اکھیلا سے ہادیہ۔ اور عدلیہ کی جانبداری

0

سید شہاب الدین ، ایوت محل

کیر لا کے علاقے کو ٹایم کے ایک گھر سے آنے والی آواز،ــــــــمیری مدد کرو، ایک بالغ اور نومسلم لڑکی، ہادیہ کی ہے۔ جو پیشہ سے ڈاکٹر ہے اور ووٹ دینے کا پورا حق رکھتی ہے۔اسی طرح وہ اپنی مرضی سے زندگی گزارنے کا ،اپنی مرضی سے کھانے پینے کا اور اپنی مرضی سے تبدیلی مذہب کابھی اختیار رکھتی ہے۔ اس آزادی کے حق کا استعمال کرتے ہوئے ہی اکھیلااشوکن نے فیصلہ کیا تھاکہ آئندہ وہ ہادیہ رہ کر اسلام کے مطابق زندگی گزاریگی اوراس نے عملاًبھی اسلام کے مطابق عمل کیایہاں تک کہ شادی اور مراسم عبودیت بھی اسلام کہ مطابق ہی ادا کررہی تھی۔لیکن یہ بات ہادیہ کے والد اشوکن کو ناگوار گزری انہوں نے الزام لگایا کہ ہادیہ کے ساتھ سازش ہورہی ہے وہ نا سمجھ ہے ، دماغی طور پر کمزور ہے اور اسے زبردستی اسلام قبول کروایا گیاہے تاکہ ہادیہ کو اسلامک اسٹیٹ ،سیر یا بھیجا جاسکے۔اسی مسئلہ کو لیکر اشوکن نے کیرلا ہائی کورٹ میںاپیل کی جس پر فیصلہ سناتے ہوئے عدالت نے کہا کہ ہادیہ نے عدالت سے پوچھے بغیر شادی کیسے کرلی ۔اور ہادیہ اور شفین جہاں کا نکاح منسوخ قرار دیا۔اسی طرح ہادیہ کے قبول اسلام پر بھی سوالیہ نشان کھڑا کیا۔عدالت کے فیصلہ کے بعد ہادیہ کو اشوکن کے گھر میں قید کردیا گیا اور گھر کے سامنے پولس تعینات کردی گئی ۔جبکہ شفین جہاں نے انصاف کے لیے سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا ہے۔عدالت عظمہ نے بھی اس کیس میں NIAکوجانچ کے لیے کہا ہے۔

عدلیہ کی تنگ نظر :

کیرلاہائی کورٹ کے اس فیصلہ میں کوئی معقولیت نظر نہیں آتی۔ کیافرد کو اپنی زندگی اپنے مطابق گزارنے کا حق حاصل نہیں ہے ۔ وہ کیا کھائے ، کیا پہنے ،کہاں جائے ، کیسے جائے ،عبادت کیسی کرے ، شادی کس سے کرے ایسے تمام انفرادی معاملات میں دخل اندازی کرنے کا اختیارماںباپ، عدلیہ ،مقننہ، میڈیااور مذہبی ٹھیکیدار سمیت کسی کو نہیں دیا جاسکتا اور نہ ہی ان میں سے کسی کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ مشورہ دیں کہ آپ کو انڈ ا نہیں سبزی کھانی ہے ، آ پ شفین سے نہیں روہت سے شادی کریں ۔ عقل اس بات کو ہر گز قبول نہیں کرتی ، نہ دستوری حق آزادی فکر وعمل اسے قبول کرتا ہے کہ ایک بالغ لڑکی جو ایک مخصوص مذہبی ذہنیت رکھتی ہے ، اور اپنی ازدواجی زندگی اچھے سے بسر کر رہی ہے اور خود کہہ رہی ہے کہ یہ سب وہ اپنی مرضی سے کررہی ہے تو کیا عدالت محض باپ کے شک پر ہادیہ کو یہ فیصلہ سنائے کہ جانچ ہونے تک وہ شفین جہاں کہ رشتہ زوجیت میں نہیں رہےگی ۔ جانچ ہونے تک کیا اسے قید کرلیا جائےگا ۔ کیا ہادیہ حکومت کی جائیداد ہے ۔دنیا کی کسی عدالت کو ہرگزیہ حق حاصل نہیں ہونا چاہیے کہ وہ فرد کی انفرادی زندگی سے متعلق فیصلہ لے اگر کورٹ انفرادی زندگی میں بھی مداخلت کرنے لگے تو کوئی فرد بہتر زندگی نہیں گزار سکے گا ۔ یہ بات بھی قابل غور ہے کہ اگر ہادیہ عیسائیت قبول کرلیتی ، سکھ مذہب اختیار کرلیتی ،یابدھ مذہب اختیار کرلیتی تب بھی عدالت موجودہ فیصلوں پر گامزن رہتی کہ اس نے مذہب کیو ں تبدیل کیا؟۔شاید نہیں ، کیوں کہ عدالت پر بھی اب فرقہ پرستی اورجانبداری کے دورے پڑنے لگے ہیں۔دستور ہند اپنے ہر شہری کو دفعہ ۲۵ تا ۲۸ کے تحت اپنی مرضی کے مطابق مذہب کو اپنانے،اس پر عمل کرنے،اس مذہب کو پھیلانے ،اور مذہب کی تبدیلی کا اختیاردیتا ہے۔دستور ہند کے تخلیق کار ڈاکٹر بی آ ر امبیڈکر نے اسی آزادی کا استعمال کرتے ہوئے چھ لاکھ مرد و خواتین کے ساتھ ۱۴ ،اکتوبر ۱۹۵۶ کو ناگپور میں ہند و مذہب ترک کر کے بدھ مذہب قبول کیا ۔ جب یہ آزدی ڈاکٹر امبیڈکر کو حاصل تھی تو ڈ اکٹر ہادیہ کو کیوں نہیں؟اگر عدالتیں بھی دستور پر عمل کرنے کے مواقع نہ دیں تو کس سے امید کی جائیگی ۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ اگر عدلیہ کے ججوں کا تعلق کسی مخصوص مذہب سے ہے تو بھی فیصلہ کا جھکا ئو مخصوص مذہب کی جانب نہیں انصاف کی بنیادوں پر ہونا چاہیے ۔بہتر معلوم ہوتا ہے کہ ہائی کورٹ فیصلے پر نظر ثانی کرے اور،سپریم کورٹ اس معاملے کا صحیح تصفیہ کرکے ہادیہ کو رہائی دلائے،اور اس کے انسانی حقوق بحال کرے۔نیز عدالت مذہبی تعصب کو ختم کرنے کے لیے بھی اقدامات کرے ۔

