ایس آئی او آف انڈیا کی جانب سے
کل ہند طلبہ مدارس کانفرنس
مدارس اسلامیہ کے قیام کا بنیادی محرک کیا تھا؟ اور وہ بنیادی مقاصد کیا تھے جن کے تحت مدارس کا قیام عمل میں آیا؟
مدراس کی موجودہ صورتحال کیا ہے؟ کیا ان کے درمیان کچھ بھی فکری ہم آہنگی نظر آتی ہے؟ کیا وجہ ہے کہ نظام، نصاب اور دیگر بنیادی امور میں ان کے درمیان اس قدر اختلاف یا فرق پایا جاتا ہے کہ کسی ایک مکتب فکر کے مدارس سے فارغ ہونے والے طلبہ کے لیے دوسرے مکاتب فکر کے مدارس میں ایڈجسٹ ہونا مشکل ، بلکہ محال ہوتا ہے۔
فارغین مدارس سے کیا توقعات وابستہ رکھی جاتی ہیں، یا وابستہ رکھی جانی چاہئیں؟ سماج کی تشکیل نو اور سماجی مسائل کے حل کے سلسلے میں ان کا کیا کردار مطلوب ہے؟ اور پھر مدارس سے فارغ ہونے والے طلبہ وطالبات کی مجموعی صورتحال کیا ہے؟ کیا بحیثیت مجموعی وہ ملک وملت کی تعمیر میں اپنا مطلوبہ کردار ادا کرنے میں کامیاب نظر آرہے ہیں؟
اسی طرح یہ کہ مدارس اسلامیہ کے واقعی مسائل کیا ہیں؟ کیا مسائل ہیں جن کا تعلق ملت کی اندرونی صورتحال سے ہے، کیا مسائل ہیں جو مدارس کے اسٹرکچر اور ان کے نظام ونصاب سے متعلق ہیں، کیا مسائل ہیں جو طلبہ اور فارغین مدارس کو مدرسے سے باہر کی دنیا میں جانے پر درپیش ہوتے ہیں، اورپھر وہ کیا مسائل ہیں جو بیرون سے الزامات اور غلط فہمیوں کی شکل میں مدارس کے اوپر تھوپے جارہے ہیں، اور مدارس کی بدنامی کا سبب بن رہے ہیں۔
یہ اور اس جیسے کچھ اور بہت ہی بنیادی نوعیت کے سوالات ہیں، جو ۱۱؍اپریل کو ایس آئی او آف انڈیا کی جانب سے منعقد ’کل ہند طلبہ مدارس کانفرنس‘ بمقام جامعۃ الفلاح ، بلریاگنج، اعظم گڑھ میں بہت ہی زوروشور سے اٹھائے گئے۔ اس کانفرنس میں ملک کے مختلف صوبوں سے منتخب طلبہ مدارس کے علاوہ مختلف مکاتب فکر کے اہل علم ودانش بھی موجودتھے۔ تاہم ہر ایک کی گفتگو سے مدارس کی موجودہ صورتحال کے تعلق سے ایک ہی جیسی بے اطمینانی اور بے چینی کا اظہار ہورہا تھا۔
افتتاحی سیشن صبح ۹؍بجے شروع ہوا۔ جس کی نظامت برادر نجم الثاقب فلاحی، صدر حلقہ ایس آئی او یوپی سنٹرل نے کی۔ استقبالیہ برادر عبدالودود سکریٹری ایس آئی او آف انڈیا نے پیش کیا۔ کلیدی خطاب صدر ایس آئی او آف انڈیا اشفاق احمد شریف کا تھا۔ اس سیشن میں ایک اہم پروگرام مذاکرے کا تھا، جس کا عنوان تھا’’مدارس اسلامیہ کے قیام کا بنیادی محرک‘‘۔ اس میں مختلف مکاتب فکر کی نمائندہ شخصیات مولانا علاؤ الدین ندوی، دارالعلوم ندوۃ العلماء، مولانا ولی اللہ سعیدی ، امیرحلقہ یوپی مشرق جماعت اسلامی ہند، مولانا اسعد اعظمی ، جامعہ سلفیہ بنارس، ڈاکٹر ایاز احمد اصلاحی، لکھنؤ یونیورسٹی نے اظہار خیال کیا،صدارت مولانا سید جلال الدین عمری امیر جماعت اسلامی ہند نے فرمائی۔ بنیادی طور پر جملہ شرکاءِ مذاکرہ اس امر پر متفق تھے کہ مدارس اسلامیہ کے قیام کے بنیادی محرک پر گفتگو کی ضرورت ہے۔
دوسرے سیشن کی صدارت جناب مولانا رفیق احمد قاسمی سکریٹری جماعت اسلامی ہند نے فرمائی، اور نظامت عبدالعظیم فلاحی، حیدرآباد نے کی، اس سیشن میں ۵ ؍ خطاب ہوئے۔ جس میں جناب اشہد رفیق ندوی، مسلم یونیورسٹی علیگڑھ، جناب مولانا محمد اسماعیل فلاحی صاحب، شیخ التفسیر جامعۃ الفلاح، جناب مولانا عمراسلم اصلاحی صاحب شیخ التفسیر مدرستہ الاصلاح سرائمیر، مولانا وارث مظہری صاحب استاذ مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی، حیدرآباد اور ڈاکٹر ایاز احمد اصلاحی لکھنؤ نے خطاب کیا۔
