شریعت کا خطاب: امت کے نام یا حاکموں کے؟

0

احمد ریسونی مترجم: ذوالقرنین حیدر

نوٹ: فکر اسلامی کی تاریخ اور خصوصا ًجدید تاریخ کا مطالعہ کرنے والوں کے سامنے یہ بات بالکل روز روشن کی طرح عیاں ہوگی کہ اسلام کی تشریح اور خصوصاً اسلام کے اجتماعی احکام اور اسلام کے پیغام کی علمبرداری کی ذمہ داری کو لے کر بہت سے مفکرین اور جماعتوں نے ایسی تشریحات پیش کی ہیں جو اسلام کے بہت سے احکامات اور بالخصوص اسلام کے پیغام کے پہنچانے کے عمل کو بڑی حد تک معطل اور جامد کردے۔ اس سلسلے میں الگ الگ طرح کی تشریحات کے سہارے لیے جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر ایک تشریح یہ کی جاتی ہے کہ اسلام کے بہت سے احکام خصوصا ًاجتماعی نوعیت کے سارے احکام حکومت کے دائرہ کار میں محدود ہوتے ہیں اور صرف حکومتوں ہی کو ان احکام کے کرنے کا حق حاصل ہے اور اگر کہیں پر اسلامی حکومت نہ ہو یا حکومت کسی مصلحت کے پیش نظر ان احکام پر عمل آوری نہ چاہے تو ان احکام کو یوں ہی چھوڑ دیا جائے گا۔ اس کی ایک مثال جمعہ کے خطبے کی ہے۔ چنانچہ بعض لوگوں کا یہ ماننا ہے کہ جمعہ کے خطبے کے احکام اسلامی حکومتوں کے وجود اور ان کی رضا پر موقوف ہے۔ چنانچہ آج جہاں بھی اسلامی حکومت نہ ہو وہاں جمعہ پڑھنا صحیح نہیں ہوگا۔ ایک دوسری تشریح یہ ہے کہ دین کو سمجھنا اور اس کی دعوت دینا تو صرف علماء کا کام ہے۔ یہ اور اس جیسی تمام تشریحات دراصل اسلام کی آفاقیت اور اس کی فعالیت کو نقصان پہنچانے والی اور قرآنی اسلوب سے ہٹی ہوئی تشریحات ہیں۔ قرآن اور شریعت کا خطاب اگر صحیح طریقے سے ہمارے سامنے واضح ہوجائے تو اس بات کی قوی امید ہے کہ یہ ساری الجھنیں بآسانی حل ہوجائیں کیونکہ ان الجھنوں اور غلط فہمیوں کے پیچھے ایک اہم وجہ قرآن اور شریعت کے خطاب کو صحیح سے نہ سمجھ پانا ہی ہے۔ استاد احمد ریسونی عالم اسلام کے ممتاز علماء میں شمار ہوتے ہیں، علماء اسلام کی عالمی تنظیم الاتحاد العالمی لعماء المسلمین کے صدر ہیں۔ اصول فقہ اور مقاصد شریعت پر مستند مانے جاتے ہیں۔ موجودہ دور میں مقاصد شریعت پر ان کا کنٹریبیوشن غیر معمولی اور لاثانی ہے۔ ہمیں امید ہے کہ ان کا یہ مختصر مضمون اس سلسلے میں بہت سی گتھیاں سلجھانے میں مفید اور کارآمد ثابت ہوگا۔ (ادارہ)

بہت سے ایسے شرعی احکام ہیں جن کو عموماً اس طور سے سمجھا اور لیا جاتا ہے کہ ان کا خطاب خاص طور سے اور براہ راست حکمرانوں یا حکومت کے تنفیذی، عدالتی اور قانون ساز اداروں اور طاقتوں سے ہیں، گویا وہ ریاست کے معاملات اور اختصاصات سے متعلق ہیں۔ جیسے اقامت عدل و قسط سے متعلق نصوص، جہاد وقتال سے متعلق نصوص، حدود کے نفاذ سے متعلق نصوص، زکات کے معاملات کو منظم کرنے سے متعلق نصوص اور خاندان اور معاشرے سے متعلق احکام بیان کرنے والے نصوص۔ میرا اس سے بالکل انکار نہیں ہے کہ اس قسم کے احکام میں ریاست کا ایک خاص کردار ہوتا ہے اور ان کی ذمہ داریاں ایسے معاملات میں زیادہ ہوتی ہیں۔ لیکن میں یہ کہوں گا کہ ان نصوص میں اصل اور بنیادی خطاب امت اور مسلمان جماعت سے ہے، اور اسی اصل سے مصحلت اور ضرورت کے تقاضوں کی بنا پراختصاص کا معنی بھی برآمد کیا جاسکتا ہے، لیکن صرف اسی قدرجس قدر مسلم جماعت معاملات کو منظم کرنے، وکالت کرنے اور ذمہ داری سونپنے کے لئے مناسب سمجھتی ہے، اور وہ بھی معتبر اور عرف میں قابل قبول تفاصیل اور شرائط کے پورے لحاظ کے ساتھ ۔
اور اس کی دلیل یہ ہے کہ ان تمام عمومی معاملات، اور بیشتر شرعی احکامات میں شریعت کا خطاب مسلمان جماعت یا مسلمان امت سے کیا جاتا ہے، گویا اصل مخاطب مسلم جماعت ہوتی ہے۔ چنانچہ شریعت کا خطاب حکمرانوں سے نہیں بلکہ امت سے ہوتا ہے، یا ریاست سے نہیں بلکہ جماعت سے ہوتا ہے۔ اور حکمران یا جو اس ضمن میں آتے ہیں ان کا تعین اور انتخاب بھی دراصل امت ہی کے امور میں شامل ہے اور وہ انہی کے واسطے مخاطب بھی کیے جانتے ہیں اور انہی کی طرف سے مکلف بھی بنائے جاتے ہیں۔
درج ذیل آیات پر غور کرکے دیکھا جاسکتا ہے کہ کون مخاطب ہے اور کون مراد ہے:
شرع لكم من الدين ما وصى به نوحا والذي اوحينا إليك وما وصينا به ابراهيم وموسى وعيسى ان اقيموا الدين ولا تتفرقوا فيه» (الشورى: 13)
اسی نے تمہارے لئے دین کا وہی رستہ مقرر کیا جس (کے اختیار کرنے کا) نوح کو حکم دیا تھا اور جس کی (اے محمدﷺ) ہم نے تمہاری طرف وحی بھیجی ہے اور جس کا ابراہیم اور موسیٰ اور عیسیٰ کو حکم دیا تھا (وہ یہ) کہ دین کو قائم رکھنا اور اس میں پھوٹ نہ ڈالنا۔
واعتصموا بحبل اللّه جميعا ولا تفرقوا» (آل عمران: 103)
اور سب مل کر خدا کی (ہدایت کی رسی) کو مضبوط پکڑے رہنا اور متفرق نہ ہونا۔
والمؤمنون والمؤمنات بعضهم اولياء بعض يأمرون بالمعروف وينهون عن المنكر ويقيمون الصلاة ويؤتون الزكاة ويطيعون الله ورسوله» (التوبة: 71)
اور مومن مرد اور مومن عورتیں ایک دوسرے کے دوست ہیں کہ اچھے کام کرنے کو کہتے ہیں اور بری باتوں سے منع کرتے اور نماز پڑھتے اور زکوٰة دیتے اورخدااوراس کےرسول کی اطاعت کرتےہیں۔
وانكحوا الايامى منكم والصالحين من عبادكم وامائكم» (النور: 32)
اور اپنی قوم کی بیوہ عورتوں کے نکاح کردیا کرو۔ اور اپنے غلاموں اور لونڈیوں کے بھی جو نیک ہوں (نکاح کردیا کرو)
يا أيها الذين آمنوا اذا جاءكم المؤمنات مهاجرات فامتحنوهن» (الممتحنة: 10)
مومنو! جب تمہارے پاس مومن عورتیں وطن چھوڑ کر آئیں تو ان کی آزمائش کرلو۔
والسارق والسارقة فاقطعوا ايديهما» (المائدة: 38)
اور جو چوری کرے مرد ہو یا عورت ان کے ہاتھ کاٹ ڈالو۔
الزانية والزاني فاجلدوا كل واحد منهما مائة جلدة» (النور: 2)
بدکاری کرنے والی عورت اور بدکاری کرنے والا مرد (جب ان کی بدکاری ثابت ہوجائے تو) دونوں میں سے ہر ایک کو سو درے مارو۔
