تحریک اسلامی کی قیادت اور نسلی تفاوت کا مسئلہ
اولاً نسلی تفاوت کی لفظی ترکیب اور معنیٰ و مفہوم پر غور کر لیں ۔ لغت میں نسلی تفاوت (Generation Gap) کے مفہوم میں مختلف پشتوں کے درمیان خیالات اور طرز عمل کے اختلاف کو نمایاں کیا گیا ہے ۔ بالعموم ’’ اگلے وقتوں کے یہ ہیں لوگ انہیں کچھ نہ کہو‘‘ کہہ کر نئی نسل اپنے بزرگوں سے در گزر کر تی ہے ۔ یا اکبر الہ آبادی کے بقول
ہم ایسی سب کتابیں قابل ضبطی سمجھتے ہیں
کہ جن کو پڑھ کے بچے باپ کو خبطی سمجھتے ہیں
بین النسلی آداب و مراتب کے لحاظ سے یہی وہ مرحلہ ہے جسے مطالعہ نسلیات کی زبان میں نسلی تفاوت کہا جاتا ہے۔ اس تناظر میں مولانا سید جلال الدین عمری مدظلہ‘ کا یہ فرمانا کہ ’’ جنریشن گیپ کا بار بار حوالہ دیا جاتا ہے ۔ میرا خیال ہے کہ اس کا مفہوم شاید کچھ لوگ ٹھیک سے سمجھ نہیں پا رہے ہیں ۔ جنریشن گیپ سے نظر یاتی بنیادوں پر قائم کسی بھی تحریک کی بنیادی فکر کبھی نہیں بدلتی۔ حالات اور زمانے کے لحاظ سے ترجیحات اور طریق کار میں تبدیلی آسکتی ہے ۔۔۔ اگر جنریشن کے بدل جانے سے فکری تبدیلیاں واقع ہوئی ہو تیں تو آج اسلام کی تعبیر و تشریح بالکل مختلف ہو تی ۔(سہ روزہ دعوت‘ 4 مئی 2015)
ڈاکٹر محی الدین غازی نے معلوم نہیں کس تناظر میں نسلوں کے درمیان بڑھتے ہوئے فاصلے کی بحث کو آگے بڑھاتے ہوئے لکھا ہے کہ ’’دور حاضر کا ایک بڑا چیلنج جنریشن گیپ یعنی بڑھتی ہوئی دوریاں ہیں ۔ گھر میں والدین اور اولاد کے درمیان‘ اسکولوں میں اساتذہ اور طلبہ کے درمیان ‘ معاشرہ میں بڑوں اور چھوٹوں کے درمیان اور دینی جماعتوں میں بزرگوں اور نوجوانوں کے درمیان۔‘‘ (ماہنامہ ’’رفیق منزل‘‘ مئی 2015)
جناب معین الدین صاحب نے جنریشن گیپ (Generation Gap) کے عصری تقاضوں کو بغیر کسی ادنیٰ تامل کے ان الفاظ میں بیان کر دیا ہے:
“He would have been totally within his right to excercise, this option, more so when a very fitting, legitimate and suitable alternative was straightway available. The only hitch by adopting this option would have been for the seniors and scholars in the Jamaat for working under a junior leader” ۔(Radiance viewsweekly 3-9-15)
تحریک اسلامی کی امارت کے انتخاب میں ’بزرگی ‘ اور ’نوجوانی‘ کے اوصاف کا لحاظ کر نے یا نہ کرنے کا معاملہ کب سے معیار انتخاب قرار پا گیا ہے ؟ جس کا پاس و لحاظ رکھنا اس قدر ضروری ہے کہ ’’خیر خواہان‘‘ جماعت کا پیمانہ صبر لبریز ہو گیا ہے ۔جبکہ دستور جماعت اسلامی ہند کے بموجب امیر جماعت کے انتخاب میں جن اوصاف کو پیش نظر رکھا جاتا ہے وہ یہ ہیں:
’’۱۔ وہ امارت یا کسی اور جماعتی منصب کا امیدوار یا خواہش مند نہ ہو۔
۲۔ علم کتاب و سنت ‘ تقویٰ ‘ دینی بصیرت ‘امانت و دیانت ‘ تدبر و اصابت رائے ‘ عزم و جزم‘ معاملہ فہمی اور قوت فیصلہ ‘ حلم و بردباری ‘ تحریک اسلامی کی مزاج شناسی اور اس سے وابستگی ‘ دستور جماعت کی پابندی ‘راہ خدا میں استقامت اور متعلقہ ذمہ داریوں کو انجام دینے کی صلاحیت کے لحاظ سے بہ حیثیت مجموعی جماعت میں سب سے بہتر ہو‘‘۔ (دستور جماعت دفعہ ۲۳؍)
