تکتی نگاہیں۔۔۔
مغربی تہذیب اور وہاں کے کلچر سے تو مجھے اوائل عمری سے ہی نفرت تھی۔ مغربیت سے بیزاری کا پہلو میری زندگی کے ہرشعبے میں نمایاں دکھائی دیتا تھا۔ حتی کہ میں اپنی ملازمت کے ڈریس یعنی کوٹ پینٹ پہننے میں بھی کراہت محسوس کرتا تھا۔ لیکن میرا بیٹا تھا کہ اسے مغرب کے ہر طریقے اور اسٹائیل میں عجیب سی اپنائیت اور فخر محسوس ہوتا تھا ۔ یہی وجہ تھی کہ وہ دن بدن مغرب زدہ ہوتا جارہا تھا ۔ یہ میری ہی خواہش تھی کہ اسے اعلیٰ تعلیم کے مواقع فراہم کرون، لیکن مجھے کیا علم تھا کہ اسی کے پیچھے اس کی یہ خواہش پل رہی تھی کہ وہ امریکہ جاکر پڑھائی کرے اور وہیں اپنا گھر بسائے۔ اس کی یہی خواہش میرے لئے زخم جگر ثابت ہوئی۔
میرے لاکھ منع کرنے کے باوجود وہ اپنی بات پر اڑا رہا۔ اب چونکہ اس کی اس خواہش میں اس کی ماں کی خوشیاں بھی پنہاں تھی۔ اس لئے میں اس معاملے کو لے کر تھوڑا سرد پڑگیا۔ میں نے اسے پڑھائی کی غرض سے امریکہ جانے کی اجازت دے دی۔
امریکہ جانے کے بعد وقفے وقفے سے وہ ہمیں فون بھی کرتا رہا۔ اب ہمارے لئے یہی باعث تاب وتواں ہوتا کہ وہ ہمیں مہینے میں ایک آدھ بارفون کردیتا ہے اور کچھ روپئے پیسے بھجوادیتا ہے۔
اسی طرح پانچ سال گزر گئے ۔ یہاں میری عمر دراز ہونے کی وجہ سے میں نوکری سے دستبردار ہوچکا تھا۔ جبکہ وہاں میرے بیٹے کے قدم جم گئے تھے اور اچھا خاصا کمانے لگا تھا۔ اس نے ہمیں امریکہ بلوالیا۔ جانا تو میں نہیں چاہتا تھا مگر ذریعہ معا ش نہ ہونے کی وجہ سے مجبوراً جانا پڑا۔
وطن عزیز سے دوری اور دوستوں وعزیزوں سے دور رہ کر مغرب کی فضاؤں میں وقت گزارنا مجھے کافی کٹھن معلوم ہورہا تھا۔ ایک ہی گھرمیں رہنے کے باوجود ہم اپنے بیٹے سے صحیح سے نہ بات چیت کرسکتے تھے اور نہ ہی تفصیلی ملاقات۔کیونکہ وہ صبح سویرے اٹھ کر آفس کے لیے نکل پڑتا تھا،اور پھر دیررات تھکا ماندہ لوٹ کر آتا تھا۔ اور چھٹی کے دن پکنک کا بہانہ کرکے نکل پڑتا تھا۔
اس طرح کی زندگی سے عاجز آکر ہم نے اعتراض کیا کہ یاتو وہ خود ہمارے ساتھ اپنے وطن واپس چلے یا اس کا کوئی اور حل نکالے۔ میرے بارہا اصرار کرنے پر اس نے حامی بھرلی۔
اورآج ہم اسی اولڈ ایج ہوم کے روم میں ہیں۔ جس میں ہم گزشتہ تین سالوں سے رہ رہے ہیں۔ ہماری نظر یں آج بھی کھڑکی پر ٹکی ہوئی ہیں۔ حالانکہ ہمارا بیٹا ہم سے ملنے مہینے میں صرف ایک بار ہی آتا ہے لیکن پھر بھی ہماری نظریں سڑک سے گزرتی ہوئی گاڑیوں کے نمبر پلیٹ پررُک جاتی ہیں کہ کہیں یہ ہمارے بیٹے کی گاڑی تو نہیں ہے۔
از قلم:سفیان قادری
’’جماعت کے اندر جماعت بنانے کی کوشش کبھی نہ کی جائے ۔ سازشیں جتھہ بندیاں،نجوی ،عہدوں کی امید واری، حمیت جاہلیہ اور نفسانی رقابتیں ، یہ وہ چیزیں ہیں جو ویسے بھی جماعتوں کی زندگی کے لئے سخت خطر ناک ہیں۔ اسی طرح غیبت اور تنابز بالا لقاب اور بدظنی بھی جماعتی زندگی کے سخت مہلک بیماریاں ہیں۔ جن سے بچنے کی ہم سب کو کوشش کرنا چاہئے‘‘۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مولانا سید ابولاعلیٰ مودودی علیہ الرحمۃ(ماخوذ:روداد اجتماع اول)