آخری اجلاس خطاب عام کا تھا جس میں قرب وجوار سے بڑی تعداد میں لوگوں نے شرکت کی، اس سیشن کی نظامت نذیرالحسن فلاحی، صدر ایس آئی او حلقہ یوپی مغرب نے کی، اور مولانا سید جلال الدین عمری امیر جماعت اسلامی ہند، مولانا ولی اللہ سعیدی فلاحی امیر حلقہ جماعت اسلامی یوپی مشرق اور مولانا علاؤالدین ندوی استاذ دارالعلوم ندوۃ العلماء نے خطاب کیا۔آخر میں سات نکاتی قرارداد منظور کی گئی، جسے مدیر رفیق منزل ابوالاعلی سید سبحانی نے پیش کیا۔
یقیناًمدارس ملت اسلامیہ ہند کا ایک قیمتی سرمایہ ہیں، اور اِن کی اپنی شاندار تاریخ اور ملک وملت کے لیے عظیم ترین خدمات رہی ہیں، جن کا اعتراف کیا جاتا ہے، اپنوں کی جانب سے بھی، اور غیروں کی جانب سے بھی۔ لیکن یہ حقیقت ہے کہ مدارس اسلامیہ زمانے کی تبدیلی کے ساتھ وقت کی رفتار کا ساتھ نہیں دے سکے۔ وقت اپنی تیزرفتاری سے آگے بڑھتا گیا، راگ میں بھی جدت آئی، ساز بھی تبدیل ہوا، اور خرد نے نہ جانے کتنی منزلیں طے کرلیں، لیکن اس تبدیلی کا کوئی قابل ذکر اثر مدارس کے نظام ونصاب پر نہیں پڑا۔
ایس آئی او آف انڈیا نے اس میقات میں یہ عزم کیا ہے کہ مدارس اسلامیہ کے نظام تعلیم ونصاب تعلیم کو ملک بھر میں موضوع بحث بنایا جائے گا، اس کے تحت ملک بھر میں جگہ جگہ سروے بھی جاری ہیں، اس کے علاوہ بھی مختلف نوع کے پروگرامس طے کئے گئے ہیں، ان ہی پروگرامس کا ایک حصہ طلبہ مدارس کی یہ کل ہند کانفرنس تھی۔ یقیناًطلبۂ مدارس کی یہ کل ہند کانفرنس ایک نقطہ آغاز ہے، اس میدان میں قدم بڑھانے کے لیے ابھی بہت کچھ تیاری اور عملی جدوجہد درکار ہے۔
ایس آئی او کرناٹک زون نے
مدارس سروے رپورٹ جاری کی
مدارس اسلامیہ ملت اسلامیہ ہند کی فلاح وبہبود میں ایک اچھا کردار ادا کرسکتے ہیں، لیکن مسئلہ یہ ہے کہ مدارس آج خود ہی ناگفتہ بہ صورتحال سے دوچار ہیں، نظام تعلیم سے لے کر نصاب تعلیم تک مدارس اسلامیہ کے اندر متعدد کم زور پہلو نظر آتے ہیں، جن اصلاح کی شدید ضرورت ہے۔ ان تمام پہلوؤں کو سامنے رکھتے ہوئے ایس آئی او کرناٹک زون نے صوبے کے ۲۹؍بڑے مدارس کا ایک سروے کرایا، جس میں وہاں موجود سہولیات، تعلیمی ماحول اور تعلیمی نظام کی موجودہ صورتحال کا ایک تجزیہ پیش کیا گیا ہے۔
ہندوستانی سماج ایک تکثیری سماج ہے، جہاں کی تہذیب، مذاہب، زبانیں اور علاقے اپنے اندر نہ صرف رنگارنگی رکھتے ہیں، بلکہ یہاں کے نظام میں ان تمام امور کی خاصی رعایت بھی موجود ہے۔ لیکن صورتحال یہ ہے کہ مدارس اسلامیہ میں نہ تو سماج کے سلسلے میں کوئی سمجھ اور شعور دیا جاتا ہے، اور نہ سماج میں رائج زبان میں ان کے یہاں تعلیم ہوتی ہے۔ اس کا نتیجہ ہے کہ مدارس میں پڑھنے والے طلبہ سماج سے کٹ کر الگ تھلگ ہوکر رہ جاتے ہیں، یا پھر سماج میں وہ مؤثر اور رہنما کردار نہیں ادا کرپاتے جو ان سے مطلوب ہے۔