راقم الحروف یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ صحت ‘ عمر اور ذہنی و فکری صلاحیت کے وہ کون سے عوامل ہیں جن کی خستہ حالی کا ڈھنڈورہ بعض زبان دراز اپنے پرچوں میں کر رہے ہیں ۔ کیا اس طرح کی چیخ و پکار کرنے والوں سے ہمارے سنجیدہ و باوقار رسالے بھی متأثر ہو گئے ہیں ؟
جن اوصاف کا مندرجہ بالا حوالہ دیا گیا ہے ان کے لحا ظ سے سب سے بہتر کے انتخاب میں اگر کسی سے کہیں چوک ہو گئی ہے تو فبہا ورنہ اس بحث کو طول نہ دیا جائے تو احسن ہو گا، ویسے بھی مرکز کی نئی ٹیم میں کافی نیا خون نظر آتا ہے اور خدانہ کرے کہ جماعت میں قحط الرجال کی صورتحال کبھی رونما ہو، اس لئے بقول علامہ اقبالؒ
نگہ‘ بلند، سخن دلنواز، جاں پر سوز
یہی ہے رخت سفر میر کارواں کیلئے
سید شکیل احمد انور، حیدرآباد
موبائل نمبر: 8121372324
جمہوریت سے انصاف کا سوال
ماہ مئی کا رفیق منزل اپنے مقرر وقت پر موصول ہوا۔ رسالہ میں تمام مضامین قابل غور اور قابل عمل ہیں۔ اِن مضامین میں طیب احمد بیگ کا مضمون ’’جمہوریت سے انصاف کا سوال‘‘ یہ ہندوستانی نظام عدلیہ کی عکاسی کررہا ہے، لہذا ہمیں انصاف کا علمبردار بن کر معاشرے کی تشکیل میں اپنا رول ادا کرنا ہوگا، اور مظلوم کو انصاف اور ظالم کو سزا کا حقدار بنانا ہوگا۔
ساتھ ہی آپ سے ایک شکایت کہ بہت لمبے وقت سے سہیل امیرشیخ جلگاؤں کی تحریر رفیق منزل سے ندارد ہے، لہذا آئندہ شمارے میں ان کا مضمون بھی شائع فرمائیں۔
شعیب اقبال خان،
عمر کھیڑ(مہاراشٹر)
بہترین رہنمائی
ماہ مئی کا ’رفیق منزل‘ الحمدللہ اپنے صحیح وقت پر موصول ہوا۔ تمام ہی مضامین پسند آئے۔ محترم جناب محی الدین غازی صاحب نے وقت کے سلگتے ہوئے موضوع پر رہنمائی کی ہے۔ سب سے قیمتی اور انمول بات جس کی طرف موصوف نے اشارہ کیا ہے وہ یہ ہے کہ ’’قرآن مجید کی سب سے طویل آیت ادھار لین دین کا سلیقہ سکھاتی ہے، اگر ہم اس کی تعلیمات سے اپنی زندگی کو آراستہ کرلیں تو شخصیت میں حسن پیدا ہوجائے۔
جناب مولانا امین عثمانی صاحب کی تحریر ’’فکر اسلامی کا بحران‘‘ امت مسلمہ کی موجودہ صورتحال کا تجزیہ ہے۔ دو عنوانات خاص طور سے فکروعمل کی دعوت دیتے ہیں۔ ’’فکری اثاثے سے استفادہ نہ کرنا‘‘ اور ’’تقلید میں شدت اور اجتہاد سے اجتناب‘‘ہیں۔ امید ہے اس طرز کی اور تحریریں بھی رفیق منزل کی زینت بنتی رہیں گی، ان شاء اللہ۔
جناب ابوبکرسباق سبحانی کی تحریر ’’ہاشم پورہ حادثے کا فیصلہ‘‘ زخموں پر نمک چھڑکتی ہوئی محسوس ہوئی۔ یہ تحریر ایک طرف جہاں ہمیں ہماری ملی ذمہ داریوں کا احساس دلاتی ہے وہیں ہماری سیاسی تدابیر پر بھی سوالیہ نشان لگاتی ہے۔ اہم بات برادرم نے یہ لکھی ہے کہ ’’ہاشم پورہ فیصلہ ہمیں اپنا احتساب کرنے کے لیے آواز دے رہا ہے۔ اس فیصلے میں ایسے بہت سے حقائق ہیں جو ہماری سنجیدگی اور ایمانداری پر سوالات اٹھا رہے ہیں‘‘۔ میرا اندازہ یہ ہے کہ سنجیدگی اور ایمانداری کسی وجہ سے جوش اور ولولہ کی نذر ہوگئی۔
