تریپورہ : مسلم مخالف تشدد اور دو چہروں والی مرکزی حکومت

1

تحریر : اویس صدیقی

مترجم : عذیر احمد رنگریز


کہا جاتا ہے کہ نفرت انسان سے کچھ بھی کروا سکتی ہے۔ نفرت کی آگ میں بندہ کیا جرم کر لیتا ہے، اسے خود بھی خبر نہیں ہوتی۔

نفرت صرف ایک شخص کے لیے اتنی خطرناک ثابت ہو سکتی ہے، تو ذرا سوچئے کہ جب یہ نفرت ایک پورے ہجوم یا جھنڈ کی شکل اختیار کر لے تو اس کا نتیجہ کیا نکل سکتا ہے! ہمارے ملک میں پچھلے کچھ سالوں سے نفرت کا یہ بازار گرم ہے۔

مذہب کے نام پر نفرت کی سیاست اپنے عروج پر ہے جس کی بہت سی بڑی مثالیں اس وقت ہمارے سامنے ہیں۔ چاہے دہلی کے فسادات ہوں یا سی اے اے مخالف احتجاج میں شریک طلبہ اور سماجی کارکنوں کی گرفتاریاں ہوں، تبدیلی مذہب کے نام پر مسلمانوں کے خلاف سازشیں ہوں یا آسام میں مسلمانوں پر ظلم و ستم۔ ان مثالوں میں ایک چیز جو بہت مشترک ہے وہ یہ ہے کہ ہر مسئلے کی جڑ میں نفرت ہے جس کے ذریعے کسی خاص مذہب کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔ ایسا ہی کچھ ماضی میں تریپورہ میں ہوا تھا۔ بنگلہ دیش کی سرحد سے متصل ریاست گزشتہ ہفتے سے تشدد کی لپیٹ میں ہے۔

کیا ہے سارا معاملہ؟

چند روز قبل بنگلہ دیش میں درگا پوجا کے دوران وہاں کے اقلیتی ہندو سماج کے خلاف تشدد پھوٹ پڑا تھا جس میں کچھ افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہوگئے تھے۔ اس کے ساتھ ساتھ کئی مندروں پر حملوں کی بھی اطلاعات ہیں تاہم میڈیا رپورٹس کے مطابق انتظامیہ کی جانب سے تشدد پھیلانے والوں کے خلاف جلد کارروائی کی گئی اور کئی گرفتاریاں بھی کی گئیں۔ لیکن تشدد کے یہ واقعات صرف بنگلہ دیش میں نہیں رکے بلکہ اس کے شعلے پڑوسی ملک تک بھی پہنچ گئے۔

تریپورہ میں، وشو ہندو پریشد (وی ایچ پی)، بجرنگ دل، راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) جیسی کئی ہندوتوا تنظیموں نے بنگلہ دیش میں ہوۓ اس تشدد کے خلاف احتجاج میں ریلیاں نکالنا شروع کر دیں۔ لیکن وہی ریلیاں جو بنگلہ دیش میں ہندوؤں کے خلاف تشدد کی مذمت میں نکالی جا رہی تھیں، خود ریاست کی مسلم کمیونٹی کے خلاف پرتشدد ہو گئیں۔

مسلم اکثریتی اضلاع کو خاص طور پر نشانہ بنایا گیا. دکانوں، مساجد، مسلمانوں کے گھروں میں توڑ پھوڑ اور آتشزدگی کی گئی، بعض مقامات پر مسلم خواتین کے ساتھ بدتمیزی کی کوششیں کی گئیں، بعض مقامات پر مسلمانوں کے گھروں پر بھگوا پرچم لہرائے گئے۔ قرآن جلایا گیا، مسلم دشمنی کے پر مبنی ریلیاں نکالی گئیں اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے متعلق توہین آمیز نعرے لگائے گئے۔ شمالی تریپورہ کے رووا پانی ساگر، دھرمن نگر، انا کوٹی، کیلاشہر وغیرہ علاقوں سمیت اب تک تقریباً 15 مساجد پر حملے ہو چکے ہیں، مسلمانوں کی درجنوں دکانوں کی توڑ پھوڑ کی جا چکی ہے۔

مقامی شہریوں اور متاثرین کے مطابق شمالی تریپورہ میں جب تشدد اپنے عروج پر تھا، دکانوں میں کھلے عام توڑ پھوڑ کی جا رہی تھی، مساجد کو نذر آتش کیا جا رہا تھا، تو دوسری طرف پولیس کی موجودگی میں بھی کئی مقامات پر تشدد ہو رہا تھا۔ اس حوالے سے جب پولیس انتظامیہ سے سوال کیا گیا تو جواب میں پولیس نے کہا کہ تشدد کرنے والوں کی تعداد پولیس فورس سے کئی زیادہ ہے۔ کہیں کہیں یہ بھی سننے میں آیا کہ لوگوں کی دکانیں جلائی جا رہی ہیں اور پولیس کو اطلاع کرنے پر بھی جب تک پولیس پہنچتی، دکانیں جل چکی ہوتیں۔ مقامی لوگوں کا الزام ہے کہ پولیس انتظامیہ اور ریاستی حکومت اس تشدد کو مکمل طور پر نظر انداز کرنے کی کوشش کر رہے تھے ۔

