ماہِ صیام: تعمیر شخصیت کا الٰہی نظام

0

ہماری پوری زندگی اللہ کی اطاعت و بندگی میں گزرنے لگے اس کے لیے اللہ نے چند عبادات فرض کی ہیں۔ پانچ وقت کی نمازیں، تیس دن کے روزے، سال میں متعینہ نصاب کی صورت میں متعینہ مقدار میں زکوٰۃ اور زندگی میں ایک بار حج۔ یہ عبادات دراصل انسان کو اللہ سے قریب کرتی ہیں ، دلوں میں اللہ کا خوف پیدا کرتی ہیں، اور اللہ کی مکمل اطاعت و بندگی کے لیے تربیت کرتی ہیں، جس کی وجہ سے بندہ مومن کی شخصیت کی بہترین تعمیر و تشکیل ہوتی ہے۔
اسلام میں صوم رمضان ایک اہم اور لازمی عبادت ہے۔ جس کااصل مقصد اہل ایمان کی تربیت اور ان کے نفوس کا تزکیہ ہے۔ تاکہ اہل ایمان بندگئ رب کے لیے تازہ دم اور مزید متحرک ہوجائیں اور وہ سارے اوصاف اور خوبیاں ان میں آجائیں جو ایک بندۂ مومن کے لیے مطلوب ہیں۔ آیئے جائزہ لیتے ہیں کہ ماہِ صیام کس طرح بندۂ مومن کی تربیت اور اس کی شخصیت کی تعمیر کرتا ہے۔
علمی ارتقاء: شخصیت کی تعمیر و ارتقاء کے لیے سب سے اہم اور لازمی چیز علم و عرفان کا ادراک ہے۔ علمی ترقی کی وجہ سے ہی شخصیت کا ارتقاء ممکن ہے۔ تمام رسولوں کو رسالت سے قبل اللہ نے علم سے مزین کیا۔ بعثتِ نبویؐ کا مقصد ہی کتاب و حکمت کی تعلیم دینا تھا، اور کتاب و حکمت کے ذریعہ آپؐ نے انسانی نفوس کا تزکیہ کیا، ان کے دلوں کو پاک کیا اور ان کے سیرت وکردار کو سنوارا۔ آیئے غور کریں کہ ماہِ صیام علمی ارتقاء کا کیا سامان فراہم کرتا ہے:
(الف) رمضان کی عظمت و برکت نزولِ قرآن کی وجہ سے ہے اور قرآن تمام ہی خیر کا مجموعہ اور تمام ہی علوم کا خزانہ ہے، اس میں پچھلی تمام قوموں کے واقعات، آنے والے حادثات کی خبر اور انعام یافتہ و سزا یافتہ اقوام کے قصص ہیں، جو علمی ارتقاء کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ جو لوگ علوم قرآن سے محروم ہیں وہ خیر کثیر سے محروم ہیں۔ علم و حکمت کی اس کتاب عظیم کاگہرا تعلق ماہِ صیام سے ہے (شھر رمضان الذی أنزل فیہ القرآن)
(ب) رمضان میں انفرادی تلاوت قرآن کے علاوہ نماز تراویح میں اکثر پورے قرآن کی سماعت ہوتی ہے۔ جس کی وجہ سے سامعین کے اندر قرآن سمجھنے اور اس میں غور و تدبر کرنے کا فطری جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ اور بہت ساری مساجد میں نمازِ تراویح کے بعد آیات کا مفہوم و مطلب بیان کیا جاتا ہے، اس سے سیکھنے اور سکھانے کی عام فضا قائم ہوتی ہے۔ (خیرکم من تعلم القرآن و علمہ)