والذين يرمون المحصنات ثم لم يأتوا بأربعة شهداء فاجلدوهم ثمانين جلدة» (النور: 4)
اور جو لوگ پرہیزگار عورتوں کو بدکاری کا عیب لگائیں اور اس پر چار گواہ نہ لائیں تو ان کو اسی درے مارو۔
واللاتي يأتين الفاحشة من نسائكم فاستشهدوا عليهن اربعة منكم فإن شهدوا فأمسكوهن في البيوت حتى يتوفاهن الموت او يجعل اللّه لهن سبيلا ہ واللذان بأتيانها منك فأذوهما» (النساء: 15 – 16)
مسلمانو تمہاری عورتوں میں جو بدکاری کا ارتکاب کر بیٹھیں ان پر اپنے لوگوں میں سے چار شخصوں کی شہادت لو۔ اگر وہ (ان کی بدکاری کی) گواہی دیں تو ان عورتوں کو گھروں میں بند رکھو یہاں تک کہ موت ان کا کام تمام کردے یا خدا ان کے لئے کوئی اور سبیل (پیدا) کرےاور جو دو مرد تم میں سے بدکاری کریں توان کو ایذا دو۔
وان طائفتان من المؤمنين اقتتلوا فأصلحوا بينهما فإن بغت احداهما على الاخرى فقاتلوا التي تبغي حتى تفيء الى امر اللّه فإن فاءت فأصلحوا بينهما بالعدل واقسطوا ان اللّه يحب المقسطين» (الحجرات: 9)
اور اگر مومنوں میں سے کوئی دو فریق آپس میں لڑ پڑیں تو ان میں صلح کرا دو۔ اور اگر ایک فریق دوسرے پر زیادتی کرے تو زیادتی کرنے والے سے لڑو یہاں تک کہ وہ خدا کے حکم کی طرف رجوع لائے۔پس جب وہ رجوع لائے تو وہ دونوں فریق میں مساوات کے ساتھ صلح کرا دو اور انصاف سے کام لو۔ کہ خدا انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔
ولا تؤتوا السفهاء اموالكم التي جعل اللّه لكم قيما وارزقوهم فيها واكسوهم وقولوا لهم قولا معروفا» (النساء: 5)
اور بےعقلوں کو ان کا مال جسے خدا نے تم لوگوں کے لئے سبب معیشت بنایا ہے مت دو (ہاں) اس میں سے ان کو کھلاتے اور پہناتے رہے اور ان سے معقول باتیں کہتے رہو۔
ان تمام آیات میں اور ان جیسی دوسری بہت سی آیات میں ریاست، خلیفہ، حکومت یا امارت یا اسمبلی وغیرہ قسم کا کوئی مخاطب نہیں آیا ہے بلکہ مسلم جماعت، مسلم امت اور عمومی طور سے تمام مسلمانوں کو مخاطب بنایا گیا ہے۔ اور یہ معنی بہت واضح ہے جہاں جہاں خطاب کرنے کے لئے “یا ایھا الذین آمنوا” کا صیغہ استعمال کیا گیا ہے۔
حتی کہ امہات العبادات جو کہ بنیادی طور سے عبودیت اور بندگی کی علامت ہوتی ہیں اور جن کا پورا دارومدار انفرادی اور باطنی نیت پر ہوتا ہے اور جو فرد کے ضمیر سے نکلتی اور اسی کی طرف لوٹتی ہیں، ان عبادات میں بھی متعدد اجتماعی پہلو دیکھے جا سکتے ہیں۔ چنانچہ ان کا حکم عموما ًاجتماعی صورت میں آتا ہے گرچہ کہ کبھی انفرادی صورت میں بھی آتا ہے، اور ان پر عمل بھی بنیادی طور سے اجتماعیت کے ساتھ ہی ہوتا ہے، اور ان کی اقامت جس کے لئے تعداد، وسائل، شروط اور باہمی تعاون اور خیر خواہی کا جذبہ درکار ہوتا ہے اجتماعیت اور اجتماعی کوششوں پر موقوف ہوتی ہے۔
