نماز اور قربانی میں مناسبت

0


(علامہ حمید الدین فراہی ؒکی تفسیر سورۃ الکوثر سے اقتباس)


تلخیص و پیشکش: عبدالرحمان طاہر


نماز اور قربانی میں بہت سے پہلو ہیں جن کی طرف قرآن نے اشارے کئے ہیں لیکن یہاں ان سب کے بیان کرنے کی ضرورت نہیں ہے ہم ان دونوں کے صرف ان پہلوؤں کا تذکرہ کریں گے جن سے ان کی باہمی مناسبت واضح ہو ۔


ہر چند کہ قرآن نے ان کو صراحت کے ساتھ نہیں بیان کیا ہے لیکن جو شخص قرآن کی آیات اور ان کے کلمات کے باہمی نظم پر غور کرے گا وہ کسی طرح ان کا انکار نہیں کر سکتا۔ غور کرنے کے لئے اصلی چیز قرآن کے حسن نظم پریقین ہے ۔ تعجب ہے کہ جس قرآن میں یہ آیت بھی موجود ہے ’’اَفَلَا یَتَدَبَّرُونَ القُرْآنَ اَمْ عَلَی قُلُوبٍ اَقْفَالُہَا‘‘ (سورہ محمد،آیت 24،ترجمہ:کیا وہ قرآن میں غور نہیں کرتے یا ان کے دلوں پر تالے چڑھے ہوئے ہیں۔) اس پر غور و فکر کرنے سے کوئی شخص کیوں کر بے پروا ہو سکتا ہے۔ اس تمہید سے مقصود یہ ہے کہ سورہ کوثر میں خدا نے نماز اور قربانی کا ایک ساتھ ذکر کیا ہے اور یہ سورہ ہمیں دعوت دیتی ہے کہ ہم ان دونوں کی باہمی مناسبت پر غور کریں۔ ذیل میں ان دونوں کی باہمی مناسبت کے تمام پہلوئوں کی تفصیل کی جاتی ہے ۔


1۔نماز اور قربانی میں اس طرح کی مناسبت ہے جس طرح کی مناسبت ایمان اور اسلام میں ہے ۔ یہ اجمال ہے اس کی تفصیل سے پہلے تمہید ضروری ہے ۔
دین کی بنیاد علم اور عمل کی صحت پر ہے۔ علم یہ ہے کہ ہم اپنے رب کو پہچانیں اس کے ساتھ اپنے تعلق کو جانیں اور پھر اس معرفت سے کبھی غافل نہ ہوں۔ اس علم سے لازماً محبت اور شکر کی ایک قلبی کیفیت و حالت پیدا ہوتی ہے۔ اس قلبی کیفیت سے اعمال کا فیضان ہوتا ہے۔ اس طرح گویا علم و عمل میں وہی تعلق ہے جو اثر اور مؤثر ، اور ظاہر و باطن میں ہے ، یعنی علم ایمان سے تعلق رکھتا ہے اور عمل اسلام سے ۔پھر ایک دوسری حقیقت پر غور کرو !عمل جس طرح علم کا مقابل ہے اسی طرح قول کا بھی مقابل ہے ۔یعنی قول علم و عمل کے بیچ کی گھڑی ہے ۔ قول ارادہ کا اولین ظہور اور عمل کا عنوان و دیباچہ ہے ۔


