہ نبیؐ کے پاس رکھا تو آپؐ نے کسی پر ملامت نہیں کی بلکہ دونوں کو صحیح قرار دیا۔ تو اس طرح کے واقعات زندگی میں آسکتے ہیں۔ آپ موڈرن فائنانس، مالی معاملات کو لیں، تو اس میں بہت سے مقامات آئیں گے جہاں آپ کو کوئی کلیر چیز نہیں ملتی، تو اس میں آدمی اس حدیث پر عمل کرے کہ جو بات دل میں کھٹکے اس کو چھوڑ دے اور جس بات پر دل راضی ہو، اسے کرے تو وہ برائی میں مبتلا نہیں ہوگا۔
یہاں تک تو اس عنوان کے پہلے حصہ پر گفتگو ہوئی کہ اجتہاد کیا ہے اور کیا یہ ہر مسلمان کے لیے ضروری ہے۔ اب میں اس کے طریق کار پر گفتگو کروں گا۔
اجتہاد کو کسی ایک ضابطہ سے باندھ کر نہیں رکھا جاسکتا، خصوصاً دنیوی معاملے میں۔ جب معاملہ تردد کا ہو، توجس آدمی کو جو صحیح معلوم ہو، اور اس پر اس کا دل مطمئن ہو، تووہ اس پر عمل کرسکتا ہے۔ اس کی مثالیں صحابہؓ کے زمانے میں بھی ملتی ہیں:
(۱) حضرت عمرؓ جب خلیفہ ہوئے تو آپ کبھی کبھی مدینے کے بازار میں تشریف لے جاتے، ایک مرتبہ آپ بازار گئے تو حاطب بن ابی بلتعہ منقیٰ بیچ رہے تھے، منقیٰ مدینہ میں نہیں پیدا ہوتا، بلکہ طائف وغیرہ سے آتا تھا۔ آپؓ نے دیکھا تو یہ محسوس کیا کہ اس کے دام مارکیٹ کے دام سے کم ہیں، تو آپؓ نے ان سے کہا یا تو مارکیٹ ریٹ پر بیچو ورنہ دوکان بند کردو۔ شارحین کا خیال ہے کہ اگر مدینہ میں کوئی کم دام میں منقیٰ بیچتا، تو ایک تو دوسرے تاجروں پر اثر پڑتا، دوسرے یہ کہ مدینہ میں منقیٰ کی سپلائی رُک جاتی، اسی لیے حضرت عمرؓ نے ان کو یہ حکم دیا۔ لیکن جب حضرت عمرؓ گھر پہنچے تو ان کو خیال آیا کہ میں نے صحیح نہیں کیا، چنانچہ واپس حاطب ابن ابی بلتعہ کے پاس گئے اور کہا کہ میں نے تم کو غلط حکم دیا تھا، تم اپنا مال جس دام پر چاہے بیچ سکتے ہو، کیونکہ یہ تمہارا مال ہے۔ یہاں پر بتانا یہ مقصود ہے کہ اتنے بڑے صحابی کو بھی تردد ہوا کہ یہ صحیح ہے یا وہ صحیح ہے
(۲) ایک دوسرا واقعہ یہ ہے کہ حضرت عمرؓ کے زمانے میں مدینے کی آبادی بڑھ گئی، چنانچہ گیہوں کی طلب بھی بڑھ گئی، مدینہ میں گیہوں پیدا نہیں ہوتا تھا، وہ پانی کے جہاز کے ذریعہ سے مصر سے آتا تھا ، اور بڑے تاجر ساحل تک پہنچنے سے پہلے ہی گیہوں کو خرید لیتے تھے، اور اس کی پرچی اپنے پاس رکھ لیتے تھے۔ پھر اس پرچی کو دوسرے آدمی کو کچھ منافع پر بیچ دیتے تھے۔ چنانچہ ایک مرتبہ حکیم بن حزام نے اس سے خوب نفع کمایا۔ حضرت عمرؓ کو جب معلوم ہوا تو انھوں نے اس پر اس حدیث کی بنیاد پر اعتراض کیا کہ خاص طور سے کھانے پینے کی چیزیں جب تک قبضہ میں نہ آجائیں، دوبارہ نہیں بیچ سکتے۔ حضرت عمرؓ نے کہا جتنا تم نے نفع کمایا ہے، اس کو بیت المال میں جمع کرو، چنانچہ انھوں نے جمع کردیا۔ یہ مسئلہ یہاں ختم نہیں ہوا، حضرت امیر معاویہؓ کے زمانے میں پھر یہ ہوا تو انھوں نے بھی اس طریقہ کو بند کردیا، لیکن ان کے کئی صدی بعد امام نوویؒ لکھتے ہیں کہ ہمارے ائمہ نے اس میں کوئی حرج نہیں پایا۔ اس باب میں میں اپنی رائے نہیں دے رہا ہوں، بلکہ بتا رہا ہوں کہ ایسے مسائل جو کبھی درپیش نہ آئے ہوں اس میں لوگوں کی رائیں مختلف ہوسکتی ہیں۔
یہ رائے غلط ہے کہ اختلاف ختم ہوجانا چاہیے۔ اور کئی چیزیں ایک ساتھ کیسے صحیح ہوسکتی ہیں۔ میں اب پھر اصل مسئلہ کی طرف آتا ہوں کہ ہمارے ہدایت نامہ میں زبان، زمانہ اور مکان کی رعایت ہے۔ سب سے بڑا مسئلہ تو زبان کا ہے۔ دنیا کے ڈیڑھ بلین مسلمان غیر عربی ہیں۔ یہ نہیں ہوسکتا کہ تمام لوگ عربی سیکھ لیں، اور قرآن و سنت سے استدلال کرسکیں۔ مکان کا بھی بڑا مسئلہ ہے، زمانے کا بڑا گیپ ہے، عرب کی گنی چنی معیشت تھی، گیہوں، جو، کھجور وغیرہ، لائٹ تھی نہیں، بڑے بڑے امور میں مشورہ ہوتا تھا، ا س کے لیے اکٹھا ہونے کے لیے اذان دی جاتی تھی، اس طرح لوگ مسجد نبوی آجاتے تھے اور رسولؐ مشورہ کرلیتے تھے، لیکن پھر بھی بڑے بڑے صحابہ اس وقت بھی چھوٹ جاتے تھے۔ موبائل وغیرہ تھے نہیں، اور ویڈیو کا نفرنس وغیرہ کا بھی تصور نہیں تھا۔
تین چیزیں بڑے مسائل پیدا کرتی ہیں، زبان کا مسئلہ لیں تو آج ہر زبان میں تقریباََ قرآن کا ترجمہ موجود ہے۔ اور ہر مکتب فکر کے لوگوں نے ترجمہ کیا ہے، اور 95% ایک دوسرے کے ترجمہ میں کوئی فرق نہیں، اکا دکا جگہ مسائل میں اور ترجمہ میں فرق ہوتا ہے، اور یہی حال حدیث کا بھی ہے۔ اور اب تو انٹر نیٹ پر بھی زیادہ تر ترجمے فری میں موجود ہیں۔ چنانچہ آج زبان کا مسئلہ حل ہوگیا، اگر کوئی مسئلہ آئے تو ہم نے اس کو یاتو عربی میں سمجھ لیا یا پھر اپنی زبان میں۔ پھر یہ دیکھنا ہے کہ کس پس منظر میں بات کہی گئی ہے، اگر سیاق و سباق مختلف ہو گیا ہے تو اب اجتہاد کا ایک نیا دروازہ کھلے گا۔ اسی طرح جب ہم اپنے زمانے پر کسی چیز کو اپلائی کریں گے تو اپنے زمانے کے سیاق کو بھی دیکھنا پڑے گا۔ دو امور ہیں، جو قرآن و سنت کی ہدایات کے متعلق دیکھنے ہیں کہ وہ کن حالات میں دی گئی تھیں، ان حالات کو سمجھا جائے اور جن حالات میں ہم نافذ کر رہے ہیں ان کو سمجھا جائے، مثال کے طور پر سورہ شوری کی آیت میں مسلمانوں کی صفات بتاتے ہوئے اللہ تعالی فرماتے ہیں: ’’ و امرہم شوری بینھم‘‘ اس کا پو راسیاق یہ ہے کہ مسلمان نماز ادا کرتے ہیں۔ زکوۃ دیتے ہیں اور اپنے معاملات میں شوری کرتے ہیں۔ گویا مسلمانوں کا یہ امتیاز ہے کہ اپنے معاملات کا فیصلہ اجتما عیت کے ساتھ کرتے ہیں۔ اس تعلق سے احا دیث اور اقوال صحا بہ بھی موجود ہیں۔
اب سوال یہ ہے کہ شوری کے تقاضے سے مشورہ طلب امر کا فیصلہ کیسے کیا جائے۔ نبیؐ کے زمانے میں مشورہ کرنے کے لیے ایک اذان دی جاتی تھی تمام لوگ مسجد نبوی میں اکٹھا ہوجاتے تھے اور مشورہ ہوجا تا تھا، لیکن پھر بھی دور دراز کے صحابی چھوٹ جاتے تھے یا پھر نماز کے فوراً بعد آپ لوگوں کو روک کر مشورہ کیا کرتے تھے۔ اب اس وقت کہیں پر کوئی صاحب ہیں، آپ Skype پر ویڈیو کا نفرنس کر سکتے ہیں۔ فون پر کئی آدمی ایک ساتھ مل کر بات کر سکتے ہیں۔ اب اگر کوئی اہم ذمہ دار باہر ہے تو ہم اس کو نظرانداز نہیں کر سکتے، فون، Skype وغیرہ پر موجود ہے، تو اس سے ہم رائے لے سکتے ہیں۔
آپ کہہ سکتے ہیں کہ اجتہاد کے لیے تو عربی زبان پر عبور اہم قرار دیا گیا ہے کہ وہ قرآن، حدیث، فقہ وغیرہ براہ راست پڑھ سکے۔ یہ شرطیں تو بعد میں لوگوں نے لگا دی ہیں۔ بظاہر یہ کہنے والے عام طور پر فقہی معاملات مراد لیتے ہیں۔ فقہی معاملات سے مراد عبادات، زکوٰۃ، حج وغیرہ ہیں۔ لیکن اجتہاد کا تعلق تو اصلاً پوری زندگی سے ہے۔ مثلاً آپ سمجھتے ہیں کہ ہمارا بنیادی کام ہے انسانوں تک اللہ کی دعوت پہنچانا۔ دعوت میں بھی اجتہاد کی بہت ضرورت ہے، مثلاً آپ تلاش کررہے ہیں کہ غیر مسلمین کوقرآن کی طرف لانے کے لیے کوئی موقع ملے تو آپ نے نمائش میں ایک اسٹال لگایا اور ترجمہ قرآن اور سیرت کی کتب ہر زبان میں آپ نے گفٹ دینے کے لیے رکھ لیں وغیرہ، یہ سب نئے طریقے ہیں آج ان کا استعمال کیا جارہا ہے۔ اب اس سے بڑھ کر انٹر نیٹ پر آپ اپنا مواد ڈال دیں تاکہ لوگ پڑھ سکیں۔ قرآن کے ترجمے، اسلامیات کی کتا بیں وغیرہ۔ اس طرح دیکھیں تودعوت دینا بھی ایک دائرہ ہے جس میں آپ اجتہاد کر سکتے ہیں۔
