علم کی کثرت اور عبادت کی کثرت

0

فَضْلٌ فِیْ عِلْمٍ خَیْرٌ مِنْ فَضْلٍ فِیْ عِبَادَۃٍ وَ مِلاَکُ الدِّیْنِ الْوَرَعُ۔ (بیہقی)
(علم کی کثرت عبادت کی کثرت سے بہتر ہے اور دین کی اصل تو پرہیزگاری ہے۔)
ہمارے آقاوسردار سیدنا محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حدیث میں علم کی اہمیت کی وضاحت کی ہے اور اس سلسلے میں ایک ضروری شرط کا ذکر بھی کردیا ہے۔ حدیث میں علم کی کثرت کا مقابلہ عبادت کی کثرت سے کیا گیا ہے اور اول الذکر کو قابل ترجیح قرار دیا گیا ہے۔ بلاشبہہ عبادت کی کثرت اچھی چیز ہے اور اس حدیث میں اس کی نفی نہیں کی گئی ہے بلکہ یہاں صرف علم کی کثرت کو بہتر قرار دیا گیا ہے۔
یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ اس حدیث میں علم اور عبادت کی کثرت کا ذکر کیا گیا ہے۔ دوسرے لفظوں میں جو موازنہ کیا گیا ہے اس کا تعلق بنیادی حقائق کا علم اور فرض عبادات کے درمیان نہیں ہے، کیونکہ وہ دونوں یکساں درجہ کی ضروری باتیں ہیں۔ مثلاََ عقائد کی واقفیت اور فرائض کی پابندی دونوں لازمی ہیں، اس لیے ان میں کسی کے بہتر اور کسی کے کم تر ہونے کا سوال پیدا نہیں ہوتا ہے۔ کسی کا عقیدہ درست نہ ہوتو اس کی عبادات کا کیا اعتبار اور کسی کا عقیدہ درست ہو لیکن وہ فرائض میں کوتاہ ہوتو یہ غفلت بدبختی کا باعث بن سکتی ہے۔
اب اگر کسی خوش بخت کو بنیادی لازمی علوم اور فرائض وواجبات سے زیادہ حاصل کرنے کی توفیق ہوجائے تو اس صورت کا حوالہ درج بالا حدیث میں موجود ہے۔ دونوں پسندیدہ عمل ہیں، البتہ علم کی کثرت کو فضیلت حاصل ہے۔ عالم کو عابد پر فضیلت حاصل ہے۔ یہ بات دوسری احادیث سے بھی ثابت ہے۔ دراصل انسان کو دیگر مخلوقات پر جو فضیلت حاصل ہے اس کا تعلق علم سے ہے۔ عبادات کی کثرت میں انسان ملائکہ سے بہتر نہیں ہوسکتا لیکن حضرت آدم علیہ السلام کو اللہ تعالی نے ملائکہ سے زیادہ علم دیا اور انہیں حضرت آدم کو سجدہ کرنے کا حکم دیا اور دیگر مخلوقات کو انسانوں کے لیے مسخر کردیا۔
علم کسی حاصل ہونے والی شے کا نام نہیں ہے بلکہ ہمیشہ پڑھنے والی اور حاصل ہوتی رہنے والی ایک کیفیت کا نام ہے۔ قرآن میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کرکے حکم دیا گیا: رَبِّ زِدْنِیْ عِلْماً۔ یہ حکم تمام انسانوں کے لیے ہے کہ علم حاصل کرتے رہیں اور مزید سے مزید علم کے حصول کی تمنا، سعی اور دعا کرتے رہیں۔
دوسری بات یہ سمجھ لینی چاہیے کہ اس حدیث میں علم سے مراد علم دین نہیں ہے۔ علم دین اور علم دنیا کی تفریق کا تصور جو رائج ہوگیا ہے اس کی دین اسلام میں کوئی جگہ نہیں ہے۔ ہمارے علماء نے علم نافع اور علم غیر نافع کی صراحت کی ہے۔ یعنی ہر وہ علم جو فرد اور سماج کے لیے مفید ہے اس کے حصول کی طلب ہونی چاہیے اور ایسے ہر علم کی زیادتی کی فضیلت عبادت کی زیادتی پر، اس حدیث کی روشنی میں باقی رہے گی۔
عبادات کے سلسلے میں یہ بات سامنے رہنی چاہیے کہ اس حدیث میں مراد مراسم عبودیت ہیں، یعنی نماز، روزہ، زکوۃ اور حج جیسی عبادات جن کی شکل شارع نے متعین کردی ہے، معاملات ان میں شامل نہیں ہیں۔ اس صراحت کی ضرورت اس لیے ہے کہ قرآن وحدیث میں لفظ عبادت عموماََ مراسم عبودیت اور معاملات دونوں پر محیط ہوتا ہے۔ جبکہ بعد کے زمانے میں فقہ کی تدوین کے موقع پر ضرورتاََ فقہاء نے دونوں کے احکام الگ الگ بیان کردیے۔ اس حدیث میں یہ استثنائی صورت ہے کہ لفظ عبادت اس مفہوم میں مستعمل ہے جس میں بعد کے ماہرین علوم شریعہ نے اس لفظ کو استعمال کیا ہے۔
حصول علم اور عبادات کی ادائیگی دونوں دین اسلام کا جزو ہیں۔ دونوں پسندیدہ ہیں اور دین میں مطلوب ہیں۔ حدیث کے آخری حصہ میں ان دونوں اعمال صالحہ کے سلسلے میں ایک شرط بیان کی گئی ہے اور وہ ’’ورع‘‘ ہے۔ دین کی اصل ’’ورع‘‘ ہے۔ ورع دراصل اخلاص اور حسن عمل کو کہتے ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ کو راضی کرنے اور اس کے غضب سے بچنے کی نیت کے بغیر مجرد علم کا حصول اور خالی عبادات کے رسوم دین اسلام میں کوئی مقام نہیں رکھتے ہیں۔ اسلام تمام اعمال بشمول علم اور عبادت کو نیت، اخلاص اور تقوی کے تابع رکھتا ہے۔ بلاشبہہ علم کو عبادت پر فضیلت حاصل ہے اور اس میں اضافہ خوب ہے، لیکن یہی علم اگر دین کے بغیر ہو تو ناخوب بن جائے گا۔ ابلیس راندۂ درگاہ الٰہی علم کی کمی کی وجہ سے نہیں ہوا، بلکہ اس کے باوجود ہوا۔ دین کی حقیقت یعنی اخلاص وللّٰہیت نہ ہو تو کوئی چیز کام نہیں آئے گی۔
ڈاکٹر وقار انور، مرکز جماعت اسلامی ہند

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Verified by MonsterInsights