ٓٓٓٓآدمی قرآن کی روح سے پوری طرح آشنا نہیں ہونے پاتا جب تک کے وہ عملََا وہ کام نہ کرے جس کے لئے قرآن آیا ہے ۔یہ محض نظریات اور خیالات کی کتاب نہیں ہے کہ آپ آرام کرسی پربیٹھ کراسے پڑھیں اور اس کی ساری باتیں سمجھ جائیں۔یہ دنیا کے عام تصور مذہب کے مطابق ایک نری مذہبی کتاب بھی نہیں ہے کہ مدرسے اور خانقاہوں میں اس کے سارے رموز حل کر لئے جائیں ۔۔۔۔۔یہ ایک دعوت اور تحریک کی کتاب ہے ۔اس نے آتے ہی ایک خاموش طبع اور نیک نہاد انسان کو گوشۂ عزلت سے نکال کر خداسے پھری ہوئی دنیا کے مقابلے میں لا کھڑا کیا ۔باطل کے خلاف اس سے آواز اٹھوائی اور وقت کے علمبردارانِ کفر و فسق و ضلالت سے اس کو لڑا دیا۔گھرگھر سے ایک ایک سعید روح اور پاکیزہ نفس کو کھینچ کھینچ کر لائی اور داعئ حق کے جھنڈے تلے ان سب کو اکٹھّا کیا ۔گوشے گوشے سے ایک ایک فتنہ جو اور فساد پرور کو بھڑکا کر اٹھایا اور حامیان حق سے ان کی جنگ کرائی۔ ایک فرد واحد کی پکار سے اپنا کام شروع کر کے خلافت الہیہ کے قیام تک پورے ۲۳؍ سال یہی کتاب اس عظیم الشان تحریک کی رہنمائی کرتی رہی اور حق و باطل کی اس طویل و جاں گسل کشمکش کے دوران میں ایک ایک منزل اور ایک ایک مرحلے پر اسی نے تخریب کے ڈھنگ اورتعمیر کے نقشے بنائے ۔ اب بھلا یہ کیسے ممکن ہے کہ آپ سرے سے نزاع کفر و دین اور معرکۂ اسلام و جاہلیت کے میدان میں قدم ہی نہ رکھیں اور اس کشمکش کی کسی منزل سے گزرنے کا آپ کو اتفاق ہی نہ ہوا ہو، اور پھر محض قرآن کے الفاظ پڑھ پڑھ کر اس کی ساری حقیقتیں آپ کے سامنے بے نقاب ہو جائیں ۔اسے تو پوری طرح آپ اسی وقت سمجھ سکتے ہیں جب اسے لے کر اٹھیں اور دعو ت الی اللہ کا کام شروع کریں اور جس جس طرح یہ کتاب ہدایت دیتی جائے اس طرح قدم اٹھاتے چلے جائیں ۔ (سید ابوالاعلی مودودی علیہ الرحمۃ)
افسانچہ
دینداری
’’آپ کی ساری باتیں ٹھیک ہیں لیکن ہمیں تو اپنے عمل پر توجہ دینی چاہیے‘‘۔سامنے والے بزرگ صاحب نے میری ساری باتیں سن کر اپنے اختتامی کلمات سے طول پکڑ رہی ااس بحث کو رفع دفع کرنا چاہا ۔۔۔’’جی جی بالکل، پر بڑا ہی اچھا ہوتا اگر آپ مجھے عمل پر توجہ دینے والی بات سمجھا دیتے؟؟‘‘ میرے لہجے میں جاننے اور سمجھنے کی تڑپ نمایا ں تھی ۔ اب بزرگ صاحب نے مجھ سے ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے نصیحت کی ’’ دیکھو بیٹا یہ جو lower اور T-shirtآپ پہنے ہوئے ہیں ۔۔۔اور یہ جو آپ کے ہاتھ میں کیا کہتے ہیں اسے۔۔۔ہاں ۔۔laptopیہ سب چیزیں انگریزوں کی بنائی ہوئی ہیں ‘‘۔۔۔اسی وقت ایک نوجوان دوسری جگہ سے آکر ہمارے نزدیک والی سیٹ پر بیٹھنا ہی چاہ رہا تھا کہ بزرگ صاحب قریب رکھی ہوئی coca-colaکی خالی بوتل اٹھا کر جس کے ٹھنڈے امرت سے انہوں نے کچھ دیر پہلے ہی اپنے پیٹ کو سیراب کیا تھا، گویا ہوئے،’’ لو بھائی اسے رکھ، لو پھینکنا مت، اسٹیشن آئے تو پانی بھر لینا پینے کے کام آئے گا‘‘۔۔۔ہاں تو بیٹا میں کیا کہہ رہا تھا ۔۔۔یہ سب چیزیں یہودیوں اور انگریزوں کی بنائی ہوئی ہیں،ہمیں ان سب چیزوں سے بچنا چاہیئے۔
شہباز میرٹھی
انشائیہ
مستقبل کیا ہے ؟؟
استمرار حال !!
