امید ہے بخیروعافیت ہوں گے۔
ماہ جون ۲۰۱۵ ء کا رفیق منزل موصول ہوا، شکریہ۔
ابوالاعلی سید سبحانی کا اداریہ ’’اپنی باتیں‘‘ (صفحہ:۵)دل کو چھوگیا۔
علاوہ ازیں صفحہ ۳۹؍پر مولانا ڈاکٹر محمد عنایت اللہ اسد سبحانی کا تبصرہ دل کو ایک سکون دیتا ہے کہ ’’اس تحریک (تحریک اسلامی) کی جڑیں سینکڑوں شہداکے خون سے سیراب ہوچکی ہے‘‘۔ (صفحہ ۳۹؍ رفیق منزل، جون ۲۰۱۵)
جناب عبداللہ جاوید صاحب کا مضمون ’’تقوی کے رنگ میں رنگ جائیے‘‘ بھی پسند آیا۔
والسلام
فاروق عبداللہ فضاؔ
’’آپ کی باتیں‘‘
ماہ جون کا شمارہ دیکھا۔ کورپیج بہت ہی دیدہ زیب تھا، ’تقوی کے رنگ میں رنگ جائیے‘‘۔ جناب عبداللہ جاوید صاحب کا یہ مضمون تقوی کے اوپر بہت ہی کارآمد تحریر ہے۔ جناب ڈاکٹر محی الدین غازی صاحب کی تحریر ’’مذہبی تشدد: ایک خطرناک بیماری‘‘ بہت ہی اہم اور مفیدہے۔ موصوف تحریر کا کیا خوب آغاز کرتے ہیں: ’’تشدد کا پھل کڑوا ہوتا ہے، خواہ کیسا ہی تشدد ہو، بسا اوقات تشدد کے خلاف آواز بلند کرنے والے خود تشدد میں ملوث پائے جاتے ہیں۔ تشدد کی بہت ساری قسمیں ہیں، لیکن مذہبی تشدد اس کی ایک زیادہ خطرناک قسم ہے۔ کیونکہ مذہبی تشدد انسانوں کے مسیحاؤں کو انسانوں کا قاتل بنادیتا ہے۔‘‘ اور آخر میں لکھتے ہیں: ’’مذہبی تشدد سوچنے سمجھنے کی صلاحیتوں کو ماؤف کردیتا ہے، ایسے لوگوں کے سامنے دلائل بے وزن اور اہل علم بے وقعت ہوجاتے ہیں۔ قرآن مجید غوروفکر کرنے کی دعوت اس لئے بھی دیتا ہے کہ مذہبی تشدد سے باہر آنے کا یہی ایک راستہ ہے۔‘‘ اللہ ہمیں ان باتوں کو سمجھنے اور ان کو عام کرنے کی توفیق عنایت فرمائے۔ آمین
سعید احمد ، نئی دہلی
ماہ جون کا شمارہ
ماہ جون کا شمارہ بہت ہی دیدہ زیب ٹائٹل کے ساتھ موصول ہوا، دیکھ کر بڑی مسرت ہوئی، اللہ ہماری جمالیاتی حس کو اسی طرح بیدار رکھے، آمین
دوتحریریں خاص طور سے پسند آئیں، محترم عبداللہ جاوید صاحب کی تحریر’’تقوی کے رنگ میں رنگ جائیے‘‘ اور محترم عنایت اللہ خاں صاحب کی تحریر ’’ماہ صیام اور تعمیر شخصیت کا الہی نظام‘‘۔ اللہ ان دونوں صاحبان کو جزائے خیر دے۔
برادرم شہباز انصاری نے اپنی تحریر ’’رمضان اور خدمت خلق‘‘ میں کچھ اس طرح اظہار خیال کیا ہے: ’’غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ روزے کی روح اور اس کی معنوی حقیقت فرد اور معاشرے میں زبردست تبدیلی ہے، جس میں محبت، اخوت، ہمدردی، تعاون، اور ایک دوسرے کی غمگساری اور خدمت خلق کا جذبہ بھی داخل ہے‘‘۔ مزید لکھتے ہیں کہ ’’روزہ بھوک پیاس کی سالانہ رسم نہیں بلکہ خدمت خلق کے لیے سالانہ ٹریننگ ہے‘‘۔ ان عبارات کو خالی الذہن ہوکر پڑھنے سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ روزہ دراصل معاشرے میں مثبت تبدیلی چاہتا ہے ، نیز یہ کہ دولت مندوں اور غریبوں کے بیچ کی خلیج کو دور کردینا روزے کے مقاصد میں شامل ہے۔ عرض یہ ہے کہ یہ سب ارشادات اپنی جگہ صحیح ہیں لیکن یہ سب روزے کی معنوی حقیقت اور اس کی روح نہیں ہیں۔ روزے کی اصل روح تزکیہ ہے، اور یہ تزکیہ تقوی کی صفت کے ساتھ لازم وملزوم ہے۔ ارشاد ربانی ہے: ’’اے لوگو! جو ایمان لائے ہو تم پر روزے فرض کیے گئے ہیں جیساکہ تم سے پہلے کے لوگوں پر فرض کیے گئے تھے تاکہ تم پرہیزگار بن جاؤ‘‘ ۔ (البقرۃ :۱۸۳) نبیؐ کا ارشاد روزے کے تعلق سے کچھ ا س طرح ہے: ’’بیشک ہر چیز کے لیے زکوۃ ہے، اور جسم کی زکوۃ روزہ ہے اور روزہ نصف صبر ہے‘‘ (ابن ماجہ) معلوم ہوا کہ اصل ہدف یہ احساس بیدار کرنا ہے کہ اللہ ہر حال میں ہمیں دیکھ رہا ہے اورہمیں اپنے ہر عمل کا اسے حساب دینا ہے، جب یہ احساس بیدار ہوجائے گا تو اعمال صالحہ کا بھی ظہور ہونے لگے گا، وماالتوفیق الا باللہ۔
ایک دوسرے رفیق برادم نورالمبین کی تحریر ’’نیا زمانہ نئے صبح وشام پیدا کر‘‘ نظر سے گزری۔ موصوف نے اس خیال کا اظہار کیا ہے کہ’’ قرآن مجید سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ رب العزت نے انسان کو دونوں راستے دکھا دیئے، اچھائی کا بھی اور برائی کا بھی‘‘۔ قرآن کریم کے حوالے سے یہ دعوی بے بنیاد ہے، قرآن کریم کا دعوی تو اس کے برعکس یہ ہے کہ ’’اور اللہ ہی کے ذمے ہے سیدھا راستہ بتانا، جبکہ راستے ٹیڑھے بھی موجود ہیں‘‘ (سورۃ النحل: آیت:۹) صحیح بات یہ ہے کہ اللہ نے جنوں اور انسانوں کو آزادی اختیار دی ہے کہ صحیح راستہ اختیار کریں یا غلط، یہ آزادی دوسری مخلوقات کو نہیں دی گئی ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ اللہ رب العزت نے ہماری ہدایت کا بھرپور انتظام کیا ہے، اس حقیقت کی تکرار قرآن مجید میں بار بار ہوئی ہے۔ محتاط بات یہ ہوگی کہ ’’مطالعہ قرآن سے صحیح اور غلط راستے کا شعور بیدار ہوتا ہے‘‘ ۔ امید کہ برادرم نظرثانی کریں گے۔
محمد معاذ، جا معہ ملیہ اسلامیہ۔ ای میل:
[email protected]