نوجوان اور سوشل میڈیا – ممکنہ نقصانات کا ادراک

0

مومن فہیم احمد

 

کالج بریک میں کلاس روم سے نکلتے ہوئے طلبا، ہنسی مذاق کرتے، بات چیت کرتے، گروپس میں گپ شپ، یا سنجیدہ بحث کرتے جیسے مناظر اب تقریباََ دور ماضی کی باتیں ہو چکی ہیں۔ اب عموماََ یہ نوجوان اپنی جیب سے الیکٹرانک ڈبے نکال کر گردن جھکائے مگن ہو جاتے ہیں۔ Pew کی ایک ریسرچ کے مطابق تین چوتھائی امریکی طلبا کے پاس اسمارٹ فون ہیں، جس کی بنیاد پر بیشتر اداروں میں یہی رویہ دیکھنے میں آتا ہے۔ سینٹ ڈیاگو اسٹیٹ یونیورسٹی کے نفسیات کے ایک پروفیسر کے مطابق سوشل میڈیا سے جڑے یہ بچے حد سے زیادہ روادار، جامد اور کم خوش نظر آتے ہیں۔ امریکی طلبا پر کئے گئے ان کے ایک مشاہدے کے مطابق، سوشل میڈیا کے بجائے زیادہ وقت کھیل کود، ملنے جلنے میں لگانے والے طلبا، ذہنی پریشانیوں میں کم ملوث رہتے ہیں۔ (بحوالہ ’دی اکنامسٹ‘)

موجودہ دور میں سوشل میڈیا کی اہمیت سے انکار ناممکن ہے۔ بلکہ اس کی اہمیت کو اس بات سے سمجھا جاسکتا ہے کہ یہ حکومتوں کو بنانے اور بچانے کے علاوہ کسی عام واقعہ کو خاص کردینے کی اہلیت رکھتا ہے۔ لیکن جہاں اس کے کئی فوائد ہیں وہیں یہ نقصان کا باعث بھی ہے۔ سوشل نیٹ ورکنگ ویب سائٹس نے جہاں ایک جانب ہماری زندگیوں میں کئی آسانیاں پیدا کی ہیں اور ایک دوسرے سے رابطوں کو سہولت کے ساتھ ممکن بنایا ہے وہیں دوسری طرف دیکھا جائے تو اس کی وجہ سے ہمارے نوجوانوں کو ذہنی صحت کے بحران کا بھی سامنا کرنا پڑ رہا ہے- بین الاقوامی جریدے انڈیپینڈینٹ کے مطابق گزشتہ ۲۵ برسوں کے دوران نوجوانوں میں پائے جانے والے دباؤ اور پریشانیوں میں ۷۰ فیصد اضافہ ہوا ہے۔ اور اس دباؤ میں اضافے کی بنیادی وجہ سوشل میڈیا کو قرار دیا جارہا ہے- پندرہ سو نوجوانوں پر کیے جانے والے ایک سروے کے مطابق ۱۴ سے ۲۴ سال کی عمر کے نوجوان اس سوشل میڈیا کی وجہ سے دباؤ اور پریشانی کا شکار ہیں-

سوشل میڈیا نوجوانوں کو کیسے دباؤ کا شکار بنا رہا ہے۔ اس کے چند اسباب درج ذیل ہیں۔

ذہنی پریشانی کا سبب :

آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ ایک سائبر سیکورٹی کمپنی ’’میک کافے ‘‘کے مطابق سوشل نیٹ ورکنگ کی ویب سائٹس پر ۸۷ فیصد نوجوانوں کو ہراساں یا پریشان کیے جانے کے واقعات کا سامنا کرنا پڑتا ہے- انہیں قابلِ اعتراض پیغامات یا ای میل پر افواہیں اور نامناسب مواد ارسال کیا جاتا ہے- یہ انتہائی نقصان دہ طریقہ کار ہوتا ہے اور اسے کبھی بھی استعمال کیا جاسکتا ہے- کسی بھی نامعلوم شخص کی جانب سے تصاویر یا پیغامات ارسال کر کے تنگ کیا جاتا ہے جبکہ یہ پیغامات ارسال کرنے والے شخص کے بارے میں پتہ لگانا انتہائی مشکل کام ہوتا ہے اور آپ بعض اوقات ان پیغامات یا تصاویر کو حذف بھی نہیں کرپاتے اور یوں آپ دباؤ کا شکار بن جاتے ہیں-

ناامیدی اور دکھ میں مبتلا کردینا :

سماجی روابط کی ویب سائٹس پر پوسٹ کی جانے والی تصاویر دیگر صارفین کی زندگیوں پر گہرے اثرات مرتب کرتی ہیں- اکثر صارفین ایسی تصاویر یا پوسٹ شئیر کرتے ہیں جن سے ایسا لگتا ہے کہ وہ ایک انتہائی حیرت انگیز اور بھرپور زندگی گزار رہے ہیں- دیگر صارفین ان تصاویر کو دیکھ یہ سوچنے پر مجبور ہوجاتے ہیں جیسے ان کی زندگی میں کوئی خوشی نہیں ہے اور وہ ایک عام سی زندگی جی رہے ہیں- اور یوں وہ خود کو دوسروں سے بہت پیچھے تصور کرتے ہیں اور احساس کمتری کا شکار ہوجاتے ہیں-