اس تمہید کی روشنی میں نماز اور قربانی کے باہمی تعلق پر غور کرو۔ نماز ظاہر ہے کہ قول و اقرار ہے۔ یہ اٹھنا ،بیٹھنا ،جھکنا ،سجدہ کرنا ،ہاتھ اٹھانا ، انگلی سے اشارہ کرنا ،کیا ہے؟ یہ سب ادائوں کی زبان سے ہمارا قول و اقرار ہے۔ یہ ایمان کے بعد راہ اطاعت میں ہمارا پہلا قدم ہے ۔ یہ اعمال کے دروازہ کی کلید ہے ۔ اسی سند سے یہ تمام شریعت کے دروازہ کا عنوان قرار دی گئی ہے ۔ بکثرت آیات میں اسی حقیقت کی طرف اشارات کئے گئے ہیں مثلاً ’’الَّذِینَ یُوْمِنُونَ بِالْغَیْبِ وَ یُقِیمُونَ الصَّلاۃ۔۔۔الخ‘‘(سورۃ بقرہ،آیت 03 ، ترجمہ :جو غیب میںرہتے ہوئے ایمان لاتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں ) حضرت ابراہیمؑ کے قصوں میں اسی حقیقت کی پوری تشریح ہے ۔ انہوں نے اللہ تعالی ٰ کو اس کی صفت توحید کے ساتھ پہچان لینے کے بعد فرمایا’’اِنِّی وَجَّہْتُ وَجْہِیَ لِلَّذِی فَطَرَ السَّماواتِ وَ الَارْضَ حَنِیفَاً وَمَا اَنَا مِنَ المُشْرِکِین‘‘(سورۃ الانعام،آیت 79،ترجمہ:میں نے ہر طرف سے کٹ کر اپنا رخ اس ذات کی طرف کر لیا جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اور میں مشرکین میں سے نہیں ہوں ۔) اس آیت میں جس توجہ الی اللہ کا ذکر ہے نماز اسی توجہ الی اللہ کی عملی تصویر ہے۔ اسی وجہ سے ہماری نماز وں کا عنوان یہی مبارک کلمہ قرار پایا ۔


نماز تمام مخلوقات الہی کی فطرت ہے چنانچہ فرمایا ’’ تُسَبِّحُ لَہُ السَّماواتُ السَّبْعُ وَ الَارْضُ وَمَنْ فِیہِنَّ وَ ِاْن مِّنْ شَئیٍ اِلَّا یُسَبِّحُ بِحَمْدِہ۔۔۔الخٖ‘‘(سورۃ الاسراء، آیت 44، ترجمہ:ساتوں آسمان اور زمین اور جو ان میں ہے، اس کی تسبیح پڑھتے ہیں اور نہیں ہے کوئی شے مگر اس کی حمد کے ساتھ تسبیح پڑھتی ہے۔)
اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ تمام اعمال میں سے نماز ایمان سے سب سے زیادہ قریب ہے بلکہ ایمان کا اولین فیضان ہے۔ یہ بیک وقت توحید، انابت ، شکر، توکل اور تَبَتُّلْ اِلَی اللَّہ ساری چیزوں کا مجموعہ ہے اور اللہ تعالیٰ کی مخلوقات کی فطرت ہے ۔ اب قربانی کی حقیقت پر غور کرو !قربانی درحقیقت اسلام کی تصویر ہے۔اسلام کا مفہوم اطاعت، سرفگندگی اور نفس کو بالکلیہ مولی کے حوالہ کر دینا ہے۔ نماز کی طرح یہ بھی بندوں کی فطرت ہے کیونکہ تمام مخلوق امر الہی کی اطاعت سے وجود میں آئی ہیں ۔خدا نے کلمہ کُنْ (ہوجا) کے ذریعہ سے حکم دیا اور تمام مخلوق ابتدائے خلقت میں اس کلمہ کی اطاعت سے وجود میں آئی۔ اب اگر وہ خدا کی نا فرمانی کرتی ہے تو اپنی فطرت کی خلاف ورزی کرتی ہے۔ اس اعتبار سے اسلام تمام کائنات کو محیط ہے ۔


