آچاریہ رجنیش

0

کسی شخص کے بارے میں جاننے کے لیے عام طور پر لوگ اس کی شکل و صباحت، اس کے افکار اور اس کے کاموں کا جائزہ لیتے ہیں ۔ لیکن اکثر ہوتا یہ ہے کہ کسی کے خیالات اور اس کے کاموں کے جائزے میں خود وہ شخص چھوٹ جاتا ہے، اور ہم خود اس کو نہیں سمجھ پاتے ۔ آدمی خیالات ،جذبات اور اپنے کاموں سے اور آگے ہوتا ہے۔ جہاں وہ ہوتا ہے عام طور پر ہم وہاں اپنی نگاہ نہیں لے جاتے یا نہیں لے جا پاتے ہیں اور ہمارا جائزہ ناقص ہی رہتا ہے ۔ہم اس شخص کو حقیقی طور پر نہیں دیکھ پاتے اور نہ اس کے درد یا خوشی کو سمجھ پاتے ۔

یہاں ہم جس شخص کے بارے میں کچھ اظہارِ خیال کا ارادہ رکھتے ہیں ،اس کی اپنی خاص شخصیت ہے ۔ اس کا اپنا مطالعہ اور اس کے اپنے کچھ خیالات اور عقائد ہیں ۔اس کے علاوہ اس کی کچھ تعلیمات اور عملی میدان میں اس کے اپنے کچھ کارنامے ہیں۔ معاشرت ،معیشت ،سیاست، روحانیت وغیرہ کے متعلق اس کے اپنے کچھ افکار اور تجربات یا قلبی واردات ہیں، جن کا مطالعہ کیا جا سکتا ہے اور ان کے بارے میں اپنی کوئی رائے بھی قائم کی جا سکتی ہے ۔ مختلف مسائل میں ہم اس شخص سے اختلاف بھی کر سکتے ہیں۔ ہم اس کی کچھ تعلیمات اور نصائح کو نا مناسب اور مخدوش بھی قرار دے سکتے ہیں ، لیکن اس سے اس کی گہرائی یا سطحیت کا اندازہ کرنا مشکل ہے۔ آدمی خیالات اور اپنے کاموں کے علاوہ بھی ہوتا ہے۔ اس میں شبہہ نہیں کہ آدمی ذاتی لحاظ سے جیسا کچھ ہوتا ہے ،اس سے اس کے افکار و اعمال متأثر ہوتے ہیں ، پھر بھی یہ کہنا بہت مشکل ہے کہ کسی کے خیالات اور اعمال کہاں تک اس اصل شخص کو متعارف کرانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ بہت ممکن ہے کہ کسی کے یہاں افکار اور بیش قیمت افکار پائے جاتے ہوں اور عملی زندگی میں اس کے بڑے بڑے کارنامے بھی دکھائی دیتے ہوں ،لیکن ذاتی اور شخصی لحاظ سے وہ نہایت بے وقعت ہو۔ اس کے برعکس ایک دوسرا شخص بھی ہو سکتا ہے ،جس کے پاس معلومات کا کوئی بڑا ذخیرہ نہ ہو اور اس کی زندگی میں خواہ بڑے کارنامے نظر نہ آتے ہوں لیکن شخصی لحاظ سے وہ ایک عظیم انسان ہو ۔ درحقیقت زندگی کی کوئی بڑی یافت ہی آدمی کو بڑا بناتی ہے اور یافت(Finding)  ہم اسے کہیں گے ،جس کا آدمی کی اپنی شخصیت سے گہرا تعلق ہو اور جو اس کی شخصیت کو مالامال  (Rich)کر دے، اور پھر اس کو مفلس بنانے کی کوئی تدبیر باقی نہ رہے ۔

آچاریہ شری رجنیش ۱۱؍دسمبر ۱۹۳۱ء کو مدھیہ پردیش کے ایک چھوٹے سے گائوں میں پیدا ہوئے ۔ ان کی ذہانت بچپن ہی سے عیاں ہونے لگی تھی ۔ وہ ہر چیز کو تنقیدی نظر سے دیکھتے اور بے باکانہ طور پر اس کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار بھی کرتے تھے ۔ ۱۹۵۷ء میں انھوں نے ساگر یونیورسٹی سے فلسفہ میں ایم۔ اے کی ڈگری حاصل کی ۔ طالب علمی کی زندگی میں وہ ایک متجسس اور انقلابی طالبِ علم رہے ہیں ۔ کہتے ہیں کہ بھنور تال جبل پور میں مولسری کے درخت کے سایہ میں ۲۱؍ مارچ ۱۹۵۳ء کو شب میں ۲؍ بجے ان کو گیان (عرفان) حاصل ہوا۔ روح اور جسم کے مابین پائے جانے والے لطیف فرق کو انھوں نے محسوس کرلیا اور پوری کائنات میں سما جانے کی بے پناہ خواہش ان کے اندر ابھر آئی ۔

