اختلافی مسائل اور ہمارا مطلوبہ رویہ : اسوۂ صحابہؓ کی روشنی میں

0

نبی اکرمؐ اس حقیقت کو سمجھتے تھے کہ امت کی بقا الفت و محبت اور وحدت و اتحاد کی مرہون منت ہے، جہاں دلوں میں نفرت پیدا ہوئی، امت فنا ہوجائے گی اسی لیے آپؐ نے اختلاف کا بیج پڑنے سے پہلے اسے جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کی کوشش کی۔ صحابہ کرامؓ، جن کی تربیت درس گاہ نبوت میں ہوئی تھی، انھیں یقین تھا کہ اختلاف سے کبھی خیر اور سعادت حاصل نہیں ہوسکتی بلکہ یہ بغض و عناد، حسد و کینہ، عداوت ودشمنی اور امت کی متحد صفوں میں دراڑ ڈالنے کا ہی سبب بنے گا۔
رسول اللہؐ کا فیضِ تربیت تھا کہ:
۱) صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین حتی الامکان اختلاف سے گریز و اجتناب کرتے تھے اور یاد رکھتے تھے کہ ’’لاتختلفوا فتختلف قلوبکم‘‘۔
۲) اختلاف کی صورت میں کتاب اللہ اور سنت رسولؐ کو حکم بناتے تھے کہ رفع اختلاف کا اس سے کارگر نسخہ اور کوئی نہیں ہوسکتا، ’’ان تنازعتم فی شیء فردوہ الی اللہ والرسول‘‘۔
۳) اپنی رائے پر بے جا اصرار سے دور رہتے تھے، ہر شخص کو یہ احساس رہتا تھا کہ اس کے بھائی کی رائے بھی اتنی ہی درست ہوسکتی ہے جتنی اس کی، اس احساس و شعور کا فیض تھا کہ ان میں کا ہر فرد، دوسرے کا احترام کرتا اور ہر طرح کی عصبیت سے محفوظ و مأمون رہتا۔
۴) نفسانیت جس کو قرآن مجید نے ’’ہویٰ‘‘ کہا ہے، اس سے بچتے، اور احتیاط و تقویٰ کی راہ اختیار کرتے کہ یہی راہ اس بات کی ضامن ہے کہ حقیقت تک رسائی ہی فریقین کا مطمح نظر اور اصل مقصد بن جائے۔
۵) ہمیشہ نرم دم گفتگو گرم دم جستجو کو اپنا شعار بناتے اور جارحانہ و لغو زبان استعمال کرنے سے بالکلیہ پرہیز کرتے۔
یہ وہ اصول تھے جو اختلاف آراء کی صورت میں صحابہ کرامؓ اپنے سامنے رکھتے تھے، جن کی مثالیں آگے پیش کی جائیں گی۔
یہاں اس شبہہ کا ازالہ بھی ضروری ہے کہ بعض مسلم مفکرین و مصنفین کی کوششوں سے ایسا لگتا ہے اور امت یہ سمجھنے لگی ہے کہ اب ایسی مثالی امت وجود میں آہی نہیں سکتی۔ یہ تصور غلط ہونے کے ساتھ ساتھ دین اسلام کے سلسلہ میں صریح بدگمانی بھی ہے۔ گویا یہ حضرات یہ باور کرانا چاہتے ہیں کہ صحابہ کرامؓ کے عہد کے بعد کتاب اللہ اور سنت رسولؐ کے سایہ میں اب اسلامی زندگی کی تشکیل محال ہے، یہ خیال سراسر غلط اور باطل ہے۔ جس کتاب اور جس سنت نے صحابہ کرامؓ کی جماعت کو ایک مثالی اور آئیڈیل جماعت بنایا تھا، وہ دونوں چیزیں اپنی اصل حالت میں ہمارے درمیان آج بھی موجود ہیں اور ان میں آج بھی وہی قوت و تاثیر ہے جو اس وقت تھی، بس شرط یہ ہے کہ ان پر اسی طرح عمل کیا جائے جس طرح اس جماعت نے کیا تھا، یقیناًان ہی اوصاف و اخلاق کی حامل امت پھر وجود میں آسکتی ہے۔ زیادہ سے زیادہ جو فرق پڑسکتا ہے وہ یہ کہ شرف صحابیت نہیں مل سکتا، اس کے علاوہ وہ ساری سعادتیں آج بھی حاصل ہوسکتی ہیں جو اس وقت حاصل ہوئیں۔ ذیل میں اس مثالی جماعت کے درمیان رونما ہونے والے اختلافات اور ان اختلافات کے سلسلے میں ان کے طرز عمل کا ذکر کیا جارہا ہے:
سب سے پہلا اختلاف جو رونما ہوا وہ آپؐ کی وفات کا مسئلہ تھا جس کی شدت کا عالم یہ تھا کہ صحابی رسولؐ سیدنا عمر فاروقؓ جیسے زیرک افراد کسی طرح سے اس خبر کو ماننے کے روادار نہیں تھے اور تلوار ہاتھ میں لیے مدینہ کی گلیوں میں گھوم رہے تھے، مگر جیسے ہی آپؐ کے دیرینہ رفیق و یار غار حضرت ابوبکر صدیقؓ نے قرآن مجید کی یہ آیات تلاوت فرمائی کہ ’’إِنَّکَ مَیِّتٌ وَإِنَّہُم مَّیِّتُون‘‘۔ (زمر: ۳۰) اور ’’وَمَا مُحَمَّدٌ إِلاَّ رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِن قَبْلِہِ الرُّسُلُ أَفَإِن مَّاتَ أَوْ قُتِلَ انقَلَبْتُمْ عَلَی أَعْقَابِکُمْ وَمَن یَنقَلِبْ عَلَیَ عَقِبَیْْہِ فَلَن یَضُرَّ اللّہَ شَیْْئاً وَسَیَجْزِیْ اللّہُ الشَّاکِرِیْن‘‘۔ (آل عمران: ۱۴۴) یہ سننا تھا کہ حضرت عمرؓ کے ہاتھ سے تلوار گرگئی اور انھیں آپؐ کی وفات کا یقین ہوگیا اور کہا: مجھے ایسا محسوس ہوا کہ اس سے قبل میں نے ان آیات کو کبھی پڑھا ہی نہیں۔ (تفسیر ابن کثیر۴/۶۹، سیرۃ ابن ہشام ۴/۵۵)
اس کے بعد خلافت کا مسئلہ اور خلافت کے فوراً بعد مانعین زکوٰۃسے جنگ کے مسئلہ میں اختلاف، یہ سب وہ اختلافات ہیں جو رسول اللہؐ کے وصال کے فوراً بعد پیش آئے مگر کسی موقعے پر خون خرابہ دور کی بات، کسی کی تحقیر و تکفیر کی بھی نوبت نہ آئی۔
مذکورہ اختلافات کے علاوہ بھی بہت سے فقہی اختلافات کے مطالعہ سے قابل رشک اور حیرت انگیز محبت کے نمونے سامنے آتے ہیں کہ کس طرح وہ ایک دوسرے کی تعظیم و تکریم کرتے تھے۔ مثال کے طور پر مرتد قیدی عورتوں کے مسئلہ میں حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کے مابین شدید اختلاف تھا اور حضرت عمرؓ نے اپنی خلافت میں اپنی رائے پر عمل بھی کیا۔ ان عورتوں کے سلسلہ میں حضرت عمر کی رائے یہ تھی کہ انھیں آزاد کرکے ان کے مردوں کے حوالہ کردینا چاہیے اور حضرت ابوبکرؓ کی دانست میں یہ صحیح حکمت عملی نہیں تھی۔ اسی طرح مفتوحہ اراضی کے سلسلہ میں بھی دونوں مختلف الرائے تھے، حضرت ابوبکرؓ تقسیم کے قائل تھے جبکہ حضرت عمرؓ کی رائے یہ تھی کہ ان زمینوں کو وقف کردیا جانا چاہیے۔ عطیات کی تقسیم میں بھی دونوں حضرات میں اختلاف تھا، صدیقؓ مساوات کے قائل تھے اور فاروقؓ تفاضل و ترجیح کے، یہاں تک کہ فاروقؓ نے اپنے زمانۂ خلافت میں ترجیح کی بنیاد پر عطیات کی تقسیم کی، حضرت ابوبکرؓ نے اپنے بعد حضرت عمرؓ کو خلیفہ کی حیثیت سے نامزد کیا جبکہ عمرؓ کے نزدیک یہ عمل درست و صحیح نہیں تھا، یہی وجہ ہے کہ انھوں نے کسی کو نامزد نہیں کیا۔ اس کے علاوہ اور بھی مسائل میں دونوں کے درمیان اختلاف تھا، مگر اس کے باوجود دونوں کی ایک دوسرے سے عقیدت و محبت کا عالم یہ تھا کہ استخلافِ عمر کے وقت کسی نے حضرت صدیق سے جب یہ کہا کہ ہم پر عمرؓ جیسے سخت آدمی کو خلیفہ مقرر کر رہے ہیں کل اللہ کی عدالت میں اگر یہ سوال ہوا تو کیا جواب دیں گے؟ تو حضرت ابوبکرؓ نے فرمایا: اقول: اللھم انی استخلفت علیھم خیر اھلک‘‘ یعنی میں کہوں گا کہ تیرے سب سے بہتر بندہ کو مقرر کرکے آیا ہوں۔ ایک دفعہ کسی نے عمرؓ سے کہہ دیا کہ آپ ابوبکرؓ سے بہتر آدمی ہیں، تو حضرت عمرؓ رو پڑے اور کہا: واللہ للیلۃ ابی بکر خیر من عمر و آل عمر، ابوبکر کی زندگی کی ایک رات عمر اور آل عمر کی تمام زندگی پر بھاری ہے۔ امت کے شیخین اور ان کے اختلاف کے یہ چند نمونے ہیں جو یہ بتاتے ہیں کہ رایوں میں تو اختلاف ہوا ،مگر دل ایک رہے کیونکہ دل آسمانی رسیوں سے بندھے ہوئے تھے اس لیے زمینی مٹی ان کو متأثر نہ کرسکی۔
شیخین کی طرح حضرت عمرؓ اور حضرت علیؓ کے درمیان بھی بعض مسائل میں نقطہ نظر کا اختلاف تھا مگر اختلاف دشمنی کا سبب نہیں تھا۔ ایک موقع پر حضرت عمرؓ نے ایک عورت جس کا شوہر گھر پر موجود نہیں تھا اور دوسرے لوگوں کی اس کے یہاں آمد و رفت تھی۔ حضرت عمرؓ نے اس پر روک لگائی اور عورت کو بلوایا، قاصد نے جب عورت کو خبر دی تو وہ ڈرگئی، ڈری سہمی دار الخلافت کی طرف چل دی، راستہ میں دردِ زہ ہوا تو ایک مکان میں پناہ لی اور بچہ جنا جو مرگیا۔ آپؓ نے اصحاب رسولؐ سے مشورہ کیا کہ اس مسئلہ میں کیا ہونا چاہیے۔ بعض لوگوں کی یہ رائے سامنے آئی کہ اس بچہ کی دیت آپ پر واجب نہیں ہوتی کیونکہ نظام کی اصلاح و تأدیب آپ کی ذمہ داری ہے۔ حضرت علیؓ اب تک خاموش تھے چنانچہ حضرت عمرؓ نے ان سے مخاطب ہوکر کہا: تمھاری کیا رائے ہے؟ علیؓ نے کہا: اگر ان حضرات نے اپنی رائے دی ہے تو یہ رائے میرے نزدیک صحیح نہیں ہے اور اگر آپ کو خوش کرنے کے لیے ایسا کیا ہے تو یہ آپ کے خیرخواہ نہیں ہیں۔ میری رائے میں آپ پر دیت واجب ہے کیونکہ آپ ہی کی وجہ سے بچہ کی جان گئی ہے چنانچہ خلیفہ وقت نے اس رائے کو پسند فرمایا اور اس پر عمل کیا۔