ہمارے لئے کامیابی کی مشکل شرط یہ ہے کہ ہم لوگ دوسروں کی اٹھائی ہوئی غلط رو میں بہنے سے پرہیز کریں، غلط الفکر عناصر کے ٹیڑھے اندازِ گفتگو کو نہ اپنائیں اور نہ کسی کی ’’حمایت برائے حمایت‘‘ اور نہ ’’مخالفت برائے مخالفت‘‘کریں۔
جو چیز بھی سیاست میں مروج اور مقبول ہوتی نظر آئے اپنے پچھلے اور موجودہ موقف کو بھول بھلا کر اس نئی چیز کا علم نہ اٹھالیں۔ یا اپوزیشن لیڈروں کی زیادہ تعداد جدھر جارہی ہو ادھر ہی نہ چل دیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مولانا سید ابولاعلیٰ مودودی علیہ الرحمۃ(ماخوذ:تحریکی شعور)
Smile Please….! 🙂
* گاندھی جی جب گول میز کانفرنس کے سلسلے میں لندن پہنچے تو ایک برطانوی اخبار کے نمائندے نے بطور طنز ان سے سوال کیا:
’’ہندوستان نے آپ کو اپنی نمائندگی کے لئے کیوں منتخب کیا؟ کیا آپ سے بہتر نمائندہ انہیں نہیں مل سکتا تھا؟‘‘
گاندھی جی اپنے مخصوص اندا زمیں ہنس کر بولے:
’’شاید یہ بات ہو کہ ان کے خیال میں مجھ جیساکم عقل آدمی ہی برطانیہ کے مقابلے میں بھاری ہوسکتا ہے۔‘‘
* سرسید ایک بار ریل گاڑی میں سفر کررہے تھے۔ انہی کے ڈبے میں ہائی کورٹ کے ایک جج بھی سفر کررہے تھے۔ کسی بات پر دونوں کی آپس میں تکرار ہوگئی۔ بات تُوتُو میں میں تک پہنچ گئی، اور جج نے کہا:
’’معلوم نہیں میں کون ہوں؟ میں ہائی کورٹ کا جج ہوں۔‘‘
اس پر سر سید نے کہا :
’’میں جج کا باپ ہوں۔‘‘(سرسید کے بڑے بیٹے کا نام سید محمود جج تھا)
* ٹیچر:کسی ایسی جگہ کا نام بتاؤ جہاں بہت بھیڑ ہو لیکن تم اپنے آپ کو بہت اکیلا محسوس کرو۔
طالب علم:امتحان ہال۔
غَزل
نہ ملنے ملانے کو جی چاہتا ہے
نہ دوری مٹانے کو جی چاہتا ہے
بہت بے وفا ہو گیا ہے زمانہ
غم دل سنانے کو جی چاہتا ہے
جو نغمہ سنا یا حبیب خدا نے
وہ نغمہ سنانے کو جی چاہتا ہے
بہت دن ہوئے تم سے بچھڑے ہوئے ماں
ترے پاس آنے کو جی چاہتا ہے
رواں میری آنکھوں سے ہیں اب بھی آنسو
مگر مسکرانے کو جی چا ہتا ہے
جہاں نفرتوں سے ہو نفرت سبھی کو
وہ بستی بسانے کو جی چاہتا ہے
جو تاریکیوں کو مٹادے جہاں سے
وہ شمع جلانے کو جی چاہتا ہے
مجسمؔ جہاں اہل دل کی ہو محفل
وہیں دل لگانے کو جی چاہتاہے
محمد مجسم ؔ حسین
میرا مقصد
میرا مقصد میرا منصب دولتِ اسلام ہو
میرا مرنا میرا جینا عظمتِ اسلام ہو
ذکر ہو گھر گھر خدارا اک ترے ہی دین کا
اور ہر اک کی زبان پر رغبت اسلام ہو
زندگی کا ہے میری بس یہی اک فیصلہ
میں کروں گر دینیِ خدمت اسلا م ہو
فیض اس کو کوئی طاقت بھی گر اسکتی نہیں
جس کے خوں میں رقص کرتی قوتِ اسلام ہو
طلحہ فیض