خدا کی دنیا
خدا کی دنیا بے حد حسین ہے۔ اس کے حسن کو لفظوں میں بیان نہیں کیا جاسکتا۔ آدمی جب اس دنیا کو دیکھتا ہے تو بے اختیار اس کا جی چاہتا ہے کہ وہ خدا کی اس ابدی دنیا کا باشندہ بن جائے۔۔۔۔ وہ ہواؤں میں شامل ہوجائے۔ وہ درختوں کی سرسبزیوں میں جابسے۔ وہ آسمان کی بلندیوں میں کھوجائے۔ مگر انسان کی محدودیتیں اس کی اس خواہش کی راہ میں حائل ہیں۔ وہ اپنی محبوب دنیا کو دیکھتا ہے مگر اس میں شامل نہیں ہوپاتا۔ شائد جنت اسی کا نام ہے کہ آدمی کو اس کی محدودیتوں سے آزاد کردیا جائے، تاکہ وہ خدا کی حسین دنیا میں ابدی طور پر داخل ہوجائے۔
انسان نے جو تمدنی دنیا بنائی ہے، وہ خدا کی دنیا سے کس قدر مختلف ہے۔ انسان کی بنائی ہوئی سواریاں شور اور دھواں پیدا کرتی ہیں، مگر خدا کی دنیا میں روشنی ایک لاکھ چھیاسی ہزار میل فی سیکنڈ کی رفتار سے چلتی ہے اور نہ کہیں شور ہوتا ہے اور نہ دھواں۔ انسان انسانوں کے درمیان اس طرح رہتا ہے کہ ایک کو دوسرے سے طرح طرح کی تکلیفیں پہنچتی رہتی ہیں، مگر خدا کی دنیا میں ہوا اس طرح سے گزرجاتی ہے کہ وہ کسی سے نہیں ٹکراتی۔۔ (مولانا وحیدالدین خاں، خدا اور انسان)
مجھے آزاد کردے
دنیا تو، تری رعنائیاں
شور کرتیں، مسکراتیں پر مسرت خاموشیاں
رقص پیما ہیں شجر
موجِ بحر، دریا، نہر
پرندوں کی نغمہ سرائی پر
سن مری باتوں کو سن
میں ترا باشندہ بننا چاہتا ہوں
زمیں کی وسعتوں میں
آسماں کی بلندیوں میں
بکھرنا چاہتا ہوں
درختوں میں، ان کے رنگین سبزہ میں
پہاڑوں میں، ان کے پرہیبت جلالوں میں
کھونا چاہتا ہوں
ہواؤں کی لطافت میں
گھلنا چاہتا ہوں
شورِ دنیا سے نکل کر سکوت کائنات کا
عنواں بننا چاہتا ہوں۔۔۔
مگر کیسے۔۔۔۔۔
میں پابند ہوں خود میں
پا نہیں سکتا ترے حسن کو
محدود ہوں خود میں
مجھے آزاد کردے۔۔۔۔
ضم کردے ان نظاروں میں
جمالوں میں، جلالوں میں
مگر۔۔۔۔
یہ محدودیاں،
عقل کی یہ بیڑیاں
یہ سب ذہنوں کی زنجیریں
حائل ہیں ترے ادراک میں۔۔۔
نجم السحرسحر،
الجامعہ الاسلامیہ شانتا پرم
بے دال کے بودم
چلو چلو جلدی کرو، اور ہاں تم کھانا کھانے کے فوراََ بعد اوپر والے فلور پر آؤ ڈرامے کی۔۔۔۔ بستر پر پڑے رات کے قریب ڈیڑھ بجے میرے کانوں سے ایسے ہی کچھ الفاظ ٹکرائے۔ میں نے کروٹ بدل کر دیکھا، تو مجھے اپنے آپ پریقین ہی نہیں آرہا تھا! زاہدجس کے ساتھ پچھلے پانچ برسوں سے رہتا چلا آرہا ہوں، جو ہر سال کاہلوں کا سردار چنا جاتا تھا، جس کے پیٹ کا پانی نہیں ہلتا، جو مہینوں میں جاکر کبھی دھوکے سے کپڑے دھونے بیٹھتا، نہانے کا تو پوچھنا ہی نہیں، آج اس کے تیور اچانک بدل کیسے گئے۔ تبھی میرے احساس برتری نے مجھ کو ایک لات رسید کی، تو ایسا کیوں سوچتا ہے۔ یہ اکیسویں صدی ہے۔ جو سوگیا وہ کھوگیا۔ تجھ کو معلوم نہیں کہ چائے خانے سے لے کر کتب خانے تک پوسٹرس نے ریلی نکال رکھی ہے۔ جھنجلاتے ہوئے میں نے سوال کیا، آخر کس بات کی۔۔۔۔؟ ارے بے دال کے بودم، ’دھنک رنگ‘ (کلچرل فیسٹول) جو آیا ہے۔ یہ سنتے ہی میرے دل نے دھڑکنا ہی بند کردیا، میں نے سوچا تبھی تو کئی دنوں سے مجھے کھانا نہیں ہضم ہورہا ہے کہ آخر گونگوں کے ٹھیکیدار زبان کے ویپاری کیسے بن گئے، سقراط، بقراط، اور پطرس کی اولاد جو ہمارے چاروں طرف شہد کی مکھی کی طرح بھنبھنارہی ہے، کیا اسی دھنک رنگ کا نتیجہ ہے؟ ہاں ہاں تو تم کو کیا لگتا ہے؟ نہیں نہیں، میں سوچ رہا تھا، یہ کالے ہرے، پیلے نیلے آخر مجھ سے کیوں نہیں ملے۔ میں نے کہا نا، یہ اکیسویں صدی ہے، جو سوگیا، وہ کھوگیا۔ (ایس آئی او کے ایک کلچرل فیسٹول کے موقع پر تحریر کردہ، محمد زید، بلرام پور۔ یوپی)
محمد زید، بلرام پور۔ یوپی
پھر بھی!!!
