سشما یا ششی : چراغ سب کے بجھیں گے ہوا کسی نہیں

0

قومی سیاست میں ایک زمانہ وہ بھی تھا جب باتیں کم اور کام زیادہ ہوتا تھا۔ زمانہ بدل گیا ہے اب باتیں ہی باتیں ہوتی ہیں کام نہیں ہوتا۔ ویسے یہ تو نہیں کہا جاسکتا کہ کام بالکل نہیں ہوتا مگر مختلف جہتوں میں بغیر سوچے سمجھے جو کچھ کیا جارہا ہے وہ منتشر انداز کی تگ و دومؤثر نہیں ہو پارہی ہے۔ خارجہ پالیسی کی مثال لیں تو گزشتہ ایک سال میں جس قدر دورے مودی جی نے کئے شاید منموہن سنگھ نے اتنا سفر دس سالوں میں نہ کیا ہو، لیکن اگر نتائج پر نظر ڈالیں توعالمی سطح پرملک جہاں چند سال قبل کھڑا تھا آج اس سے پیچھے ہوگیا ہے۔ منموہن سنگھ نے منصوبہ بند طریقہ پر چین سے فاصلہ بڑھا کر امریکہ کو اعتماد میں لینے کی کوشش کی۔ امریکہ کو یہ پیغام دیا کہ جنوب مشرقی ایشیا میں چین کے خلاف بھارت امریکہ کا بہترین حلیف بن سکتا ہے۔ افغانستان میں امریکہ نواز کرزئی حکومت کی بھرپور حمایت کرکے امریکی سامراج کے پاکستان پر انحصار کو کم کرنے کی سعی کی گئی۔ان کوششوں کے نتیجہ میں ہندوستان سلامتی کونسل کی مستقل رکنیت کا بہت طاقتور دعویدار بن گیا۔
مودی جی نے اقتدار سنبھالتے ہی امورِ خارجہ کو قومی مفاد کے بجائے ذاتی فائدے کے لئے استعمال کرنا شروع کردیا۔ وہ اپنی مقبولیت بڑھانے اور اپنے مخالفین کی تنقیدو تنقیص میں لگ گئے، جس سے ساری دنیا کو یہ پیغام مل گیا کہ ان کے اندر سنجیدگی کا فقدان ہے۔ خارجہ پالیسی کے اندرکسی ایک رخ پر چلنے کے بجائے انہوں نے متضاد جہتوں پر بیک وقت چھاپہ مارا، جس سے اپنے اثرات کو خود زائل کرتے رہے۔ چین سے مصافحہ کرکے اول تو امریکہ کو ناراض کیا اور پھر جاپان اور جنوبی کوریا سے معانقہ کرکے چین سے مخاصمت مول لے لی۔ اب صورتحال یہ ہے کہ امریکہ ہم پر اعتماد نہیں کرتا اور چین دشمنی پر تلا ہوا ہے۔ حد تو یہ ہے روس جیسے بھروسہ مند دوست نے بھی نظر پھیر لی ہے۔
عالمی سطح پر جب ہندوستان کا اقبال بلند ہوگیا تھا اس وقت اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل کا انتخاب درپیش ہوا۔ بھارت چاہتا تھا کہ یہ عہدہ اس کو ملے اوراس کے لئے ڈاکٹر ششی تھرور کا نام پیش کیا گیا جو اقوام متحدہ میں اپنی کارکردگی کا لوہا منوا چکے تھے۔ وہ وزیر مملکت برائے امور خارجہ بھی تھے۔ اس زمانے میں ششی تھرور پر آئی پی ایل کی بدعنوانی کا الزام لگا اور بی جے پی نے ان کے استعفیٰ کا مطالبہ زور و شور سے اٹھایا۔ اتفاق سے ایوانِ زیریں میں وہ تحریک بی جے پی کی رہنما سشما سوراج چلا رہی تھیں۔ ایوانِ پارلیمان میں زبردست ہنگامہ اور تعطل کے بعد سشماجی کو اپنے مقصد میں کامیابی ملی۔ منموہن سنگھ نے ششی تھرور کو بلا کر ان سے استعفیٰ لے لیا اور اسی کے ساتھ اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل کا عہدہ بان کی مون کو چلا گیا۔ اگر بی جے پی اپنے سیاسی مفاد پر قومی فائدے کو ترجیح دیتی تو ممکن ہے ملک اس بیش بہا اعزاز سے محروم نہ رہتا۔
ششی تھرور پر الزام یہ تھا کہ وہ آئی پی ایل میں پہلی مرتبہ شامل ہونے والی ٹیم کوچی ٹسکر کی بدعنوانی میں ملوث ہیں۔ تھرور کیرالا کے رکن پارلیمان ہیں اور کوچی ٹسکر کیرالا کی ٹیم تھی، اس لئے ان کا کہنا تھا کہ وہ اپنی ریاست میں کرکٹ کے فروغ کی خاطرٹسکر کی سرپرستی تو کرتے ہیں مگر اس سے کوئی معاشی فائدہ نہیں اٹھاتے۔ بی جے پی کا الزام تھا چونکہ اس ٹیم کے پانچ فیصد حصص سنندا پشکر نامی ایک خاتون کو دئیے گئے ہیں جو (اس وقت) ششی تھرور کی دوست تھیں، اس لئے درپردہ یہ فائدہ ششی تھرور کوپہنچایا گیا ہے۔ سنندا کا کہنا یہ تھا کہ اس نے کوچی کی ٹیم کے مالکان میں سے ایک رینذڈیوس کو جو پیشہ ورانہ خدمات دی ہیں، اس کے عوض ایک معاہدے کے تحت یہ حصص اسے دئیے گئے ہیں اور اس میں نہ کوئی کالا دھن ہے، اور نہ اس کا ششی تھرور سے کوئی تعلق ہے۔
بی جے پی نے اس وضاحت کو مسترد کردیا اور ایوانِ پارلیمان کا بائیکاٹ جاری رکھا۔ ششی تھرور کے اوپرجب دباؤ بہت بڑھ گیا اور ان کا سیاسی مستقبل تاریک ہونے لگا، تو سنندا پشکرنے یہ پیشکش کردی کہ وہ اپنے حصص واپس کرنے کے لیے تیار ہیں۔ بی جے پی نے اس پیشکش کو اعتراف جرم قرار دے کرہنگامہ تیز کردیا جو ششی تھرور کے استعفیٰ پر منتج ہوالیکن وقت کا پہیہ چلتا رہا۔ زمانے نے ایک اور پلٹا کھایا، وہی سشما سوراج جو ششی تھرور پر آئی پی ایل کی بدعنوانی میں ملوث ہونے کا الزام لگا رہی تھیں خود وزیر خارجہ بننے کے بعداسی طرح کے الزامات میں گھر گئیں۔ جس طرح کی صفائی کسی زمانے میں کانگریس اور ششی تھرور دیا کرتے تھے وہی سب بی جے پی اور سشما کرنے لگے۔ ایوان میں جو ہنگامہ اور استعفیٰ کا مطالبہ بی جے پی کیا کرتی تھی اب کانگریس کررہی ہے۔ بدعنوان سیاسی جماعتوں کی اس حالتِ زار پرنواز دیوبندی کا یہ شعر صادق آتا ہے کہ ؂
میں آج زد پہ ہوں تم خوش گمان مت ہونا
چراغ سب کے بجھیں گے ہوا کسی نہیں
