رمضان المبارک اور کیمپس میں کرنے کے کام

0

رمضان المبارک کی آمد۔۔۔ لیجئے نیکیوں کا موسم شروع ہوچکا، بچے سے لے کر نوجوان اور نوجوانوں سے لے کر بوڑھے سب اللہ کی یاد اور عبادتوں میں مصروف ہوگئے ہیں۔ چاروں طرف تقویٰ کے حصول کے لیے اپنے اپنے انداز سے جدوجہد جاری ہے، کیونکہ قرآن خود کہتا ہے:
’’یاأیھا الذین آمنوا کتب علیکم الصیام کما کتب علی الذین من قبلکم لعلکم تتقون‘‘o (سورہ البقرہ: ۱۸۳)
نیکی اور تقویٰ کے حصول میں سرگرم اس ماحول کا اثر مسلم بستیوں، مساجد، چوراہوں سے لے کر غیر مسلم بستیوں اور تعلیمی اداروں میں بھی نظر آتا ہے۔ رمضان المبارک غیر مسلم افراد کے درمیان بھی موضوع بحث رہتا ہے، اور چونکہ شیاطین اس ماہ میں قید کردیئے جاتے ہیں، اس لیے غیرمسلموں کے درمیان قبولِ حق اور دعوتِ دین کے زیادہ امکانات رہتے ہیں۔ مسلمان بھی اصلاح کا بھرپور اثر قبول کرتے ہیں۔
یہ مہینہ نزول قرآن کا مہینہ ہے،اور قرآن کا سب سے بڑا حق یہ ہے کہ اسے انکار کرنے والوں اور اس سے ناواقف اور انجان لوگوں تک اسے پہنچایا جائے، چنانچہ دعوتِ حق اور شہادتِ حق کے فریضہ کی انجام دہی کے لیے یہ ماہ ایک اہم سنگ میل ثابت ہوسکتا ہے۔ اس ماہ میں طلبہ کے لیے خاص طور پر تعلیمی اداروں میں نفوذ حاصل کرنے اور وہاں کام کرنے کے بہت سے مواقع ہوتے ہیں، اس مضمون میں ہم تعلیمی اداروں کے اندر رمضان المبارک میں ہونے والے مطلوبہ عملی کاموں پر غور کریں گے:
استقبال رمضان
کالج اور ہاسٹل میں استقبال رمضان پر رمضان سے کچھ قبل کچھ اہم لیکچرس رکھوائے جائیں، یا کچھ اہم فولڈرس اور کتابچے تقسیم کیے جائیں، الغرض ساتھیوں کو رمضان کی تیاری کے لیے آمادہ کیا جائے۔ اسی طرح استقبال رمضان کے کارڈتیار کرکے بلا لحاظ مذہب وملت کالج میں تقسیم کیے جاسکتے ہیں۔ استقبال رمضان کارڈ پر کچھ رہنما خطوط بھی درج ہوجائیں تو طلبہ کے لیے فائدہ مند ہوگا۔
رمضان المبارک کی مبارکباد
رمضان کی شروعات میں چاند کے نظر آتے ہی ایک خوبصورت SMS کے ساتھ ہمارے وابستگان اپنے کالج کے پرنسپل،ذمہ داران اور سبھی اساتذہ اور طلبہ کو رمضان المبارک کی مبارکباد دیں، اس SMS میں کوئی ایک پیارا سا ایسا جملہ بھی لکھ دیں، جو اسلام اور رمضان کے تعلق سے ایک پیغام پہنچانے والا، یا ان کو اس کی جانب متوجہ کرنے والا ہو۔ دوسرے دن رمضان کا ایک خوبصورت تحفہ اساتذہ اور پرنسپل کو پیش کریں، اس سے ان کے ذہن میں اسلام اور رمضان کے متعلق دلچسپی پیدا ہوگی اور وہ آپ کی ان سرگرمیوں سے اچھا تأثر لیں گے، ان شاء اللہ۔
خصوصی جداریہ (وال میگزین)
