موت ،مسڈکال دے گئی۔۔

0

گلے مل کر ریحان مجھ سے کافی دیر چپکا رہا۔۔ کچھ لمحوں کے بعد جدا ہوا، اس کے سر پر پٹی بندھی ہوئی تھی، اسکی آنکھیں اشکبار تھیں، کچھ داستان سنانا چاہتی تھیں۔۔
’کیا ہوا میرے بھائی ؟ ‘میں نے اپنی چپی توڑتے ہوئے کہا۔
ایک لمحہ توقف کے بعد کھڑکی سے باہر جھانکتے ہوئے اس نے کچھ بولنا شروع کیا۔ گویا مجھ سے نظریں ملانا نہ چاہتا تھا۔
’تم صحیح تھے۔ بالکل صحیح۔ موت کا کچھ بھروسہ نہیں ، بس ایک پل کی دیری ہے، اپنے دونوں ہاتھوں سے آنکھوں کو چھپا کر کہنے لگا اب آپ سانس لے رہے ہو، آنِ واحد میں کیا ہوجائے پتا نہیں۔آپ کی آنکھ کھلی ہے، کب بند ہوجائے پتا نہیں۔‘
’اماں یار پہیلیاں بجھانا بند کرو۔آخر ہو ا کیا ؟‘ میں نے اپنی بڑھتی ہوئی بے چینی کا اظہا ر کیا۔
’کل میں اور ندیم ایک ڈھابے پرچائے پی رہے تھے۔ ہم اپنی آنے والی زندگی کے بارے میں پلاننگ کررہے تھے۔ وہ اپنے ہونے والے بچے کے بارے خوش ہو ہو کر بتا رہا تھا، میں اپنی نئی جاب کے قصے سنا رہا تھا۔۔‘
’ کہ تبھی اچانک۔اچا نک۔۔‘ اسکی سسکیاں بندھ گئی۔۔
میری کیفیت بھی دگر گوں تھی، اضطراب کی عجیب لہروں میں غوطہ زن تھا۔۔
’۔۔اچانک ایک کار جو آپے سے باہر ہو چکی تھی۔ تیزی کے ساتھ ڈھابے میں گھس گئی۔‘
’ہر طرف چیخ و پکار ، دھواں اور دھول مٹی تھی، ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہ دیتا تھا۔۔لگا جیسے کوئی دھماکا ہو ا ہو۔۔ ‘
’میں ایک طرف زمیں پر پڑا تھا، کافی چوٹیں آئیں تھی۔ میں نے اٹھنے کی کوشش کی لیکن اٹھ نہ سکا۔ کسی نے سہارا دے کر اٹھایا۔۔میں نے اٹھتے ہی سوال کیا ندیم ؟ ندیم کہاں ہے ؟ ندیم۔۔۔ میرے دوست کہاں ہو ؟‘
’کوئی جواب نہ آیا۔۔ آتا بھی کیسے ؟ وہ اس حادثے میں دارِ فانی سے کوچ کر چکا تھا ؟۔۔۔۔لاشوں کے ڈھیر میں اس کا ہاتھ دکھائی دیا۔ میں ا س کی ۵۰ہزار والی رولیکس گھڑی دیکھ کر پہچان پایا۔ اسکی پھر سسکیاں بندھ گئی۔۔‘
وہ پھرمیرے گلے لگ گیا۔ اور کافی دیر روتا رہا۔۔میں نے اسے پانی دیا۔۔ جب کچھ بات کرنے کی کیفیت پیدا ہوئی تو وہ کہنے لگا، ’دوست میں یہاں سے نہ جاونگا ، جب تک مجھے میری آگے کا زندگی کا سفر دین کی راہ پر چلانے کا تم وعدہ نہ کردو۔۔‘
ـ’بالکل میرے دوست ، بالکل۔۔‘ میری خوشی کا ٹھکا نہ نہ رہا۔۔میں نے اللہ کا شکر ادا کیا، آخر میری تہجد کی دعائیں ریحان کے تعلق سے اب قبول ہوئیں تھیں۔۔۔ سچ ہے ، اللہ نے ہر چیز کا مقدر ٹھہرا رکھا ہے، اور اس میں نہ کمی ہوتی ہے اور نہ بیشی۔۔
تین مہینے پہلے کی تو بات ہے، ریحان نے میری اجتماع کی دعوت اپنی۔۔’’ مصروفیت‘‘۔۔ کی بنا پر ٹھکرادی تھی۔۔اور آج دیکھو اس پگلے کو۔۔ ؟
ہم میں سے ہر کسی کی زندگی میں ایسے بے شمار موقع آتے ہیں جب ہمیں لگتا ہے ، ا ف ذرا دیر ہوجاتی تو شاید میں بھی۔۔اللہ رحم کرے۔۔ لیکن موت کے اس مسڈ کال کے بعد بھی کتنے ایسے نادان ہیں کہ و ہ اپنی پہلے کی زندگی میں ویسے ہی مصروف ہوجاتے ہیں جیسے کچھ ہو ا ہی نہ ہو۔۔ شیطان پورا زور لگا دیتا ہے کہ ہم اس سبق سے کوئی نصیحت حاصل نہ کریں۔
نوجوانوں کے لئے خاص طور پر یہ لمحہ فکریہ ہے کہ ہم الرٹ رہیں ، چوکنا رہیں اس بات سے کہ نہ جانے کب ملک الموت ہمارے بالکل قریب کھڑے ہوں ؟ہم کیسے اس اہم آنی سے بے پرواہ ہوکر زندگی گزار سکتے ہیں؟
کیا ہم نے اللہ کے سامنے کھٹرے ہونے کی تیاری کرلی ہے ؟
کیا۔۔اما من خاف مقام ربہِ (النازعات:۰۴) کی تشریح سے ہمارا دل مطمئن ہے؟ کیا اس آیت کے ایک ایک لفظ نے ہمارے دل کو مکمل تڑپا دیا ہے ؟ کیا اس کے عوض ہماری زندگی ان راہوں پر گامزن ہو چکی ہے جس راستے سے جنت کی خوشبو آتی ہے ؟
کیا ہم اپنی جمع پونجی (نامہ اعمال) میں چا ر چاند لگا چکے ہیں کہ دربار ِ محشر میں اپنے رب کے سامنے کہہ سکیں اللہم حاسبنی حسابا یسیرا؟
نوجوانوں کی زندگی کی دین سے دوری اور دنیا کے پیچھے بے تحاشہ دوڑ نے ایک اور عجیب مسئلہ کھڑا کیا ہے وہ ہے۔ ’’بے مقصد زندگی‘‘
آج ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم میں سے ہر نوجوان وقت نکال کر اپنی زندگی کی ترجیحات طے کرے۔ کتنا وقت ذریعہ معاش کو دیناہے، کتنا گھر کو، کتنا اپنی آس پاس کی سوسائٹی کو ، کتنا دین کی جدوجہد کو سب طے کرے اور اس پر پابندی کے ساتھ کاربند ہوجائے ۔زندگی کے ہر شعبہ میں احسان کا رویہ اختیا کرے، اسوہ رسول ؐ اور اسوہ صحابہؓ ہمیشہ آنکھوں کے سامنے رکھے۔۔۔آج ہی کسی اچھی تحریک سے وابستہ ہوجائیں۔۔
۔۔۔۔کیوں کہ کیا پتہ اگلی بار ڈھابے پر چائے پیتے وقت۔۔۔ آپ ندیم ہوں۔۔۔ہے نا ؟

 

از: عبدالقدیر، میِرا روڈ، ممبئی

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Verified by MonsterInsights