ہوشمند، فکرمند، جرأتمند

1

(تحریک اسلامی ہند کے ایک عظیم کارکن ابوالبشائر محمد علی الشرقی کے سانحۂ ارتحال پرلکھی گئی تحریر)
ابوالاعلی سید سبحانی
گزشتہ دنوں ماہ ستمبر کے اواخر میں ایس آئی او آف انڈیا کی مرکزی مشاورتی کونسل (سی اے سی) کے اسٹڈی اجلاس کے بعد ابھی کیرلا ہی میں قیام تھا کہ ۳۰؍ستمبر کی شام سابق صدرتنظیم ایس آئی او آف انڈیا برادر محترم بشرالدین شرقی نے فیس بک پر یہ افسوسناک خبر دی کہ موصوف کے والد محترم استاذ ابوالبشائر محمد علی شرقی آج اس دارفانی سے کوچ کرگئے، اناللہ وانا الیہ راجعون۔
مرحوم شرقی جماعت اسلامی ہند کے ایک عظیم کارکن تھے، وہ ان کمیاب، بلکہ نایاب لوگوں میں سے تھے جن کی شخصیت فکرو عمل کا ایک خوبصورت مجموعہ ہوتی ہے، جو اپنی شخصیت، اپنے افکار وخیالات اور اپنی عملی جدوجہد کے نتیجے میں جہاں بھی رہتے ہیں ایک نمایاں اور ممتاز مقام رکھتے ہیں۔
فکری اور عملی قحط سالی کے اس دور میں استاذ شرقی ہوشمندی، فکرمندی اور جرأتمندی کا ایک جیتا جاگتا نمونہ تھے۔ زندگی ایک سفر ہے، یہ بات بارہا کہی اور سنی جاتی ہے، تاہم کم ہی لوگ ہوتے ہیں جو اس سفر کو اس قدر دلچسپ اور مفید بنانے میں کامیابی حاصل کرپاتے ہیں۔ ان کی زندگی ہوشمندی، فکرمندی اور جرأتمندی کا ایک بہت ہی دلچسپ سفر تھی۔ ان کا خاندان وہاں کے مروجہ سنی مکتب فکر سے تعلق رکھتا تھا، تاہم ان کا مطالعہ اور غوروفکر اُنہیں سنی مکتب فکر سے مطمئن نہیں کرپارہا تھا، ذہن میں رہ رہ کر ایسے سوالات اٹھتے تھے جن کا تشفی بخش جواب بار بار کی کوششوں اور محنتوں کے بعد بھی نہیں مل پارہا تھا، چنانچہ عین شباب ہی میں انہوں نے سنی مکتب فکر سے مایوس ہوکر بہت ہی جرأتمندی کے ساتھ اس سے علیحدگی اختیار کرنے کا فیصلہ کرلیا، جس کے نتیجے میں کافی آزمائشوں اور تکلیف دہ حالات کا سامنا بھی کرنا پڑا۔
سنی مکتب فکرسے انہیں اصل اختلاف عقائداور کچھ رسوم ورواج کو لے کر تھا، بالخصوص شرکیہ رسومات سے انہیں شدید اختلاف تھا، چنانچہ اس سے علیحدگی کا اعلان کرتے ہوئے سلفی مکتب فکر سے وابستہ ہوگئے، لیکن وہاں بھی انہیں اطمینانِ قلب کی دولت نصیب نہ ہوسکی۔ اس دوران مستقل تلاشِ حق کا سفر جاری رہا، بالآخر اپنے غوروفکر اور مطالعہ کے نتیجے میں جماعت اسلامی میں شمولیت اختیار کرنے کا فیصلہ کرلیا، جس پر تادم حیات قائم رہے۔
