رمضان: خیر امت کی تجدید کا مہینہ

0

سعود فیروز        

            امت مسلمہ ایک انفرادی شان رکھنے والی امت ہے۔ اس روئے زمین پر نوع بہ نوع امتیں اور ملتیں موجود رہی ہیں اور اب بھی ہیں،تاہم امت مسلمہ کا موازنہ ان میں سے کسی امت و ملت سے نہیں کیا جا سکتا۔ یہ اللہ تعالی کی منظور نظر امت ہے۔امت مسلمہ کا یہ امتیاز کسی نسلی،جغرافیائی یا لسانی برتری کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ یہ اس وجہ سے ہے کہ اس امت کو اللہ تعالی نے ایک خاص اسکیم کے تحت اٹھایا ہے اور اس کے شانوں پر ایک عظیم الشان فرض عائد کیا ہے۔ یہ وہی منصب اور وہی فرض ہے جسے مختلف دور اورمختلف علاقوں میں انبیاء کرام ؑ ادا کرتے رہے ہیں۔اس امت کے منصب اور فرض منصبی کوقرآن کی روشنی میں امر با المعروف اور نہی عن المنکر،شہادت علی الناس، اعلائے کلمتہ اللہ، قیام عدل و قسط،غلبہ اسلام،حکومت الہیہ کا قیام، اقامت قرآن اور اقامت دین جیسی گوناگوں اصطلاحوں میں بیان کیا جا سکتا ہے۔اس امت کا فرض یہ ہے کہ وہ اس دنیا میں بسنے والے ہر انسان کارشتہ اوردنیا کے ہر تمدن و تہذیب کی ڈور اللہ وحدہ لاشریک لہ سے جوڑدے۔ اسی طرح اس امت کا فرض منصبی یہ ہے کہ وہ اس دنیا میں ایک خدا شناس، انصاف پر مبنی،پر امن سماج کی تعمیر کے لیے جدوجہدکرے۔یہی منصب اور یہی فرض امت مسلمہ کی انفرادیت ہے۔اسی منصب اور اسی فرض کی بنا پر وہ اللہ تعالی کی محبوب ترین امت ہے۔

            ایک وقت تھا جب اللہ تعالی نے اسی منصب پر بنی اسرائیل کو فائز کیا تھا۔بنی اسرائیل کو یہ شرف حاصل تھا کہ اسے اللہ تعالی نے تمام انسانی گروہوں سے افضل قرار دیا تھا۔لیکن بعد میں بنی اسرائیل کواس مقام و منصب سے معزول کردیا گیا۔اس معزولی کا بنیادی سبب یہ تھا کہ بنی اسرائیل نے اپنے فرض منصبی کو ادا نہ کیا۔اللہ سے کیے گئے عہد و پیمان کو وفا نہ کیا۔ اس بے وفائی کی تفصیلی سرگزشت اور بنی اسرائیل کی قرارداد جرم سورہ البقرۃ میں بیان کی گئی ہے۔سورہ البقرۃ میں بنی اسرائیل کی قرارداد جرم اور امامت ِدنیا کے منصب سے اس کی معزولی کے فورا بعد ہی وہ آیات ہیں جن میں امت مسلمہ پر روزوں کو فرض کیا گیا اور رمضان کی تفصیلات بیان کی گئیں۔

            بنی اسرائیل کا منصب، اس کا فرض منصبی، فرض منصبی ادا نہ کرنے کی وجہ سے منصب سے معزول کردیا جانا، معزولی کے اسباب، اس مقام و منصب پر امت مسلمہ کو فائز کرنااور پھر رمضان اور اس کی تفصیلات کا بیان، اس قرآنی نظم کلام میں امت مسلمہ کی حیات و موت کا سبق پوشیدہ ہے۔ اس سبق کا خلاصہ یہ ہے کہ امت مسلمہ کی زندگی فرض منصبی کی ادائیگی سے وابستہ ہے۔اور اس کی تفصیل یہ ہے کہ اس امت کو ایک بلند منصب پر فائز کیا گیاہے۔ اس منصب کے ساتھ اسے ایک ذمہ داری بھی عطا کی گئی ہے۔وہ اس بلند منصب پر اسی وقت تک فائز رہے گی جب تک وہ اپنی ذمہ داری کو ادا کرتی رہے۔ جب وہ اپنی ذمہ داریوں کو طاق نسیان کی زینت بنادے گی،تو بعید از امکان نہیں کہ بنی اسرائیل کی طرح اللہ تعالی امت مسلمہ کو بھی معزول کر کے پھر کچھ اور افراد و اقوام کو اس منصب پر براجمان کردے۔قرآن اشارہ کرتا ہے کہ ذمہ داری کو ادا کرنے اور معزولی کی ذلت سے بچنے کے لیے جن روحانی اور مادی طاقتوں سے لیس ہوناناگزیر ہے، ان طاقتوں کا ایک اہم سرچشمہ رمضان اور اس کے روزے ہیں۔