’’وَ لَہُ اَسْلَمَ مَنْ فِی السَّماواتِ وَ الَارْضِ طَوْعاً وَ کَرْہاً وَ اِلَیہِ یَرْجِعُون‘‘(سورۃ آل عمران ،آیت 83،ترجمہ:آسمان اور زمین میں جو ہے سب طوعاً و کرہا ً اسی کے سامنے سرفگندہ ہیں اور سب اسی کے پاس لوٹائے جائیں گے۔) یعنی ہر خلقت میں جس طرح تم نے اس کے حکم کی تعمیل کی اسی طرح آخرت میں اس کے حکم پر دوڑو گے ۔ چنانچہ فرمایا ہے ’’ثُمَّ اِذَا دَعَاکُمْ دَعْوَۃً مِّنَ الَارضِ اِذَا اَنتُم تَخْرُجُون‘‘(سورۃ الروم،آیت 25،ترجمہ:جب وہ تم کو زمین سے نکلنے کے لئے ایک بار پکارے گا، تم دفعتہ نکل کھڑے ہوگے۔ ) اس سے معلوم ہوا کہ اسلام اور تسبیح و سجدہ اور نماز دونوں عین فطرت اور باہم دیگر نہایت قریبی تعلق دار ہیں۔ جب حضرت ابراہیمؑ کو اللہ تعالی نے ہمارا امام ،ان کی مسجد کو ہمارا قبلہ اور ان کے طریقہ کو ہمارے لئے دستور العمل بنایا تو ایک واقعہ بیان کر کے ہمارے لئے قربانی کی حقیقت بھی آشکارا کردی جس سے ضمناً نماز کی حقیقت پر روشنی پڑتی ہے۔اس کی تفصیل سورۃ صافات آیات 99تا 107میں دیکھی جاسکتی ہے۔

اس سرگزشت میں خدا نے ہمارے سامنے یہ حقیقت کھولی ہے کہ اسلام کی روح خدا کی اطاعت ہے اور اپنی عزیز سے عزیز متاع حتی کہ جان کو بھی خدا کے حوالہ کر دینا ہے ۔ اور یہ بات بغیر کامل ایمان و اخلاص کے پیدا نہیں ہو سکتی ۔پس گویا ان دونوں کا رتبہ کمال مقام احسان ہے۔احسان کی حقیقت یہ ہے کہ’’اَنْ تَعْبُدَ اللَّہ کَاَنَّکَ تَرَاہُ‘‘(صحیح البخاری،رقم حدیث 1397،ترجمہ:اپنے رب کی عبادت کرو اس طرح کہ گویا تم اس کو دیکھ رہے ہو۔) اس سے معلوم ہوا کہ قربانی اور نماز میں وہی تعلق ہے جو ایمان اور اسلام میں ہے یا قول اور عمل میں ہے اور احسان ان دونوں کا نقطہ اتصال ہے۔


2۔دوسرا پہلو یہ ہے کہ نماز اور قربانی میں وہ نسبت ہے جو نسبت زندگی اور موت میں ہے۔ اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ نماز کی حقیقت یاد الہی ہے’’ وَ اَقِمِ الصَّلَاۃَ لِذِکْرِی‘‘ (سورہ طہ،آیت 14،ترجمہ: اور میری یاد کے لئے نماز قائم کرو۔) دوسری جگہ ہے ’’وَذَکَرَاسْمَ رَبِّہِ فَصَلّی‘‘(سورہ اعلی،آیت 15، ترجمہ:اپنے رب کے نام کو یاد کیا پس نماز پڑھی۔) قرآن مجید میں اس مضمون کی آیتیں بہت ہیں اور ذکر سے مقصود دوام ذکر الہی ہے ، چنانچہ فرمایا: ’’اَلَّذِینَ یَذْکُرُونَ اللَّہَ قِیاما ًوَقُعُوداً وَعَلَی جُنُوبِہِم‘‘ (سورہ آل عمران ، آیت 191، ترجمہ:جو اللہ کو یاد کرتے ہیں کھڑے اور بیٹھے اور لیٹے) یہی راز ہے کہ ہمارے رات دن کے تمام اوقات نمازوں سے گھیر دئے گئے ہیں اور کسی حالت میں بھی اس سے معافی نہیں دی گئی ہے ۔ نماز سانس کی طرح زندگی کے لئے ناگزیر ہے۔ وہ حقیقی زندگی جو نور سکینت اور ایمان کے الفاظ سے تعبیر کی گئی ہے صرف اللہ کی یاد ہی سے باقی رہ سکتی ہے ۔ نماز حقیقی زندگی کا سرچشمہ اور اس حیات سفلی سے نجات حاصل کرنے کا زینہ ہے۔