درد کے دیکھو انبار لگے ہیں
ہرگاہ درد کے بازار سجے ہیں
ارزاں بہت درد کی قیمت ہوئی ہے
ہلکاں بہت درد کی عظمت ہوئی ہے
درد آہوں میں، راہوں میں، آنکھوں میں ہے
عشق میں درد، اور ہجر ووصل میں درد
باتوں میں، یادوں میں درد
درد کا دائرہ پل بہ پل
بڑھتا ہوا
درد کا سفر نگر در نگر
چلتا ہوا
درد کا شہر آباد
ہوتا ہوا
اتنے درد زمانے میں ہیں، پھر بھی
کتنی بے درد ہے دنیا یہ!!
سعود فیروز، مالیگاؤں
’لہو پکارے گا‘
کتنا دردناک سماں پیش کررہی تھیں تمہارے تنفس کی آخری چیخیں، مگر کون تھا جو اس چرچراتی اور بلبلاتی چرمراہٹ پر دھیان دیتا۔ تمہارا وجود تو سراپا رحمت تھا۔ صحرا کے سورج کی اگلتی آگ میں تھکن سے نڈھال راہی کو تمہارا سایہ جنت کا نشان دیتا تھا۔ تمہارے آنچل کی آزاد ہوا میں وہ خود کو سبک بار محسوس کرتا تھا۔ اس کائنات میں ذوق تسکین کے تم ایک حسین مظہر تھے۔ فن کار تخلیق کی قندیلیں جلانے کے لیے تمہارے محتاج تھے۔ پھول نما معصوم بچے گداز ہاتھوں سے تمہاری شاخ پر جھولا ڈالتے اور پرندے نازک سینوں سے سرِشاخ بنائے آشیانوں میں انڈے سیتے، تو بربط دل کے لطیف تار اس حسین منظر کو دیکھ گنگنا اٹھتے۔ رات کو تمہارے لہلہاتے شباب میں چاندنی کے لیے صباحت تھی، تو دن کو تمہاری لہکتی ڈالیوں سے بے آب وگیاہ صحرا کی تزئین تھی۔ تمہاری سپاس گزاری سے جھومتی شاخوں کو دیکھ پنچھی بھی خالق کی مدحت کے گن گانے میں جٹ جاتے، اور فضا کے تعطر کو دوبالا کردیتے۔ قربانی کا جذبہ تم میں سرایت کیے ہوا تھا، بلکہ تم تو چاند کا کردار اپنائے ہوئے تھے جو روشنی بانٹ کر داغ خود ہی رکھ لیتا ہے۔ چلچلاتی کرنیں تمہاری لطافت کو دیکھ کر آپ ہی ٹھنڈی ہوجاتیں۔ بلا کی جاذبیت تھی تمہارے کردار میں، فضا کی آلودگیاں جذب کر روحوں کو حیات بخش سانسیں مہیا کرتے۔ لوگ جب اپنے گھروں میں سہمے پڑے تھے، اس وقت طوفان کی زد پر تم ہی ستادہ تھے، یہ ثابت قدمی اور استقامت کا اعلی مظہر تھا۔
سیکھنے والا کیوں نہ تمہاری ذات سے سبق حاصل کرے۔ کیا نہ تھے تم؟! سچ کہوں تو احسان کے اعلی مرتبے پر فائز تھے تم۔ مجھے یاد ہے تم نے کتنی ہی بار ہوا کے ہاتھوں انسانیت کے نام قربانی کا، شادمانی کا، اور دریادلی کا پیغام بھیجا تھا۔
آہ! مگر اس خود غرض انسان کے ہاتھوں کی سفاکی نے تمہارے پرخچے اڑادیئے، اس کی ہوسناکی نے ناکردہ گناہوں کی پاداش میں تمہارے لیے سزائے موت کو تجویز کیا۔ اب وہ دلدوز منظر ہے کہ پیاسا سمندر مینہ کو ترس رہا ہے، دھرتی کے خشک لبوں پر بارش کی قلت کے گِلے ہیں، تھکے ماندے راہیوں کے عرش دوز نالے ہیں، تیری آغوش میں جِلا پانے والی چڑیوں کی فریاد سے فضا مرتعش ہے، ایسے میں تیری کمی شدت سے کھل رہی ہے، اور تیرا خونِ بے گناہ چیخ چیخ کر پکار رہا ہے
میری ذات تو سراپا رحمت تھی
کیونکر مجھ کو پھر یہ سزا دی
وقاص، کیرلا