ہر کالج میں طلبہ کی جانب سے وال میگزین لگائے جاتے ہیں۔ ہمارے ساتھی یا کوئی ایک فردایک خصوصی وال میگزین رمضان کے تعلق سے تیار کرے، جس میں رمضان کا مقصد، اس کی نمایاں خصوصیات اور سماج پر اس کے اثرات کا اچھا تعارف کرایا گیا ہو، اس میگزین میں ضرورت کے لحاظ سے مختلف تخلیقی مواد شامل کرسکتے ہیں، البتہ اس کو رمضان کے لیے مخصوص رکھیں، اور کوشش رہے کہ اس میں بہت ہی دلچسپ انداز سے رمضان اور اس کے مقاصد کا تعارف آجائے، اس وال میگزین کو پرنسپل کی اجازت سے نوٹس بورڈ یا کسی بھی مناسب مقام پر چسپاں کریں۔
افطار پارٹی
موجودہ دور میں افطار پارٹی ایک آزمودہ نسخہ ہے۔ اس طریقہ کو اپناکر اپنے کالج کے غیر مسلم دوستوں کے لیے افطار پارٹی کا انتظام کریں۔ افطار سے قبل یا بعد نماز مغرب ان سے رمضان کے تعلق سے گفتگو کی جائے، رمضان کے مقاصد، خوبیوں اور اس کے اثرات کا بہترین تعارف کرایا جائے، اس طرح ان کے درمیان غلط فہمی دور ہوگی اور وہ اسلام کے قریب آئیں گے۔کالج کے تمام اساتذہ وذمہ داران اور غیرتدریسی اسٹاف کے لیے ایک الگ سے افطار پارٹی کا اہتمام ہو، یہ نہ صرف دعوت کا ایک ذریعہ ہوگی، بلکہ ان سے خوشگوار تعلقات بھی استوار ہوں گے، اس طرح کیمپس میں کام کرنے کے مزید مواقع ہاتھ آئیں گے۔
تحائف کا دینا
ہم عام طور پر دعوتی لٹریچر تقسیم کرتے ہیں، اس کا کوئی خاص اثر نہیں پڑتا۔ ہم اس رمضان میں یہ کریں کہ اپنے دوستوں کو تحفت کے طور پر کچھ کتابیں دیں، اس موقعہ پر اپنے چند قریبی ساتھیوں کو چھوٹا سا کوئی اور تحفہ بھی دیں جیسے پین گھڑی وغیرہ، تحفہ کے لین دین سے دل قریب آتے ہیں اور محبت بڑھتی ہے۔
ایس ایم ایس اور ای میل
دعوتی لٹریچر PDFفائیل کی شکل میں دستیاب ہے، ہمارے وابستگان کالج کے سبھی طلبہ کے ای میل ایڈریس کی لسٹ تیار کرکے ان کے پاس وقتا فوقتادعوتی لٹریچر ای میل کیا کریں۔ اسلامی عقائد، تعلیمات اور اقدار کو مسلم و غیر مسلم طلبہ میں عام کرنے کے لیے ایک ایس ایم ایس گروپ تشکیل دیا جاسکتا ہے، اور مہینہ بھر روزانہ ایک ایس ایم ایس پوسٹ کریں، اس گروپ کے ذریعہ سے اسلام پر مشتمل ویب سائٹس کی فہرست بھی تیار کرائی جاسکتی ہے، جو وقتا فوقتا انہیں ساتھیوں کے پاس ارسال بھیجتے رہیں۔
سوشل میڈیا کا استعمال
سوشل میڈیا (فیس بک، ٹویٹر وغیرہ)موجودہ دور میں پیغام رسانی کا موثر اور تیز رفتار ذریعہ ثابت ہوئے ہیں۔ خاص طور پر طلبہ اس سے بڑی تعداد میں منسلک ہیں۔ الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا سے زائد طلبہ سوشل میڈیا پر نظریں جمائے ہوئے ہیں۔ رمضان المبارک میں فیس بک اور دیگر سوشل نیٹ ورکنگ سائٹس کا استعمال اپنے پیغام کی ترسیل کے لیے کیا جاسکتا ہے۔ اسلامی تعلیمات پر مبنی فوٹوز، احادیث، قرآنی آیات، رمضان پر مشتمل مضامین تخلیقیت کے ساتھ تیار کرکے فیس بک پر اپ لوڈکیے جاسکتے ہیں۔ اسی طرح وال میگزین اوراچھے فوٹوز تیار کرکے سوشل میڈیا میں دیں۔ کسی اور کی چسپاں کی ہوئی اسلامی پوسٹ کو اپنے دوستوں سے شیئر کریں۔ اسے لائیک کریں۔ ٹویٹر پر بھی رمضان کے نام سے گروپ بنا کر بھرپور ٹویٹ کریں۔ جس کی وجہ سے وہ ٹویٹ اگر ۱۰۰؍ سے زائد افراد نے کیا تو وہ ٹرین بننے لگتا ہے، اور دیگر میڈیا بھی اس کی طرف راغب ہوتا ہے، اور اس طرح رمضان المبارک ایک موضوعِ بحث بن سکتا ہے۔