اب قربانی کی حقیقت پر غور کرو! اس کا اصلی مفہوم جیسا کہ حضرت ابراہیم ؑ اور حضرت اسماعیل ؑ کی سرگزشت سے ظاہر ہے،نفس کو اللہ تعالی کے حوالہ کرنا ہے ۔ یہ تسلیم و اطاعت کے عظیم الشان واقعہ کی یادگار ہے اور اس میں زبردست امتحان کی سرگزشت پنہاں ہے جس میں خدا نے ابراہیم ؑ خلیل اللہ کو ڈالا تھا۔اہل ایمان راہ الہی میں اپنی جانیں قربان کر کے اس کی اطاعت و ابدیت کی یادگار قائم کرتے ہیں۔ پس جس طرح نماز اللہ کے ساتھ ہماری زندگی ہے اسی طرح قربانی اس کی راہ میں ہماری موت ہے اور یہی حقیقی دین اور حقیقی اسلام ہے۔


3۔نماز و قربانی حقیقی قربانی کے دو بازو ہیں ۔اللہ تعالی نے جب انسان کو صاحب عقل اور ارادہ اور خیر و شر میں تمیز کرنے والا بنایا تو ایک طرف تو اس کو عظمت و رفعت کا وہ مقام بلند بخش دیا جس سے بہتر و برتر کوئی مقام نہ تھا ، دوسری طرف اس کو ذلت و پستی کے اس کنارہ پر کھڑا کر دیا جس سے بڑھ کر کوئی ذلت و پستی نہ تھی ۔چنانچہ فرمایا ’’لَقَدْ خَلَقْنَا الِانْسَانَ فِی اَحْسَنِ تَقْوِ یم ثُمَّ رَدَدْنَاہُ اَسْفَلَ سَافِلِین اِلَّا الَّذِینَ آمَنُوا وَ عَمِلُوا الصَّالِحَاتِ فَلَہُمْ اَجْرٌ غَیرُ مَمْنُون‘‘ (سورۃ التین ،آیات 04 تا06، ترجمہ:بے شک ہم نے آدمی کی ساخت اچھے سے اچھی بنائی ، پھر ہم نے اسے ادنی سے ادنی درجہ میں ڈال دیا مگر جو کہ ایمان لائے اور بھلائیاں کیں سو انہیں ہمیشہ کے لئے انعام ملے گا۔) اس حالت کی وجہ سے انسان کے لئے ضروری ہوا کہ وہ نفس کے سنن اکبر کو توڑے اور نفس کی حقیقت پر جن لوگوں نے غور کیا ہے ان کو معلوم ہے کہ نفس کے دو بازو ہیں : سبعیت اور بہمییت ۔ اس وجہ سے ضروری ہوا کہ انسان کو ان دونوں بازوئوں کو توڑنے کی تدبیر بتائی جائے۔اب ان دونوں کی تفصیلات پر غور کرو۔


(الف)اول یعنی سبعیت کو توڑنے کی تدبیر یہ ہے کہ اللہ کے حضور خشیت اور تذلل کے ساتھ نماز کی پابندی کی جائے ۔نفس کے کبر و نخوت کا سر صرف نماز ہی سے کچلا جا سکتا ہے کیونکہ خشوع نماز کا سب سے زیادہ نمایاں پہلو ہے ۔چنانچہ فرمایا گیا ہے ’’قَدْ اَفْلَحَ الْمُوْمِنُونَ الَّذِینَ ہُمْ فِی صَلَاتِہِم خَاشِعُون‘‘(سورہ المومنون، آیات 01اور 02، ترجمہ:بے شک اُن ایمان والوں نے فلاح پائی جو اپنی نمازوں میں خدا کے سامنے سرفگندہ ہیں۔)