ایس آئی او آف انڈیا کرناٹک زون کی جانب سے شائع اس رپورٹ کے طرز پر ضرورت ہے کہ ملک کے ہر صوبے میں سروے کا کام کیا جائے، اور اس کی روشنی میں ملت اسلامیہ ہند کے سامنے ایک سوچا سمجھا اور مفید لائحہ عمل پیش کیا جائے، تاکہ مدارس اسلامیہ اور اس سے فارغ ہونے والے طلبہ وطالبات کے مطلوبہ کردار کی بازیافت ہوسکے۔
سوشل سائنس کے طلبہ وطالبات کے درمیان
اسکالر شپ تقسیم کی گئی
۱۵؍مئی ،علی گڑھ(پریس ریلیز )
روز اول سے اسلام نے تعلیم کی طرف متوجہ کیا ہے۔ آج امت تعلیمی میدان میں بہت پیچھے ہو گئی ہے، جبکہ اسی امت نے بہت بڑے بڑے جغرافیہ داں اور سائنس داں پیدا کئے ہیں۔ آج پوری دنیا میں تعلیم حاصل کرنے کا مقصد دولت کمانا بنا دیا گیا ہے، لیکن تعلیم کا اصل مقصد اللہ کی زمین پر اللہ کے بندوں کی صحیح رہنمائی کرنا ہے۔ ان خیالات کا اظہار ڈاکٹر اشہد جمال ندوی نے آج ادارہ تحقیق و تصنیف علی گڑھ کے ہال میں ہیومن ویلفیئر فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام منعقد پروگرام میں کیا۔ انھوں نے مزید کہا کہ اگر کوئی اللہ کے بتائے ہوئے نظام تعلیم کی پابندی کرتا ہے اوروہ ڈاکٹر بنتا ہے تو قوم کا خادم ہوتا ہے، انجینئر ہوتا ہے تو قوم کو فائدہ پہنچاتا ہے۔ ایس آئی او کے زونل صدر نذیرالحسن خان نے کہا کہ جماعت اسلامی ہند کا ہمیشہ سے یہی خواب رہا ہے کہ اسلام کی زیادہ سے زیادہ اشاعت ہواور اقامت دین اس کا اصل مقصد رہا ہے ۔ اسی مقصد کے حصول کے تئیں جماعت نے طلبہ و نوجوانوں کی تنظیم اسٹوڈینٹس اسلامک آرگنائزیشن آف انڈیا ’’ایس آئی او‘‘ کو قائم کیا۔ جس کا مشن ’’الٰہی ہدایات کے مطابق سماج کی تشکیل نو کے لئے طلبہ و نوجوانوں کو تیار کرنا‘‘ ہے، جس پر یہ تنظیم اب تک کام کرتی چلی آرہی ہے۔ فاؤنڈیشن کے اسکالرشپ پروجیکٹ ڈائرکٹر جناب ظہور احمد صاحب نے فاؤنڈیشن کا تعارف کراتے ہوئے ہندوستان کی تعلیمی اور معاشی پسماندگی پر روشنی ڈالی، اور اس کے سلسلے میں فاؤنڈیشن کی کوششوں کا تذکرہ کیا ۔ اس پروگرام کا آغاز محمد عاصم فلاحی کی تلاوت قرآن سے ہوا۔ پروگرام میں سوشل سائنس کے18؍ طلبہ وطالبات کے درمیان 2,82,895؍روپئے کی اسکالر شپ تقسیم کی گئی ۔ پروگرام میں محمد تنویر احمد، عبدالاحد، محمد قاسم، قدیر احمد اصلاحی کے علاوہ طلبہ وطالبات کی ایک بڑی تعداد ،ذمہ داران ’ایس آئی او‘وجماعت اسلامی اور معززین شہر شریک تھے۔ نظامت کے فرائض عارف خان نے انجام دیئے۔
بام سیف کے پروگرام میں
دعوتی بک اسٹال
دھولیہ، مہراشٹر۔ ’سارے انسان ایک ماں باپ کی اولاد ہیں‘، اس پیغام کے تحت ایس آئی او دھولیہ یونٹ کی جانب سے ایک دعوتی بک اسٹال کا اہتمام کیا گیا۔ برادران وطن میں اسلام کی دعوت کو عام کرنے کے لیے بروز اتوار ۲۳؍ مارچ ۲۰۱۴ ء کو بام سیف کے ایک بڑے پروگرام میں مختلف اسلامی وسماجی موضوعات پر مشتمل مراٹھی کتابوں کا اسٹال لگایا گیا۔ جس میں کثیر تعداد میں برادران وطن نے مراٹھی دیویہ قرآن، آپؐ کی سیرت، اسلام پربودھ، گوشہ(پردہ)، ڈاکٹر بابا صاحب امبیڈکر اور اسلام، اسلام اور دہشت واد، جاتیہ دنگلی اور ہماری ذمہ داریاں، وغیرہ موضوعات پر کتابیں خریدی گئیں۔ اسٹال پر موجود ایس آئی او کے وابستگان نے اس موقع پر دعوتی گفتگو کا بھی اہتمام کیا، تاکہ زیادہ سے زیادہ غلط فہمیاں دور ہوسکیں۔
Prev Post
Next Post