ابی احمد:عروجِ آدم خاکی سے انجم سہمے جاتے ہیں

ایڈمن

ڈاکٹر سلیم خان ایتھوپیا کے وزیراعظم ابی احمد فی الحال براعظم افریقہ میں سب سے کم عمر سربراہ مملکت ہیں۔ وہ سنہ 1976 ء میں جیما زوہن کے اندر ایک أورومو نسل کے مسلم باپ اور ایک أمہرہ نسل کی…

ڈاکٹر سلیم خان

ایتھوپیا کے وزیراعظم ابی احمد فی الحال براعظم افریقہ میں سب سے کم عمر سربراہ مملکت ہیں۔ وہ سنہ 1976 ء میں جیما زوہن کے اندر ایک أورومو نسل کے مسلم باپ اور ایک أمہرہ نسل کی مسیحی ماں کے گھر میں پیدا ہوئے۔ لندن کی یونیورسٹی آف گرینچ میں قیادت کی تبدیلی کے موضوع پر ماسٹرزکی ڈگری حاصل کرنے کے بعد وہ عدیس ابابا یونیورسٹی سے امن اورسلامتی کے موضوع پر پی ایچ ڈی سے نوازے گئے۔ عنفوانِ شباب میں انہوں نے الدرغوی حکومت کے خلاف مسلح جد و جہد میں حصہ لیا۔ الدرغوی کو اقتدار سے بے دخل کرنے کے بعد انہوں نے مغربی واللاغا کے اندر آصفہ بریگیڈ میں باقاعدہ فوجی تربیت حاصل کی۔وہاں خفیہ سروس میں ایک افسر سے ترقی کرتے ہوئے لیفٹننٹ کرنل کے عہدے پر فائز ہو گئے۔ سنہ 1995ء  میں ابی احمد نے اقوام متحدہ کی امن فوج میں شامل ہوکر روانڈا میں خدمات سرانجام دیں۔ روانڈا کے اندر سنہ 1994 ء میں تاریخ کی بدترین نسل کشی ہوئی تھی جس میں 100/ دن کے اندر آٹھ لاکھ افراد قتل ہوئے تھے۔سنہ 1998ء  سے لے کر 2000ء تک کے ایتھوپیا کے ساتھ ایری ٹیریا کے سرحدی تنازعے میں انہوں نے سرحد کے پار  دشمن فوج کے زیرِ قبضہ علاقہ میں جاسوسی مشن کی قیادت کی۔

            ابی احمد نے 09 /سال قبل سنہ 2010ء میں أورومو پیپلز ڈیموکریٹک آرگنائیزیشن کی رکنیت اختیار کر کے عملی سیاست میں قدم رکھا اور رکن پارلیمان منتخب ہوگئے۔ اسی دوران ایتھوپیا کے جیما زون میں مسلمانوں اور مسیحیوں کے درمیان فرقہ وارانہ فسادات کا آغاز ہوا۔ انہوں نے اس تنازعے کے پائیدار حل کی خاطر ’امن کے لیے مذہبی فورم‘ نامی وفاق بنایا۔ اس میں کامیابی کے بعد ابی احمد اپریل 2018 ء کو ایتھوپیا کے وزیرِاعظم بن گئے۔ اس طرح انہوں نے ثابت کردیا کہ نفرت و عناد کی آگ بھڑکائے بغیر اور دنگا فساد کے بنا بھی انتخابی کا میابی حاصل کی جا سکتی ہے۔ اقتدار سنبھالنے کے بعد طرح طرح کی نوٹنکی کرنے کے بجائے انہوں  تیزی کے ساتھ اصلاحات کا آغاز کیا اوربیک وقت خارجی و داخلی محاذ پر توجہ دی۔ ایک سخت گیر اور قدامت پسند معاشرے میں یہ بہت جرأت مندانہ قدم تھا۔ ان کی اصلاحات کی وجہ سے ایتھوپیا میں دبی ہوئی نسلی کشیدگی کو ابھرنے کا موقعہ ملا جس کی وجہ سے 25/ لاکھ افراد بے گھر ہوئے لیکن ابی احمد نے اپنا کام جاری رکھا۔ اندرون ملک وسعتِ قلبی کا مظاہرہ کرتے ہوے ہزاروں سیاسی قیدیوں کی رہائی کااعلان کیا اورملک بدر سیاسی مخالفین کی واپسی کے لیے عام معافی کا اعلان کردیا۔ اپنے پہلے 100/دن کے اندر ملک میں نافذ ایمرجنسی اورمیڈیا سینسر شپ کا خاتمہ کردیا۔ابی احمد نے جہاں حزب ا ختلاف کو قانونی حیثیت دی وہیں بدعنوانی میں ملوث فوجی اور سیاسی رہنماؤں کا پتہّ صاف کر دیا۔ انتخاب سے قبل اس طرح کے خواب وطن عزیز  ہندوستان میں بھی دکھائے جاتے ہیں جو شرمندہ تعبیر نہیں ہوتے۔