مسجد کی سیر
بعض غیر مسلم طلبہ یہ سمجھتے ہیں کہ مسجد میں بھی مندر اور چرچ کی طرح ایک مورت ہوتی ہے، جس کی پوجا نماز کی شکل میں مسلمان کرتے ہیں، اس غلط فہمی کے ازالے کے لیے کیمپس کے اپنے قریبی دوستوں کو رمضان میں کم از کم ایک مرتبہ مسجد میں لائیں۔ انہیں دکھائیں کہ نماز کیسے پڑھی جاتی ہے، ان کو نماز کے مقصد اور اسلام کے تصور عبادت سے واقف کرائیں۔ اس سے ایک فائدہ تو یہ ہوگا کہ ان کی غلط فہمیوں کا ازالہ ہوگا۔ دوسری طرف ہوسکتا ہے اللہ تعالیٰ ان کو مسجد اور رمضان کی خیر و برکت کے سبب ہدایت سے سرفراز کردے۔ اگر ہم غور کریں تو قبول اسلام کے محرکات میں سے ایک اہم محرک مسجد کا روح پرور ماحول بھی ہے۔ ٹونی بلیر کی نسبتی لورین بوتی کو ہدایت مصر کی مسجد قرطبہ کے روح افروز ماحول میں ہی نصیب ہوئی تھی۔ مسجد کی سیر کا طریقہ قبول اسلام میں کامیاب ثابت ہوتا ہے، اس قسم کے تجربات بھی وقتا فوقتا ہمارے درمیان ہوتے رہنے چاہئیں، ان تجربات سے کوئی فائدہ ہو یا نہ ہو، کم ازکم اتنا تو ضرور ہوگا کہ ان کے ذہنوں سے بہت سی غلط فہمیاں دور ہوجائیں گی۔
اجتماعی دعوتی ملاقاتیں
کالج کیمپس میں اور خاص کر ہاسٹل میں کیمپس کے مسلم طلبہ کو ساتھ لے کر اجتماعی دعوتی ملاقاتیں کی جاسکتی ہیں۔ جس میں زیادہ زور باہمی تعارف اور دوستی بنانے پر ہو، تعلقات استوار ہوں گے تو اس سے پھر مزید راستے کھلیں گے، اور دعوتی کام کے مواقع بھی خوب ہاتھ آئیں گے، لیکن ضروری ہے کہ دعوت کے سلسلہ میں بہت ہی حکمت اور تدریج کے ساتھ کام کا آغاز کیا جائے، مناسب اور اچھے انداز میں اسلام کا تعارف کرایا جائے، اور اسلام کو عقلی دلائل سے ثابت کرنے اور ان کے دل میں اتارنے کی کوشش کی جائے، اور جہاں تک توفیق کا معاملہ ہے تو وہ اللہ ہی کے ہاتھ میں ہے، یقیناًوہ اپنے بندوں کے ساتھ خیر کا معاملہ فرماتا ہے۔
کالج میں اجتماعی نماز
’’نماز جگہ اور لوگوں کو دیکھ کر نہیں بلکہ وقت پر پڑھی جاتی ہے‘‘ یہ ڈائیلاگ تو ہر کسی کو یاد ہوگا۔ لیکن مسلم طلبہ اکثر ٹیوشن اور لیکچرس وغیرہ کے سبب نماز چھوڑ دیتے ہیں یا قضا کرلیتے ہیں۔ یہ صحیح نہیں ہے، رمضان المبارک میں یہ کوشش کی جاسکتی ہے کہ کالج کیمپس میں ہی ظہر و عصر کی نماز باجماعت ادا کی جائے، نماز کے بعد چند منٹ کی جامع اور مکمل تیاری کے ساتھ تذکیریا درس کا بھی اہتمام ہو۔