آچاریہ جی رائے پور اور جبل پور کے کالجوں میں استاد رہے اور نو سال تک معلمی کے فرائض انجام دیتے رہے ۔ اس زمانے میں انھوں نے پورے ملک میں گھوم گھوم کر تقاریر کیں اور سادھنا شِوِر(تربیتی کیمپ)بھی قائم کیے ۔

۱۹۶۶ء میں انھوں نے ملازمت ترک کر دی تاکہ اپنا پورا وقت وہ اس کام میں صرف کر سکیں ،جو ان کے نزدیک سب سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ ملازمت ترک کر دینے کے بعد آچاریہ جی نے گوشے گوشے میں پہنچنے کی کوشش کی اور لوگوں کو اس کا موقع فراہم کیا کہ وہ آپ سے ربط قائم کر سکیں ۔اس کوشش کے نتیجہ میں کثیر تعداد میں لوگوں کا آپ سے ربط قائم ہوا۔

ان کی تقاریر اور تربیتی کیمپوں سے متأثر ہو کر مختلف خاص شہروں کے ان کے عقیدت مندوں نے ’’جیون جاگرتی کیندر‘‘کے نام سے مرکز قائم کیا تاکہ اس کے ذریعہ سے آچاریہ جی کے پیرو اور سادھک باہم ایک دوسرے سے ربط قائم رکھ سکیں ۔اس کے علاوہ اس کا ایک مقصد یہ بھی رہا کہ اس کے ذریعہ آچاریہ جی کی کتابوں کی اشاعت کا بھی نظم ہو سکے گا۔ جیون جاگرتی تحریک کا مرکزی دفتر ممبئی رہا ہے ۔

۳۰؍ جون ۱۹۰۷ء کو آچاریہ جی جبل پور چھوڑ کر ممبئی چلے گئے۔ جیون جاگرتی کی طرف سے ایک ماہ نامہ’’یکراند‘‘اور سہ ماہی رسالہ ’’جوتی شکھا‘‘کی اشاعت کانظم کیا گیا اور یہ رسالے باقاعدگی کے ساتھ شائع ہونے لگے۔ اس ادارہ نے آچاریہ جی کی کئی کتابیں طبع کرائیں ۔

۲۵؍دسمبر ۱۹۷۰ء کو آچاریہ جی نے ایک نیا اقدام کیا ۔ انھوں نے سنیاس کو ایک نیا رخ دینے کا عزم کیا ۔ وہ لوگوں کو سنیاسی بنانے لگے ۔ ان کے سنیاسی دنیا کے مختلف مقامات پر لوگوں کو کچھ دینے اور ایک نئی مذہبی و روحانی تحریک چلانے کی غرض سے پہنچنے لگے ۔

آچاریہ جی ۲۱؍مارچ ۱۹۷۴ء کو ممبئی سے پونہ آگئے۔ پونہ میں ’’شری رجنیش آشرم‘‘ قائم کیا گیا ۔ اس آشرم کو دیکھنے اور آچاریہ جی سے کچھ کہنے سننے کا موقع مجھے بھی حاصل ہوا ہے ۔ یہاں مختلف قسم کے یوگ سادھنائوں کے پروگرام چلتے رہے ہیں ۔ ۲۱؍ مارچ ۱۹۷۴ ء سے ہر روز یہاں آچاریہ جی کی ۹۰؍منٹ کی ایک تقریر بھی ہوتی رہی ہے ۔ تقریر کا یہ سلسلہ تقریبا چھ سال تک جاری رہا ہے، اور یہ سلسلہ اس وقت ختم ہوا ہے جب آچاریہ جی نے کچھ دنوں کے لیے مون دھارن کر لیا۔