چنانچہ مثال کے طور پر نماز وزکوٰۃ کے احکام زیادہ تر مسلمانوں کی جماعت کو مخاطب بناکر پیش کیے گئے ہیں ” وأقيموا الصلاة وأتوا الزكاة ” (بقرۃ: ۴۳) نماز کی ادائیگی ایک ایسا اجتماعی عمل ہے جس میں مسلمانوں کی سب سے بڑی تعداد بشمول مرد و عورت شامل ہوتی ہے۔ اور کوئی مسلمان اپنی پوری زندگی میں سب سے زیادہ جس اجتماعی عمل میں شریک ہوتا ہے وہ یہی نماز ہی ہے۔ اور ہر نماز میں نمازی یہ دعا کرتے: ” السلام علينا وعلى عباد اللّه الصالحين “۔
اسی طرح زکوۃ دراصل اہل خیر حضرات اور ضرورت مند حضرات کے درمیان ایک بھائی چارگی والا احسان پر مبنی تعلق کا نام ہے۔ چنانچہ حدیث نبویؑ میں کہا گیا: “ان کے مالداروں سے زکوۃ لی جائے گی اور ان کے فقراء کو لوٹا دی جائے گی”۔
روزہ عبادات میں سب سے زیادہ مخفی رہنے والی اور انفرادی نوعیت کی عبادت ہے لیکن اس کے باوجود اپنے مہینے اور اپنی شروعات اور اختتام کے حوالے سے سب کے درمیان مشترک کردی گئی اور جس کے نتیجے میں اس کے بھی متعدد اجتماعی پہلو سامنے آتے ہیں جس کو تمام مسلم معاشروں اور جماعتوں میں بخوبی دیکھا اور برتا جاتا ہے۔ اگر محض انفرادی طور سے روزے مطلوب ہوتے تو ہر کسی کو اختیار دیا جاتا کہ وہ خود سے اپنا وقت اور مہینہ طے کرلے۔
حج کے تناظر میں تو اجتماعیت کا پہلو سب سے زیادہ زوردار اور واضح ہے۔ آیا اس کےسلسلے میں وارد احکام میں خطاب کی نوعیت ہو ، جیسا کہ کہا گیا ” وأذن في الناس بالحج ” (حج: ۲۷)، ” ولله على الناس حج البيت ” (آل عمران: ۹۷) یا پھراس کی ادائیگی کی عملی صورت اور دلکش مناظر ہوں۔
ان تمام ارکان اور عبادات میں ممکن ہے کہ ریاست کا تعاونی کردارہو جس کے نتیجے میں ان کی انجام دہی اور تکمیل میں آسانی ہو اور اس کے ذریعے تشجیع اور توجیہ میں مدد ملے لیکن اصل خطاب ہر گز ریاست سے خاص نہیں ہے اور نہ ہی ان کی ادائیگی ریاست کی پالیسیوں اور ان کی تشجیع اور مدد پر موقوف ہے۔ بلکہ بہت سی ریاستوں نے ان شعائر کے راستے میں رکاوٹ کھڑی کرنا چاہیں لیکن مسلم عوام نے ان رکاوٹوں کا مقابلہ کیاجس طرح ذاتی اور دوسری رکاوٹوں سے مقابلہ کیا جاتا ہے اور ان سے آگے بڑھ گئے۔ امت یا عوام اپنے فہم اور عمل کے لحاظ سے ذمہ داریوں کو پورا کر پانے کی پوزیشن میں ہو یا اپنی ذمہ داریوں میں کوتاہ اور ذمہ داریوں سےقاصر ہو لیکن اپنے شعائر کی تعظیم اور اس کی پاسداری اور اس کو پورا کرنےکے لئے وسائل کی فراہمی اور اس کے راستے کی رکاوٹوں کو دور کرنے کی ذمہ داری اسی کی ہوگی اس سے قطع نظر کہ ریاست ساتھ ہے یا نہیں، اور ریاست کا تعاون حاصل ہے یا نہیں۔
دین کی نصرت اور اس کے پیغام کی علمبرداری
لوگوں کے ذہنوں اور دلوں میں یہ بات بیٹھ چکی ہے اور یہی موجودہ وقت کی زمینی حقیقت بھی ہے کہ دین کی نصرت اور اس کا دفاع اور اس کی طرف دعوت اور اس کے پیغام کو دنیا تک پہنچانے کی ذمہ داری ریاست اور علماء کے درمیان محدود ہے۔ اور بیشتر علماء خود یہ سمجھتے ہیں کہ ان کے حصے کی ذمہ داری بھی ریاست کی اجازت، اس کی مدد اور تعاون پر موقوف ہے۔ چنانچہ پورا معاملہ بڑی حد تک ریاست کے حوالے ہوکر رہ گیا ہے۔ اولاً تو اس کے ذریعےدین کی تعلیمات کو بگاڑ دیا گیا ہے اور اس کے احکام کو بدل دیا گیا ہے جیسا کہ اس مضمون میں صاف ظاہر ہے۔