حضرت عبد اللہ ابن مسعودؓ جو اصحاب رسولؐ میں کتاب اللہ اور سنت رسولؐ کے بڑے عالم سمجھے جاتے تھے، اور جنھیں خود زبان رسالت سے فقہ و بصیرت کی سند حاصل تھی، جنہیں جماعت صحابہ میں کتاب اللہ کا بڑا عالم تصور کیا جاتاتھا اور جن کو اکثر صحابہ اہل بیت رسولؐ میں شمار کرتے تھے۔ ان کے اور حضرت عمر کے درمیان بھی بہت سارے مسائل میں اختلاف رائے ہوا، امام ابن قیمؒ کے مطابق جن مسائل میں ان دونوں بزرگوں کے درمیان اختلاف ہوا ان کی تعداد سو سے زائد ہے۔ (اعلام الموقعین ۲/۲۱۸) مثلاً نماز کے دوران ابن مسعودؓ رکوع کی حالت میں اپنے دونوں ہاتھوں کو گھٹنوں کے درمیان کرلیتے تھے۔ گھٹنوں پر رکھنے سے روکتے تھے، اس کے برخلاف حضرت عمرؓ اپنے ہاتھوں کو گھٹنوں پر رکھتے تھے اور درمیان میں کرنے سے منع کرتے تھے۔اسی طرح اگر کوئی شخص اپنی بیوی سے کہہ دے کہ ’’أنت علی حرام‘‘ (تو مجھ پر حرام ہے) توحضرت ابن مسعودؓ کے یہاں محض قسم تھی جبکہ حضرت عمرؓ کے نزدیک طلاق۔ ابن مسعودؓ کی نظر میں اگر کوئی مرد کسی عورت سے زنا کرنے کے بعد شادی کرلے تو اس کے بعد بھی حالت زنا میں ہے حالانکہ عمر فاروقؓ پہلی حالت کو بدکاری اور بعد کی حالت کو نکاح مانتے تھے۔اس کثرت اختلاف کے باوجود دونوں کی محبت، مودت اور رشتۂ اخوت میں کوئی کمی نہیں آئی، نہ ابن مسعودؓ کی نگاہ میں عمر فاروقؓ کی قدر ومنزلت میں فرق پڑا اور نہ عمر فاروقؓ نے ابن مسعودؓ پر اپنی بصیرت و تفقہ کا رعب جمایا بلکہ حضرت ابن مسعودؓ عمر فاروقؓ کو اسلام کا حصن حصین سمجھتے تھے اور کہتے تھے کہ ان کے جانے سے اسلام کا ایک مضبوط قلعہ ٹوٹ گیا۔ (الاحکام ۶/۶۱) حضرت عمر کی محبت کا عالم یہ تھا کہ ایک دن انھیں آتا دیکھ کر فرمایا! علم و فقہ کا خزانہ آرہا ہے۔(طبقات ابن سعد ۴/۱۶۱ و حیاۃ الصحابہ ۳/۲۵۷۲۱)
ان روشن قندیلوں سے بعد کے زمانے کے علماء کو اپنے دل کے نہاں خانوں کو روشن کرناچاہئے، حضرت عبد اللہ بن عباسؓ اور زید بن ثابتؓ اکابر صحابہ میں سے ہیں، نبی کریمؐ سے ان کا تعلق کسی بیان کا محتاج نہیں ہے، ان دونوں حضرات کا بھی فقہی مسائل میں اختلاف ہوا، جیسے ابن عباسؓ کے مطابق دادا کی موجودگی میں باپ کی طرح بھائی بہنوں کی وراثت بھی ساقط ہوجاتی ہے لیکن زیدؓ کے خیال میں بھائی، دادا کی وجہ سے محجوب نہیں ہوگا، حضرت ابن عباس کو اپنی رائے کی صحت پراس قدر یقین تھا کہ کہا کرتے تھے: میں چاہتا ہوں کہ میراث کے اس مسئلہ میں جو لوگ مجھ سے اختلاف رکھتے ہیں وہ اور میں سب جمع ہوں، اور اللہ سے دعا کریں، گریہ و زاری کریں کہ جھوٹوں پر خدا کی لعنت ہو۔ (ادب الاختلاف فی الاسلام ص ۶۷)
