مطالعہ کابڑھتا فقدان: لمحہ فکریہ

0

علامہ اقبال نے آج سے تقریباً سو برس پہلے امت مسلمہ سے شکایت کی تھی کہ

تجھے کتاب سے ممکن نہیں فراغ کہ تو

کتاب خواں ہے مگر صاحب کتاب نہیں

یعنی تم صرف کتابیں پڑھنے والے رہ گئے ہو کتابیں لکھنا اور تخلیق کرناتم نے نہیں سیکھا ۔لیکن اقبال کی یہ شکایت تو آج اپنے نقطہ عروج کو پہنچ چکی ہے کہ کتابیں لکھنا تو دور کی بات ان کتابوں کا مطالعہ اور ان سے استفادہ کرنے والے ہی ہماری صفوں میں بڑی مشکل سے ملتے ہیں.اگر یہ بات یہاں تک ہی ہوتی توکچھ ٹھیک تھا

مگر مزید ستم ظریفی یہ ہے کہ طلباء ونوجوانوں کی اکثریت اپنے اکیڈمکس سے متعلق بڑی کتابیں پڑھنے سے کتراتی ہے صرف ماڈل پیپرس،آل ان ونAll in One پر ہی اکتفا کرنا اور انٹرنٹ کے اس دور میں بوقت ضرورت سرسری اور سطحی قسم کی جانکاری حاصل کرنا نوجوانوں کا شیوہ بن چکا ہے تو دوسری طرف فیس بک اورواٹس اپ نے تو طلباء ونوجوانوں کو مطالعہ سے کوسوں دور کردیا ہے جسکی وجہ سے وہ بہت ساری الجھنوں کا شکار ہیں.اور یہی وجہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں نوجوانوں کی کثیر تعداد ہونے کے باوجود انکی قلت ہی محسوس ہوتی ہے اس لئے کہ علم نہ رکھنے اور مطالعہ نہ کرنے والے کی مثال تو اْس بے شعور بچے کی طرح ہے جو اپنی کم علمی اور بے شعوری کی بناء پر معاملہ کو سمجھ نہیں پاتا اور باآسانی کسی کے دھوکہ میں آجاتا ہے اور آج کے نوجوانوں کی حالت بالکل اْس بے شعوربچے کی طرح ہو چکی ہے جنکی شعور کی کیفیت کو دیکھ کر گویاایسا محسوس ہوتا ہے جیسے کسی میدان میں ایک پر پڑاہوا ہواور ہوائیں اسے جدھر چاہے اپنے ساتھ لئے پھرتی ہوں… لیکن سوال یہ ہے کہ اس خطرناک صورتحال کے اسباب کیا ہیں؟غور کیا جائے تواسکی بڑی وجہ یہ سمجھ میں آتی ہے کہ ہم یا تو اسکی اہمیت سے ناواقف ہیں یا اسے بھلا بیٹھے ہیں.

امام غزالی کے نزدیک تو اگر کوئی شخص تین دن تک مطالعہ نہ کریں تو اسکا ذہن مرجاتاہے .جناب سید سعادت اللہ حسینی صاحب نے بھی اپنی ایک تحریر میں اسکی اہمیت کو بہت اچھے انداز سے واضح کیا” جسے مطالعہ کی عادت نہ ہو وہ صرف ایک زندگی گزارتا ہے اور جسے مطالعہ کی عادت ہو وہ ہزاروں زندگیاں گزارتا ہے”اور یہ بات صد فیصد درست بھی ہے کہ جو شخص پڑھتا نہیں ہے وہ صرف اپنے گھر کی چار دیواری میں ہی جیتا ہے وہ تو صرف یہی جانتا ہے کہ میں اور میرا خاندان- لیکن جو شخص مطالعہ کرتا ہے وہ دنیا کے مختلف افراد،افکار،خیالات ،حالات،کلچر اور تہذیب کے ساتھ جیتا ہے اور جو شخص پڑھتا ہے وہ جوان رہتا ہے اگرچہ کہ وہ کم عمر ہی کیوں نہ ہو یعنی اسکا جسم تو جوان نہیں ہوتا لیکن اسکے شعور ،خیالات ،جذبات ،احساسات ،معاملہ فہمی اور انداز گفتگو جوان ہو جاتاہے حضرت عبداللہ ابن عباسؓ اور دور جدیدکے مولانا مودودی اسکی بہترین مثال ہے.اب ایک مسلمان ہونے کے ناطے تو اسکی یہ اہمیت تو مزید بڑھ جاتی ہے کیونکہ قرآن مجید نے ایمان کے بعد جس چیز کو سب سے زیادہ اہمیت دی وہ علم ہی ہے.اللہ تعالی نے قرآن مجید کی سورہ فاطر کی آیت انما یخشی اللہ من عبادہِ علما(حقیقت یہ ہے کہ اللہ کے بندوں میں سے صرف علم رکھنے والے لوگ ہی اْس سے ڈرتے ہیں )سے اس بات کو واضح کیا کہ جو شخص جتنا اور جیسا علم رکھتاہے وہ اتنا اورویسا ہی خدا سے ڈرتا ہے پھر مزید یہ کہ حضرت آدم ؑکو اس زمین کی خلافت کیلئے منتخب کرتے وقت فرشتوں کے اعتراض پر اللہ تعالی نے حضرت آدمؑ کی جس خصوصیت کو نمایاں کیا وہ کائنات کا علم تھا اور علم کی اسی اہمیت کے پیشِ نظر ہم دیکھتے ہے کہ مسلمانوں کی داستانیں علمی کمالات ،ایجادات اور علمی قیادت سے بھری ہے فقہ، طب،تاریخ،جغرافیہ ،ادب ،سائنس و ٹکنالوجی غرض علم کا کوئی ایک ایساشعبہ نہیں ہے جہاں مسلمانوں کے نظریات کی گہری چھاپ نہ پائی جاتی ہو گویا کہ اس دور کے مسلمان صرف کتاب خواں ہی نہیں بلکہ وہ بہت زیادہ پڑھنے والے ،بہت زیادہ سوچنے والے اور نتیجتاً بہت زیادہ تخلیق کرنے والے تھے اسکا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ جس زمانے میں اسپین پر مسلمانوں کی حکومت تھی تو تنہا اس کے سرکاری کتب خانے کی فہرست کتب چوالیس جلدوں پر مشتمل تھی اور تقریباً چار لاکھ کتابیں اسمیں موجود تھی تو دوسری طرف فرانس کی شاہی لائبریری صرف سات سو کتابوں سے سجی ہوئی تھی.

اب اگرآج ہم مسلمان اسلام کی راہ میں کوئی بڑی خدمت کرناچاہتے ہے تو ہمیں علم کے میدانوں میں نمایاں کارنامے  انجام دیتے ہوئے علمی قیادت کے پرچم کو اپنے ہاتھ میں لینا ہوگا تب ہی یہ امید کی جاسکتی ہے یہ دنیا ظلم و تاریکی سے نکل کر حق و انصاف کی روشنی سے منور ہوگی۔

از : عبدلااکرم سہیل

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Verified by MonsterInsights