دوسری مثال : بہت سے مسائل میں مسلمان اکیلے مسئلہ حل نہیں کرسکتے بلکہ غیرمسلمین کے ساتھ مل جل کر ہی وہ مسئلہ حل کر سکتے ہیں۔ اس کی سب بڑی مثال گلوبل وارمنگ ہے۔ نیو کلیر وار غیرہ کو روکنا، بیماری مثلا ڈینگو، ملیریا ، جس میں اندیشہ رہتا ہے کہ اگلے ۲۴ گھنٹوں میں یہ دور دور تک پھیل جائے گا تو اس کے لئے صحت کی جانچ کرنا وغیرہ تو ان تمام چیزوں میں بغیر امتیاز مسلم وغیرمسلم سب لوگ تعاون کریں۔ عہد نبوت میں بھی اس کی مثالیں ملیں گی، تمام ہی مسلمان خصو صاََ جو جس فیلڈ میں مہارت رکھتے ہوں اس میں وہ اجتہاد کریں۔ نئی نئی چیزوں پر سوچنا ہوگا، بظاہر اگر وہ مسئلہ بالکل منفرد ہے، آپ کی زندگی سے متعلق ہے، اور دو میں سے ایک چیز منتخب کرنا ہے تو آپ کا جس پر اطمینان ہو جائے اسکو کرجائیے، لیکن اگر وہ اجتما عی مسئلہ ہے تو اس میں مشورہ بہت ضروری ہے۔ البتہ یہ سوچنا پڑے گا کہ کس اسٹیج پر وہ مسئلہ ہے، اسی لحاظ سے مشورہ ہوگا۔ ۱۹؍ویں صدی تک تو یہ بات تھی کہ اگر مسئلہ قرآن وسنت، اوراجماع وقیاس میں نہ پایا جائے تو اس میں لوگ زیادہ تر دو چیزوں کو رفر کر کے رائے دیتے تھے۔ (۱) مصلحت، بہت ہی کشادہ معنی میں مصلحت عامہ اور (۲) ضرورت ،کہ اگر کسی چیز کے بغیر زندگی چل ہی نہیں سکتی، تو اس کو جائز قرار دیا جائے۔ 20؍دیں صدی میں یہ مسئلہ بدل گیا ہے۔ مقاصد شریعت جو قرآن ہی سے اخذ کئے جاتے ہیں،یہ مصلحت اور ضرورت دونوں پر غالب رہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے مقاصد شریعت کو بیان کرنے کے لیے بہت سارے الفاظ بیان کئے ہیں، ان کو بیان کیا جاسکتا ہے، اور ان کی روشنی میں نئے مسئلوں کو حل کیا جاسکتا ہے۔ میری کتاب مقاصد شریعت میں بھی اس مسئلہ پر بحث ہے لیکن یہ بحث کبھی ختم نہیں ہوسکتی اور اس بحث میں کبھی سب لوگ متفق نہیں ہوسکتے۔ لیکن میں آپ سے گزارش کروں گا کہ آپ اس بحث میں ضرور شریک ہوں۔ اسلامی فقہ اکیدمی نے کافی چیزیں اردو میں مہیا کردی ہیں، ان کوپڑھئے۔ عربی میں تو بہت مواد ہے۔رسالوں میں بھی آتا رہتا ہے، اور مناقشہ کیجئے اپنی رائے کے مختلف ہونے سے کبھی نہ ڈریئے، رائے ہمیشہ مختلف ہوتی ہے لوگوں کی، اور آگے بھی رہے گی۔رائے کے اختلاف کی وجہ سے کوئی سزا کا مستحق نہیں ہوگا، اللہ اسکو خوب جانتا ہے جو دلوں میں ہے۔
اجتہاد : ضرورت اور طریق کار
ذیل میں معروف اسلامی دانشور ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی کی ایک اہم گفتگو پیش ہے، جو موصوف نے ایس آئی او مہاراشٹر ساؤتھ کے ایک تربیتی کیمپ میں پیش کی تھی۔ (ادارہ) آج کل یہ غلط فہمی عام ہے کہ…