صحابہ کرام کے درمیان مختلف مسائل میں اختلاف کے باوجود ان کا کردار کیا تھا، ملاحظہ کریں کہ ایک دن ابن عباسؓ نے زیدؓ کو سواری پر آتے دیکھا تو ان کے اونٹ کی رکاب پکڑ کر چلنے لگے۔ حضرت زید بن ثابتؓ نے کہا: کہ اے رسول اللہؐ کے چچا جائے! اسے چھوڑ دو، اس پر ابن عباسؓ کا جواب تھا کہ ! ہمیں اپنے اہل علم کی تعظیم و توقیر کا یہی حکم ہے، زیدؓ نے کہا: اچھا اپنا ہاتھ دکھاےئے حضرت ابن عباسؓ نے ہاتھ بڑھایا، تو حضرت زیدؓ نے چوم لیا اور فرمایا: ہمیں اہل بیت کے ساتھ ایسا ہی کرنے کا حکم اور تعلیم دی گئی ہے۔ (حیاۃ الصحابہ ۳؍۳۱)
حضرت زید بن ثابتؓ کے انتقال پر حضرت ابن عباسؓ نے نہایت آبدیدہ ہوکر کہا کہ: علم اس طرح رخصت ہوتا ہے۔ (اعلام الموقعین ۱؍۸۱) دوسری روایت میں ہے کہ آپؓ نے کہا: آج علم کا وافر حصہ زمین میں دفن ہوگیا۔(سنن بیہقی ۶؍۲۱۱۔ حیاۃ الصحابہ ۳؍ ۲۶۷)
صحابہ کرامؓ کے نقطۂ نظر اور رائے کے اختلافات کو جمع کیا جائے تو کئی کتابیں بھی ناکافی ہیں مگر یہ چند نمونے صرف یہ بتانے کے لیے پیش کیے گئے ہیں کہ امت کو معلوم ہوسکے کہ قرآن و سنت کی جس آغوشِ تربیت میں صحابہ کرامؓ کی پرورش ہوئی تھی، اس میں کسی بھی حال میں آداب اختلاف اور حدود اختلاف سے تجاوز جائز نہ تھا، خلافت راشدہ کے اخیر دور میں جو جنگی حادثات پیش آئے، ان کے اسباب و وجوہ جو بھی ہوں، مگر ان نازک ترین حالات میں بھی یہ رشتہ ایمانی متأثر نہیں ہوا۔ حضرت علیؓ کے بارے میں مروان بن حکم کا یہ تأثر بڑا معنی خیز ہے کہ: میں نے علیؓ سے زیادہ کریم انسان نہیں دیکھا، جنگ جمل میں بھی وہ ہمارے ولی تھے، ان کا منادی پکار رہاتھا کہ: ’’کسی زخمی کو نہ مارا جائے‘‘،حالانکہ تاریخ کا ہر طالب علم جانتا ہے کہ جنگ جمل میں یہ دونوں حضرات ایک دوسرے کے حریف تھے۔
جنگ جمل کے بعد عمران بن طلحہ حضرت علیؓ کے یہاں گئے، حضرت علی نے ان کا استقبال کیا اور اپنے پاس بٹھایا اور کہا: مجھے امید ہے کہ مجھے اور تمھارے باپ کو اللہ تعالیٰ ان لوگوں میں شامل فرمائے گا جن کے بارے میں اس کا ارشاد ہے: ’’ونزعنا ما فی صدورھم من غل اخوانا علٰی سرر متقابلین‘‘ (یعنی ان کے دلوں سے بغض و کینہ نکال دیں گے، وہ مسندوں پر آمنے سامنے بھائی بھائی بن کر بیٹھے ہوں گے) اس کے بعد عمران بن طلحہ سے گھر کے ایک ایک فرد کا نام لے کر خیریت دریافت کی، مجلس میں موجود بعض لوگ جنھیں شرف صحابیت حاصل نہیں تھا اور جو اصحاب رسولؐ کی عظمت و شرافت سے ابھی اچھی طرح واقف نہیں تھے انھیں حیرت ہوئی، اور دو آدمی بول اٹھے کہ کل انھیں سے برسر پیکار تھے اور پھر جنت میں بھائی ہوجاؤگے؟ یہ سن کر حضرت علیؓ غضبناک ہوگئے اور فرمایا: میں اور طلحہ جنت میں اس طرح قریب نہ ہوں گے تو اور کون ہوگا؟(طبقات ابن سعد ۳؍ ۲۲۴ و حیاۃ الصحابہ ۱۲؍ ۴۶۱)
