طلبائی یونین: تحفظ جمہوریت یا دین کی دعوت؟؟

0

اکثر لوگوں کو اس سوال پر تعجب ہوگا۔ یہ تعجب اصل میں ان دو کاموں میں سے کسی ایک کو چننے کا مطالبہ کرنے کی وجہ سے ہوگا۔ یہ دو کام بالعموم ایک دوسرے کے معاون اور کئی جگہ ایک دوسرے کے متبادل کی حیثیت سے بھی تسلیم کئے جاتے ہیں۔ لیکن اس سوال کی روٗ سے اسے باہم متضاد کاموں کی حیثیت دی گئی ہے۔ اس بات کو سمجھنے کے لئے درج ذیل نکات پر توجہ درکار ہے۔

اسٹوڈنٹس یونین کے لئے مسلم طلباء کو حرکت میں لانے کی تیاری بہت پہلے سے جاری ہے۔ لیکن اس تیاری سے پہلے کوئی ایسا نقشہ تیار نہیں کیا گیا جس سے اس بہت اہم سوال کے منطقی اور ٹھوس جوابات سامنے آسکیں۔جس سے اس بات کا اندازہ ہو سکے کہ یہ جدوجہد اسلام اور مسلم طلباء کے لئے فائدہ مند ثابت ہوگی یانقصاندہ۔ اس شمارے میں ہم نے کئی اداروں کی طلباء یونین کی صورتحال کا ایک تجزیہ پیش کیا ہے۔یہ صورتحال کس قسم کی پیش رفت کا تقاضاء کرتی ہے اس پر غور و فکر کرنا بے حد ضروری ہے۔ اور جب ہم طلباء یونین کی بحالی اور مؤثر کارگذاری کی بات کہتے ہیں تو ہمارے پیش نظر کیا معیارات ہونے چاہئیں اس بات پر بھی غور کرنا چاہئے۔اسی کے ساتھ سب سے اہم سوال یہ ہے کہ کیا اس جدوجہد کے ذریعے اسلام کی سربلندی کی راہیں ہموار ہو سکتی ہیں؟ یا نقار خانے کی طوطی کے مترادف چیخ پکار میں ہماری توانائی صرف ہو جائے، اس بات کے امکانات کس درجہ موجود ہیں؟

باطل کی کامیابی یہ ہے کہ اس نے بڑی آسانی سے مسلمانوں کے منہ میں ایک ایسی زبان اور طرزِ زبان ڈال دی ہے جس سے اسلام کی بات بھی اسلام کی نہ رہے۔ مثلاًکسی بھی مذہب کو اختیار کرنے کی شخصی آزادی، جس کا علم بردار اسلام ہے، اسے سیکولرزم کا نام دے دیا گیا ہے۔ حالانکہ اسلام کا مؤقف اور سیکولرزم ایک دوسرے سے بالکل مختلف تصورات ہیں۔ لیکن کتنی عیاری سے باطل نے مسلمانوں کو سیکولرزم کا علم بردار بنا دیا ۔اور مسلمانوں نے ’غیر باغٌ ولا عادٍ کے فلسفہ کے تحت اسے چپ چاپ قبول کرلیا۔ اب جب بھی مسلمان سیکولرزم کی بات کرتے ہیں تو اسلام کے فراخ دلانہ اور منطقی مؤقف کی جگہ ختم ہو کر رہ جاتی ہے۔ اسی طرح جمہوریت کی بھی مثال ہے۔ اس لئے یہ اصولی طور پر بہتر ہے کہ سیکولرزم کو رد کرکے ہم صاف ستھرے اور مہذب طریقے سے براہ راست اسلام کے مؤقف کی ترجمانی کریں۔ اور باطل کے ان کمزور تصورات کی بیخ کنی کرتے چلے جائیں۔ غیر باغٌ ولا عادٍکا فلسفہ اجتماعی زندگی میں چسپاں کرنامناسب نہیں ہے۔

اسی طرح دعوت ِدین ایک پر وقار کام ہے۔ کسی نبی نے، کسی صحابی نے، دعوت دین کا فریضہ حکومت یا اقتدار کے حصول کے لئے نہیں اداکیا۔ قرآن یہ کہتا ہے کہ یہ دعوت اپنے مفاد کے لئے نہیں بلکہ دوسروں کے مفادات کا حقیقی تحفظ (بمعنی دیگر آخرت کی کامیابی) کے لئے دی جاتی ہے۔ اس بناء پر یہ دعوتی اصول ہم ترتیب دے سکتے ہیں کہ وہ عمل کوئی درست عمل نہیں ہے، جس سے داعی کے وقار کو ٹھیس پہنچے اور مدعو کے لئے مشکل ہوجائے کہ وہ اسلام کی دعوت میں اور اقتدار کی جدوجہد میںفرق نہ کر پائے۔