لو جہاد (Love Jihad ) ایک افسانہ : لوجہاد کا مسئلہ سابقہ دہائی سے گرما یا ہو ا ہے بیٹی بچائو بیٹی پڑھائو بھی اسی ذہنیت کی ایک کڑی ہے ۔ ہادیہ سے متعلق بھی یہ افسانے بنائے جارہے ہیں کہ وہ لوجہاد کا شکار ہوئی ہے ۔جس طرح سے عالمی میڈیا نے دہشت گردی کے نام پر اسلام اور اسکے تصور جہاد کی من چاہی تعبیر یں بنابنا کراورفرضی دہشت گردگروپس کے ناموں پر اسلام اور مسلمانوں کو بدنام کیا ہے ۔ اسی طرح سے وشوہند وپریشد نے یہ افسانہ بنایا ہے کہ مسلم لڑکے منصوبہ بندی کے ساتھ غیر مسلم لڑکیوں کو اپنے عشق میں پھانستے ہیںاور بعد ازاں ان سے شادی کرلیتے ہیں ۔ پھر شادی کے بعد وہ لڑکے یا تو لڑکی کی زندگی جہنم بنا دیتے ہیں یاانہیں دہشت گردی میں لگادیتے ہیں۔اس مفروضے کا نام انھوں نے لوجہاد رکھا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جو لڑکیاں اپنے گھر، والدین، مذہب ، بھائی بہن اور اپنے سماج کو چھوڑ کر جارہی ہیں کیا وہ محض عشق کا چکر ہے یا تلاش ہے ایک ایسے کلچر کی جو فطرت کی پکار ہو ، ایسے مذ ہب کی جہاں حقیقی آزادی اور عزت ملے ۔دوسرا سوال لوجہاد کے افسانہ کو دیکھتے ہوئے یہ بھی اٹھنا چاہیے کہ کچھ ایسی بھی مسلم لڑکیاں ہیں جو ہندولڑکو ں سے شادی کرچکی ہیں ۔ سوہا علی خان سے کسی نے نہیں پوچھا کہ آپ نے کنال کھیموسے کیوں شادی کی ہے ۔مسلمانوں کے کسی ادارے نے اس پر کوئی سوال نہیں اٹھایا اور یہ سمجھا کہ وہ فرد کی اپنی آزادی ہے۔کیوںکہ اسلام نے یہ تعلیم واضح کردی ہے کہ ” مشرک مرد یا مشرک عورت سے نکا ح نہ کرو جب تک وہ ایمان نہ لائیں ۔” اسلام میں کوئی زور زبردستی نہیں ہے بلکہ فکر وعمل کی پوری پوری آزادی ہے ۔

ا گرغیر جانبدادر ی سے جائزہ لیا جائے توقبول اسلام اور اس سے متصل نکاح میں تین قسم کے حالات عموماً پیش آتے ہیں۔(۱)مسلم لڑکا یا لڑکی کسی غیر مسلم سے محبت کرتے ہیں اور ایک دوسرے سے شادی کرنے کی غرض سے اسلام قبول کرلیتے ہیں اس معاملے میں مقصد شادی کرنا ہوتا ہے۔(۲)چونکہ ہندو میرج ایکٹ کے مطابق مرددوسری شادی نہیں کرسکتا اس لیے قانون سے بچنے اور شادی کرنے کے لیے مرد وعورت اسلام قبول کرتے ہیں۔جیسے دھرمیندرھیمامالینی اور ہریانہ کے فضا محمدوچاند محمد۔(۳) تیسری قسم کا معاملہ وہ ہوتا ہے جس میں کوئی غیرمسلم اسلام کے اصولوں سے،عقائد سے،طریقہ عبادت وغیرہ سے متاثر ہوکر اور دل کی آمادگی کے ساتھ اسلام قبول کرتا یا کرتی ہے۔اور پھر اسلامی معاشرہ اس کا نکاح کسی مسلم فرد سے کروادیتا ہے۔ اور اگر بات لوجہاد کی کریں تو یہ صرف ایک فرضی افسانہ ہے ۔بہن ڈاکٹر ہادیہ نے بہت سوچ سمجھ کر اسلام کو قبول کیا ۔اسلام کی تربیت لی اور پھر رشتے کی تلاش کرنے کے بعد شفین جہاں سے نکاح کیا۔یہ نہ کوئی لوجہاد کا معاملہ ہے نہ ہی کوئی عشق و محبت کی داستان بلکہ ایک ایمان افروز قبول اسلام کی داستان ہے۔ اسلیے مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ ہادیہ کے ساتھ کھڑے ہوں تاکہ یہ Message جائے کہ ہم اپنے ہر نومسلم بھائی اور بہن کے ساتھ ہمیشہ کھڑے رہتے ہیں۔

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Verified by MonsterInsights