جب ریاست میں تشدد کے شعلے زیادہ تیزی سے پھیلے تو اس نفرت انگیز تشدد کو روکنے کے لیے مسلمانوں کی طرف سے ایک پرامن احتجاجی مظاہرہ کیا گیا۔ اس دوران وہی پولیس جو خود کو بے بس بتا رہی تھی، اچانک حرکت میں آگئی اور اس جگہ پر دفعہ 144 کے تحت احتجاج کی اجازت نہیں دی گئی، جبکہ تشدد کرنے والے ابھی تک آزاد ہیں۔ بی جے پی کی حکومت والی ریاستوں میں پولیس اور انتظامیہ کا یہ دوغلا پن کوئی نئی بات نہیں ہے۔

26 اکتوبر کو شمالی تریپورہ کے رووا پانی ساگر علاقے میں ہندوتوا تنظیم کے تقریباً 8000 کارکنوں کی ایک ریلی نکلتی ہے اور اندھا دھند مسلم مخالف نعرے لگائے جاتے ہیں اور مساجد کو نقصان پہنچایا جاتا ہے۔ درحقیقت فیکٹ رپورٹس میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ ایک مسجد کو بھی نذر آتش کیا گیا ہے، لیکن اسی دن تریپورہ پولس کی جانب سے ٹویٹ کیا گیا کہ پانی ساگر میں کسی مذہبی مقام کو نقصان نہیں پہنچایا گیا ہے ، جو لوگ سوشل میڈیا پر افواہیں پھیلا رہے ہیں، وہ ایسا نہ کریں ورنہ ان کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔ اسی دن پولیس کی طرف سے ایک اور ٹویٹ آیا جس میں بتایا گیا ہے کہ حالات قابو میں ہیں۔ اس سے بڑی صریح دو رخی اور کیا ہوسکتی ہے کہ ایک طرف انتظامیہ خود کو بے بس اور بے بس ظاہر کر رہی ہے جو درحقیقت خوف و ہراس کا ماحول بنا رہے ہیں اور دوسری طرف سچ دکھانے والوں کو قانون کا درس دیا جا رہا ہے۔ یہ واقعی “اچھے دن” ہیں!!!

میڈیا کی بات کریں تو ’’گودی میڈیا‘‘ کا حال یہ ہے کہ قومی مفاد کے معاملات ان کے لیے ضروری نہیں۔ ان کو دیکھ کر لگتا ہے کہ اب ملک میں مسائل رہ گئے بھی ہیں یا نہیں! میڈیا کے ایک چھوٹے سے حصہ کو جو زمین پر جا کر سچ دکھانے کی کوشش کر رہا تھا ، وہاں جانے نہیں دیا جا رہا اور دھمکیاں دی جا رہی ہیں، یہ ہے دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کی حقیقت!

گزشتہ ہفتے سے جاری یہ تشدد ہندوتوا تنظیموں کی جانب سے پہلے سے منصوبہ بند طریقے سے کیا جا رہا تھا- پھر 29 ​​اکتوبر کو تریپورہ ہائی کورٹ نے پانی ساگر کی جامع مسجد کمیٹی کے صدر کی طرف سے تشدد سے متعلق دی گئی درخواست کو قبول کر لیا۔ اور 10 نومبر تک، ریاستی حکومت سے تشدد کے حوالے سے تفصیلی تحقیقات کے ساتھ رپورٹ طلب کی ہے۔ فیکٹ فائنڈنگ کی جانب سے موصول ہونے والی معلومات کے مطابق اب جب کہ ہائی کورٹ میں درخواست منظور کرلی گئی ہے جس کے بعد انتظامیہ حرکت میں آگئی ہے اور بعض مقامات پر مساجد کو پہنچنے والے نقصان کی مرمت کے لیے مرمتی کام شروع کردیا گیا ہے تاہم اب بھی بہت کچھ علاقے جو تشدد کا شکار ہوۓ تھےوہ خستہ حالی میں ہیں ۔ کسی بھی اجتماع کو روکنے کے لیے انا کوٹی میں دفعہ 144 نافذ کر دی گئی ہے اور صورتحال کافی حد تک قابو میں ہے۔

لیکن سوال یہ ہے کہ اگر انتظامیہ چاہتی تو کیا یہ تشدد ہو سکتا تھا! اگر پہلے حالات خراب ہوتے ہی ریاست میں دفعہ 144 نافذ کردی گئی ہوتی، پولیس فورس کو تیار رکھا جاتا تو تشدد اتنا بھڑک نہیں سکتا تھا، لیکن کہیں نہ کہیں ایسا محسوس ہورہا ہے کہ ریاست کی بی جے پی حکومت اور وفاقی انتظامیہ نے بھی، خاموش تماشائی بن کر فسادیوں کا بہت ساتھ دیا۔ جہاں ضرورت نہیں تھی وہاں قانون کا ڈرامہ کیا گیا اور جہاں واقعی ضرورت تھی وہاں بے بسی اور لاپرواہی سے کام لیا گیا۔

1 تبصرہ
  1. نیسا شیک نے کہا

    ماشاءاللہ اچھی پوسٹ ہے.

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Verified by MonsterInsights