بدقسمتی سے ہمارے ملک میں ایک ایسا نظام رائج ہوگیا ہے جو سیاستدانوں کو تحفظ فراہم کرتا ہے۔ ایک کاچراغ بجھا تا تو دوسرے کا جلا دیتا ہے۔ اس طرح باری باری سبھی سیاسی جماعتوں کو عیش اڑانے کاموقع ملتارہتا ہے۔ وہ تو بیچارے غریب عوام ہیں کہ جن کے نام پر یہ نظام چلتا ہے مگر ان کا چراغ سرے سے جلتا ہی نہیں ہے۔ سشما کا چراغ فی الحال ششی کی مانند ٹمٹمارہا ہے۔ان دونوں کے ناموں اور وزارتوں میں کمال مشابہت ہے۔سشما کاسیاسی قد اور عہدہ ششی کے مقابلے بلند ترضرور ہے لیکن ان پر لگنے والے الزامات کی نوعیت بھی سنگین تر ہے۔ ششی پر براہِ راست فائدہ اٹھانے کا الزام نہ اس وقت ثابت ہوا تھا نہ اب تک اس کے حق میں کوئی ٹھوس ثبوت پیش کیا جاسکا ہے، اس کے برعکس سشما جی نے للت مودی کی جو مدد کی اس کے شواہد اظہر من الشمس ہیں۔
للت مودی ، ان کے وکیل عابدی اور خود سشماتعاون و اشتراک کا اعتراف چکے ہیں۔ سنندا پشکر سے بعد میں ششی نے بیاہ رچایا لیکن الزام کے وقت وہ صرف ایک دوست تھیں۔ ان کے درمیان کوئی رشتہ نہیں تھا، جبکہ سشما کے خاوند اور بیٹی دونوں ہنوز للت مودی کے صلاح کار اور وکیل بنے ہیں اور دونوں نے اپنی خدمات کا باقاعدہ معاوضہ لیا ہے۔ ایسے میں ہمدردانہ اور بے لوث تعاون کی دہائی بے معنی ہو جاتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ سشما کے شوہر اور بیٹی کا للت مودی جیسے بدعنوان شخص کی علی الاعلان پیروی کرنا اور اس کا فائدہ اٹھانے کے بعد وزیر خارجہ کی حیثیت سے سشما کی مدد لینا کیا بدعنوانی کے زمرے میں نہیں آتا۔ اب اگر سشما جی یہ سمجھانے کی کوشش کریں، میاں بیوی کی کمائی جدا جدا ہے اور بن بیاہی بیٹی کی آمدنی میں ماں کا کوئی حصہ نہیں ہے تو اسے کوئی نہیں مانے گا؟ اور اگر اس دلیل کو تسلیم کرلیا جائے تو ایک دوست سنندا پشکر کی کمائی میں بغیر کسی ثبوت کے ششی تھرورکی بھاگیداری کیسے ثابت ہوسکے گی ؟
ششی اور سشما کے درمیان ایک فرق یہ بھی ہے کہ تھرور اپنے ایک موقف پر اول روز سے قائم ہیں۔ ان کا کہنا یہ ہے انہوں نے کوچی ٹسکرکی سرپرستی کی مگر معاشی فائدہ نہیں اٹھایا لیکن سشما جی گرگٹ کی مانند اپنا بیان بدلتی رہیں۔ پہلے تو انہوں نے صاف انکار کردیا کہ وہ اس بابت کچھ نہیں جانتیں۔ پھر کہا کہ انہوں نے کوئی تعاون نہیں کیا۔ اس کے بعد تسلیم کرلیا کہ انسانی ہمدردی کے تحت مدد کی مگر کوئی معاشی فائدہ نہیں اٹھایا۔ اب ایوانِ پارلیمان میں کہہ دیا کہ انہوں نے سرے کچھ کیا ہی نہیں۔ اگر کچھ کیا ہی نہیں تو انسانی ہمدردی کہاں سے آگئی ؟ سشما سوراج کا تازہ ترین پینترہ لوک سبھا کے اندر سامنے آیا جبکہ انہوں نے سارے معاملے کو ایک جذباتی رنگ دینے کی کوشش کی اور کہا میں نے للت مودی کی نہیں ان کی کینسر زدہ بیوی کی مدد کی ہے اور اگر میری جگہ سونیا ہوتیں تو ایسا نہیں کرتیں ؟
