0

غزل

اس کا کیا آج ہے کردار ذرا پوچھ تو لیں
کیوں ہے ناراض مرا یار ذرا پوچھ تو لیں
اتنی بے پردہ تو پہلے نہ تھی بنتِ مریم
کیوں بنی رونق بازار ذرا پوچھ تو لیں
دور حاضر کے اگر آپ سے نمرود ملیں
آگ کیسے ہوئی گلزار ذرا پوچھ تو لیں
عہد حاضر کے جو منصورؔ نہیں تھے وہ بھی
کیوں ہوئے دار کے حقدار ذرا پوچھ تو لیں
کل تلک اس کے تھے مداحؔ ہزاروں پیارے
آج ہے کس لیے وہ خوار ذرا پوچھ تو لیں
دھوپ میں کس لیے جلتا ہے وہ دن بھر لوگو!
بوڑھے برگد سے ہم اک بار ذرا پوچھ تو لیں
فکر سالکؔ سے نہ تھا واسطہ ان کا اب تک
بن گئے کیسے طرفدار ذرا پوچھ تولیں
سالک بستوی ایم اے

غزل

امانت میں خیانت جو کرے گا
مصیبت میں یقیناًوہ پڑے گا
کسی کے واسطے خندق جو کھودے
اسی خندق میں آکر وہ گرے گا
خوشی اوروں کی جس کو ہو کھٹکتی
حسد کی آگ میں وہ جل مرے گا
جہاں والوں کی ذلت جس کا مقصد
وہ اپنے آپ ہی پانی بھرے گا
جسے موجیں ہی بڑھ کر دیں سہارا
تو اس بچے کا کوئی کیا کرے گا
توکل اور ارادہ جس کے ساتھی
وہ برق ورعد سے پھر کیا ڈرے گا
غلط کاری جو اپنا دین سمجھے
وہ اپنی موت آخر خود مرے گا
جو خود ہو محتسب اپنے عمل کا
بلندی پر ہمیشہ وہ چڑھے گا
مٹاسکتا نہیں اس کو زمانہ
امیںؔ جو جنگ اپنی خود لڑے گا
محمد امین احسن، بلریاگنج

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Verified by MonsterInsights