مرحوم جماعت اسلامی ہندسے گہری وابستگی رکھتے تھے، جماعت اسلامی حلقہ کیرلا کی اہم علمی وفکری شخصیات میں آپ کا شمار ہوتا تھا، جماعت کے قائم کردہ معروف علمی ادارے الجامعہ الاسلامیہ شانتاپرم کے تدریسی شعبے سے بھی کافی دنوں تک وابستہ رہے۔ آپ نے وفات سے قبل جو وصیت نامہ تحریر کیا، اس سے جماعت اور قائدین جماعت سے آپ کے والہانہ لگاؤ کا اظہار ہوتا ہے۔ آپ کی وصیت تھی کہ نماز جنازہ امیر جماعت پڑھائیں گے، ان کی عدم موجودگی میں امیرحلقہ پڑھائیں گے۔ چنانچہ امیر جماعت کو تو نہیں بلایا جاسکا، البتہ امیرحلقہ اور دیگر ذمہ دارانِ حلقہ مرحوم کے گھر تشریف لائے، امیرحلقہ نے نماز جنازہ بھی پڑھائی، اور نماز سے قبل مرحوم کی شخصیت اور خدمات سے متعلق وہاں موجود مجمع کے سامنے اپنے تأثرات کا اظہار بھی کیا۔
مرحوم نے عین شباب میں اپنے مسلک یا مکتب فکر کی تبدیلی کے سلسلے میں جس ہوشمندی، فکرمندی اور جرأتمندی کا ثبوت پیش کیا تھا، یہ آپ کی شخصیت کا امتیاز بن گیا، جس پرتادمِ حیات قائم رہے، خواہ آپ کی تدریسی زندگی ہو یا تحریکی، آپ کی ذاتی زندگی ہو یا معاشرتی، ہمیشہ آپ نے اُسی ہوشمندی، اُسی فکرمندی اور اُسی جرأتمندی کا مظاہرہ کیا۔
بنیادی طور سے آپ ایک معلم تھے، اپنی ۶۷؍ سالہ عمر کے تقریباََ ۴۷؍سال تدریس میں لگائے، اور وفات سے پانچ ماہ قبل تک تدریسی فرائض انجام دیتے رہے۔ جب بھی کسی طالب علم نے کچھ پڑھنے کی درخواست کی کبھی منع نہیں کیا، جب تک کالج میں رہتے وہاں طلبہ اور اساتذہ آپ سے مستفید ہوتے رہتے، گھر آتے تو فون پر بھی درس وتدریس کا سلسلہ جاری رہتا۔ یہ جان کر بہت ہی تعجب ہوتا ہے کہ ایک شوقین نوجوان جو آپ تک آکر نہیں پڑھ سکتا تھا، اس کوآپ نے ’النحوالواضح ‘ (عربی گرامر) کے ۶؍ طویل حصے فون پر پڑھائے۔ عربی گرامر (نحو وصرف) میں خاص مہارت اور گہری نظر رکھتے تھے، عربی گرامر کو مطالعہ قرآن اور فہم قرآن کی ایک اہم کلید کہتے تھے، فقہ اسلامی پر بھی اچھی نظر تھی، عقائد سے شروع سے دلچسپی رہی۔ قرآن مجید کا خوب مطالعہ کرتے اور اس کی ایک ایک آیت پر ٹھہر ٹھہر کر غوروفکر کرتے۔ ہر چیز کے بارے میں اپنی ایک سوچی سمجھی رائے رکھتے تھے، اور اس رائے کے اظہار میں بہت ہی جرأتمندی کا مظاہرہ کرتے تھے۔
آپ کی شخصیت میں تخلیقی اور مجتہدانہ عنصر نمایاں تھا، نئے نئے پہلوؤں سے آزادی کے ساتھ غوروفکر کرنا، اور بہت ہی جرأتمندی کے ساتھ اپنے خیالات کو پیش کرنا شخصیت کا نمایاں وصف تھا۔ ویسے تو نحووصرف کے ماہر مانے جاتے تھے، تاہم دوسرے علوم شرعیہ پر بھی گہری نظر رکھتے تھے۔ کیرلا میں بعض لوگ آپ کے علمی وتحقیقی ذوق اور جرأتمندی کا موازنہ والد محترم ڈاکٹر محمد عنایت اللہ اسد سبحانی سے کرتے ہیں، دونوں ہی شخصیات الجامعہ الاسلامیہ شانتاپرم سے کافی مدت تک وابستہ رہیں، یقیناًبعض امور میں، بالخصوص ہوشمندی، فکرمندی اور جرأتمندی میں دونوں کے درمیان کافی مشابہت پائی جاتی ہے۔ مرحوم والدمحترم سے بے پناہ محبت اور عقیدت رکھتے تھے، جب بھی الجامعہ شانتاپرم تشریف لاتے والد محترم سے بالالتزام ملاقات کرتے، اپنا تازہ کلام بھی ساتھ لے کر آتے، مختلف علمی وفکری امور میں مشورہ بھی کرتے۔