اس ایک جواب کے اندر کئی سوال ہیں۔ سب سے پہلی بات یہ کہ مدد کیا کی گئی؟ برطانوی حکومت سے کہا گیا للت مودی کے بیرونِ ملک سفرپر حکومتِ ہند کو اعتراض نہیں ہے؟ اس درخواست میں سرے سے للت کی بیوی کا ذکر ہی نہیں ہے اس لئے کہ ان کو اس کی ضرورت ہی نہیں تھی۔ للت کی بیوی کا سفر ممنوع تھا ہی نہیں۔ دوسرے یہ کہ برطانیہ کے اندر پرتگال سے کہیں بہتر طبی سہولیات موجود ہیں، ایسے میں للت مودی نے اپنی اہلیہ کے علاج کے لئے پرتگال کو کیوں ترجیح دی؟ اگر اہلیہ کے ساتھ پرتگال جانا ضروری بھی تھا تو اجازت نامہ صرف علاج کی مدت تک اور پرتگال کی حد تک مشروط ہونا چاہئے تھالیکن ایسا نہیں ہوا بلکہ اس بہانے سے للت مودی کو ساری دنیا میں آزادانہ گھومنے کا پروانہ عطا کردیا گیا، اور بعد میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ جس آپریشن کے لیے للت مودی کی بیوی پرتگال گئی وہ تو سرے سے ہوا ہی نہیں، ہاں اس دواخانے کی ایک شاخ سندھیا جئے پور میں ضرور کھل گئی۔ یہ سارے حقائق کس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں ؟
ششی تھرور کی زوجہ بننے والی سنندہ پشکر اور سشما کی بیٹی بنسی کے مؤکل للت مودی میں بھی بڑا فرق ہے۔ للت مودی کو آئی پی ایل کی صدارت سے ذلیل کرکے ہٹایا گیا۔ وہ ہندوستان سے فرار ہوگیا اور اس کے خلاف بلیو کارنر وارنٹ جاری ہے۔ برطانیہ سے باہر اس کی نقل و حرکت ممنوع قرار دی گئی۔ اس طرح کی کوئی بات سنندہ پشکر کے تعلق سے سامنے نہیں آئی۔ جہاں تک کوچی ٹسکر کی معطلی کا تعلق ہے اسے بھی ۸ جولائی ۲۰۱۵ ؁ء کو سابق چیف جسٹس لاہوتی پینل نے غلط قرار دے دیا اور الٹا بی سی سی آئی پر۵۵۰؍ کروڑ کا جرمانہ عائد کردیا۔ موجودہ صورتحال میں جبکہ چنئی سپر کنگ اور راجستھا ن رائلس پربدعنوانی کے سبب پابندی لگا دی گئی اور کوچی ٹسکر کے اوپر سے پابندی اٹھا دی گئی، اس بات کا قوی امکان ہے کہ آئندہ سال وہ آئی پی ایل کا ٹورنامنٹ کھیلے گی۔ کوچی ٹسکر کا دوبارہ کھیلنا ششی تھرور کی اخلاقی فتح شمار کی جائے گی اور اگر وہ خاطر خواہ کامیابی حاصل کرلیتی ہے تواپنے رائے دہندگان کے درمیان ششی تھرور کی مقبولیت میں اضافہ کرے گی۔ آج کل جبکہ سیاسی رہنما عوام کی خدمت سے پوری طرح دستبردار ہوچکے ہیں وہ اسی طرح کے نمائشی کاموں سے اپنی شہرت میں اضافہ کرتے ہیں اور چار پیسے بھی کما لیتے ہیں۔