            خارجی محاذ پر وزیراعظم ابی احمدنے اپنے بدترین دشمن ہم سائے ملک کے ساتھ دو دہائیوں سے جاری تنازعے کو طے کر کے کشیدگی کا خاتمہ کیا۔ وزیرِاعظم ابی احمد نے اپنا ہاتھ آگے بڑھایا تو دوسری جانب سے ایری ٹیریا کے صدر افورقی نے ان کا ہاتھ تھام لیا اور اس طرح دو ممالک کے درمیان امن کا ماحول بن گیا۔ وزیراعظم ابی احمد کو ان کی اس مساعی کے اعتراف میں ناروے کی نوبل امن کمیٹی نے 2019ء کا امن انعام دینے کا فیصلہ کیا۔ کمیٹی کے مطابق انہیں یہ انعام ہم سایہ افریقی ملک ایری ٹیریاکے ساتھ سرحدی تنازعے کے حل میں پیش قدمی پر دیا گیا ہے۔ اس سال امن کے نوبل انعام کی دوڑ میں 301 /امیدواروں کے ناموں پر غور ہوا جن میں 223 /شخصیات تھیں اور  78 /تنظیموں کے نام تھے۔نوبل کمیٹی نے ابی احمد کی امن اور تعاؤن سے متعلق کاوشوں کو سراہتے ہوئے یہ انعام ان کے نام کر دیا۔

            ایری ٹیریا بھی پاکستان کی مانند ایتھوپیا سے الگ ہوکر عالم وجود میں آیا۔  یہ دونوں 1998ء سے 2000 ء تک ایک دوسرے کے خلاف برسر پیکار رہے۔ اس کے بعد ان کے بیچ تعلقات اس قدر کشیدہ ہوگئے تھے کہ سفارتی رشتے تک قائم نہیں ہوئے۔ جولائی سنہ 2018ء میں دونوں ممالک نے باقائدہ جنگ کے خاتمہ کا اعلان کرکے دو طرفہ تعلقات کی بحالی کر لی اس طرح  20 سال سے جاری فوجی جنگ کا خاتمہ ہوگیا۔ نوبل انعام پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے وزیر اعظم ابی احمد نے کہا کہ امن کا یہ نوبل انعام افریقہ اور ایتھوپیا کو دیا گیا ہے۔انہوں نے امید ظاہر کی کہ دیگر افریقی ممالک کے سربراہان اس ایوارڈ کو مثبت انداز میں لیتے ہوئے براعظم میں امن کے قیام کی کوششوں میں اہم کردار ادا کریں گے۔یہی بات نوبل کمیٹی نے بھی کہی کہ اس انعام کا مقصد ان تمام افراد اور اسٹیک ہولڈرز کو سراہنا ہے جنہوں نے ایتھوپیا، مشرقی اور شمال مشرقی افریقی علاقوں میں امن کے قیام کے لیے مثبت کردار ادا کیا ہے۔

            ایک ایسے دور پرفتن میں جب کہ خود ساختہ عالمی سُپر پاور ساری دنیا میں ظلم و جور کا بازار گرم کیے ہوئے ہے اور جگت گرو بننے کا خواب دیکھنے والے اپنے ہی لوگوں کو آپس میں لڑا کر سیاسی روٹیاں سینک رہے ہیں، ابی احمد اور افورقی کی امن و استحکام کی سعی قابل تحسین ہے۔ نوبل انعام حاصل کرنے والوں کو تین چیزیں دی جاتی ہیں۔ ان میں سب سے اہم منفرد فن پارہ نوبل ڈپلوما ہے۔اس کے علاوہ نوے لاکھ سویڈش کرونا ملتے ہیں جو نو لاکھ امریکی ڈالر کے برابر ہے یعنی تقریباً ۶ کروڈ تیس لاکھ۔ ہمارے سیاست دانوں کے لیے یہ رقم معمولی ضرور ہے لیکن اعزاز بیش قیمت ہے۔ الفریڈ نوبل کی سالگرہ کے موقع 10 /دسمبر کو یہ انعام اوسلو میں انہیں پیش کیا جائے گا۔ ابی احمد اس اہم انعام کے لیے مبارک باد کے مستحق ہیں اور اس خوشی کے موقع پر ان کے لیے دل سے یہ دعا نکلتی ہے

غواص محبت کا اللہ نگہباں ہو                                   ہر قطرہ دریا مں ہ دریا کی ہے گہرائی

حالیہ شمارے

براہیمی نظر پیدا مگر مشکل سے ہوتی ہے

شمارہ پڑھیں

امتیازی سلوک کے خلاف منظم جدو جہد کی ضرورت

شمارہ پڑھیں