(ب)دوسرے بازو یعنی بہمییت کو توڑنے کی تدبیر یہ ہے کہ نفس اس دنیا کی جن مرغوبات میں لذت پاتا ہے ان سے اس کو علیحدہ کیا جائے۔اس کے تین درجے ہیں؛ پہلا درجہ یہ ہے کہ خدا کی راہ میں جان قربان کی جائے ۔اس کا بلند ترین مقام لخت جگر کی قربانی ہے۔ اس وجہ سے حضرت ابراہیم ؑ کو حضرت اسماعیل ؑ کی قربانی کے حکم سے جانچا گیا ۔ دوسرا درجہ یہ ہے کہ اطاعت الہی کی راہ میں مصائب و آلام جھیلے جائیں اور لذات سے کنارہ کشی اختیار کی جائے کیونکہ زندگی کے بعد نفس کو سب سے زیادہ محبوت لذات ہی ہیں ۔ روزہ اس منزل میں بہترین رہبر ہے ۔ تیسرا درجہ یہ ہے کہ مال جو تمام لذات کی حصول کا ذریعہ ہے خدا کے راستے میں خرچ کیا جائے ۔اس منزل میں رہبر زکوٰۃ ہے ۔


4۔نماز اور قربانی دونوں ایک دوسرے پر مشتمل ہیں۔ یعنی نمازایک پہلو سے قربانی اور قربانی ایک دوسرے پہلو سے نماز ہے ۔ نماز کا قربانی ہونا واضح ہے۔اوپر گزر چکا ہے کہ نماز سبعیت کے ذبح کی ایک تدبیر ہے۔ نیز نفس کو مصائب کی برداشت اور لذتوں کا خوگر بناتی ہے جو بہمییت کا ذبح ہے ۔اس وجہ سے اس کی شرح و تفسیر کی ضرورت نہیں، البتہ قربانی کا نماز ہونا محتاج تفسیر ہے۔


یہ بات گذر چکی ہے کہ قربانی کی حقیقت راہ الہی میں جان کی قربانی ہے ۔اس اعتبار سے ظاہر ہے کہ یہ ایک دوسری صورت میں بعینہ نماز ہے۔ نماز میں زبان اور ادائوںکے ذریعہ سے ایمان کا اقرار کیا جاتا ہے اور قربانی میں اس ایمان کی تصدیق جان دے کر کی جاتی ہے۔ چنانچہ اسی وجہ سے خدا کی راہ میں جان دینے کا نام شہادت ہے ۔ نیز قربانی میں کمال درجہ خضوع اور اطاعت ہے۔اس وجہ سے کہ نماز کی اصلی روح اقرار توحید اورخضوع کی سب سے زیادہ حامل ہے ۔ علاوہ ازیں ،اس کے تمام آداب بھی اس کے نماز ہونے کی شہادت دیتے ہیں، مثلا:ً
الف۔ قربانی خانہ کعبہ کے پاس ہوتی ہے جو مرکز نماز ہے۔
ب۔ اس کا آغاز بسم اللہ و اللہ اکبر سے ہوتا ہے۔
ج۔ قربانی و قربانی کرنے والے دونوں کا رخ قبلہ کی طرف ہوتا ہے۔
د۔ اونٹوں کو کھڑے کر کے قربان کیا جاتا ہے جس میں قیام نماز کی جھلک پائی جاتی ہے۔
ہ۔ مینڈھوں کو لٹا کر قربان کیا جاتا ہے جس کو سجدہ نماز سے مشابہت ہے۔پھر آغاز نماز کی دعاء جو قرآن میں وارد ہے یہ ہے اور یہی دعاء قربانی کے وقت بھی پڑھی جاتی ہے ’’اِنِّی وَجَّہْتُ وَجْہِیَ لِلَّذِی فَطَرَ السَّماواتِ وَ الَارضَ حَنِیفا ًومَا اَنَا مِنَ المُشْرِکِین‘‘(سورۃ الانعام، آیت 79، ترجمہ:میں نے ہر طرف سے کٹ کر اپنا رخ اس ذات کی طرف کیا جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اور میں مشرکوں میں سے نہیں ہوں)۔


5۔نماز اور قربانی دونوں ذکر الہی ہیں۔ نماز کا ذکر ہونا متعدد آیات سے واضح ہے مثلاً ’’وَاَقِمِ الصَّلَاۃَ لِذِکْرِی‘‘(سورہ طہ،آیت 14،ترجمہ:اور میری یاد کے لئے نماز قائم کرو۔)رہا قربانی کا ذکر ہونا تویہ بھی قرآن سے ثابت ہے، فرمایا ’’لِیَذْکُرُوا اسْمَ اللَّہِ عَلَی مَا رَزَقَہُم مِّن بَہِیَمۃِ الاَنْعَام‘‘(سورہ حج،آیت 34، ترجمہ:تاکہ اللہ کے نام کو یاد کریں ان چوپایوں پر جو اس نے ان کو بخشے ہیں۔)


