طالب علم اور تاخیر لذت

1


ڈاکٹر آفاق ندیم خان


امریکہ کے اسٹینفورڈ یونیورسٹی کے ماہر نفسیات والٹر مِشیل نے 1960میں،7سے 9سال کے 53اسکولی بچوں پر ایک تجربہ کیا۔اس تجربہ کو نفسیات کے شعبے میں ’تاخیر لذت‘(Delayed Gratification)کے نام سے جا نا جاتاہے۔اس تجربہ میں والٹر مِشیل نے سارے بچوں کو ایک ایک میٹھا بسکٹ کھانے کے لیے دیا۔ بچوں کو ہدایت دی گئی کہ آپ سبھی اس بسکٹ کو اپنے پاس رکھیے۔انتظار کیجئے اور 15منٹ کے بعد اسے کھانا شروع کیجئے۔جو بچے ایسا کریں گے انہیں انعام سے نوازا جائے گا۔بچوں کے رد عمل کو نوٹ کیا گیا۔ اس میں یہ پایا گیا کہ ان بچوں میںکچھ بچوں نے دی گئی ہدایات کو نظر انداز کرتے ہوئے بغیر کسی تاخیر کے فوراً بسکٹ کھانا شروع کردیا۔ کچھ بچے ایسے تھے جنہوں نے بسکٹ تو نہیں کھایا لیکن کچھ وقفہ تک بسکٹ کو دیکھتے رہے اور پھر ایک دوسرے کے بسکٹ پر تبصرہ ، موازنہ اور بات چیت کرنے لگے۔کچھ بچوں نے بسکٹ لیا ،اسے ایک طرف رکھ دیااور اپنے کام میں مشغول ہوگئے۔ تجربہ کا پہلا مرحلہ ختم ہوا۔


30سال بعد 1990میںجب وہ بچے 37 اور39سال کی عمر کو پہنچ چکے تو والٹر مشیل نے انہیں تلاش کیا اور یہ جاننے کی کوشش کی کہ ان بچوں کی موجودہ حیثیت اور حالات کیا ہیں؟نتائج بالکل چونکا دینے والے تھے۔ایسے بچے جنہوں نے بسکٹ فوراً کھانا شروع کردیا تھاوہ اس وقت بہت خستہ حال زندگی گزار رہے تھے۔ایسے بچے جنہوں نے بسکٹ فوراً تو نہیں کھایا تھا لیکن ایک دوسرے کے بسکٹ پر تبصرہ ، موازنہ اور بات چیت کرنے لگے تھے وہ اس وقت اوسط زندگی گزار رہے تھے اور ایک دوسرے کی ٹانگ کھیچ رہے تھے۔ وہ بچے جنہوں نے بسکٹ لے کراسے ایک طرف رکھ دیااور اپنے کام میں مشغول ہوگئے تھے،وہ اس وقت بہت کامیاب زندگی کے مالک تھے۔


اس تجربہ سے یہ نتیجہ اخذ کیا گیا کہ کامیابی کے لیے تاخیر لذت اور صبر کا ہونا بہت ضروری ہے۔موجودہ دور میں آرام و آسائش، سیرو تفریح،موج و مستی،آرام وطبع کے سارے سامان موجود ہیں۔پوری دنیا مٹھی میں ہے اور معلومات کا ذخیرہ انگلی کی نوک پر ہے۔انتخاب ہمارا ہے کہ ہم صبر سے کام لیتے ہیں یا پھر فوراً سے پیشتر دنیا کی تمام لذتوں کو اپنا بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔


اسلامی تعلیمات بھی ہمیں اس بات کا درس دیتی ہیں کہ ہمیں اپنے نفس کو قابو میں رکھ کر اپنے ضمیر کی آوازکو سننا چاہئے۔یہ دنیا خواہشات پوری کرنے کی جگہ نہیں ہے۔ خواہشات تو انشاء اللہ جنت میں پوری ہوگی۔کہا جاتا ہے کہ اگر آپ آج وہ کام کر رہے ہیں جو آپ کو اچھا نہیں لگتا تو آئندہ زندگی میں آپ کو وہ سب کچھ ملنے والا ہے جو آپ کو اچھا لگتا ہے۔اگر آپ آج اپنے مقصد کو حاصل کرنے کے لیے محنت نہیں کریں گے تو آئندہ پوری زندگی آپ کو دوسرے لوگوں کے مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے محنت کرنی پڑے گی۔
طالب علمی کا زمانہ وقت کی سرمایہ کاری کا زمانہ ہے۔ یہ خود کو قیمتی بنانے اور نفع بخش بنانے کازمانہ ہے۔ جس طرح سے ہر پانی کے اندریہ خاصیت ہوتی ہے کہ وہ بھاپ بن سکتا ہے اسی طرح سے ہر انسان کے اندر یہ صلاحیت ہوتی ہے کہ وہ کامیاب اور عظیم انسان بن سکتا ہے۔

جس طرح سے پانی کو بھاپ بننے کے لیے ایک دشوار کن عمل سے گزرنا پڑتا ہے اسی طرح انسان کو بھی بلندی حاصل کرنے کے لیے جدو جہد، محنت، مشقت ، جفاکشی اور جاں نثاری کی مثالیں قائم کرنا ضروری ہے۔ پانی کو بھاپ بننے کے لیے اس کی ہر ایک بوند کو 100ڈگری سینٹی گریٹ کی حرارت برداشت کرنی پڑتی ہے ۔اسی طرح انسان کو بھی عظیم انسان بننے کے لیے اسے خدا تعالیٰ کی عطا کردہ صلاحیتوں کے ساتھ انصاف کرنا ضروری ہوتاہے۔ ہمارے اندر لامحدود صلاحیتیں ہیں اور ان صلاحیتوں کی نشو ونما کرنا ہر انسان پر فرض ہے۔ صلاحیتوں کی نشونما کے لیے تعلیم ایک بہترین ذریعہ ہے۔اکثر یہ دیکھنے میں آتا ہے کہ طالب علمی کے زمانے میں ہی ہم دنیاکی تمام لذتیں حاصل کر لینا چاہتے ہیں۔ لذتوں کے حصول میں ہم اپنے تعلیمی اہداف کو بھول جاتے ہیںاور اس میں مطلوبہ کامیابی حاصل نہیں کر پاتے۔ اس دور میں جس طرح آرام و آسائش کی تمام چیزیں موجود ہیں اسی طرح خود کو کامیاب اور کامران بنانے کے لیے بھی سارے مواقع موجود ہیں۔انتخاب ہمارا ہے کہ ہم آرام وآسائش ،مزہ ولذت کا انتخاب کرتے ہیں یا کامیابی و کامرانی کا !

DR AFAQUE NADEEM KHAN
Assistant Professor
College of Teacher & Education
MANUU, Bhopal.
Email: [email protected]

1 تبصرہ
  1. جرار احمد نے کہا

    ڈاکٹر آفاق ندیم صاحب کا یہ مضمون بہت ہی اچھا ہے اور ہم جیسے طلبا کے لیے متحرک کن بھی ہے۔ اس تجربے کو ہوئے پچاس سال ہو چکے اب نئے سرے سے کرنے کی ضرورت ہے تاکہ اور بھی نہاں گوشے وا ہوسکیں۔۔

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Verified by MonsterInsights