جنگ جمل میں فریق مخالف کے بارے میں کسی نے سید مرتضیٰ سے پوچھا کہ یہ لوگ مشرک ہیں؟ آپؓ نے فرمایا: ’’من الشرک فروا‘‘ وہ شرک سے دور ہیں، پوچھا: کیا منافق ہیں؟ فرمایا: منافق اللہ کا ذکر نہیں کیا کرتے، پوچھا: آخر کون لوگ ہیں؟ کہا: ہمارے بھائی ہیں، جنھوں نے ہم سے بغاوت کی۔ (سنن بیہقی ۸؍۱۷۳۔ )
عمار بن یاسرؓ جو جنگ جمل میں ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے موقف کے خلاف تھے، ان کے سامنے کسی نے ام المؤمنین کو کچھ کہا تو آپ نے اسے ڈانٹا، اور کہا: کہ رسولؐ کی محبوب زوجہ کو اذیت پہنچاتا ہے، وہ جنت میں آپ کی زوجہ ہوں گی، اللہ تعالیٰ نے ان کے ذریعہ ہمارا امتحان لیا ہے کہ ہم ان کی اطاعت کرتے ہیں یا اللہ کی۔(کنز العمال ۷؍۱۶۶، حیاۃ الصحابہ ۲؍ ۴۶۲)
یہ ان لوگوں کے نمونے ہیں جن کے درمیان مشیت خداوندی کے تحت صف آرائی بھی ہوئی لیکن جو نور انھوں نے شمع نبوت سے پایا تھا،ان کے دلوں کو منور کرتا رہا، بغض و حسد کی ظلمتوں کو مٹاتا رہا، لاکھ اختلاف کے باوجود وہ بھائی بھائی بنے رہے ، اور اتحاد و یگانگت کے یہ اعلیٰ نمونے پیش کیے، فالحمد للہ علی ذالک۔
صحابہ کرام کے رویے سے یہ چیز بالکل عیاں ہوکر سامنے آتی ہے کہ
الف) ان کے اختلاف کی بنیاد نفسانیت نہیں بلکہ حق و صواب کی جستجو تھی، ٹکراؤ اور نزاع کی صورت اس وقت پیدا ہوتی ہے جب نفسانیت کارفرما ہوتی ہے، اسی لیے جب حق بات سامنے آجاتی، تووہ فوراً قبول کرلیتے تھے، کسی طرح کی سبکی محسوس نہیں کرتے تھے۔
ب) تمام تر مسائل میں وہ اسلامی اخوت کو دین اسلام کی ایک اہم بنیاد سمجھتے تھے اور سمجھتے تھے کہ اس اخوت کے قیام کے بغیر دین کا قیام ممکن نہیں ہے، ان کا اس بات پر ایمان و یقین تھا کہ اخوت اسلامی، افتراق و اختلاف سے بلند تر ہے۔
ج) کوئی صحابی کسی کی لغزش پر تنبیہ اور اس کی نشاندہی کرتا، تو عیب جوئی اور تنقید سے بالاتر ہوکر محض اس اعتقاد کے ساتھ کرتا کہ ’’الدین النصیحۃ‘‘ اور دوسرا اسے ایک تعاون سمجھ کر نہ صرف قبول کرتا بلکہ اس کا شکر گزار ہوتا۔
ضمیر الحسن خان فلاحی، ادارہ تحقیق وتصنیف علی گڑھ

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Verified by MonsterInsights