وقت پر نماز پڑھنا اللہ تعالیٰ کے نزدیک محبوب عمل ہے، اور پھر باجماعت نماز تو ۲۷؍ گنا افضل ہے، اس باجماعت نماز کے غیر مسلم طلبہ پر غیر معمولی اثرات مرتب ہوتے ہیں، کم ازکم وہ اسلام کے بارے میں کچھ جانیں گے، کچھ ان کی غلط فہمیاں دور ہوں گی، اور کچھ لوگوں کے لیے یہ چیز باعث توجہ ہوگی، اسی بہانے وہ اسلام اور اسلامی تعلیمات کے مطالعہ کی جانب راغب ہوں گے۔
امر بالمعروف ونہی عن المنکر
قرآن کے احکامات کو نافذ کرنے کے لیے ماہِ نزولِ قرآن بہترین وقت ہے۔ قرآن کہتا ہے: ’’کنتم خیر أمۃ أخرجت للناس تأمرون بالمعروف و تنھون عن المنکر‘‘ اس حکم کے تحت کیمپس میں برائیوں کے ازالے کی کوشش کی جائے۔ رمضان میں دیکھنے کو ملتا ہے کہ مسلم تو مسلم غیر مسلم طلبہ بھی فحش گوئی سے بچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایک دفعہ ہم دو ساتھی اپنے ایک دوست کیتو اور نیل کے ہمراہ کالج کے باہر کھڑے تھے کہ اچانک ایک گاڑی ہارن بجاتے ہوئے ہمارے پاس سے گزری، کیتو کو ہارن کی آواز سے شدید چڑ تھی، اس لیے اس نے اسے کار والے کو کئی ایک گندی گالیاں دے ڈالیں، لیکن فو راً ہی اسے اندازہ ہوا کہ اس کے ساتھ کھڑے دو لوگ روزہ سے ہیں۔ اس نے فوراً ہی ہم سے معذرت کی، اور شرمندگی کا اظہار کیا۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ غیر مسلم بھائی بھی روزے کا کتنا احترام کرتے ہیں، وہ روزے داروں کے احترام میں کچھ نہ کچھ برائیوں سے اجتناب کرتے ہیں، اس موقعہ کو استعمال کرکے ان کے درمیان اخلاقیات پر ایک مہم منائی جاسکتی ہے، ان کے درمیان اخلاقیات کو فروغ دینے کی کوئی بھی کوشش کی جاسکتی ہے۔ اس رمضان میں ہم یہ کرسکتے ہیں کہ سبھی مسلم طلبہ ساتھی یہ عہدلیں کہ وہ کوئی بھی غلط کام، برائی کا کام، جھوٹ، فحش گوئی کا کام نہیں کریں گے، اور جو طلبہ خواہ مسلم ہوں یا غیرمسلم، اگر وہ مختلف لتوں اور عادتوں کا شکار ہیں، تو ان سے بھی اس پر مناسب انداز سے تبادلہ خیال کریں ممکن ہے کہ بتدریج وہ خود ان عادات سے متنفر یا تائب ہوجائیں ۔
آج کل ہمارا موبائل فون برائیوں کا منبع و محور بن چکا ہے۔ طلبہ کے موبائل میں فلمی گانیں، فحش و بے ہودہ فلمیں، گندی تصاویر، اور اس طرح کی لغویات ہوتی ہیں۔ اس موقعہ پر طلبہ کے موبائل کا تزکیہ بہت ضروری ہے۔ انہیں لغو چیزیں نکالنے پر آمادہ کرکے اس کا نعم البدل دیا جائے۔ ان کے موبائل فون اور میموری کارڈکے لیے قرآن مجید مع ترجمہ، قرأت، نظمیں، نعت، اچھے لکچرس، ڈاکیومنٹری،وغیرہ فراہم کرائی جاسکتی ہیں، البتہ اصل کوشش اس بات کی ہو کہ وہ خود بخود اپنا تزکیہ کرنے کی کوشش کریں، اور جب ان کی ذہن سازی ہوجائے گی، اور ہماری جانب سے تعاون بھی ملے گا، تو پھر خود بخود موبائل اور دوسری تمام چیزیں پاک صاف ہوجائیں گی۔ اس ماہ مبارک میں تعلیمی ادارے میں جہاں برائی دیکھنے کو ملے، وہاں ایمان کا بہترین درجہ استعمال کرتے ہوئے اسے ہاتھ سے روکنے کی کوشش ہونی چاہیے، ورنہ موقع ومحل کے اعتبار سے کم از کم اس کے سلسلے میں مناسب اور معقول انداز میں کام کرنے اور لوگوں کی ذہن سازی کرنے کی کوشش ہونی چاہئے، اگر ہم نے کام کرنے کے اس انداز کو ماہ رمضان میں اختیار کرلیا، اور اپنے ساتھیوں کو بھی اس پر آمادہ کرلیا، تو اس ماہ مبارک کے بعد یہ چیز ایک عادت بن جائے گی اور اس کے اثرات سال کے دیگرماہ وایام میں بھی سامنے آتے رہیں گے۔
انفرادی ملاقات
اپنے کالج کے سبھی جونیئر و سینئر طلبہ کے ساتھ رمضان میں انفرادی ملاقاتیں کی جائیں، انہیں رمضان کی مبارکباد پیش کی جائے۔ یہ انفرادی ملاقاتیں تنظیمی نوعیت کی بھی ہوں اور غیر تنظیمی بھی، البتہ اس کا بنیادی مقصدان کو اس بات کے لیے آمادہ کرنا ہوگا کہ رمضان کے مہینے کو ہم کس طرح کیمپس کی خدمت، کیمپس میں بے حیائی کے ازالے اور اخلاقیات کے فروغ، اور اپنے ساتھیوں کی شخصیت کو سنوارنے کے لیے استعمال کرنا چاہتے ہیں۔
صد فیصد حاضری
رمضان کے دوران مسلم طلبہ اکثر غیر حاضر رہتے ہیں، جس سے ہمارے مدعوین پر غلط اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ کوشش ہو کہ ہمارے وابستگان کالج میں صد فیصد حاضری درج کرائیں تاکہ اساتذہ و طلبہ ایک اچھا تأثر لیں، ان کے ذہن میں یہ بات نہ آسکے کہ روزے کے سبب تعلیم اور دوسرے اہم کام متأثر ہوجاتے ہیں۔ اسلام میں عبادات کے تصور کا جائزہ لیاجائے تو اس سے بھی یہی رہنمائی ملتی ہے کہ اس کے سبب ہماری روزمرہ کی مشغولیات، خصوصا حصول علم اور تلاش رزق کی مصروفیات پر کوئی بھی اثر نہیں پڑنا چاہئے، یہ عجیب مسئلہ ہے کہ رمضان کی راتوں میں جگنا، اور دن دن بھر سوتے پڑے رہنا ، مسلمان طلبہ ونوجوانوں کا عام مزاج بن گیاہے، حالانکہ یہ دن میں روزے کے مقصد کے بھی خلاف ہے اور رات کے قیام اللیل اور عبادتوں کے مقاصد کے بھی خلاف ہے، اگر قیام لیل یا رات کی عبادتوں کے سبب دن کا معمول متأثر ہورہا ہے، تو اس کے لیے ہمیں اپنے دن رات کے شیڈول کا ایک مرتبہ بڑی ہی گہرائی کے ساتھ جائزہ لینا چاہئے۔
سماجی مسائل اور اسلامی نقطۂ نظر
مختلف سماجی مسائل میں گھری دنیا حل کی متلاشی ہے، جو ہمارے پاس ہے ۔ ہمارے ساتھی کالج اور ہاسٹل میں مختلف بہانوں سے، چائے خانے اور کھانے کی میز پر، اور دوسرے فنکشن وغیرہ کے موقعہ سے کچھ مسائل پر ڈسکشن کریں، ساتھیوں کے بھی خیالات دل کھول کر سنیں، کوشش رہے کہ خود انہی کی زبانی مسائل کے حل تک پہنچا سکے، البتہ گفتگو کو کیا رخ دیا جائے، اور کس طرح آگے بڑھایا جائے، یہ کام ہمارے کرنے کا ہے۔ رشوت ستانی، عصمت دری، والدین بیزاری، خودکشی، دختر کشی جیسے مسائل پر گفتگو کریں، اور ان مسائل میں سے اگر کسی مسئلے کے سلسلہ میں ان کی رائے میں کمزوری ہے، تو اس کمزوری کو مناسب انداز سے پیش کریں، خاص رمضان میں ضبط نفس، ضبط شہوت، ضبط زبان، اور پھر روزے کے سماجی وروحانی اثرات پر گفتگو کی جاسکتی ہے، لیکن اس بات کا خیال رہے کہ ساتھیوں کو ایسا نہ محسوس ہوکہ آپ کچھ ان کے سر تھوپنا چاہ رہے ہیں۔