سوشل میڈیا پوسٹ پر ہونے والے رد عمل کے نتائج :

عام طور پر مذہبی یا سیاسی پوسٹ پر لوگوں کاجذباتی رد عمل سامنے آتا ہے اگر رد عمل مثبت ہوتو لوگ خوش ہوتے ہیں لیکن ایسا عموماً نہیں ہوتا اور بعض اوقات کسی پوسٹ پر کیے گئے کمینٹ کو پڑھ کر ایک سنجیدہ شخص انجانے خوف اور نا امیدی کی کیفیت میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ انسان بنیادی طور پر اپنے مذہبی عقائد کے تئیں انتہائی حساس ہوتا ہے اور مذہبی پوسٹ پر کیے گئے نازیبا کمینٹ اس میں دوسروں کے تئیں نفرت کا جذبہ ابھارتے ہیں اور وہ غیرشعوری طور پر ایک پورے سماج اور کمیونٹی کے خلاف نفرت کا اظہار کرتا ہے جو سماج میں منافرت پھیلانے کا ذریعہ بنتا ہے۔

تنہائی کا شکار ہوجانا :

یقیناً سوشل میڈیا نے روابط کا ایک جدید ترین ذریعہ تخلیق کیا ہے لیکن حقیقت میں ہم خود کو دوسروں سے بہت زیادہ منقطع محسوس کرنے لگے ہیں- یونیورسٹی آف پیٹرز برگ کی ایک تحقیق کے مطابق اگر کوئی صارف روزانہ صرف 2 گھنٹے سوشل نیٹ ورکنگ کی ویب سائٹس پر گزارتا ہے تو وہ اس سے دو گنا زائد خود کو سماجی طور پر تنہا محسوس کرتا ہے- سوشل میڈیا پر تو نوجوان مسلسل ہر سماجی سرگرمی پر نظر رکھتے ہیں لیکن حقیقت میں وہ کسی سے زیادہ ملتے نہیں ہیں اور نہ ہی آمنے سامنے بیٹھ کر بات چیت کرتے ہیں-

بے حسی کا رویہ:

حالیہ بے شمار واقعات میں کسی حادثہ کے وقت دیکھنے میں آیا ہے کہ لوگ مدد کرنے کے بجائے اسمارٹ فون پر ویڈیو بنا کر اسے سوشل میڈیاپر اپلوڈ کرنے کی دوڑ میں لگ جاتے ہیں۔بے حسی کایہ رویہ بھی بڑی حد تک سوشل میڈیا اور تکنالوجی کی مرہون منت ہے۔

سوشل میڈیا ایک نشہ :

سوشل نیٹ ورکنگ کی ویب سائٹس آج اس حد تک ہماری زندگی میں رائج ہوچکی ہیں کہ ہم صبح اٹھ کر سب سے پہلے انہیں ہی چیک کرتے ہیں اور رات کو سوتے سے قبل بھی آخری بار اسی پر پائے جاتے ہیں- برطانیہ میں کی جانے والی ایک تحقیق کے مطابق دو تہائی نوجوان اس وقت تک خود کو پرسکون محسوس نہیں کرتے جب تک کہ ان کی رسائی ان ویب سائٹس تک نہ ہوجائے- سوشل میڈیا کی یہ بری عادت ہمارے دماغ کے ان خطرناک حصوں کو بھی فعال کردیتی ہے جو کہ صرف منشیات یا کوکین جیسے نشے کرنے کی صورت میں ہی فعال ہوتے ہیں- سوشل میڈیا اب صرف وقت گزاری کی چیز نہیں رہی بلکہ ضروری حصہ بن چکی ہے-

غیر اخلاقی اور نا مناسب مواد تک رسائی :

سوشل نیٹ ورکنگ کی ویب سائٹس پر ہر قسم کے موضوع سے متعلق وسیع پیمانے پر معلومات حاصل کی جاسکتی ہیں اور وہ بھی باآسانی- لیکن اسی خاصیت کی بدولت نوجوانوں کی نامناسب یا قابلِ اعتراض مواد تک رسائی بھی ممکن ہوجاتی ہے جو ان کے ذہنوں پر منفی اثرات مرتب کرتی ہے- دنیا میں نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد صرف انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کی بناء پر با آسانی غیر اخلاقی مواد تک رسائی حاصل کرلیتی ہے جو ان کی ذہنی نشو ونمامیں رکاوٹ اور غیر اخلاقی حرکات کا مرتکب بناتی ہے۔ امریکہ اور دیگر یوروپین ملکوں میں کم سنی میں جنسی تعلقات ، کم عمر مائیں وغیرہ کوئی نئی بات نہیں ہے لیکن اب ایشیائی ممالک جنھیں اپنی تہذیب و ثقافت پر بڑا فخر رہا ہے وہ بھی اس لعنت میں مبتلا ہوتے جارہے ہیں اور یہ اسی ٹیکنالوجی کی مرہون منت ہے۔

