0

غزل

فطرت کی کانِ سنگ کا حاصل نہیں ہوں میں
پگھلوں نہ غم سے کیوں کہ ترا دل نہیں ہوں میں

دِل میں جو ہے خیال لگا ہے وہ جاں کے ساتھ
ہر فکرِ نو رسیدہ کی منزل نہیں ہوں میں

یہ عزم ہے کہ میں رُخ دریا کو پھیر دوں
اس رَو پہ بہنے والوں میں شامل نہیں ہوں میں

انجام کوہکن سے ڈرانا مجھے عبث
جینے پہ جان دینے کا قائل نہیں ہوں میں

سچ ہے کہ مجھ میں خوئے گدائی کی بو نہیں
ہاں تیرے التفات کے قابل نہیں ہوں میں

آساں ہے ہجر بھی مجھے توہین عشق سے
طالبؔ تو ہوں ضرور پہ سائل نہیں ہوں میں

سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ طالبؔ

غزل

متاع زندگی کو بیچ ڈالا
کہ انساں نے خودی کو بیچ ڈالا
اسے آواز دی خود منزلوں نے
کہ جس نے بزدلی کو بیچ ڈالا
خرد کی توڑ دی دیوار بڑھ کر
جنونِ آگہی کو بیچ ڈالا
دعا ہوجائے گی مفلوج تیری
اگر تردامنی کو بیچ ڈالا
اندھیرے بن گئے اس کا مقدر
کہ جس نے روشنی کو بیچ ڈالا
سمندر کی حقیقت کچھ نہیں پھر
اگر دریادلی کو بیچ ڈالا
ستاروں تک پہنچ کر آدمی نے
عروجِ آدمی کو بیچ ڈالا
یہ کیا افلاس نے بخشا ہے تحفہ
ضمیرِ آدمی کو بیچ ڈالا
احسن فیروزآبادی،
ابوالفضل انکلیو، جامعہ نگر۔ نئی دہلی
9917558576موبائل نمبر:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Verified by MonsterInsights