رمضان ہیلپ لائن
ہاسٹلس میں رہنے والے مسلم ساتھیوں کے لیے سحری و افطار کا انتظام مشکل ہوتا ہے۔ اس کے لیے تنظیم کی مقامی یونٹ یا سرکل کی طرف سے رمضان ہیلپ لائن کا اعلان کیا جائے، اور ساتھیوں کو اس بات کا موقعہ فراہم کیا جاسکے کہ وہ رمضان سے متعلق کسی بھی مسئلے پر، یا کسی بھی دشواری کے موقعہ پر مناسب رہنمائی اور تعاون حاصل کرسکتے ہیں۔ ممکن ہو تو ہاسٹلس میں اجتماعی سحری وافطار کا انتظام کیا جائے اور ممکن نہ ہو تو سحری کا انتظام کرنے والے افراد کی طرف طلبہ کو گائیڈ کیا جائے۔
غریب طلبہ کی مالی تعلیمی امداد
روزہ ہر فرد کو اپنے دوسرے غریب وامیربھائیوں کی کیفیت سے روشناس کراتا ہے۔ چند گھنٹوں کے لیے امیر و غریب دونوں کو ایک سطح پر لے آتا ہے اور امیر پر وہی کیفیت طاری کردیتا ہے جو اس کے غریب بھائی پر ہوتی ہے۔ جس کی وجہ سے امیروں میں اپنے غریب بھائی کی مدد کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ خیر خواہی اور امداد باہمی کے اس جذبے کا استعمال ہم کالج میں کرسکتے ہیں۔ غریب طالب علم ساتھی کی مالی تعلیمی امداد کرکے، روزے اور افطار میں ان کا کچھ تعاون کرکے، عیدالفطر کے لیے ان کی کچھ مدد کرکے اس جذبے کا موثر استعمال ہوسکتا ہے۔ یہ رمضان المبارک میں ہمارے لیے ڈھیر ساری نیکیاں کمانے کا سبب بنے گا۔
میڈیا کا استعمال
رمضان المبارک سے متعلق ہوڈنگس، اور اپنے ہاتھ سے بنائے ہوئے پوسٹرس کو کیمپس میں مختلف جگہوں پر چسپاں کریں، علاوہ ازیں طاق راتوں میں رائج اجتماعی مطالعہ قرآن اور دوسری سرگرمیوں کا شیڈول ہاسٹل اور کیمپس میں چسپاں کریں تاکہ طلبہ بڑی تعداد میں ان سرگرمیوں کا حصہ بن سکیں۔ رمضان سے متعلق فولڈر کی تقسیم بھی مفید ہوسکتی ہے۔ اسی طرح مقامی نیوز چینلس پر روزہ سے متعلق مختلف عنوانات پر پروگرام نشر کرانے کا اہتمام کیا جاسکتا ہے، چونکہ مقامی چینلس کے سامعین بڑی تعداد میں مسلمان ہوتے ہیں، اس لیے انھیں اپنے سامعین کے لیے پروگرام نشر کرانے پر آمادہ کیا جاسکتا ہے، یہی پروگرام ریڈیو پر بھی نشر ہوسکتا ہے۔
مہاراشٹر میں ایک اور طریقہ رائج ہے کہ رمضان شروع ہوتے ہی مراٹھی وہندی اخبارات میں رمضان کے نام سے کالم شروع کیے جاتے ہیں۔ ہر روز ایک عنوان پر مضمون ہمارے مختلف تحریکی ساتھی شائع کراتے ہیں، جس کی وجہ سے بڑی تعداد میں لوگوں تک بات پہنچ جاتی ہے۔
’’یوم فرقان‘‘ پروگرام