۳۱؍ مئی ۱۹۸۱ء کو آچاریہ جی امریکہ چلے گئے۔ ممالک متحدہ امریکہ کے اورے گان (Oregon)اسٹیٹ میں چھوٹی چھوٹی پہاڑیوں کے درمیان آچاریہ رجنیش کے سنیاسیوں نے ایک بستی بسائی ہے ۔ اس بستی کا نام رجنیش پورم رکھا ہے ۔ یہ بستی ۶۴۲۲۹؍۱یکڑ رقبہ میں بسی ہوئی ہے ۔ یہاں کے مختلف مقامات کے نام آچاریہ جی نے خود رکھے ہیں۔ جیسے ،رادھا پور ،پتنجلی جھیل ،بدھا فیلڈ وغیرہ ۔

بارہ تیرہ سال کی مختصر مدت میں ہی آچاریہ جی کی سینکڑوں کتابیں ان کی تقاریر کے ذریعہ سے تیار ہو گئیں اور کتنے ہی صفحات کا مواد ابھی تک ٹیپوں میں بند پڑا ہے ۔ ان کے منھ سے نکلے ہوئے الفاظ با لعموم بغیر کسی ترمیم و تنسیخ کے جوں کے توں کتاب کی شکل میں شائع ہوئے ہیں۔ آچاریہ جی کے فرمودات سیدھے اور میٹھے ہونے کی وجہ سے دلوں کو چھوتے ہیں۔ اتنی مختصر مدت میں جتنا آچاریہ جی بولے ہیں شاید ہی کوئی دوسرا شخص بولا ہو۔ ان کی تقاریر شروع سے آخر تک ایک کیفیت میں ڈوبی ہوئی ہوتی ہیں اور ان کے وسیع مطالعہ اور غور و فکر کا بین ثبوت فراہم کرتی ہیں۔ جتنی کتابوں کا مطالعہ انھوں نے کیا ہے شاید ہی کسی دوسرے شخص نے کیا ہو ۔ اسی طرح انھوں نے دھیان کے اتنے طریقہ بتائے ہیں کہ کسی دوسرے نے اتنے طریقوں کی تعلیم نہ دی ہوگی ۔

آچاریہ جی کی اپنی ذاتی لائبریری ہے ،جس میں نایاب اور بیش بہا کتابیں موجود ہیں ۔ ایک اطلاع کے مطابق ۶؍ ہزار روپے ماہانہ ان کی لائبریری پر صرف کیے جاتے رہے ہیں۔ ان کی لائبریری میں مذہب،نفسیات، مارکسزم، سیاست، سائنس وغیرہ سبھی موضوعات پر کتابیں پائی جاتی ہیں ۔ لینن، نیٹشے، کرشن مورتی، شنکر، گورڈ گیف، سار ترے وغیرہ سبھی کی کتابیں ان کی لائبریری میں دیکھی جا سکتی ہیں ۔

آچاریہ جی زندگی کے کتنے ہی گہرے اور نازک موضوعات پر بول چکے ہیں ۔ سیاست ، سائنس، تعلیم، سماج، خاندان، شادی، طبقات، روحانیت، تصوف وغیرہ پر بہت واضح انداز میں وہ اپنے خیالات کا اظہار کر چکے ہیں ۔ اسی طرح جہاں وہ کرشن ،مہابیر، بدھ، لائو تزے، تلوپا، زرتشت اور زیکہارٹ پر بولے ہیں وہاں کبیر، نانک، دادو، میرا، سہجو، دیا، ملوک داس، رجب، حکیم سنائی وغیرہ پر بالاقساط لکچر دے چکے ہیں ۔

آچاریہ جی میں عظیم حوصلہ پایا جاتا تھا ۔ حقیقت یہ ہے کہ جب کسی نے دنیا کی بے وقعتی کو سمجھ لیا اور جسے کہیں اور کی ہوا مل گئی ہو ،اسے کسی کی کیا پروا ہو سکتی ہے۔ وہ کیوں کسی کی طرف للچائی ہوئی نگاہ سے دیکھے گا۔ اسے سچ کہنے یا اپنا خیال ظاہر کرنے میں کیا چیز مانع ہو سکتی ہے ۔ جو لوگوں کے دکھ اور ان کی تکلیف کو بخوبی سمجھتا ہے اور ترحم کے جذبے سے چاہتا ہے کہ لوگوں کے دکھوں میں کمی ہو اور لوگ ایک بڑی دولت (بڑی حقیقت)کو پالیں۔ ایسے شخص کو توڑنا ممکن نہیں۔ ایسا شخص جس نے زندگی میں کچھ ایسی اونچائیاں دیکھی ہوں جن کا بالعموم لوگ تصور بھی نہیں کر سکتے وہ جان بوجھ کر کوئی ایسا طرز عمل اختیار نہیں کر سکتا ، جو انسانیت کے لیے باعثِ ننگ و عار ہو ۔