عربی گرامر (نحووصرف) کے سلسلے میں موصوف کی رائے تھی کہ اس میں بعض بڑی غلطیاں، لفظی بھی اور فنی بھی، درآئی ہیں، اور وہ نحووصرف کی بعض اہم ترین کتابوں کا حصہ بھی بن گئی ہیں، آخری ایام میں ’تعدیلات فی قواعد اللغۃ‘ کے نام سے عربی زبان میں باقاعدہ ایک کتاب بھی تصنیف کی، اس کتاب میں آپ نے الفیۃ ابن مالک، شذالعرف، اور النحوالوافی وغیرہ پر تنقیدی گفتگو کی ہے۔ آپ نے اس کتاب میں نحووصرف کی تدریس کے رائج اسلوب پر بھی شدید تنقید کی ہے، یہ کتاب ابھی اشاعت کے مرحلے میں تھی کہ آپ اس دارفانی سے کوچ کرگئے۔
قرآنی آیات کی تفسیر کے سلسلے میں بھی ان کی اپنی سوچی سمجھی رائے ہوا کرتی تھی، مثال کے طور پر قرآن مجید کی سورۃ العصر میں ’الصبر‘ کا لفظ آیا ہے، مفسرین اس کے سلسلے میں مختلف رائے رکھتے ہیں، آپ کہا کرتے تھے کہ صبر کمزوری کی حالت کا نام نہیں ہے، بلکہ یہ ایک اسٹریٹجی ہے جو مومنین باہمی مشورے سے طے کرتے ہیں، اور اس کے لیے باہمی مشورہ اس لیے لازم ہے کہ اس کے ساتھ ’تواصی‘ کا لفظ آیا ہے۔ اسی طرح مفسرین جگہ جگہ لکھتے ہیں کہ یہ لفظ قرآن میں زائد ہے، آپ کہا کرتے تھے کہ قرآن مجید میں کوئی حرف یا لفظ زائد نہیں ہے، اور اس کی بہترین توجیہ پیش کرتے تھے، مثال کے طور پر ’لاأقسم بھذا البلد‘ میں مفسرین کہتے ہیں کہ ’لا‘ زائد ہے، آپ اس کے برخلاف اس کی توجیہ وتاویل کرتے تھے۔ ہمیشہ نصیحت کیا کرتے تھے کہ فہم قرآن کے لیے عربی گرامر کا اچھا علم ضروری ہے، عربی گرامر سے اچھی واقفیت کے بغیر آپ قرآن مجید سے کماحقہ استفادہ نہیں کرسکتے، چنانچہ بقول ان کے صاحبزادے استاذ بشیرالدین شرقی کے ’’نہ صرف کالج میں اپنے طلبہ کو بلکہ گھر میں بچوں اور بچیوں کو بھی نحووصرف میں مہارت حاصل کرنے کی تلقین کیا کرتے تھے‘‘۔ تلاوتِ قرآن کے سلسلے میں بھی بہت ہی حساسیت رکھتے تھے، دیکھا جاتا ہے کہ بعض جدید تعلیم یافتہ مقررین کے یہاں خطبوں اور تقریروں کے دوران آیات کے اعراب وغیرہ پر بہت زیادہ توجہ نہیں دی جاتی، وہ اس کے بارے میں بہت ہی حساس تھے، خطیبوں کو مشورہ دیتے کہ قرآنی آیات اگر صحیح سے نہ یاد ہوں تو محض ترجمے پر اکتفاء کریں، غلط تلاوت آیات کسی بھی صورت صحیح نہیں۔
علم حدیث سے بھی دلچسپی رکھتے تھے، کہا کرتے تھے کہ اگر قرآن مجید کا گہرا مطالعہ ہو، اور اسلامی روح کا صحیح فہم حاصل ہو، تو پھر فن جرح وتعدیل کی کوئی خاص ضرورت باقی نہیں رہ جاتی، قاری کو خودبخود اندازہ ہوجائے گا کہ یہ قول شانِ رسالت اور پیغامِ رسالت سے ہم آہنگ ہے یا نہیں۔