(ج) ماہِ رمضان میں خصوصاً اجتماعی مطالعۂ قرآن کا بھی اہتمام کیا جاتا ہے۔ جو کسی ماہرِ قرآن یا عالم دین کی نگرانی میں انجام پاتا ہے۔ اجتماعی طور سے قرآنی آیات پر غور و تدبر کرتے ہیں۔ مختلف تفاسیر کو سامنے رکھ کر معنیٰ و مطالب کو سمجھتے ہیں۔ آپس میں سوال و جواب کے ذریعہ کلام الٰہی کا سمجھنا بہت ہی آسان ہوجاتا ہے۔ معلم انسانیتؐ نے ایک بار حلقۂ قرآن کی مجلس میں شرکت فرماتے ہوئے کہا کہ سب سے بہتر مجلس فہم قرآن کی مجلس ہوتی ہے۔
(د) پوری دنیا میں لاکھوں حفاظ کرام تراویح کی نماز پڑھاتے ہیں۔ ماہِ رمضان سے قبل تمام حفاظ پورے قرآن کا اعادہ کرتے ہیں۔ اگر کسی حافظِ قرآن کو نمازِ تراویح پڑھانے کا موقع نہ ملے تو وہ دھیرے دھیرے قرآن بھول جاتا ہے۔ اس طرح ماہِ رمضان کی برکت سے حفاظِ کرام کے سینوں میں قرآن زندہ ہے نیز حفاظِ کرام کی تلاوت اور ان کے حسنِ تجوید و قرأت سے متأثر ہوکر نئی نسل کے اندر قرآن حفظ کرنے کا داعیہ پیدا ہوتا ہے۔ ماہِ صیام کی یہ وہ برکتیں ہیں جو علمی نشو و نما اور تعمیرِ شخصیت کا ذریعہ ہیں۔
تنظیم وقت: وقت اللہ کی طرف سے ایک بڑا انعام ہے جو ایک بار ملتا ہے دوبارہ پلٹ کر نہیں آتا، جو اس کی قدر کرتا ہے زمانہ اس کی قدر کرتا ہے۔ وقت کی تقسیم اور تنظیم کے بغیر شخصیت کی تعمیر ناممکن ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام نے تمام اہم عبادات کو دن کے مختلف حصوں اور سال کے مختلف موسموں میں تقسیم کیاہے تاکہ ہم وقت کے ہر حصے اور موسم میں کام کرنے کے عادی ہوں۔ طلوعِ آفتاب کے بعد فجر ادا نہیں ہوتی، ماہِ رمضان کے بعد فرض روزے نہیں ہوتے، حج کے لیے بھی معین وقت ہے۔ تعمیر شخصیت کے لیے لازم ہے کہ وقت پر ہماری مکمل گرفت ہو۔ اپنے وقت پر صحیح کام کرنے والے زندگی کی ہر شاہراہ پر کامیاب ہوتے ہیں اور وہ ایک جاذبِ نظر شخصیت کے حامل اور اللہ کے شکر گزار بندے بن جاتے ہیں۔ نعمتانِ مغبونٌ فیھما کثیرٌ من الناس، الصحۃ والفراغ۔(بخاری) ترجمہ: ’’دو نعمتوں کے تعلق سے اکثر لوگ غافل ہوتے ہیں، ایک صحت اور دوسرا فراغتِ وقت‘‘۔آیئے غور کریں ماہِ صیام کس طرح تنظیم وقت میں معاون ہے:
(الف)رمضان المبارک میں سحری کھانے کے لیے طلوعِ فجر سے قبل بیدار ہوجاتے ہیں۔ یہ وقت سب سے زیادہ پرسکون ہوتا ہے۔ غور و فکر، حصولِ علم اور قربتِ الٰہی کے لیے اس سے بہتر کوئی وقت نہیں۔ اس طرح ماہِ صیام صبح سویرے بیدار ہونے کا عادی بناتا ہے۔ نبی اکرمؐنے فرمایا: ’’اے اللہ! میری امت کی سحر خیزی میں برکت دے‘‘ (ابو داؤد) لیکن افسوس! خیرو برکت کے لمحات سے اکثریت غافل اور محروم ہے!