ٹیگور ،اروند، وویکانند، کرشن مورتی، گاندھی وغیرہ کے بارے میں آچاریہ جی نے بے جھجھک اپنی رائے ظاہر کی ہے ۔ جس سے ان کی اپنی گہرائی کا پتہ چلتا ہے ۔ گاندھی ازم پر انھوں نے اس وقت تنقید کی جب اس ازم کی بڑی شہرت تھی اور ملک گاندھی صدی منا رہا تھا ۔ ونوبا جیسے سنت کو اَسنت ثابت کرنے کی جرأت آچاریہ جی کے علاوہ کوئی دوسرا نہیں کر سکتا تھا ۔

ہم سب جانتے ہیں کہ سوشلزم وقت کا اب بھی ایک رائج فیشن ہے ، لیکن آچاریہ جی کے پاس اپنی نظر ہے، وہ کسی دوسرے کی آنکھ سے کسی چیز کو کیوں دیکھیں۔ اس سلسلے میں آچاریہ جی کی کتاب ’’سماج واد یعنی خودکشی‘‘ بڑی اہمیت کی حامل ہے ۔ جو شخص مارکس کے فلسفہ اور تاریخ انسانی کے بارے میں اس کے مادی نقطۂ نظر کو صحیح پس منظر میں دیکھنا چاہتا ہو اسے یہ کتاب ضرور پڑھنی چاہیے۔ آچاریہ جی کی نگاہ میں سماج واد (سوشلزم ) ایک فرسودہ (Out of Date)نظریہ اور بے معنیٰ بکواس ہے ۔ آچاریہ جی کے نزدیک سوشلزم کی کوئی سائنٹفک بنیاد نہیں۔ ان کے نزدیک اس سوشلزم سے نہ مزدوروں کی بھلائی ممکن ہے اور نہ غریبوں کے لیے اس سے کوئی اچھی توقع کی جاسکتی ہے۔ وہ سوشلزم کو ایک خطرہ قرار دیتے ہیں۔ ان کے اپنے الفاظ ہیں :’’اگر سیاستداں کے ہاتھ میں دونوں طاقتیں اکٹھا ہو جائیں ،اقتدار بھی اور دولت بھی ،تو تیسری کوئی طاقت ہی نہیں رہتی ملک کے پاس ۔ پھر تو سیاستداں بھگوان بن جاتا ہے ۔ اسٹالن قریب قریب بھگوان ہی بن کر زندہ رہا ہے ۔ ایک بار حکومت کے ہاتھ میں سرمایہ کی طاقت آگئی تو پھر حکومت کو چیلنج کرنے کی کوئی طاقت ملک میں نہیں رہ جاتی اور ایک بار فرد کی ذاتی ملکیت کا خاتمہ ہوتے ہی اس کی طاقت ۹۰؍ فی صدی ختم ہو جاتی ہے ‘‘۔

پھر آچاریہ جی کہتے ہیں کہ ’’سوشلزم کے اندر جو کشش ہے عام لوگوں کے لیے ،اس کشش کی وجہ محض حسد ہے ۔سوشلزم آدمی کے حسد کو استعمال کرتا ہے ‘‘۔

آچاریہ جی کا خیال ہے کہ ’’سوشلزم بنیادی طور سے آدمی کی آدمیت کا انکار کر دیتا ہے ۔ اقرار کرتا ہے صرف جسم کا ۔ پھر جسم کے لیے روٹی چاہیے وہ سماج دے سکتا ہے ۔ کپڑا چاہیے وہ بھی دے سکتا ہے ۔ مکان چاہیے وہ بھی دے سکتا ہے ۔ روح کو فروخت کر کے کپڑا ، مکان اور روٹی کو پا لینا بہت مہنگا سودا ہے ‘‘۔

