0

اداریہ پڑھ کر خوشی ہوئی
تازہ شمارہ اگست ۲۰۱۵ ؁ء ای میل کے ذریعے موصول ہوا، جس میں اداریہ ’’نبیوں کی دعوت کا مطالعہ‘‘پڑھ کر خوشی ہوئی۔ اداریہ میں نبیوں کی دعوت کے مختلف پہلوؤں کو پڑھنے کی جانب متوجہ کیا گیا ہے، ساتھ ہی پڑھنے کے فوائد بھی مختصراََ بیان کیے گئے ہیں۔ اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ آپ کی کوششوں کو قبول فرمائے نیز قارئین کو توفیق بخشے کہ وہ نبیوں کی دعوت کے مطالعہ کو موجودہ حالات کے تناظر میں میدان عمل سے گزرتے ہوئے مشاہدات وعملی اقدامات کی شکل میں طے کریں۔
محمد آصف اقبال، نئی دہلی

بالکل ٹھیک وقت پر موصول ہوا
بہت ہی دلکش سرورق کے ساتھ ماہ اگست کا رفیق منزل بالکل ٹھیک وقت پر موصول ہوا۔ جناب محی الدین غازی صاحب کا مضمون ’’سب رائیں اچھی ہیں‘‘ پسند آیا، البتہ یہ مضمون دورانِ رمضان شائع ہوا ہوتا تو زیادہ بہتر تھا۔ جناب عبد اللہ جاوید صاحب کی اس رائے سے ہم کو اتفاق ہے کہ’’ آپ کی باتیں چونکہ ایک فکری کالم ہے اس لیے اس کے لیے کوئی مو زوں عنوان دینا چاہیے‘‘۔
’’ یوگا: اسلامی تناظر میں‘‘ وقت کے سلگتے ہوئے حساس موضوع کاا حاطہ کرتا ہوا نظر آیا، موصوف نے بڑی عرق ریزی سے عنوان کا حق ادا کرنے کی کوشش کی ہے ، بہر حال یہ امربا عث تشویش ہے کہ اس معاملے میں امت مسلمہ کے ائمہ اور علماء میں دو متضاد رائیں پائی جاتی ہیں۔
برا درم خالدپرواز کی تحریر ’’گمشدہ بچپن‘‘ میں موجودہ ملکی سماج کا حقیقت پسندانہ تجزیہ کیا گیا ہے، یہ بات ٹھیک ہے کہ ’’ اسکول کے منتظمین اکثر تاجر حضرات ہوتے ہیں جو کھیل کو وقت کا ضیاع سمجھتے ہیں۔البتہ عرض یہ ہے کہ فی الوقت ملک کے زیادہ تر اسکولوں میں کھیل کا ایک پیریڈ ہوتا ہے لیکن بچے خود ان کھیلوں میں پہلے جیسی دلچسپی نہیں لیتے جس کی ذمہ داری موجودہ ٹیکنالوجی کے سر جاتی ہے۔ موصوف کی یہ بات بلا شبہہ بالکل درست ہے کہ ’’ آج طلبہ حقیقی دنیا سے زیادہ مجازی دنیا میں رہنا پسند کر رہے ہیں، جس کی وجہ سے اُن کی صحت، ذ ہنی بالیدگی اور سماجی کردار بڑی حد تک متأثر ہوتا ہے۔ اس اشو پر اور بھی تحریریں آنی چاہئیں۔
’’ صدرنگ‘‘ کے کالم میں ایک تحریر’’ تحریکیں کب نا کام ہوتی ہیں‘‘ کے سارے نکات چاندی کے حروف سے لکھے جانے کے قابل ہیں البتہ یہ بڑی نا انصافی کی بات ہے کہ نیچے فقط فیس بک سے ماخود لکھ دینے پر اکتفاء کیا گیا، فیس بک پر جس ساتھی(رفیق) نے اسے پوسٹ کیا ہے اس کا نام شکریے کے ساتھ دیا جا سکتا تھا۔
برادر عبدالرحمن کا مضمون’’مسلم بچوں کی تعلیم سے آ راستگی‘‘ وقت کی اہم ترین ضرورت ہے، برادرنے دو شعر نقل کیے ہیں اور دونوں میں اتفاقا تھوڑی سی غلطی ہوگئی ہے، اصل شعر یہ ہے:
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو شعور خود اپنی حالت کے بدلنے کا
دوسرے شعر کا پہلے مصرعہ یہ ہے:
دیار عشق میں اپنا مقام پیدا کر
امید ہے برا درم نظر ثانی کریں گے۔
محمد ندیم کی کہانی بعنوان’’ اچھا دوست‘‘ بہت اچھی اور سبق آموز ہے، جس کے لیے برادرِعزیز مبارک باد کے مستحق ہیں۔
محمد معاذ، جا معہ ملیہ اسلامیہ

عمدہ اور دلچسپ تحریریں
ماہ اگست کارفیق منزل ملا۔بہت ہی دیدہ زیب ٹائٹل کے ساتھ از اول تا آخر تمام ہی تحریریں عمدہ اور دلچسپ لگیں۔ شعرونغمہ کالم کے تحت مولانا سید ابوالاعلی مودودی علیہ الرحمہ کی غزل پڑھ کر بہت ہی خوشی ہوئی، مرحوم کی زندگی کا ایک اور پہلو سامنے آیا، رفیق منزل میں مولانا مودودی کی ادبی خدمات پر بھی ایک تفصیلی مضمون شائع ہونا چاہئے۔ اس کے علاوہ ڈاکٹر محی الدین غازی کا مختصر مضمون ’’سب رائیں اچھی ہیں‘‘، اور فرحی ارم کا مضمون ’’توکل کرمان: خاتون انقلاب‘‘ بھی بہت ہی اچھا لگا۔ اس طرح کے موضوعات پر مضامین شائع ہوتے رہنے چاہئیں، جن سے مسلم طالبات کو حوصلہ ملے اور ان کو بھی آگے نکل کر اپنا سماجی ودعوتی کردارادا کرنے کا جذبہ نصیب ہو۔ اس مضمون کے لیے فرحی ارم صاحبہ ہم سب کی جانب سے شکریے کی مستحق ہیں۔
رفیق کے تعلق سے دو مشورے پیش ہیں، ایک یہ کہ طالبات کی تحریریں بھی اگرپابندی کے ساتھ رفیق کا حصہ بنتی رہیں تو اچھا رہے گا، اس سے تحریکی لڑکیوں کو اسپیس بھی ملے گا، اور لکھنے کا شوق بھی۔ دوسرا یہ کہ رفیق میں مختصر مضامین کا زیادہ سے زیادہ اہتمام کریں، ان کو خود پڑھنا بھی آسان ہوتا ہے اور دوسروں کو پڑھانا بھی، اس شمارے میں ’’تذکیر، ایمان کے لوازم،سب رائیں اچھی ہیں، گم شدہ بچپن، ایک مجاہد صوفی ایک تحریکی پیر، نیا تعلیمی سال، مجوزہ نئی تعلیمی پالیسی، میرا پہلا دعوتی تجربہ، اور مسلم بچوں کی تعلیم سے آراستگی‘‘ مختصر مگر اہم اور مفیدمضامین ہیں۔
فہمینہ، لکھنؤ۔ یوپی

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Verified by MonsterInsights