میرے خیال کو آج اس نے غلط ثابت کر دیا تھا ۔۔۔۔اس کا انداز پہلے کبھی ایسا نہیں تھا ۔وہ مجھ سے پہلے بھی بات کرتا تھا مگر باتوں کو محبت کی شبنم سے تر کرکے۔ میری لئے وہ ’’با مثال ‘‘ آدمی بھی تھا اور ’’بے مثال ‘‘ بھی ۔وہ میری خاطر جہان سے لڑ گیا ، میرے لئے اس نے سب سے دشمنی مول لے لی ۔یہ صحیح ہے کہ وہ پھر بھی میرا رازداں اور تنہائیوں کا ساتھی نہیں تھا مگر ذمہ دار شخص تھا۔ اس سے’’ دور ی ‘‘کے خیال میں بھی ڈر لگتا تھااور’’ قربت‘‘ میں بھی خوف محسوس ہوتا تھا۔۔۔۔میری زندگی میں میرے لئے سب سے قیمتی چیز میری سوچ تھی ، میرے اپنے خیالات۔ اس حسین دنیا کا باشندہ بننے کی سوچ ،زندگی کو ’’جینے‘‘ کی سوچ، کیونکہ میں کچھ’’ کرنے ‘‘کے لئے جینا چاہتا تھا وہ بھی ’’حال‘‘ میں ۔۔۔ لیکن آج وہ کہتا ہے کہ’’ مستقبل ‘‘ کے لئے کچھ’’ کرو‘‘ اور’’بنو‘‘۔۔۔ ۔۔ پرمیں اس کو کیسے کہوں کہ مستقبل کچھ نہیں ہے سوائے استمرار حال کے۔زندگی اور اس کو’’ جینا ‘‘تو صرف حال میں ہے مستقبل میں تو صرف ’’موت‘‘ ہے!!!!!
نجم السحر
شکوہ!
یا رب !!
تو تو کہتا ہے قادر ہے سب پر، بتا کیا ہے تری قدرت نمائی؟
تونے پیدا کیا، دنیا بنائی،
بس فقط بس!
تجھے کیا واسطہ اہل جہاں سے ،
تجھے تو واسطہ ہے بس عمل سے،
کبھی جھانکا کسی انساں کے دل میں؟
کبھی پوچھا کسی کی کیفیت کو؟
گزرتے کتنے موسم ہیں جگر پر؟
تڑپتا کیسے ہے دل ہر نظرپر؟
سوال !!!
بس اک سوال کرتا ہوں تجھ سے،
کہ آخر کیوں بنائی ہے جدائی؟
شب قربت، شب فرقت ہے کیونکر؟
اور انساں کی ہے کیونکر جگ ہنسائی؟
بتا ۔۔یا رب!میں تجھ سے پوچھتا ہوں، بتا میرے خدایا کیوں ؟
یہ آخر کیوں ؟
اگر قادر ہے تو سارے جہاں پر،
اگر غالب ہے تو ،
زمین و آسماں پر،
مری اک التجا سن لے خدایا!
مٹا دے فاصلہ اہل جہاں سے!
جدا کر دے’ جدائی‘کو جہاں سے!!
فخر الاسلام اعظمی
غزل
مرے درد دل مجھے یہ بتا کہ ستم کی ہے کوئی انتہا
وہ تو بے وفا مجھے کہہ گئے تونے باوفا مجھے کیوں کہا
میں نے عشق خار سے کر لیا نہ کیا سکون اور چین سے
مری زندگی غم و درد ہے مری دھڑکنوں نے ہے یہ کہا
مری زندگی میں ہیں لغزشیں، ہیں ڈگر ڈگر وہی ٹھوکریں
مجھے ٹھوکروں سے ہو کیا خطر، مجھے مرگ کا بھی نہ ڈر رہا
مجھے قتل کرنے جو آئے تھے وہی قتل ہو کر چلے گئے
میں یہ جان کر نہیں جانتا میں نے کیا کیا میں نے کیا کہا
مری آرزو مری جستجو،بس تجھے ہی ڈھونڈے تھی ہر نظر
جو خرد سے دیکھا تو کم ملا، تجھے دل سے دیکھا تو مل رہا
تو گلوں میں سبزے میں رونما، تو ہے پتے پتے میں جلوہ گر
تجھے ساری چیزوں میں پا لیا، نہیں تیری کوئی بھی انتہا
وہاں میکدے کا یہ حال تھا، جسے دیکھو اپنا خیال تھا
یوں شراب ساقی نے سب کو دی، نہ خیال ساغر کا کچھ رہا
ساغر بدایونی
بچپن
ہا ہا ہا ہا۔۔۔۔سنسان آبادی میں ان دونوں کے قہقہے ماحول کو اور دلکش بنا رہے تھے۔ دونوں سفید فراک میں ملبوس برف کے ننھے ننھے گولے ایک دوسرے پر اچھال رہی تھیں۔ اس وقت دونوں صبح کے دو ستاروں کی مانند دکھ رہی تھیں۔ اسی دوران شیما نے شرارتاََ ایک ننھا برف کا گولا ایمن کے گال پردے مارا۔ ایمن زور زور سے رونے لگی ۔جس کو سن کر اس کی ممی باہرآ گئیں اور شیما کو ڈانٹ دیا۔ اب شیما بھی رونے لگی ۔ دونوں کی ماؤوں میں بحث ہونے لگی۔ نوبت لڑائی تک پہنچ گئی، تبھی شیما کی ماں کی نظر ان دونوں پر پڑی اور پھر وہ کچھ نہ کہہ سکیں ۔۔۔۔شیما اور ایمن دور کھڑیں ایک بار پھر سے ایک دوسرے پر برف کے ننھے ننھے گولے پھینک رہی تھیں ۔ پھر وہی دلنشیں قہقہے ہوا میں بلند ہو رہے تھے۔۔۔۔
اسامہ اکرم