آرٹیکل370 کو ختم کرنا ہندوستانی جمہوریت اور آئین پر ایک طمانچہ ہے: ایس آئی او

ایڈمن

نئی دہلی (پریس ریلیز) آرٹیکل 370 اور کشمیری عوام کو حاصل خصوصی حقوق کی منسوخی ہندوستانی جمہوریت اور دستوری اقدار پر ایک طمانچہ ہے.آج حکومت ہند نے آرٹیکل 370 اور 35A کو منسوخ کرنے کا یک طرفہ فیصلہ کرلیا. یہ فیصلہ ہندوستانی جمہوریت کو سبوتاژ کردینے والا ہے اور یہ حقوق انسانی کی صریح خلاف ورزی ہے. ان خصوصی حقوق کو اس وقت کے وزیر اعظم جواہر لعل نہرو جی نے کشمیری عوام اور ان کے رہنما شیخ عبداللہ سے طویل مذاکرات کے بعد دستور ہند کا حصہ بنایا گیا تھا.

ایک طویل عرصہ سے برسراقتدار حکومت اس بے بنیاد پروپگنڈا کی تشہیر کرتی رہی ہے کہ کشمیری عوام کو تمام ہندوستانی عوام پر فوقیت حاصل ہے اور وہ خصوصی اختیارات سے بہرہ مند ہورہے ہیں. اس پروپگنڈا میں یہ بات بھی شامل رہی ہے کہ کشمیری عوام کو ایک طرح سے ‘دوہری شہرہت’ حاصل ہے اور یہ کہ آرٹیکل 370 کشمیری خواتین کے حقوق کی پامالی پر مبنی ہے. اس پروپگنڈا کے نتیجے میں تشدد پسند ہجوم اور ہندتوا نظریہ سے وابستہ تنظیمی‍ں ہندوستان کے مختلف علاقوں میں مقیم کشمیری برادران کو نشانہ بناتی رہی ہیں. آج بھی (ایوان میں) بھارتی جنتا پارٹی نے آرٹیکل 370 اور 35A کے تحت کشمیری عوام کو حاصل حقوق کو کالعدم قرار دینے کے لیے اسی پروپگنڈہ کو بنیاد بنایا. حقیقت یہ ہے کہ آرٹیکل 370 کے تحت کشمیر کو حاصل خصوصی درجہ کوئی استثنائی درجہ نہیں ہے بلکہ یہ آئین ہند کی ایک (قابل تحسین) امتیاز ہے. بشمول ناگالینڈ، منی پور اور آسام کئی ریاستوں کو اسی قسم کا خصوصی درجہ حاصل ہے. ہماچل پردیش میں رہائش پذیر شہریوں کو بھی املاک کے حوالے سے خصوصی حقوق حاصل ہیں. اس کا یہ مطلب نہی‍ں ہے کہ ان ریاستوں کے شہریوں کو دوہری

شہریت حاصل ہے یا ان پر آئین ہند کا اطلاق نہیں ہوتا. اس کا مطلب صرف اتنا ہے کہ یہ ریاستیں ایک منفرد جغرافیائی اور ثقافتی شناخت رکھتے ہیں، جس کا تحفظ یہاں کے باشندوں کی خواہش ہے، اور دستور ہند ان کے اس ‘حق تحفظ’ اور ان کی اپنی زبان، روایات اور ثقافت کو فروغ دینے کے حق کو تسلیم کرتا ہے. آرٹیکل 370 کی تنسیخ کا عمل، وہ بھی متعلقہ ریاست کے افراد سے کسی مشاورت کے بغیر، ایک غیر جمہوری عمل اور دستور ہند کی اصل روح کے منافی ہے. یہ حکومت ہند اور کشمیری عوام کے مابین اعتماد کے ختم ہونے کا باعث ہوگا. حکومت آرٹیکل 370 اور 35A کے تحت حاصل حقوق کو فوری طور پر بحال کرے. اور کشمیری عوام میں (حکومت ہند کے تئیں) اعتماد بحال کرنے کے لیے فوری اقدامات کرے.

وادی میں دہائیوں سے جاری تصادم کو محض اس طور پر ختم نہیں کیا جاسکتا کہ وہاں مزید فوجی بھیجے جائیں اور نہ یہ ممکن ہے کہ جبر و اکراہ کی بنیاد پر پوری ریاست کی قلب ماہیت کردی جائے. مسئلے کو حل کرنے کے لیے کسی بھی سنجیدہ کوشش کے لیے ناگزیر ہے کہ اس کا آغاز گفتگو سے ہو، اس میں اعتماد بحال کرنے کی کوشش ہو اور جمہوری پروسیس کو بحال کیا جائے. کشمیری عوام کی مزاحمت جائز ہے اور (ملک کی) طلبہ برادری کشمیری عوام کے شانہ بہ شانہ کھڑی رہے گی. شعبہ ذرائع ابلاغ[email protected]

اگست 2019

مزید

حالیہ شمارہ

امتیازی سلوک کے خلاف منظم جدو جہد کی ضرورت

شمارہ پڑھیں

فلسطینی مزاحمت

شمارہ پڑھیں