رمضان میں (یوم الفرقان) کے موقعہ پر کیمپس میں جہاد کے متعلق غلط فہمیوں کو دور کیا جاسکتا ہے۔ اسلام مخالف پروپیگنڈہ جو کہ ’’وار آن ٹیریزم‘‘ کے نام سے مشہور ہے، اس نے مسلمانوں کو دہشت گرد اور بنیاد پرست ثابت کیا ہے، اور اس پروپیگنڈہ کا اثر طلبہ نے بھی قبول کیا۔ اس قسم کے منفی اثرات کو ختم کرنے کے لیے کیمپس میں سیمینار،سمپوزیم، لیکچرس اوردوسرے پروگرام رکھے جائیں، اس کے ذریعہ جہاد کا حقیقی تعارف اور اس کا حقیقی مقصد ان کے سامنے لایاجائے۔
عید ملن پروگرام
عید کے موقعہ پر تمام اساتذہ، پرنسپل، ذمہ داران کالج، اور طلبہ کو مبارکباد پیش کریں۔ کیمپس کے احاطے میں عید ملن کا پروگرام منعقد کرانے کی کوشش ہو، جس میں کچھ میٹھے کا انتظام بھی ہو۔ اس عید ملن پروگرام کو دعوتی مقاصد کے لیے بانداز بہتر استعمال کیا جاسکتا ہے، البتہ کوشش ہو کہ اس موقعہ پر کالج اور کیمپس کے بدلتے ماحول اور اسلام کے تصور اخلاق وغیرہ جیسے موضوعات پر گفتگو ہو، تاکہ لوگوں کی اسلام اور اسلامی تعلیمات کی جانب توجہ میں اضافہ ہو، اور پھر اس کو استعمال میں لاتے ہوئے ہم سال بھر دین کی دعوت کا کام جاری رکھیں۔
رمضان المبارک میں بالخصوص اور پورے سال بالعموم مسلم طلبہ و طالبات کودعوت دین کا فریضہ انجام دیتے رہنا چاہیے۔ نیک اعمال اور برائیوں کے اجتناب سے غیر مسلم طلبہ بہت متأثر ہوتے ہیں، اور سب سے اہم بات یہ کہ کوئی بھی کام خدا تعالیٰ کی مدد و نصرت کے بغیر انجام نہیں پاسکتا اس لیے خاص طور پر اپنے مدعوئین کے لیے ہدایت کی دعا کرنی چاہیے۔ دعا مومن کا ہتھیار ہے۔ رمضان اس کا بہترین موقعہ ہے۔ اللہ سے لو لگاےئے اور اس سے استعانت طلب کیجئے۔
حالات و ضروریات کے تحت دیگر ذرائع بھی رمضان میں کیمپس ورک کے لیے استعمال کیے جاسکتے ہیں، بہرحال شہادت حق کا فریضہ انجام دینے والوں کے لیے یہ ایک سنہری موقع ہے۔ دعوت کے ضمن میں ایک سوال یہ اٹھتا ہے کہ ہم دعوت کس طرح شروع کریں؟ اس ماہ میں اس کا جواب مل جاتاہے، کہ آپ کو بات کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی، آپ کے دوست خود آپ سے سوالات کرتے ہیں۔ جس کے ذریعہ سے بات رمضان سے روزہ، روزہ سے تقویٰ، تقویٰ سے توحید اور پھر آخرت تک چلی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ میں نے اسے سنہری موقع کہا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اٹھیں اور خلوص و للہیت کے ساتھ رضائے الٰہی کے جذبہ سے سرشار ہوکر اپنے وقت، مال، اور صلاحیت کو اس جدو جہد میں لگادیں۔
موسم اچھا پانی وافر مٹی بھی زرخیز
جس نے اپنا کھیت نہ سینچا وہ کیسا دہقان
اللہ تعالیٰ ہمیں رمضان مبارک کے مہینہ کی خیر وبرکت سے مستفید ہونے اور دوسرے طلبہ کو اس خیر سے متعارف کرانے کی توفیق عطا فرمائے (آمین) 2
ڈاکٹر عدنان الحق، مہاراشٹر
[email protected]

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Verified by MonsterInsights