افواہیں پھیلانے کا آسان ذریعہ :

موجودہ دور میں اگر یہ کہا جائے کہ کسی بات کو پھیلانے ، کسی کی شخصیت کو داغدار کرنے کا آسان ذریعہ سوشل میڈیا ہے تو یہ کچھ غلط بھی نہیں ہوگا۔ حالانکہ معلومات کی ترسیل ، باہمی ربط اور تعلیم و تعلّم کا بھی یہ ایک اہم ذریعہ ہے لیکن نوجوان اسے کن چیزوں کے لیے استعمال کرتے ہیں یہ کسی سے بھی مخفی نہیں ۔ اس کے علاوہ سماج دشمن عناصر کے لیے یہ ایک آسان ذریعہ ہے سماج میں باہمی نفرت پھیلانے کا۔ باتوں کو غلط لوگوں سے منسوب کرنا، کسی کی نجی محفلوں کی باتوں کو پوشیدہ طریقے سے ریکارڈ کرکے انھیں طشت از بام کرنا اس کے ذریعے آسان ہوگیا ہے۔

غلط معلومات کی ترسیل کا ذریعہ :

سوشل میڈیا بالخصوص فیس بک اور واٹس اپ نے علم کو جتنا نقصان پہنچایا ہے وہ ان کے فائدے سے کہیں بڑا ہے۔ کسی حدیث یا قول کو کسی سے منسوب کرنا، بغیر تحقیق کے معلومات کو کسی اور کو فارورڈ کرنا، ایک واقعے کے ویڈیو کی ایڈیٹنگ کرکے دوسرے واقعے سے منسوب کرنا ، کسی کی ادبی تخلیقات کو کسی اور سے منسوب کرنا وغیرہ ایسے عوامل ہیں جو سماج میں غلط معلومات فراہم کرنے کا سبب بن رہے ہیں۔

بچوں کی نگرانی کے مسائل :

موجودہ دور میں سوشل میڈیا بالخصوص یو ٹیوب وغیرہ ایسے ذرائع ہیں جن سے بچوں کی نگرانی ایک بڑا مسئلہ ہوگیا ہے ۔ گھر میں کمپیوٹر یا موبائیل پر گیم کھیلنے کے لیے ضد کرنے والے بچوں کو ان سے بچانا انتہائی مشکل ہوگیا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ بچے دانستہ ایسا نہ کرنا چاہتے ہوں لیکن پھر بھی یہ ویب سائٹ خود کار طریقے سے ایسے مواد سامنے پیش کرتی ہیں جو کم عمر بچوں کے ذہنوں کو خراب کرنے کے لیے کافی ہیں۔ کسی فلم یا ویب سیریز کا پروموشنل ویڈیو یا اس سے متعلق کوئی اور مواد خود بہ خود موبائیل یا کمپیوٹر اسکرین پر ظاہر ہوجانا ایسے مسائل ہیں جن سے والدین خود بھی شرمندہ ہوتے ہیں اور اس سے بچنے کا کوئی ذریعہ بھی ان کے پاس نہیں ہوتا۔

آن لائن فراڈ :

جہاں ایک طرف ٹیکنالوجی نے کاروباری معاملات کو آسان کردیا ہے وہیں دوسری طرف دھوکہ دھڑی اور فراڈ کے نئے نئے طریقے بھی سامنے آتے جارہے ہیں۔ اے ٹی ایم کارڈ کی نقل کے ذریعے چوری ، آن لائن بینکنگ کے ذریعے رقم اینٹھنا ، یہ خبریں بھی اب روزانہ کی زندگی کا حصہ بنتی جا رہی ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ہمارے ملک کی اکثریت اب بھی ٹیکنالوجی کے استعمال سے نا بلد ہے بالخصوص معمر افراد اور کم پڑھے لکھے لوگوں کے ساتھ اس طرح کے واقعات روزانہ کا معمول بنتے جارہے ہیں۔

آنے والا وقت ٹیکنالوجی کی کیا نئی نئی اور حیرت انگیز ایجادات پیش کرے گا ہم شاید اس کا تصور بھی نہ کرسکیں لیکن ایک بات یقینی ہے کہ اگر بر وقت اقدامات نہیں کیے گئے تو ٹیکنالوجی سے ہونے والے نقصانات دن بہ دن بڑھتے ہی جائیں گے۔ہمارے لیے ضروری ہے کہ ہم ٹیکنالوجی کا استعمال کریں لیکن ساتھ ہی ساتھ اس کے نقصانات کو بھی نئی نسل کے سامنے پیش کریں اور انھیں احتیاطی تدابیر اختیار کرنے پر آمادہ کریں۔

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Verified by MonsterInsights