            ذمہ داری کو ادا کرنے اور معزولی کی ذلت سے بچنے کے لیے امت مسلمہ اور اس کے ہر فرد کی بنیادی ضرورت تقوی ہے۔ تقوی اُس روحانی کیفیت کا نام ہے جس میں انسان کی فکر، اس کے عمل، اس کے رویے، اس کی خلوت و جلوت، اس کے اعضاء و جوارح سب اللہ کی محبت سے معمور اور اس کے نور سے روشن ہوتے ہیں۔ یہ خیال ذہن میں مستحضر رہتا ہے کہ خدا دیکھ رہا ہے۔روحانی کیفیت کے اس تجربے کے بعد ایک صالح انسان اور ایک صالح انسانی گروہ کے لیے ممکن نہیں ہوتا کہ وہ اللہ تعالی کی طرف سے عطا کردہ ذمہ داری سے ایک لمحے کے لیے بھی غفلت برتے۔ قرآن میں لَعَلّکُم تَتَّقُون  کے الفاظ میں بتایا گیا کہ روزوں کا مقصدانسانوں میں اسی تقوی کی تخم ریزی ہے۔روزے انسان کو تقوی کے اسی روحانی تجربے کی مشق کراتے ہیں۔

            فرض منصبی کو ادا کرنے اور امامت ِ دنیا کے منصب جلیل سے معزولی کی ذلت سے بچنے کے لیے احساس بندگی، نفس کی تربیت، اعلی کردار،مضبوط قوت ارادہ،محنت و جفاکشی، صبرواستقامت اور انسانوں سے قلبی ربط و تعلق جیسے اوصاف کی موجودگی بھی ناگزیر ہے۔یہ تمام اوصاف روزوں سے ہی پیدا ہوتے ہیں۔روزے کی حالت میں انسان صبح سے شام تک اپنے آپ کو خورد و نوش اور زن و شو کے تعلقات سے باز رکھتا ہے۔ وہ کچھ کھانا یا کچھ پینا چاہتا ہے، لیکن کھانے اورپینے کا ارادہ کرتے ہی اسے خیال آتا ہے کہ وہ آزاد نہیں ہے،بلکہ اپنے رب کا بندہ و غلام ہے،چنانچہ وہ فوراً کھانے یاپینے کا ارادہ ترک کردیتا ہے۔پورے تیس دن صبح سے شام تک ہر لمحہ یہ خیال کہ وہ آزاد نہیں ہے، بلکہ اپنے رب کا بندہ و غلام ہے، انسان کے اندر شدید احساس بندگی پیدا کردیتا ہے۔روزے کی حالت میں انسان صبح سے شام تک اپنے نفس کی خواہشات پر قابو رکھتا ہے۔ نہ صرف یہ کہ وہ بری خواہشات کو اپنے دل میں گھر نہیں کرنے دیتا بلکہ جائز اور حلال خواہشات مثلا کھانے پینے کی خواہش وغیرہ پر بھی لگام رکھتا ہے۔ ایک ماہ کی اس مسلسل مشق سے اس کے نفس کی تربیت ہوتی ہے۔وہ سوچتا ہے کہ جب اللہ کی رضا کے لیے حلال اور جائز خواہشات کو قابو میں رکھنا اس قدر اہم ہے تو پھر حرام اور ناجائز خواہشات سے اجتناب کتنا اہم ہوگا۔بالآخر حرام اور کبائر سے اجتناب اس کا شعار بن جاتا ہے۔روزے انسان کے کردار کی تربیت کرتے ہیں۔ روزے کی حالت میں انسان پر اجتماعی ماحول کا اثر ہوتا ہے۔ اس کے لیے دروغ گوئی سے کام لینا، سب و شتم اورفریب دہی کاکام آسان نہیں ہوتا۔روزہ دار کو ”مَن صَامَ رَمَضَانَ اِیماناً وَاحتِساباً غُفِرَ لَہُ ما تَقَدَّمَ مِن ذَنبِہِ“ (جس نے ایمان و احتساب کے ساتھ روزے رکھے اس کے پچھلے گناہ معاف کردیے گئے، صحیح البخاری 1901) اور ”مَن لَم یَدَع قَولَ الزُّورِ وَالعَمَلَ بِہِ فَلَیسَ لِلہ حَاجَۃ اَن یَدَعَ طَعَامَہُ وَ شَرَابَہُ“ (اگر کوئی شخص روزہ رکھ کربھی جھوٹ بولنا اور اس پر عمل کرنا نہیں چھوڑتا تو اللہ تعالی کو اس کی کوئی ضرورت نہیں کہ وہ اپنا کھانا پینا چھوڑدے، صحیح البخاری 6057)جیسی احادیث پر بھی عمل کرنا ہوتا ہے۔رمضان میں یہ اور اس قسم کی متعدد قرآنی و نبوی تعلیمات انسان کے کردار کو بلندی عطا کرتی ہیں۔رمضان انسان کی قوت ارادہ کو بھی مضبوط کرتا ہے۔ روزے کی حالت میں انسان خاموشی سے کچھ کھا اور کچھ پی سکتا ہے،لیکن وہ محض اپنے مضبوط ارادہ کے سبب ایسا نہیں کرتا۔انسان کو اپنے ارادوں پر قابو حاصل ہوجاتا ہے۔ رمضان انسان میں صبر،ضبط اور استقامت کی صلاحیت بھی پیدا کرتا ہے۔ صبح سے شام تک بھوکا اور پیاسا رہناسہل کام نہیں ہے۔حلق خشک ہوجاتا ہے،پیٹ پشت سے جالگتا ہے لیکن روزہ دار ہمت نہیں ہارتا۔وہ صبر کرتا ہے،ضبط سے کام لیتا ہے اور پوری استقامت کے ساتھ روزے مکمل کرتا ہے۔روزہ انسانوں میں انسانوں کے تئیں محبت بھی پیدا کرتا ہے۔روزہ دار کو روزے کی حالت میں شدید بھوک کا احساس ہوتا ہے۔ یہ احساس ان انسانوں کے درد کو سمجھنے میں مدد کرتا ہے جنہیں دو وقت کی روٹی میسر نہیں۔وہ بھوکوں کا ہمدرد بن جاتا ہے اور انہیں کھانا کھلانے کا بندوست کرنے لگتا ہے۔پھر اس کے سامنے حضرت ابن عباسؓ کی رسول اللہ ﷺ کے حق میں یہ گواہی سامنے آتی ہے کہ ”کَانَ رَسُولُ اللہِ صَلی اللہ عَلَیہِ وَسَلَّم اَجوَدَ النَّاس ِ وَکَانَ اَجوَدُ ما یَکُونُ فِی رَمَضَانِ۔۔۔الخ“ (اللہ کے رسول ﷺ تمام انسانوں سے زیادہ سخی تھے،اور سب سے زیادہ سخاوت کا مظاہرہ،وہ رمضان میں کیاکرتے تھے،صحیح البخاری3220)اس کے بعد تو وہ جود و سخاوت، انسانوں سے ہمدردی اور یگانگت کی مجسم تصویر بن جاتا ہے۔