فقہ اسلامی پر بھی اچھی دسترس رکھتے تھے، تقلیدی رجحان کے سخت مخالف تھے، اورجدید فقہی مسائل کے سلسلے میں اجتہاد کے قائل تھے۔ خاص طور سے کیرلا کے تناظر میں آپ کے یہاں منفردقسم کی فقہی آراء پائی جاتی تھیں۔
علمِ عقائد سے دلچسپی عین جوانی میں ہوئی، سنی سے سلفی مکتب فکر، اور سلفی مکتب فکرسے جماعت اسلامی تک کے سفر کی بنیاد عقیدے سے متعلق مسائل ہی تھے، جماعت اسلامی سے وابستگی اختیار کی تو ان دنوں جماعت اسلامی کے خلاف اعتراضات اور الزامات کا بازار گرم تھا۔ جماعت پر مناظرے ہوتے تھے اور صورت حال کے پیش نظر جماعت کے افراد بھی ان مناظروں میں شریک ہوتے تھے، اُس وقت نہ جانے کتنے مناظروں میں شرکت کی، بلا کی ذہانت اور حاضر جوابی تھی، گھنٹوں گفتگو کرلیا کرتے تھے، سنی اور سلفی لٹریچر پر بہت ہی گہری نظر تھی، ایک مرتبہ توحید کے اوپر مناظرہ ہوا توپانچ گھنٹے تک لگاتار توحید کے موضوع پر خطاب کیا۔ ایک دفعہ مناظرے کے لیے گئے تو معلوم ہوا کہ آج مخالفین کا منصوبہ ہے کہ وہ لاؤڈ اسپیکر خراب کردیں گے اور آپ کو نہیں بولنے دیں گے، چنانچہ آپ نے پلاننگ کے ساتھ لاؤڈ اسپیکر کچھ دور ایک محفوظ مقام پر سیٹ کرادیا، اور کارکنان کو ہدایت کی کہ وہ جیسے ہی اسٹیج پر کھڑے ہوں گے، استاذ ٹی کے عبداللہ کا کیسٹ آن کردیا جائے، چنانچہ لاؤڈ اسپیکر ایک محفوظ مقام پر رکھ دیا گیا، اور مقررہ وقت پر استاذ ٹی کے عبداللہ کا کیسٹ چلادیا گیا اور اس کے مطابق آپ نے اسٹیج پر کھڑے ہوکر ایسی ایکٹنگ کی گویا آپ ہی تقریر کررہے ہوں، عوام بغیر لاؤڈاسپیکر کی یہ زوردار تقریر دیکھ کر حیران رہ گئے۔ اس طرح کے نہ جانے کتنے دلچسپ واقعات ہیں، جو آپ کی حکمت، شجاعت اور حوصلے کو بیان کرتے ہیں۔ آخر تک آپ کا معمول رہا کہ جب بھی آپ کو کہیں خطاب کے لیے بلایا جاتا، فوراََ تیار ہوجاتے۔
اصول پسندی استاذ شرقی مرحوم کا ایک نمایاں وصف تھا۔ دیسی چیزوں کا استعمال کرتے، امریکی اور اسرائیلی مصنوعات سے ہمیشہ مکمل طور سے اجتناب کی کوشش کرتے۔ مغربی کلچر اور مغربی روایات کے بھی سخت مخالف تھے۔
کفایت شعار تھے، غیر ضروری اخراجات اور اسراف سے سختی کے ساتھ منع فرماتے تھے۔ کالج میں طلبہ کاپیاں پھینک دیتے تو ان میں بچے ہوئے سادہ اوراق کو جمع کرکے خود استعمال کرلینے میں کوئی قباحت محسوس نہ کرتے۔
وہ سماج میں موجود غیر ضروری رسومات، پابندیوں اور تقلیدی رجحانات کے بھی خلاف تھے، کیرلا میں ایک سے زائد شادی کرنا سخت ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھا جاتا ہے، آپ نے اس رجحان کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے چار شادیاں کیں اورایک سے زائد شادی کی بہت ہی شاندار مثال قائم کی۔
مرحوم شرقی باذوق بھی خوب تھے۔ عربی زبان میں شاعری بھی کیا کرتے تھے۔ آپ کا مجموعہ کلام ’دیوان الشرقیات‘ کے نام سے منظرعام پر آچکا ہے۔