علامہ حمیدالدین فراہیؒ کی شخصیت کم ازکم تحریکی حلقے میں ایک جانی پہچانی شخصیت ہونی چاہیے۔ مولانا فاروق خاں صاحب نے علامہ مرحوم کا بہت اچھا تعارف کرایا ہے، البتہ اگر تصانیف کے اردو تراجم کا بھی ضمناََ ذکر ہوجاتا تو بہتر تھا۔
جناب محمد عبداللہ جاوید صاحب نے ’’آپ کی باتیں‘‘ کے تحت ’’رسولؐ سے ایمانی تعلق کا اظہار‘‘ کے موضوع پر بہت جامع تحریر رقم کی ہے۔ اللہ آپ کو جزائے خیر دے، آمین۔ امید ہے محترم اسی طرح فکری رہنمائی کرتے رہیں گے۔
محمد معاذ، جامعہ ملیہ اسلامیہ۔ نئی دہلی
[email protected]
’’نئی نسل کا معمار۔۔۔‘‘
میرا رفیق منزل کا انتظار کرنا کسی صورت بھی حیرت کا سبب نہیں بن سکتا۔ تنظیم سے وابستہ ہر فرد کا رفیق کے ہرشمارے کا منتظر رہنا ایک فطری بات ہے۔ اس انتظار کی وجوہات مختلف ہوسکتی ہیں۔ رفیق سے رشتے کی بنیادوں میں بھی ہمارے درمیان اختلاف ہوسکتا ہے۔ رفیق سے میرا رشتہ علمی سے زیادہ جذباتی ہے اور مجھے اس رشتے پر فخر ہے۔ رفیق منزل کا ہر تازہ شمارہ کھولتے وقت جب رفیق کی پیشانی پر ٹکے اس سلوگن ’’نئی نسل کا معمار اور تعمیر وترقی کا داعی‘‘ پر نظر پڑتی ہے تو دل وذہن میں جذبات کی طوفانی لہریں اور امنگوں کے دیپ روشن ہونے لگتے ہیں۔ یہ سلوگن امیدوں کے کتنے دروازے وا کرتا ہے۔ لیکن پھر جانے کیوں لہریں کمزور پڑنے لگتی ہیں اور دیے مدھم۔
رفیق منزل ایک نظریاتی طلبہ تنظیم کا آرگن ہے، جو تنظیم ایک وژن رکھتی ہے، طلبہ برادری کے لیے جس کے پاس خوبصورت آئیڈیاز ہیں، جو سماج کے تعلق سے حسین خواب بھی رکھتی ہے اور ان کی تعبیر کے طریقے اور حوصلے بھی ۔رفیق منزل ایسی تنظیم کا ترجمان ہے، مگر مجھے یہ کہنے میں دقت محسوس نہیں ہورہی ہے کہ اب تک رفیق عام طلبہ برادری کی آواز اور ترجمان نہیں بن سکا۔ یہ صحیح ہے کہ پچھلے کچھ سالوں سے رفیق کے اندر اس جانب خاصی تبدیلی آئی ہے۔
ماہ مئی کا رسالہ دیکھ کر مجھے بے انتہا خوشی محسوس ہوئی۔ ’’ہاشم پورہ حادثے کا فیصلہ: پھر ماتم یا اب احتساب‘‘ ، ’’جمہوریت سے انصاف کا سوال‘‘ بہترین تجزیاتی مضامین تھے۔ ’’فکر اسلامی کا بحران‘‘ ایک فکر انگیز تحریر ہے،جو مسلمانوں کی موجودہ صورتحال کا جائزہ لیتی ہوئی مطلوبہ تبدیلی کے لیے نئے دروازے بھی کھولتی ہے اور اس موضوع پر گفتگو کو آگے بڑھانے کی مزید دعوت بھی دیتی ہے۔
’’آرٹس، ہیومنٹیس اور سوشل سائنس میں اسکالرشپ کے مواقع‘‘ مجھے لگتا ہے اس موضوع پر ’’اسکالر شپ کے مواقع‘‘ سے زیادہ ’’آرٹس، ہیومنٹیس اور سوشل سائنس‘‘ کی اہمیت پر گفتگو کو طلبہ کے درمیان عام کرنا چاہیے۔ خاص کر ایسے دور میں جہاں ایک طرف تو کارپوریٹ منڈیاں اٹھ رہی ہیں اور وہیں دوسری طرف طلبہ کے اندر ان میدانوں میں خاصی دلچسپی دیکھی جارہی ہے۔
نجم السحر، بدایوں (یوپی)