اعتکاف: تحریکی کارکن کی لازمی ضرورت

0

اعتکاف مصر وفیات کی بھیڑ سے نکل کر اللہ تعالیٰ کے دربار سے وابستہ ہو جانے کا نام ہے۔ یہ اس بات کا اعلان ہے کہ سال بھر کا رو بار زندگی میں گھرے رہے تو یہ محض اللہ کی اجازت کی وجہ سے تھا۔
اعتکاف اس بات کا اظہار ہے کہ دنیا کی تمام ترکشش، رونق اور ہجومِ کار کے باوجود بندہ سب سے کٹ کر اپنے رب کریم سے جڑ جانا چاہتا ہے۔ وقتی طور پر کچھ دنوں کے لیے دنیا والوں کے بیچ اعتکاف کا پردہ حائل کر لینا اس کا عملی ثبوت ہے کہ عام دنوں میں کار و بارِ حیات میں مصروف رہنے کے باوجود حقیقی تعلق اسی رحمان و رحیم سے ہے۔ رمضان المبارک کے آخری عشرے میں معتکف ہو جانا گویا اس شوق کا شباب کو پہنچ جانا ہے جو رمضان کے آغازسے بڑھنا شروع ہو جاتا ہے۔
اعتکاف کی مثال دیتے ہوئے ایک شخص نے کہا : جس طرح ایک ضرورت مند کسی صاحب خیر کے دروازے پر جاکر بیٹھ رہے اور کہے کہ جب تک میری ضرورت پوری نہیں ہو جاتی میں اس چو کھٹ سے ٹل نہیں سکتا۔ اسی طرح بندہ معتکف مسجد میں بیٹھ رہتا ہے اور زبان حال سے کہتا ہے کہ اے رب رحیم وکریم تو جب تک میری مغفرت نہیں فر ما دے گا میں تیری چوکھٹ پر پڑا رہوں گا۔
عام طور سے زندگی کی گونا گوں مصروفیات اعتکاف نہ کرنے کی راہ میں حائل ہو جاتی ہیں لیکن سچی بات تو یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر جتنی ذمہ داریاں تھیں اور جس قدر اہم ذمہ داریاں تھیں ان کا تصور نہ کوئی تاجر یا کاری گر کرسکتا ہے نہ کوئی تحریکی کار کن یا تنظیمی سر براہ کر سکتا ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر منصبی فرائض کے علاوہ خانگی ذمہ داریاں بھی دوسروں سے زیادہ ہی تھیں۔ اس سب کے باو جود آپؐ ہر سال اعتکاف کیا کرتے تھے۔ ایک مرتبہ آپ سفرمیں تھے اعتکاف نہیں کر سکے تو اگلے سال بیس دن کا اعتکاف کیا۔ کیا ہم اور آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ مصروف ہیں؟
اعتکاف ثواب و برکت کا موسم بہار ہے۔ رمضان المبارک کی بر کتیں اعتکاف کی حالت میں عروج پر پہنچ جاتیں۔ اس مقام پر آکر دنیا داری کی وہ بہت سی رعا یتیں ختم ہو جاتی ہیں جو عام روزے دار کو حاصل ہوتی ہیں۔ اس مقام پر بندہ صرف اپنے رب کا ہوتا ہے۔ اس کی ہر ادانیکی اور ہر عمل کارِ ثواب ہوتا ہے۔ عظیم مقامِ عبودیت ہے جس سے ہم دوسروں کے حق میں دست بر دار ہوجاتے ہیں۔ اعتکاف کا ثواب بھی بالکل انوکھے انداز کا ہے حدیث پاک کے مطابق اعتکاف کرنے کا ثواب تو اسے ملتا ہی ہے اس پر مزید یہ کہ اعتکاف سے باہر رہنے والوں کو جو نیکی کے مواقع ملتے ہیں ان سب کا ثواب اس کے اعمال نامے میں لکھ دیا جاتا ہے۔
اعتکاف شخصی تربیت کا بھی شاندار موقع ہے۔ ایسی یکسوئی، سنجیدگی اور آمادگی کہ جسم کا رُواں رُواں حق کے لیے آمادہ ہی نہیں پرُ شوق و بیتاب ہو، تمام ماہر ین تر بیت مل کر بھی فراہم نہیں کر سکتے۔
اسکولوں اور کالجوں کے عام طلبہ کے لیے جن کی تعلیمی مصروفیات انہیں دینی معلومات جمع کرنے اور ضروری چیزیں یاد کرنے کا موقع نہیں دیتی ہیں۔ اعتکاف ایک بہترین ذریعۂ تربیت ہے۔ دس دن کی ریاضت کے اثرات سال بھر محسوس ہوں گے۔ شرط یہ ہے کہ اخلاص، یکسوئی اور منصوبہ بندی کے ساتھ اعتکاف کیا جائے۔
اعتکاف سے کیا کیا حاصل کرنا ہے۔
lہمیں کتنی دعائیں یاد کرنا ہیں، ان پر مشتمل ایک کتاب ساتھ میں رہے۔
l قرآن مجید مع ترجمہ اور ایک حدیث کی کتاب مع ترجمہ ساتھ رہے۔
lسنن و نوافل کا مکمل نصاب پہلے سے معلوم کر لیا جائے۔
lچونکہ اعتکاف کا مقصد عبادت و تربیت ہے اس لیے ہر اس کام سے بچنا چاہیے جو اس سے غافل کرے۔
lعلماء نے اعتکاف میں خاموش رہنے سے منع کیا ہے اور دوستوں کے ساتھ یا دوسرے معتکف حضرات کے ساتھ گپ بازی تو اور بھی معیوب ہے۔
lمسجد کا انتخاب بھی دیکھ بھال کر ہو۔ شور شرابہ اور بھیڑ بھاڑ سے دور رہنا زیادہ مناسب ہوتا ہے۔
lنیند کی مقدار بھی حتی الامکان گھٹا دینا چاہیے ۔
lتمام تر وقت تلاوت و تدبر اور ذکر و دعا اور خالص ذہنی مطالعہ میں گزرنا چاہیے۔
نفل نمازوں کا بھی خوب خوب اہتمام ہو۔
ڈاکٹر محی الدین غازی

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Verified by MonsterInsights