زبان کے استعمال کے سلسلے میں خواہ وہ ملیالم ہو، یا عربی اور انگریزی بہت ہی باذوق واقع ہوئے تھے، زبان کے اصول وقواعد کا سختی سے التزام کرتے تھے۔ الجامعہ شانتاپرم میں طلبہ واساتذہ کو عربی زبان میں گفتگو کی ترغیب دیتے تھے، اور ’یعنی، اعنی، تعنی ‘ جیسے الفاظ پر ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے کہتے کہ ’’آپ لوگ اللغۃ العربیۃ کی جگہ اللغۃ الیعنیۃ میں بات کرتے ہیں‘‘۔
آپ کے نام میں ’شرقی‘ کا اضافہ بھی آپ کی خوش ذوقی کا آئینہ دار ہے، کیرلا میں عام کلچر ہے کہ نام کے ساتھ خاندان کا نام ضرور لگایا جاتا ہے، پی کے، ٹی کے، کے ٹی، ٹی پی، یہ تمام وہاں کے خاندانوں کے نام کے شارٹ کٹ ہیں، مرحوم نے اپنے خاندان کے نام کے انگریزی شارٹ کی جگہ اس کا خوبصورت عربی ترجمہ کیا، اور اسے اپنے اور اپنے اہل خانہ کے ناموں کا جزو بنالیا، اور آج کیرلا میں، بالخصوص وہاں کے تحریکی حلقے میں شرقی خاندان اپنی ایک شناخت رکھتا ہے۔
بچوں کے نام بھی آپ کی خوش ذوقی کی گواہی دیتے ہیں، تمام ہی بچوں کے نام میں ’ب،ش،ر‘ کا استعمال پایا جاتا ہے، بشرالدین، بشیرالدین، مبشر، بشارت وغیرہ۔ آپ کا نام محمد علی تھا، شرقی کا اضافہ خاندان کے نام سے ہوا، اور پھر بچوں کے نام کی وجہ سے ’ابوالبشائر‘ کہے جانے لگے۔
بچوں کے ساتھ آپ کا عمومی رویہ بھی آپ کی خوش ذوقی کی علامت تھا، ساتھ میں فٹ بال کھیلتے، تفریح کرتے، ہنسی مذاق کرتے۔ وہ بچوں کے ساتھ کسی بھی قسم کے غیر ضروری گیپ کے خلاف تھے۔
گھر کا ماحول اسلامی بنیادوں پر استوار کیا تھا، یہی وجہ ہے کہ تمام ہی بچے بچیاں تحریک اسلامی سے وابستہ ہوئے، کوئی ایس آئی او کا کل ہند صدر تنظیم، کوئی زیڈ اے سی ممبر، کوئی ایس ایم سی (منتخب ممبرس کیمپ) میں شریک، کوئی سالیڈرٹی یوتھ موومنٹ میں فعال، کوئی جماعت میں سرگرم، اور کوئی جی آئی او میں متحرک۔ الغرض پورا گھر ایک مثالی تحریکی گھر بن گیا۔
جس طرح آپ کی زندگی اپنے آپ میں ایک پیغام اور تحریک تھی، اسی طرح آپ کی وفات بھی ایک پیغام اور تحریک بن گئی، وفات سے قبل آپ نے تین دن تک ہسپتال میں لیٹے لیٹے کینسر کی سخت تکلیف اور درد کے باوجود اپنے تمام بچوں کے نام الگ الگ تفصیلی وصیت لکھی، اس میں جہاں ہر ہر بچے کو اس کی ذاتی کمزوریوں پر متنبہ کیا، وہیں ہر ایک کے سامنے ایک مثالی زندگی کے کچھ رہنما اصول بھی پیش کئے۔

1 تبصرہ
  1. MohammedAbbas Ansari نے کہا

    مرحوم سے تین بار ابوظبی میں ملا تھا – بہت پیاری اور اللہ والی شخصیت کے مالک تھے – اللہ انکی مغفرت فرمائے

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Verified by MonsterInsights