(ب) رمضان میں ہم اپناکام بروقت کرتے ہیں۔ سحری طلوعِ فجر سے قبل نیز تاخیر سے کھانا افضل ہے۔ افطار غروب آفتاب کے فوراً بعد اور اس میں تاخیر کرنا مکروہ ہے۔ افطار کے فوراً بعد نماز مغرب ہے اور اس کا وقت انتہائی مختصر ہے۔ چودہ گھنٹے بھوک اور پیاس کے بعد نمازِ عشاء اور تراویح کی طویل رکعات ادا کرنی ہیں۔ غور کریں ان میں سے کوئی کام ٹالا نہیں جاسکتا ہر کام بروقت کرنا ہے۔ ہر کام اپنے وقت پر کرنے کی اسپرٹ اگر پیدا ہوجائے تو انسان کی شخصیت میں نمایاں تبدیلی نظر آنے لگتی ہے اور یہ اسپرٹ ماہِ صیام ہمارے اندر پیدا کرتاہے۔
(ج) رمضان میں سحری کے لیے صبح اٹھنا پڑتا ہے اس لیے جلدی سونا پڑتا ہے اور یہی ہمارے نبیؐ کی سنت ہے۔ اس طرح جلدی سونے والا لایعنی اور فضول باتوں سے بچ جاتا ہے لیکن کتنے بدنصیب ہیں وہ نوجوان جو ہوٹلوں اور سڑکوں کے نکڑوں پر رات بھر جاگ کر لغویات اور فضولیات میں گزار دیتے ہیں۔ رات اللہ کی طرف سے ایک انعام اور رحمت ہے جو ہمارے سکون و آرام کا ذریعہ ہے (و من رحمتہ جعل لکم اللیل والنھار لتسکنوا فیہ۔قصص: ۷۳) ترجمہ: ’’یہ اس کی رحمت ہے کہ اس نے تمہارے لیے رات اور دن بنائے تاکہ تم رات میں سکون حاصل کرو‘‘ غور کریں! سحری سے لے کر افطاری تک مسلسل ایک ماہ ہر روزے دار اچھے کاموں میں مصروف رہتا ہے، نیکیوں کی طرف لپکتا ہے، خیر و بھلائی کے کاموں میں مسابقت کرتا ہے اس طرح ماہِ صیام تنظیمِ وقت کی بہترین تربیت کرتا ہے۔
جسمانی ارتقاء: نبی اکرمؐنے فرمایا: ’’طاقتورمومن کمزور مومن سے بہتر ہے‘‘ (مسلم) کیونکہ طاقتورمومن اللہ کی عبادت اور دین کی اقامت میں زیادہ مستعد رہے گا۔ جسم تندرست رہے گا تو ذہن و دماغ بھی تندرست رہے گا۔ جسمانی ارتقاء کے بغیر ہماری فطری صلاحیتوں کی نشو ونما ممکن نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ایسے لوگوں کو جو علمی صلاحیتوں کے ساتھ ساتھ جسمانی قوت رکھتے ہوں ماڈل کے طو رپر پیش کیا ہے۔ بنی اسرائیل نے جب طالوت کے منصب حکمرانی کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ ہم مال و دولت اور حسب و نسب میں ان سے بہتر ہیں، تو اللہ نے فرمایا ’’ان اللہ اصطفاہ علیکم و زادہ بسطۃ فی العلم والجسم‘‘ (بقرۃ:۲۴۷) ترجمہ: ’’بے شک اللہ نے اسے تمھارے مقابلے میں منتخب کیا ہے، اور اسے علمی اور جسمانی قوتیں فراوانی کے ساتھ عطا فرمائیں ہیں‘‘۔ شخصیت کی تعمیر کے لیے ضروری ہے کہ ہم صحت مند جسم کے حامل ہوں۔ ماہِ صیام ہمارے جسم کو کمزور و لاغر نہیں بلکہ صحت مند اور توانا بناتاہے اور ہمارے جسم کی قوت مدافعت کو بڑھاتا ہے۔ آیئے غور کریں کہ کس طرح ماہِ صیام ہماری جسمانی تعمیر کرتا ہے۔