بھارتیہ جنتا پارٹی نے للت مودی کے کلنک کو اپنی پیشانی سے مٹانے کی خاطر اسے گرفتار کرکے بھارت لانے کا فیصلہ کیا ہے۔ ممبئی کی ایک عدالت نے للت مودی کی گرفتاری کے لئے غیرضمانتی وارنٹ جاری کردیا ہے، اس لئے کہ اس سے قبل تین مرتبہ عدالتی سمن کی روگردانی کرچکے ہیں۔ یہ وارنٹ بہت جلد وزارتِ داخلہ کے توسط سے برطانیہ میں مقیم للت مودی تک پہنچا دیا جائے گا اور اگر وہ اس کا احترام نہیں کرتے، تو ان کے خلاف انٹرپول کے ذریعہ ریڈ کارنر نوٹس جاری ہو جائے گا۔ اس کے بعد للت مودی کا پاسپورٹ بھی ضبط کیا جاسکتا ہے۔ للت مودی کے سبب مرکزی حکومت جس مشکل میں گرفتار ہے اس سے نکلنے کی یہ ایک سیاسی چال بھی ہو سکتی ہے اور اس کو گرفتار کرکے قوم کو یہ پیغام دیا جاسکتا ہے کہ حکومتِ وقت کو ایک بدعنوان کا محافظ قرار دینا غلط ہے۔ جس بھگوڑے کو گرفتار کرنے میں یو پی اے ناکام رہی اسے این ڈی اے نے گرفتار کرلیااس لئے یہ بہت پاکباز حکومت ہے۔
للت مودی اور موجودہ حکمراں طبقے کے درمیان قریبی تعلقات کی روشنی میں بظاہر سیاسی دباؤ میں کیا جانے والا یہ اقدام ایک اور بھی بڑی سازش کا حصہ ہو سکتا ہے۔ اس امکان کو خارج نہیں کیا جاسکتا ہے کہ اندر ہی اندر للت مودی کے ساتھ کو ڈیل فائنل ہو گئی ہو جس کے تحت اسے گرفتار کرکے لانے کی آڑ میں سشما سوراج اور وجئے راجے سندھیا کو بچا لیا جائے۔ للت مودی کے ذریعہ سے ان دونوں کے حق میں بیان دلوائے جائیں اور پھر عدالت میں اس کے خلاف شواہد کو کمزور کردیا جائے۔ پہلے مرحلے میں اس کی ضمانت پر رہائی ہوجائے اور آگے چل کر مقدمہ کو اس قدر کمزور کردیا جائے کہ عدالت اس کو بری کرنے پر مجبور ہوجائے۔ اگر اس کام میں خدشہ لاحق ہوتو للت مودی کا مقدمہ ایسے ججوں کے حوالے کیا جائے جو من و عن سرکاری فیصلہ نافذ کردیں۔
اس معاملے کا ایک داخلی نقطۂ نظر بھی ہے۔ سشما ایک زمانے تک اڈوانی جی کی منظورِ نظر اور مودی جی کی حریف اول رہی ہیں اور وجئے راجے سندھیا اپنی خودسری کے لئے مشہور ہیں۔ سندھیا نے کبھی بھی مرکزی رہنماؤں کے آگے سر تسلیم خم نہیں کیا وہ اپنی مرضی سے کام کرنے کی قائل ہیں۔ اس صورتحال میں یہ ممکن ہے کہ بڑے مودی چھوٹے مودی کا فائدہ اٹھا کر سشما سوراج اور وجئے راجے کا کانٹا نکال دیں، اس لئے کہ یہ دونوں خواتین آگے چل کر بھی کسی نہ کسی مرحلے میں مودی جی کے لئے مسائل کھڑا کرسکتی ہیں۔ قومی سیاست اس قدر پیچیدہ ہے کہ اس میں کبھی بھی کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ یہاں پر نہ کوئی کسی کا مستقل دوست ہے اور نہ مستقل دشمن۔ حسب ضرورت مفاد پرستی اور ابن الوقتی کی بنیاد پردوستی اور دشمنی کے تانے بانے بنتے بگڑتے رہتے ہیں۔ شطرنج کی سیاسی بساط پر مجرمین کا استعمال کرکے اپنے مخالفین کو ٹھکانے لگانا اورملزمین کو قانون کے شکنجہ سے بچاناآج کل ایک عام سی بات بن کر رہ گئی۔