طلبائی یونین عصر حاضر کے ان ذرائع کا نام ہے جس کے ذریعے طلباء کو علمی بہتری، فکری پختگی، کردار کی مضبوطی، شجاعت ، قیادت ، آزادیٔ اظہار رائے، جرح و تنقید وغیرہ کی تربیت ملنے کا امکان ہے۔ اور اسی مقصد کے تحت اسے تشکیل دیا جانا چاہئے۔ لیکن اپنے آس پاس نظر دوڑانے سے یہ بات بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ اوپر درج الفاظ کا عملی رویہ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہ کام بالعموم کمتر معیار کے طلباء کے ذریعے سے انجام پاتا ہے۔ یہ لوگ نہ صرف فکری بلکہ اخلاقی بے راہ روی کے شکار ہوتے ہیں۔ اس پورے نظام میں ہر سطح کے لوگ سیاسی قیادت کے خواہش مند ہوتے ہیں۔ یہ اپنے تصورات، آزادی کے بجائے تعصب کی بناء پر ترتیب دیتے ہیں۔

ہر جگہ بڑی سیاسی جماعتیں اپنے طلبائی شاخوں کے ذریعے اقتدار کے حصول کے راستے تلاش کرتی ہیں۔ کچھ طلباء ایسے بھی ہیں جو اپنی تمام صلاحیتوں کا استعمال صرف اور صرف تنقید اور تنقیص میں گذار دیتے ہیں۔ اور کوئی بھی تعمیری نقشہ سماج اور دیگر طلباء کے سامنے پیش کرنے سے معذور ہوتے ہیں۔ اسی طرح کسی بھی طلباء یونین کو آپ تعلیمی معیار کی بلندی کے لئے، اخلاقی ارتقاء کے لئے، سماج کی خدمت کے لئے، نظم و ضبط کی تربیت کے لئے، شخصیت کے مجموعی ارتقاء کے لئے کوئی جدوجہد کرتے ہوئے نہیں دیکھیں گے۔ خاص بات یہ ہے کہ ان تمام کاموں کے علاوہ سارے کام وہ انتخابات کے بعد بھی اور انتخابات سے پہلے بھی بدستور انجام دیتے رہتے ہیں۔ اس طرح انتخاب ان کے نزدیک صرف ایک ثقافتی پروگرام کی حیثیت رکھتا ہے۔ جس میں وہ خود کی بڑائی اور دوسروں کی کمتری کا ہر ممکن طریقے سے پرچار کرتے ہیں۔

اس صورتحال میں طلبائی یونین کی بحالی کے سلسلے میں اور پھر بالخصوص مسلم طلباء کا سیاسی جدوجہد میں حصہ دار بننے میں کئی خرابیوں کو تحریک ملنے کے امکانات ہیں۔ اوّل، اس جدوجہد کے نتیجہ میں نفرت اور منفی مسابقت کو جِلا ملتی ہے۔ قوم پرستانہ جذبات بیدار ہوتے ہیں۔ اور تعصب کی چتا، غور و فکر کے ماحول کو خاک میں ملا دیتی ہے۔ دوّم، اس پوری جدوجہد کے آدابِ بزم متعین ہیں۔ الفاظ اور نعرے متعین ہیں۔ اس جدوجہد میں اسی قسم کی باتیں کرنا اسلام کی امتیازی دعوت کو لوگوں کے سامنے آنے سے روک دیتا ہے۔ سوّم، اس جدوجہد میں داعی کا وقار مجروح ہوتا ہے۔ سیاسی داؤ پیچ کے درمیان داعی خود کو سارے سماج، دلت و برہمن، کانگریس اور بی جے پی دونوں کو بیک وقت مخاطب کرنے اور اسلام کی جانب بے لاگ دعوت دینے سے معذور پاتا ہے۔ نتیجتاً اسے عام لوگوں کی طرح ایک طبقہ کو ذلیل کرنا پڑتا ہے اور دوسرے کی دوستی کی خاطر دین کی تعلیمات سے مداہنت کرنی پڑتی ہے۔چہارم، طلباء و طالبات کو دین کی سربلندی کی خاطر نظام ہائے وقت سے اِبا کرنے کی تربیت دینے کے بجائے اس کے ساتھ موافقت کرنے کی تربیت ملتی ہے۔ ایک معذور ذہنیت کی ساتھ، بکھری ہوئی ، منتشر شخصیت لئے ایک مسلم طالب علم ظاہر ہے اسلام کے کسی کام کا نہیں ہے۔

خاص بات یہ ہے کہ طلباء یونین سے جتنے کام کرنے مقصود ہیں وہ تمام کام اس کے بغیر بھی کئے جا سکتے ہیں۔بلکہ سیاست سے دور ذہین طلباء کے اجتماعی کاموں میں تعلیمی برکت اور سماج کا تعاون ملنے کے زیادہ امکانات ہیں۔ اس سلسلے میں درست اسلوب کو اختیار کرنے سے نہ صرف اسلام کی دعوت کو وسیع پیمانے پراور تعصبات کے زہر سے پاک کرکے لوگوں کے سامنے پیش کیا جا سکتا ہے۔ہمیں مسلمانوں کے درمیان جھنڈے لہرانے والوں کی اب ضرورت نہیں ہے۔ ایسے طلباء کی ضرورت ہے جو کہ پورے اطمینان سے لوگوں کی سمجھ میں آنے والی ’اسلام کی زبان‘ میں بات کرنے کی صلاحیت اور تربیت رکھتے ہوں۔ یہی وہ محاذ ہے جہاں ایس آئی او کی ضرورت پیش آتی ہے۔۔۔

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Verified by MonsterInsights