6۔یہ دونوں(نماز اور قربانی)شکر ہیں، نماز کا شکر ہونا تو بالکل ظاہر ہے۔ یہاں تک کہ بعض جگہوں پر نماز کو تعبیر ہی شکر کے لفظ سے کر دیا گیا ہے،فرمایا ’’فَاذْکُرُونِی اَذْکُرْکُمْ وَاشْکُرُولِی وَلَا تَکْفُرُون‘‘ ( سورہ بقرہ،آیت 152، ترجمہ:پس مجھ کو یاد رکھو میں تم کو یاد رکھوں گا، میرا شکر کرتے رہو ناشکری مت کرو۔) سورۃ فاتحہ نماز کی جان ہے اور معلوم ہے کہ اس سورہ کی بنیاد شکر ہی پر ہے۔


اب قربانی پر غور کرو! یہ بات بیان کرنے کی ضرورت نہیں ہے کہ اللہ تعالی دنیا اور دنیا والوں سے بالکل مستغنی ہے ’’وہو یطعم و لا یطعم‘‘ (سورہ الانعام، آیت 14، ترجمہ:وہ کھلاتا ہے لیکن کھاتا نہیں ہے۔) اس نے جو نعمتیں بخشی ہیں ان میں سب کچھ ہم اس کی راہ میں محض اس حقیقت کا اعتراف کرنے کے لئے قربان کرتے ہیں کہ ہمارے پاس جو کچھ ہے سب اسی کی ملکیت اور اسی کا انعام ہے اسی وجہ سے فرمایا ’’کَذَالِکَ سَخَّرْنَاہَا لَکُم لَعَلَّکُم تَشْکُرُون‘‘(سورہ حج،آیت 36، ترجمہ:اسی طرح ہم نے ان کو مسخر کیا تاکہ تم شکر کرو۔) اور جس طرح نماز اللہ کی تمام ظاہری و باطنی نعمتوں پر ایک عام شکر ہے اسی طرح قربانی بھی محض منافع دنیاوی کا شکر نہیں ہے بلکہ عمومی شکر کا وہی پہلو اس میں بھی ملحوظ ہے جو نماز میں ملحوظ ہے، چنانچہ فرمایا ہے ’’لِتُکَبِّرُ و اللَّہَ عَلَی مَاہَدَاکُم‘‘(سورہ حج، آیت 37، ترجمہ:تاکہ تم کو جو ہدایت بخشی ہے اس پر اللہ کی بڑائی کرو۔)


