نیا زمانہ نئے صبح وشام پیدا کر

0

اللہ تبارک وتعالی نے یہ خوبصورت دنیا بنائی، اور اس میں طرح طرح کی مخلوقات کو پیدا کرکے اس کی خوبصورتی میں مزید اضافہ کیا، اس میں چرند، پرند، درند، حیوانات، نباتات، جن، انسان، فرشتے وغیرہ پائے جاتے ہیں۔ ان تمام مخلوقات میں اللہ رب العزت نے انسان کو اشرف المخلوقات بنایا۔ اور انسانوں کے درمیان ان کو پسند کیا جو اس کو راضی کرنے کے لیے اس کے احکام کی تعمیل کرتے ہیں۔ اور وہ ان مطیع وفرمانبردار بندوں میں ان افراد کو پسند کرتا ہے جو اپنی جوانی اللہ کی بندگی اور اس کے دین کی خدمت میں گزارتے ہیں۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ نوجوان کہتے کس کو ہیں؟ نوجوان کہتے ہیں گرم خون کو، ایک عزم کو، ایک ارادے کو، ایک مضبوط حوصلے کو، ایک ضد کو، ایک دیوانگی کو۔ یہ نوجوان کسی کام کو کرنے کا فیصلہ کرلیں تو وہ یہ کام کرکے رہتے ہیں، خواہ یہ کام اچھا ہو، یا برا۔ شاعر اسلام علامہ اقبالؒ فرماتے ہیں ؂
عقابی روح جب بیدار ہوتی ہے جوانوں میں
نظر آتی ہے ان کو اپنی منزل آسمانوں میں
نوجوان جو کہتے ہیں وہ کرکے دکھاتے ہیں۔ اب نوجوانوں کو یہ فیصلہ کرنا ہوتا ہے کہ وہ نیک کام کرتے ہیں یا برے کام۔وہ واقعتا اللہ کی رضامندی کے طالب ہیں تو انہیں اس کے احکام کی تعمیل کرنی چاہیے، اور اس کی نافرمانی سے بچنا چاہیے۔ قرآن مجید سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ رب العزت نے انسان کو دونوں راستے دکھلا دیئے ہیں، اچھائی کا بھی اور برائی کا بھی، اب نوجوانوں کویہ طے کرنا ہے کہ وہ کس راستے کا انتخاب کرتے ہیں، شکرگزاری اور فرمانبرداری کا راستہ یا ناشکری اور نافرمانی کا راستہ۔
تاریخ کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر دور میں تبدیلی اور انقلاب نوجوانوں کے ذریعے ہی رونما ہوئے ہیں۔ طارق بن زیادؒ یہ وہ ونوجوان ہیں جن کی بدولت ہسپانیہ میں مسلمان تقریبا ۸۵۰؍سال تک حکومت کرتے رہے۔ ٹیپو سلطانؒ وہ مرد مجاہد ہے جس نے ہندوستان کی جنگ آزادی میں نمایاں کردار ادا کیا، یہ بات قابل ذکر ہے کہ پہلی جنگ کے لیے نکلتے وقت ان کی عمر محض سولہ سال تھی۔
ہم بھی نوجوان ہیں! معاشرے کو دیکھیں کس قدر بدامنی، بے حیائی اور بے راہ روی عام ہوچکی ہے۔ سماج کو ان لعنتوں سے کوئی آزاد کراسکتا ہے تو وہ صرف نوجوان ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ نوجوان اس بات کا عہد کریں کہ وہ اس معاشرے سے برائی کا قلعہ قمع کرکے رہیں گے، اور بھلائیوں کو عام کرکے رہیں گے۔ وقت کو لایعنی چیزوں میں گزارنے کے بجائے بامقصد کاموں میں لگائیں گے۔
آخر کیا وجہ ہے کہ سماج میں برائیاں اس قدر تیزی کے ساتھ عام ہورہی ہیں اور سماج کے صالح نوجوان خاموش بیٹھے ہیں۔اس کی ایک ہی وجہ ہوسکتی ہے کہ جوانی کی قدروقیمت کا احساس نہیں ہے۔ یہ احساس عام ہوجائے تو سمجھ لیں کہ اسی وقت دنیا میں امن وامان کا آغاز ہوجائے گا۔
نوجوانوں کی ایک خاص بات یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنی تقدیر خود لکھتے ہیں، خود بناتے ہیں، اور پھر منزل ان کے قدموں میں آگرتی ہے۔ علامہ اقبال فرماتے ہیں ؂
صف جنگاہ میں مردان خدا کی تکبیر
جوش کردار سے بنتی ہے خدا کی آواز
قانون قدرت ہے کہ خدا اس وقت تک کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا جب تک کہ خود ان کے اندر تبدیلی کے لیے لگن نہ پائی جاتی ہو۔ مرد ہمت کرتا ہے تو خدا اس کی مدد کرتا ہے؛
دیار عشق میں اپنا مقام پیدا کر
نیا زمانہ نئے صبح وشام پیدا کر

نورالمبین نداف، مدے بہال، کرناٹک

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Verified by MonsterInsights