آج کل سوشل میڈیا میں انڈیا ٹی وی کے جنتا کی عدالت کی ایک پرانی کلپ چل رہی ہے۔ اس ویڈیو کے اندر رجت شرما نے نریندر مودی سے سوال کیا تھا کہ آپ جب اقتدار میں آجائیں گے توپاکستان کے ساتھ کیا رویہ اختیار کریں گے؟ اس کے جواب میں مودی جی نے جواب دیا تھا پاکستان کو پاکستان کی بھاشا میں جواب دیں گے۔ گرداس پور حملے کے بعد جب پاکستان کواس کی زبان میں جواب دینے کا موقع آیا تو نریندرجی چولا بدل کر مونیندربن گئے، لیکن کانگریس پارٹی نے ان کی نصیحت پر عمل کرتے ہوئے خود بی جے پی کے انداز میں ایوانِ پارلیمان کو سر پر اٹھا لیا اور بی جے پی کو پتہ چل گیا کہ جن کے گھر شیشے کے ہوتے ہیں اگروہ دوسروں کو پتھر مارنے کی کوشش کریں تو اس کا انجام کیا ہوتا ہے؟
کانگریس نے جب پہلی مرتبہ استعفیٰ کا مطالبہ کیا تھا تو راجناتھ سنگھ نے بڑے طمطراق سے کہا تھا یہ متحدہ ترقی پسند محاذ کی حکومت نہیں ہے جس میں استعفے لیے جاتے ہیں لیکن اب بی جے پی کو پتہ چل گیا کہ اگر کوئی برسرِ اقتدارجماعت اڑیل رخ اختیار کرے تو اس کی کس قدر رسوائی ہوتی ہے۔ ایک سال قبل بی جے پی کا خیال تھا کہ ملک کانگریس فری ہوگیا ہے یہاں پر کوئی حزب اختلاف کا رہنما تک نہیں ہے ایسے میں کانگریس کے مٹھی بھر ارکان کیا بگاڑلیں گے لیکن اب اسے پتہ چل گیا ہے کہ اگر لیڈرشپ دمدار ہوتو تعداد کی کوئی خاص اہمیت نہیں ہوتی اور اگر رہنما کمزور ہو تو بزدلوں کی فوج بھی کسی کام نہیں آتی۔
لوک سبھا کی اسپیکر سمترا مہاجن نے بی جے پی کے اشارے پر کانگریس کے ۴۴؍ میں سے ۲۵؍ ارکان کو ۵؍ دنوں کے لئے معطل فرمادیا جن میں دو ایسے ارکان کے نام بھی تھے جو ہنگامے کے وقت ایوان سے غیر حاضر تھے۔ اس کے خلاف کانگریسی ارکان دھرنے پر بیٹھ گئے اور انہیں تمام سیاسی جماعتوں کی حمایت حاصل ہوگئی، یہاں تک کہ بی جے پی کے رکن پارلیمان شتروگھن سنہا نے بھی حکومت کے اس اقدام پر علی الاعلان اپنی ناراضگی کا اظہار کردیا۔اس صورتحال میں من کی بات کرنے والے مون برت پر بیٹھے وزیراعظم کو چاہئے کہ وہ کان کھول کر عوام کی اور ان کے نمائندوں کی شکایات سنیں۔بلاوجہ ہوا میں تلوار گھمانے کے بجائے افتخار راغب کی اس نصیحت پر عمل کریں( ترمیم کی گستاخی کے ساتھ) ؂
تلوار رہنے دیجئے مودی میان میں
تاثیر پیدا کیجئے اپنی زبان میں

ڈاکٹر سلیم خان، معروف سیاسی تجزیہ نگار

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Verified by MonsterInsights