            تقوی،احساس بندگی، نفس کی تربیت،اعلی کردار،مضبوط قوت ارادہ،محنت و جفاکشی،صبر واستقامت اور انسانوں سے گہرا ربط و تعلق وہ بنیادی اوصاف ہیں جنہیں اختیارکیے بغیرامت مسلمہ کا فرض منصبی ادا نہیں ہوسکتا۔صرف اتنا بھی کافی نہیں ہے کہ ملت کے چیدہ افراد میں انفرادی طورپر یہ اوصاف پیدا ہوجائیں بلکہ لازمی ہے کہ یہ اوصاف بہ حیثیت مجموعی پوری امت مسلمہ کی اجتماعی شناخت بن جائیں۔یہ امت کے منصب کی حفاظت کے لیے ناگزیر ہے۔        

            ایک طرف امت کا منصب اور اس کا فرض منصبی ہے اور دوسری طرف اس فرض منصبی کی صحیح ادائیگی کے لیے مذکورہ بالا لوازمات ہیں۔ ان دونوں کا گہرا رشتہ رمضان سے ہے۔ رمضان میں روزوں کا اہتمام ہوگا تو فردکے اندر وہ لوازمات پیدا ہوں گے۔ لوازمات پیدا ہوں گے تو فرض منصبی ادا ہوگا۔فرض منصبی ادا ہوگا تو امت اپنے اصل منصب پر قائم و دائم رہے گی۔

            یہ وقت کی بڑی اور اہم ضرورت ہے کہ امت مسلمہ کے ہر فرد کے سامنے رمضان کا تعارف اس پہلو سے کرایا جائے۔ جب رمضان کا یہ تعارف سامنے آئے گا تو نہ صرف یہ کہ فرد میں اپنے آپ کو بدلنے کا جذبہ پیدا ہوگا بلکہ یکایک پوری امت مسلمہ کے اندر ایک بہتر تبدیلی محسوس کی جائے گی۔یہیں سے امت مسلمہ کے حقیقی مسائل کے تدارک کی سبیل پیدا ہوگی۔ ناخواندگی، غربت اور ایوانوں میں متناسب نمائندگی اس امت کے اصل مسائل نہیں ہیں،اس لیے تعلیم، معاشی بہتری اور سیاسی طاقت اصل حل بھی نہیں ہیں۔ اس امت کا بنیادی مسئلہ اس کے فرض منصبی کے اردگرد گردش کرتا ہے۔فرض منصبی کی طرف رجوع اور اس سے وابستگی ہی حقیقی حل ہے۔

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Verified by MonsterInsights