میری رائے میں جی ایس ٹی باہمی تعاون پرمبنی وفاق نہیں بلکہ جبری وفاق کی بدترین مثال ہے۔ جوبھارت کے فیڈرل اسٹرکچر ا ور ریاستوں کے اٹونومی کو گروی رکھنے والا قدم ہے۔
بھارت کے پلان ڈیولپمنٹ کی کامیابی کی کہانی میں زرعی اصلاح اور سبز انقلاب بہت اہم ہے۔بھارت گاؤں اور زرعی ملک ہونے کے باوجود غذائی قلت کاشکار رہا اور بڑھتی آبادی نے اس مسئلہ کو
گاندھی اور نہرو کے معاشی خیالات میں اختلاف تھا۔ نہرو شروع ہی سے فیبن سوشلزم کے مداح تھے۔ لہذا ان کے نزدیک بھارت کی معاشی بہتری کے لئے صرف معاشی ترقی کافی نہیں تھی بلکہ معاشی اور سماجی ترقی کے لئے
بے روزگاری کی شرح میں کمی کا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ مایوس اور حوصلہ شکن لوگوں نے نوکریوں کی تلاش چھوڑ دی ہے اور اس وجہ سے وہ اب لیبر فورس کا حصہ نہیں ہیں۔
اب سوال یہ ہے کہ امیر ممالک اور امیر کمپنیاں غریب یا ترقی پذیر ممالک کو قرض کیوں فراہم کرتے ہیں حالانکہ ان کے اپنے ملک میں سرمایہ کاری (Investment) کے اتنے ذرائع پائے جاتے ہیں؟
افراطِ زر یا تو مجموعی طلب میں اضافے یا مجموعی رسدکی فراہمی میں ناکامی یا دونوں کا نتیجہ ہے۔ لہذا، توازن لانے کے لیے، ماہر اقتصادیات کو طلب اور رسد(demand-supply) کے دونوں پہلوؤں پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔
کسی بھی معیشت کی ترقی اور معاشرے کی خوشحالی کے لیے ضروری ہے کہ وہاں نہ صرف ٹیکس کا نظام شفاف ہو بلکہ ٹیکس کی شرح بھی کم ہو۔ جب ٹیکس کی شرح کم ہوتی ہے تو عوام کی
جی ایس ٹی نظام ایک انتہائی پیچیدہ نظام ہے اوربالواسطہ ٹیکس ڈھانچے میں سے ایک ہے۔ ہندوستان کی ٹیکس کی شرح دنیا کی دوسری سب سے زیادہ شرح ہے۔ جی ایس ٹی میں 5 درجوں کے tax slab ہیں جس میں رسد کے لئے زیروٹیکس کی شرح ، ٹیکس میں چھوٹ اور Input Tax…