سوشلزم کا تفصیلی جائزہ لیتے ہوئے آچاریہ جی یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ جمہوری سوشلزم کے کوئی معنیٰ نہیں ہوتے ۔ سوشلزم بنیادی طور سے ایک طبقہ کا حامی ہے ، اس لیے وہ جمہوری نہیں ہو سکتا ۔ سوشلزم بنیادی نقطۂ نظر سے ایک طبقہ کی حمایت اور دوسرے طبقہ کی تباہی و بربادی کے حق میں ہے ۔

ایک دوسرے موقع پر انھوں نے یہ بھی کہا ہے کہ سوشلزم میں نام سوشلزم کا لیا جاتا ہے لیکن جو آتا ہے وہ ہوتا ہے اسٹیٹ کیپٹلزم ۔ سماج واد کا مطلب تو یہ بیان کیا جاتا ہے کہ اس میں سرمایہ سماج کے ہاتھوں میں ہوتا ہے ۔ لیکن سماج کے ہاتھ میں سرمایہ کب اور کہاں ہوتا ہے ؟ ہاں، سماج کے ہاتھوں کا سارا سرمایہ حکومت کے ہاتھوں میں پہنچ جاتا ہے ۔ جہاں کئی ایک سرمایہ دار تھے وہاں ایک ہی سرمایہ دار رہ جاتا ہے ، اسٹیٹ۔

آچاریہ جی کے نزدیک یہ بہت ہی افسوسناک صورت حال ہے کہ عرصۂ دراز سے دھرم کا رشتہ سیاست سے کاٹ دیا گیا ہے ۔ وہ ایک مزے کی بات یہ کہتے ہیں کہ ہزاروں سال تک ہندوستان کا دھرم سیاست سے الگ رہا ہے ۔ اس کا آخری انجام یہ ہوا کہ ہندوستان کی سیاست اب سیکولر ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ’’ہزاروں سال تک مذہبی آدمی کہتا رہا کہ سیاست سے ہمیں کچھ نہیں لینا دینا ہے اور سیاست نے ابھی ۲۰؍ سال پہلے اس کا بدلہ دیا اور اس نے کہا دھرم سے ہمیں کچھ نہیں لینا دینا ہے ۔ لیکن کوئی سیاست دھرم سے بے تعلق کیسے ہو سکتی ہے؟سیاست کے دھرم سے بے تعلق ہونے کا کیا مطلب ہو سکتا ہے؟ ایک مطلب ہو سکتا ہے کہ زندگی میں جو بھی اہم ہے ، جو بھی افضل ہے ، سیاست کو اس سے کوئی سرو کار نہیں۔ انسان کے اونچے اٹھنے کے جو بھی امکانات ہیں ، سیاست اس کے سلسلے میں کوئی عملی حصہ ادا نہیں کرنا چاہتی۔ دھرم سے بے تعلق ہونے کا مطلب ہوتا ہے ، حق سے بے تعلق ہونا ،محبت سے بے تعلق ہونا ، زندگی کے گہرے علم و شعور سے بے تعلق ہونا ۔ کوئی بھی سیاست اگر دھرم سے بے تعلقی کا اظہار کرے گی، تو اس کا دخل انسان کے جسم سے زیادہ گہرا نہیں ہو سکتا۔ اور جو سماج صرف جسم کے آس پاس جینے لگتا ہے ، اس سماج کی زندگی میں اسی طرح کی بدبو پیدا ہو جائے گی ، جیسے مری ہوئی لاش میں پیدا ہو جاتی ہے ۔ ادھر بیس برسوں میں آزادی کے بعد بھارت کی ساری زندگی بدبو سے، بدصورتی سے ، افسردگی سے، دکھ اور تکلیف سے بھر گئی۔ شاید انسانی تاریخ میں کوئی بھی ملک آزاد ہو کر اس طرح کبھی پستی میں نہیں گرا ‘‘۔

آچاریہ رجنیش سائنس اور مذہب کے مابین کوئی تضاد تسلیم نہیں کرتے ۔ اور نہ وہ اس چیز کو مذہب اور بزرگی کی چیز سمجھتے ہیں کہ کوئی دنیا سے الگ تھلگ جنگلوں میں جا کر رہنے لگے اور بال بچوں سے کوئی ربط و تعلق نہ رکھے۔ اس سلسلے میں ان کی کئی تقاریر بہت ہی مؤثر اور معلومات افزا ہیں ۔ (جاری)

 

از: مولانا فاروق خانPhotoFunia-1458546965

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Verified by MonsterInsights