(الف) طبی لحاظ سے روزہ معدے کی درستگی کا اہم ذریعہ ہے۔ ڈاکٹر اکثر امراض میں فاقہ کشی کا حکم دیتے ہیں۔ لیکن فاقہ کشی روزہ کا بدل نہیں ہوسکتا۔ مشہور امریکن ڈاکٹر ایمرسن کے بقول ’’فاقہ کی بہترین صورت وہ روزہ ہے جو اہلِ اسلام کے طریق سے رکھا جاتا ہے، میں یہ مشورہ دوں گا کہ جب کسی کو فاقہ کی ضرورت پڑے تو وہ اسلامی طریق سے روزہ رکھا کرے، ڈاکٹرس جس طرح سے فاقہ کراتے ہیں وہ غلط ہے‘‘۔ (تعلیماتِ نبوی اور جدید سائنس) فرمانِ رسولؐ ہے: ’’معدہ بدن کا حوض ہے، سب رگیں اس سے ملتی ہیں، اگر معدہ درست ہے تو سب رگیں درست ہیں، معدہ خراب ہے تو سب رگیں خراب ہیں‘‘۔ (بیہقی عن ابی ہریرۃ) اس طرح مسلسل ایک ماہ روزہ رکھنے سے نظام ہاضمہ درست ہوتا ہے جس سے انسانی جسم صحت مند ہوجاتا ہے۔
(ب) صبح کی بیداری ماہِ صیام کالازمی نظام ہے جس کی وجہ سے صبح کی صاف و شفاف ہوائیں دل و دماغ کو فرحت بخشتی ہیں۔ صبح کی ہوائیں آلودگی سے پاک ہوتی ہیں جو ہماری صحت کے لیے بے حد مفید ہے۔
(ج) رمضان میں فرض نمازوں کے علاوہ نوافل اور قیام اللیل کا بہت ہی کثرت سے اہتمام کیا جاتا ہے۔ نماز عشاء اور تراویح کی طویل رکعت کے بعد نڈھال جسم متحرک ہوجاتا ہے۔ نماز جہاں اللہ کی بندگی اور ہمارے روحانی ارتقاء کا ذریعہ ہے وہیں ہمارے جسمانی ارتقاء کا باعث بھی ہے۔ بقول ڈاکٹر ذاکر نائیک: ’’نماز ایک بہترین ورزش بھی ہے جو انسان کو ہر وقت تازہ دم رکھتی ہے جس کا اثر جملہ اعضاءِ انسانی پر مساوی ہوتاہے۔ جسم کے جوڑوں کو درست رکھتی ہے اور اندرونی اعضاء کے نشو ونما میں معاون ہوتی ہے‘‘۔ (خطبات ڈاکٹر ذاکر نائیک) نبیؐ نے روزے کی حالت میں کمزوری کے اظہار کو ناپسند فرمایا ہے، چاق و چوبند اور ہشاش بشاش رہنے کی ہدایت فرمائی ہے، اس طرح ماہِ صیام ہمیں ایک طاقتور مجاہد و داعی بنانا چاہتا ہے۔
تعمیرِ شخصیت اور سماج: صالح سماج کی تشکیل فرد کی تعمیر کے بغیر ممکن نہیں۔ اسلام کے نزدیک صرف فرد کی تعمیر اور تزکیہ ہی مقصود نہیں ہے، بلکہ اسلام صالح افراد کے ذریعہ صالح معاشرہ کی تشکیل چاہتا ہے۔ ایسا معاشرہ جس میں ایک دوسرے کی ضرورت کی تکمیل، تعاونِ باہمی، حسنِ معاملات، ایثار و قربانی اور اخوت و محبت کا ماحول ہو۔ فرمانِ رسولؐ ہے: الدین النصیحۃ (مسلم) دین اسلام تو سراپا خیر خواہی کانام ہے۔ مسلم معاشرہ ایک جسم ہے اور معاشرے کے سارے لوگ جسم کے اعضاء ہیں، اسی طرح مسلم معاشرہ ایک مضبوط عمارت کے مانند ہے تو سارے افراد دیواروں میں پیوست اینٹ و پتھر ہیں (المومن للمومن کالبنیان یشد بعضہٗ بعضا) سماج کے ایسے افراد جو خود غرض و مفاد پرست ہوں، کبر و غرور میں مست اور مزاج خانقاہی میں مگن ہوں، ان سے صالح معاشرہ کی تشکیل ناممکن ہے۔ ماہِ صیام جہاں صالح افراد کی تعمیر کرتا ہے وہیں صالح معاشرہ کی تشکیل بھی۔