7۔یہ دونوں تقوی کی فرع ہیں۔یہ قائدہ ہے کہ جس سے آدمی کی امیدیں وابستہ ہوتی ہیں یا جس سے وہ ڈرتا ہے اس کو برابر یاد رکھتا ہے ۔ نماز اسی ذکر کو قائم رکھنے کے لئے ہے ۔چونکہ بندہ کو خدا کی رضا مطلوب ہوتی ہے اور وہ اس کے غضب سے ڈرتا ہے اس وجہ سے وہ اس کے سامنے روتا اور گڑگڑاتا ہے ۔ آیت ذیل میں اس کی طرف اشارہ ہے:
’’وَ اَنْ اَقِیمُوا الصَّلَاۃَ وَاتَّقُوہُ وَہُوَا لَّذِی اِلَیہِ تُحْشَرُون‘‘(سورہ انعام،آیت 72، ترجمہ:اور یہ کہ نماز قائم کرو اور اس سے ڈرو اور وہی ہے جس کے پاس تم جمع کیے جائوگے ۔) اب قربانی کو دیکھو۔ اللہ تعالی نے چوپایوں پر انسانوں کو جو غلبہ اور تسلط دیا ہے اس میں ایک قسم کی آقائی اور بندگی کی نمود ہے ۔ اس وجہ سے ضروری ہوا کہ اظہار خوشی اور اقرار بندگی کے ذریعہ سے اس غرور کو مٹا دیا جائے اور قربانی کے وقت بندہ کی زبان پر شکر نعمت اور اقرار ابدیت کے ایسے الفاظ جاری کئے جائیں جن سے خدا کی ملکیت و پروردگاری اور اس کی وحدت و یکتائی کا اظہار ہو ۔ غور کرو ان تمام باتوں میں تقوی کی کس طرح جلوہ گری ہے ۔ چنانچہ تقوی ہی چونکہ تمام حقائق کا جامع تھا اس وجہ سے وہی قربانی کی حقیقت قرار پایا۔ بندہ تقوی ہی کی راہ سے قرب الہی کے مرتبہ کو پہنچتا ہے ۔اس وجہ سے کوئی قربانی اس وقت تک قبول نہیں ہوتی جب تک اس میں تقوی نہ ہو۔ چنانچہ فرمایا ’’اِنَّمَا یَتَقَبَّلُ اللَّہُ مِنَ المُتَّقِین‘‘ (سورہ المائدہ، آیت27، ترجمہ: اللہ صرف متقین کی قربانی قبول کرتا ہے۔ )


8۔یہ دونوں منازل آخرت میں سے ہیں ۔کیونکہ نماز رجوع الی اللہ اور حشر میں پرودگار کے حضور ہمارے کھڑے ہونے کی تصویر ہے ۔اسی وجہ سے معیاد کی ایک جھلک پائی جاتی ہے،گویا بندہ جس وقت نماز میں کھڑا ہوتا ہے اس وقت وہ خدا کے سامنے اپنی حاضری کے دن کو یاد کر رہا ہوتا ہے ۔ یہ اشارہ مندرجہ ذیل آیت سے ملتا ہے ’’اِنَّہَا لَکَبِیرَۃٌ اِلاَّ عَلَی الخَاشِعِینَ الَّذِینَ یَظُنُّونَ اَنَّہُم مُّلَاقُوا رَبَّہُم وَاَنَّہُم اِلَیہِ رَاجِعُون‘‘(سورہ بقرہ،آیات 45اور 46، ترجمہ:بیشک وہ (نماز) گراں ہے مگر ان خوف رکھنے والوں پر جن کو گمان ہے کہ ان کو اپنے رب سے ملنا اور ایک دن وہ اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں )، بعینہ یہی حقیقت قربانی میں بھی جلوہ گر ہے ۔ وہ بھی نماز کی طرح رجوع الی اللہ ہے۔ جس طرح چوپایوں کو خدا نے ہمارے لئے مسخر کیا ہے، اسی طرح ہمارے جسموں کو بھی ہمارے لئے مسخر کیا ہے تاکہ ایک متعین مدت کے لئے ہم ان کو اپنا مرکب بنائیں اور ان سے اپنے کاموں میں مد د لیں۔


9۔یہ دونوں ابواب صبر میں سے ہیں۔ اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ جو بندہ اللہ کے وعدہ پر پورا بھروسہ کر کے نماز کی پابندی کرتا ہے اس کی مثال اس درخت لگانے والے کی ہے جو شب و روز اپنے لگائے ہوئے پودے کی نگہداشت کرتا ہے ، اس کی خدمت کرتا ہے، اس کو پانی دیتا ہے اور اس کے پھل لانے کا منتظر ہے اور دوسروں کی غفلت و سرمستی اس کی اس سرگرمی اور خود فراموشی میں کوئی کمزوری نہیں پیدا کر سکتی۔ قرآن مجید نے صبر اور نماز کامتعدد آیات میں ایک ساتھ ذکر کیا ہے ۔فرمایا’’وَاسْتَعِینُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلَاۃ‘‘( سورہ بقرہ،آیت 45، ترجمہ:اور صبر اور نماز کے ذریعہ مدد چاہو۔) یہی حال قربانی کا بھی ہے ۔ یہ اس عظیم الشان صبر کی تعلیم پر مبنی ہے جس کا نمونہ ابراہیم ؑ خلیل اللہ نے پیش کیا ۔