دوسری طرف یہ ایک حقیقت ہے کہ کوئی بھی ریاست اکیلے اس بڑی ذمہ داری کو پورا کرنے سے پوری طرح عاجز رہے گی، بلکہ اس کی قیادت کرنے اور اس کے بڑے حصے کو اٹھانے سے بھی وہ عاجز رہے گی۔
تیسری بات یہ ہے کہ ریاست اکثر حالات میں اس ذمہ داری کے لئے ناموزوں رہے گی، یا اس سلسلے میں عدم دلچسپی کا مظاہرہ کرے گی یا پھر اس کی اہل ہی نہیں ہوگی۔ بلکہ اس بات کا بھی امکان ہے کہ وہ اس کے خلاف کھڑی ہو جائے جس کے اس کی داخلی اور خارجی سیاست کے حوالے سے متعدد اسباب ہوسکتے ہیں:
ایک اہم وجہ تو یہ ہے کہ اللہ تعالی نے اس سلسلے میں خطاب عام مومنوں اور تمام مسلمانوں سے کیا ہے اور ان پر یہ امانت اور ذمہ داری عائد کی ہے۔ نہ تو حکمرانوں کو خطاب کیا ہے اور نہ ہی خطاب کو علماء تک محدود کیا ہے۔ اور نہ ایسا ہے کہ فقیروں کو نظر انداز کرکے مالداروں کو خاص کیا ہے ۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے: ” قل هذه سبيلي ادعوا الى اللّه على بصيرة انا ومن اتبعني” (یوسف: ۱۰۸)کہہ دو میرا رستہ تو یہ ہے میں خدا کی طرف بلاتا ہوں (از روئے یقین وبرہان) سمجھ بوجھ کر میں بھی (لوگوں کو خدا کی طرف بلاتا ہوں) اور میرے پیرو بھی، ایک دوسری جگہ ارشاد باری تعالی ہے: ” يا أيها الذين آمنوا هل ادلكم على تجارة تنجيكم من عذاب أليم ۔ تؤمنون باللّه ورسوله وتجاهدون في سبيل اللّه بأموالكم وانفسكم ذلكم خير لكم ان كنتم تعلمون .. يا أيها الذين آمنوا كونوا أنصار اللّه…”(الصف: ۱۰۔۱۴)(مومنو! میں تم کو ایسی تجارت بتاؤں جو تمہیں عذاب الیم سے مخلصی دےوہ یہ کہ خدا پر اور اس کے رسولﷺ پر ایمان لاؤ اور خدا کی راہ میں اپنے مال اور جان سے جہاد کرو۔ اگر سمجھو تو یہ تمہارے حق میں بہتر ہےوہ تمہارے گناہ بخش دے گا اور تم کو باغ ہائے جنت میں جن میں نہریں بہہ رہیں ہیں اور پاکیزہ مکانات میں جو بہشت ہائے جاودانی میں (تیار) ہیں داخل کرے گا۔ یہ بڑی کامیابی ہےاور ایک اور چیز جس کو تم بہت چاہتے ہو (یعنی تمہیں) خدا کی طرف سے مدد (نصیب ہوگی) اور فتح عنقریب ہوگی اور مومنوں کو (اس کی) خوشخبری سنا دومومنو! خدا کے مددگار بن جاؤ جیسے عیسیٰ ابن مریم نے حواریوں سے کہا کہ بھلا کون ہیں جو خدا کی طرف (بلانے میں) میرے مددگار ہوں۔ حواریوں نے کہا کہ ہم خدا کے مددگار ہیں۔ تو بنی اسرائیل میں سے ایک گروہ تو ایمان لے آیا اور ایک گروہ کافر رہا۔ آخر الامر ہم نے ایمان لانے والوں کو ان کے دشمنوں کے مقابلے میں مدد دی اور وہ غالب ہوگئے)۔