(الف) ماہِ صیام مالداروں کے اندر ناداروں کی فاقہ کشی کا احساس پیدا کرتا ہے، جس کے نتیجے میں ان کے اندر خیرخواہی و ہمدردی کا جذبہ پیدا ہوتا ہے، اسی لیے نبیؐ نے ماہِ صیام کو ’’شھر مواساۃ‘‘ فرمایا ہے۔
(ب) روزہ ایک انفرادی عبادت ہے لیکن ماہِ صیام میں ایک ساتھ روزہ رکھنے کی وجہ سے پورے معاشرہ میں ایک نفسیاتی فضا قائم ہوجاتی ہے۔ نیکیوں کا اجتماعی ماحول قائم ہوجاتا ہے، برے کام کرتے ہوئے لوگ شرم محسوس کرنے لگتے ہیں۔ اجتماعی طور سے نیکیاں کرنے سے پاکیزہ خیالات اور نیک جذبات کا سیلاب آجاتا ہے۔ جس میں بد بھی نیک بن جاتے ہیں۔
(ج) ماہِ صیام میں عام طور سے صدقہ، خیرات اور زکوٰۃ کا بہت زیادہ اہتمام کیا جاتا ہے۔ جس سے معاشی لحاظ سے کمزور لوگوں کی مدد ہوتی ہے ۔
روحانی ارتقاء: ماہِ صیام روحانی ارتقاء اور نفس کے تزکیہ کا ایک اہم موقع ہے (قد افلح من تزکی) جس نے نفس کا تزکیہ کیا وہ کامیاب ہوگیا۔ بعثت نبوی کا مقصد ہی تزکیۂ نفس تھا (و یزکیھم و یعلمھم الکتاب والحکمۃ) تزکیہ کے معنیٰ پاک کرنے اور نشوو نما دینے کے ہیں۔ ماہِ صیام جہاں قلوب کو پاک کرتا ہے۔ دلوں میں صرف اللہ کی محبت اور خوف راسخ کرتا ہے، وہیں تقوی اور نیکیوں کی نشو و نما بھی کرتا ہے۔ یہاں تک کہ بندہ روحانی معراج کو پہنچ جاتا ہے۔ بندہ اللہ سے انتہائی قریب ہوجاتا ہے اور وہ اللہ سے محبت کرنے لگتا ہے اور اللہ اسے اپنا محبوب بنا لیتا ہے۔ (یحبھم و یحبونہ۔۔۔) بندے کا ہاتھ، پاؤں، آنکھ اور زبان اپنا نہیں بلکہ اللہ کا ہوجاتا ہے، اور وہ خود تقدیرِ الٰہی بن جاتا ہے۔
کافر ہے تو ہے، تابع تقدیر مسلماں
مومن ہے تو وہ آپ ہے تقدیرِ الٰہی
شخصیت کی تعمیر اور بندگیِ رب کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ انسان کا خود اپنا نفس ہوتا ہے۔ ماہِ صیام میں ضبط نفس کی مسلسل مشق کرائی جاتی ہے۔ اس کے لیے انسانی زندگی کے تین اہم بنیادی مطالبات و ضروریات پر پابندی لگائی جاتی ہے۔ کھانے پینے کی پابندی، صنفِ مقابل سے اتصال کی پابندی اور عیش و آرام کی پابندی۔ بندہ حکم الٰہی کی وجہ سے یہ پابندیاں بغیر کسی خارجی دباؤ کے اپنے اوپر عائد کرلیتا ہے۔ اس کی نگرانی کے لیے کوئی پولیس اور سی . آئی.ڈی کا آدمی مقرر نہیں کیا جاتا۔ بھوک و پیاس کی شدت کو وہ برداشت کرتا ہے اور وہ اپنی بیوی کے ساتھ قضائے شہوت سے رُک جاتا ہے۔ صبح کی میٹھی نیند جب رضائے الٰہی میں حائل ہونا چاہتی ہے تو اسے بھی مغلوب کردیتا ہے۔ تھکا ہوا جسم جب آرام کا طالب ہوتا ہے تو وہ نماز تراویح کے لیے اللہ کے حضور کھڑا ہوجاتا ہے۔مسلسل ایک ماہ ضبطِ نفس کی تربیت کی وجہ سے بندہ اپنی آزادی اور خود مختاری کو اللہ کے آگے بالفعل تسلیم کرلیتا ہے اور وہ اللہ ہی کو اپنا حاکم اعلیٰ تصور کرتا ہے۔ جس کے نتیجے میں وہ صرف اللہ ہی کی عبادت و اطاعت کرنے لگتا ہے۔ اللہ کی مکمل اطاعت و بندگی تقویٰ کے بغیر نہیں ہوسکتی۔ تقویٰ کی صفت پیدا کرنا ہی ماہِ صیام کا خاص مقصد ہے۔ فرضیت روزہ کے بعد فرمایا گیا۔ (لعلکم تتقون) شاید تمہارے اندر تقویٰ پیدا ہوجائے۔ تقویٰ کسی ظاہری شکل وصورت کا نام نہیں ہے بلکہ دل کی اس کیفیت کا نام ہے کہ بندہ خوف الٰہی کی وجہ سے اللہ کی نافرمانیوں سے بچنے لگے اور خیر و بھلائی کی طرف لپکنے لگے۔ نبی اکرمؐ نے دل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا ’’التقویٰ ھٰھنا‘‘ تقوی یہاں ہے۔ قلب بیمار ہے تو پورا جسم بیمار رہے گا اور اگر قلب پاک ہے تو سارے اعمال درست رہیں گے۔ ماہِ صیام قلوب کی تطہیر کرتا ہے تاکہ بندہ مومن اپنی پاکیزہ فطرت کو مضبوط و مستحکم بنا سکے (و نفس وما سواھا۔فألھمھا فجورھا وتقواھا۔قد افلح من زکاھا۔ و قد خاب من دساھا)ترجمہ: ’’اور نفس انسانی کی اور اس ذات کی قسم جس نے اسے ہموار کیا۔ پھر اس کی بدی اور پرہیزگاری اس پر الہام کردی۔ یقیناًفلاح پاگیا وہ جس نے نفس کا تزکیہ کیااور نامراد ہوا وہ جس نے اس کو دبا دیا‘‘ ۔۔۔
ماہ صیام اہل ایمان کی تربیت و تزکیہ کا مہینہ ہے۔ یہ بندۂ مومن کی شخصیت کو سنوارتا اور نشوو نما دیتا ہے۔ مسلسل ایک ماہ ۷۲۰؍ گھنٹے کا یہ تربیتی کورس اگر ہماری شخصیت کی تعمیر نہ کرسکے اورہمارے اندر تقویٰ کی صفت و خدائے واحد کی اطاعت و بندگی کاجذبہ اور ضبطِ نفس کی قوت پیدا نہ کرسکے، تو ہماری مثال اس چٹان جیسی ہے جو ماہِ باراں میں بھی سرسبزی و شادابی سے محروم رہتی ہے۔ ایسے لوگوں کے بارے میں نبی اکرمؐنے فرمایا:
’’کم من صائم لیس لہ من صیامہ الا الظمأ وکم من قائم لیس لہ من قیامہ الا الشھر‘‘۔ (دارمی) ترجمہ: ’’کتنے ہی روزے دار ایسے ہیں کہ روزے سے بھوک و پیاس کے سوا ان کے پلے کچھ نہیں پڑتا، اور کتنے ہی راتوں کو کھڑے رہنے والے ایسے ہیں جنہیں اس قیام سے رت جگے کے سوا کچھ نہیں ملتا۔

عنایت اللہ خان فلاحیؔ

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Verified by MonsterInsights