10۔دونوں میں اس امر کا اقرار و اعتراف ہے کہ ہر چیز خدا ہی کی ملکیت ہے اور تمام نعمتیں اس کی بخشی ہوئی ہیں ۔ نماز میں تو یہ حقیقت بالکل ظاہر ہی ہے ۔اس کی بنیاد ہی شکر اور اعتراف ربوبیت پر ہے۔ غور کرنے سے یہی بات قربانی میں بھی معلوم ہوتی ہے۔ یہ بھی زبان حال سے گویا اسی حقیقت کا اظہار ہے۔ ہم قربانی کر کے گویا اقرار کرتے ہیں کہ ہر چیز خدا ہی کی ملکیت ہے ۔ تمام نعمتیں اس کی بخشی ہوئی ہوتی ہیں۔ ہماری جانیں اور ہمارے مال، سب اللہ کے خزانہ ٔجودوفیض ہی سے ہم کو نصیب ہوئے ۔اس وجہ سے ہمارا فرض ہے کہ ہم ان کو خدا ہی کے حوالہ کریں اور اس کی اطاعت و بندگی کی راہ میں ان کو استعمال کریں۔


11۔یہ دونوں تقرب الہی کا ذریعہ ہیں ۔یہ بات بالکل واضح ہے نماز کی سب سے زیادہ نمایاں حقیقت تو جہ الی اللہ ہے جو شخص نماز میں ہے وہ گویا اپنے رب کے حضور کھڑا ہے اور اس سے مناجات و گفتگو کر رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ داہنے بائیں کسی طرف بھی متوجہ نہیں ہوتا۔ اس پہلو سے دیکھیے تو معلوم ہوتا ہے کہ نماز نہ صرف ذریعہ تقرب بلکہ عین تقرب ہے۔ یہ آیت اس کی دلیل ہے ، ’’وَاسْجُدْ وَاقْتَرِبْ‘‘(سورہ علق،آیت 19، ترجمہ:اور سجدہ کرو اور قریب ہو جائو۔) اس لئے نماز رأس العبادات قرار پائی ۔


بعینہ یہی حقیقت قربانی میں بھی مضمر ہے۔ قربانی کرنے والا اپنی قربانی ایسی جگہ کراتا ہے جو اس کے خیال میں خدا کی طرف سے اس عبادت کے لئے مخصوص اور مقدس ہوتی ہے۔اسی وجہ سے قربانی کے لئے ایک مخصوص و متعین جگہ قرار پائی۔ یہود کے یہاں بیت المقدس کے سوا کسی دوسری جگہ قربانی جائز نہیں۔ لیکن مسلمانوں کے لئے جس طرح تمام روئے زمین کو مسجد ہونے کا شرف حاصل ہوا اسی طرح قربانی بھی ان کے لئے ہر جگہ جائز ہوئی۔ تاہم جس طرح مسجد کی نماز کو فضیلت حاصل ہے اسی طرح قربان گاہ پر قربانی کرنا بھی افضل ہے۔


12۔نماز اور قربانی عبادت کے تمام طریقوں میں سب سے زیادہ قدیم اور فطرت انسانی میں سب سے زیادہ اترے ہوئے سجدہ ، رکوع اور نذراظہار بندگی کے وہ مقبول عام طریقے ہیں جو ہر قوم و ملت میں موکود رہے ہیں،عام اس سے کہ وہ ایک خدا کے پرستار رہی ہو یا متعدد دیوتائوں کی۔


(یہ مقالہ علامہ حمید الدین فراہیؒ کا تحریر کردہ ہے جسے انہوں نے سورہ الکوثر کی تفسیر میں ایک باب کے تحت درج کیا ہے۔ مولانا امین احسن اصلاحیؒ نے اس کا اردو ترجمہ ’تفسیر نظام القرآن ‘ میں کیا ہے۔ رفیق منزل کے لیے اس ترجمہ کی تلخیص عبدالرحمن طاہر، زیر تعلیم مدینہ منورہ نے کی۔)

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Verified by MonsterInsights