چنانچہ اسلام کی دعوت دینا اور اسلام کے پیغام کو تمام انسانوں تک پہنچانا ان تمام مسلمانوں کی ذمہ داری ہے جو خاتم الانبیاء کے پیروکار ہیں جس طرح یہ خود رسول ﷺ کی ذمہ داری تھی۔ اب جو بھی اس میں تخصیص اور استثناء کا دعوی کرے اس کو چاہئے کہ وہ کوئی دلیل لائے حالانکہ دلیل سرے سے ہے ہی نہیں۔ یہی بات صادق آتی ہے اللہ کی نصرت کے حوالے سے بھی جو دراصل اس کے دین کی نصرت ہے، جہاد ہے، اللہ کے راستے میں مال و جان کی قربانی ہے۔ ان تمام جگہوں پر بھی خطاب تمام ایمان لانے والوں سے ہے۔ نہ تو علماء یا حکمرانوں سے اور نہ ہی فوج کے سپہ سالاروں سے۔
دوسری وجہ یہ ہے کہ دین کی حفاظت اور اس کی نصرت جیسی عظیم اور بھاری ذمہ داریاں اس قدر بڑی اور اہم ہیں کہ ان کو اٹھانا کسی ایک گروہ یا دو گروہوں کے بس میں نہیں ہے، کیونکہ ان کو کمزوری یا کوتاہی لاحق ہوجانے یا عدد اور وسائل کی کمی واقع ہونے یا بے توجہی اور اضمحلال واقع ہوجانے کا امکان موجود ہے۔ لیکن جب اس امانت کو اٹھانے کا خطاب امت اور پوری امت سے مانا جائے اور تمام مومنین اس کے ذمہ دار سمجھے جائیں چاہے وہ مرد ہوں یا خواتین، امیر ہوں یا غریب، تجار ہوں یا کاریگر، حکمراں ہوں یا مزدور تو ایسے میں امانت کو اٹھانے اور اس کو پورا کرنے کے مواقع بہت وسیع اور بہت متنوع ہونگے۔ اور امت کو جتنی بھی آزمائشیں، مصیبتیں، پریشانیاں اور کوتاہیاں لاحق ہوجائیں، امت کے کسی نہ کسی حصے میں بیداری اور مقابلے کے مواقع ہمیشہ قائم و دائم رہیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ جہاد تا قیامت جاری رہے گا، اور یہی وجہ ہے کہ امت کا ایک نہ ایک گروہ قیامت تک ہمیشہ حق پر قائم اور عمل پیرا رہے گا جیسا کہ حدیث میں وضاحت موجود ہے، اورایسا (کہ صرف کوئی ایک ہی گروہ حق پر قائم رہے) صرف بدترین اور تاریک دور میں ہی ہوگا۔
تیسری وجہ یہ ہے کہ اس بڑی اور بھاری ذمہ داری کو ریاست کے کندھوں پر ڈالنے سے یہ ایک بڑے خطرے سے دوچار ہو سکتی ہے، یعنی جب جب ریاست اللہ کی ہدایت کے بغیر قائم ہو، بلکہ غصہ، بدلہ، انحراف اور فساد کی بنیادوں پر قائم ہو۔ اور ایسا ہماری تاریخ میں بارہا ہوتا رہا ہے۔ تو کیسے ممکن ہے کہ دین کی حمایت اور اس کے پیغام کو دنیا تک پہنچانے کی ذمہ داری ریاست کے سپرد کرکے چھوڑ دیا جائے۔ اور کیا ہوگا اگر ریاست فتنوں، اور خانہ جنگیوں کا شکار ہوجائے؟ اور حد یہ ہو کہ وہ ٹکڑوں اور گروہوں میں بٹ جائے؟
رہا امت کا حفظ دین کے حوالے سے حال تو وہ اللہ کے وعدے کے ساتھ ایسے حال میں رہے گی کہ اللہ ان کو کبھی ہر طرف سے ہلاک نہیں کرے گا اور ان پر ایسا دشمن نہیں مسلط کرے گا جو ان کو اور ان کے پورے ڈھانچے کو مکمل طور سے تباہ کردے۔ ہاں ایسا ہوسکتا ہے کہ اس کے اجزاء کو یہاں یا وہاں مصیبتوں کا سامنا کرنا پڑے لیکن ہمیشہ خیر اور برکتیں باقی رہیں گی۔

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Verified by MonsterInsights