0

مدارس پرخصوصی اشاعت

ماہ مئی کا خصوصی شمارہ دیکھا، ’’مدارس اسلامیہ۔ مسائل اور امکانات‘‘کے مرکزی موضوع کے تحت کافی اہم اور قیمتی مضامین دیکھنے کو ملے۔ ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی، ڈاکٹر محمد عنایت اللہ اسد سبحانی، مولانا امین عثمانی، مولانا نسیم غازی فلاحی، ڈاکٹر محی الدین غازی، ڈاکٹر عبیداللہ فہد فلاحی، ڈاکٹر اشہد رفیق ندوی، وغیرہم کے افکاروخیالات سے مستفید ہونے کا موقع ملا۔ شمارے کی خاص بات یہ نظر آئی کہ اس میں اہل علم ودانش سے استفادے کے ساتھ ساتھ طلبہ مدارس وفارغین مدارس کی تحریروں کو بھی خاصے اہتمام کے ساتھ شائع کیا گیا ہے۔ ابتداء میں چند مخصوص سوالات کے تحت ملک کے ممتاز اہل فکرونظر کے انٹرویوز کافی اہم اور مفید ہیں۔ شمارے کو دیکھ کر خوشی ہوئی کہ تقریبا ہر مضمون اپنی جگہ فکرمندی کی علامت ہے، اور تبدیلی کا پیغام دیتا ہے۔ بالخصوص ڈاکٹر محی الدین غازی کا مضمون ’گہرانصابی شعور یا محض خانہ پری‘‘ کافی فکرانگیز ہے، لیکن پڑھنے کے بعد مضمون میں کافی تشنگی محسوس ہوئی، اس کو مزید وضاحت اور تفصیلات کے ساتھ منظرعام پر لانے کی ضرورت ہے۔ بہرحال مدیررفیق اور ان کی پوری ٹیم اس خصوصی اشاعت پر قارئین رفیق کی جانب سے شکریہ اور تحسین کی مستحق ہے، اللہ انہیں جزائے خیر دے، اور ان کی خدمات کو شرف قبولیت عطافرمائے۔ آمین
محمد ثاقب، نئی دہلی
دعوت دین کا کام
اللہ کا شکرواحسان ہے کہ ہندوستان میں دعوت دین کاکام تحریک اسلامی کی کوششوں کے نتیجے میں کافی منظم ہوا ہے، اور تحریکی لٹریچر کے مختلف زبانوں میں ترجموں کے نتیجے میں اسلام کا عام فہم تعارف براد ران وطن تک پہنچ رہا ہے۔ ہمارے ایک نو مسلم بھائی نے مولانا مودودی کی کتاب رسالۂ دینیات کے بارے میں جس کا مراٹھی ترجمہ’ اسلام پربودھ‘ کیا گیاہے، فرمایا کہ یہ ایک ایسی کتاب ہے جو دماغ کی تعمیر کرتی ہیں اور دلوں کو اپیل کرتی ہیں۔ اس کتاب نے میرے دل پر اسلام کی حکومت قائم کردی ہے۔ میری خواہش بھی ہے اور گزارش بھی کہ برادران وطن کویہ کتاب بطور ہدیہ دیں یا انہیں پڑھوائیں۔ امید ہے کہ اس طرح اسلام سے متعلق غلط فہمیوں کا ازالہ ہوگا، اسلام کی تعلیمات دل ودماغ کو اپیل کریں گی اور عقائد کا بھرپور تعارف عام لوگوں کے سامنے آئے گا۔ امیدکہ وابستگان تنظیم اس کتاب کو برادران وطن کے درمیان دعوت کے مقصد سے استعمال کریں گے۔
ابن ابوالخیر، ایوت محل
ضروری وضاحت
ماہ اپریل ۲۰۱۴ کے شمارے کو دیکھ کر بہت خوشی اور مسرت ہوئی۔ چند مضامین ایسے ہیں جو ذہن کے بند دریچوں کو کھولتے ہیں اور غوروفکر کی دعوت دیتے ہیں۔ انہیں میں سے ایک مضمون ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی صاحب کا بھی ہے۔ موصوف نے اجتہاد کے موضوع پر نہایت ہی عمدہ اور سیر حاصل گفتگو کی ہے، اور اجتہاد کی ضرورت اور اہمیت پر زور دیا ہے۔
البتہ موصوف کی ایک بات سے اطمینان نہیں ہوا، جس میں انہوں نے کہا ہے کہ’’ اختلاف کو بہرحال باقی رہنا چاہئے۔‘‘ اس پر مزید غوروفکر کرنے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ اگر رات کو کچھ لوگ رات کہیں اور کچھ لوگ دن کہیں تو کیا یہ کہنا مناسب ہے کہ اختلاف باقی رہے۔ ہمارے دین مبین میں اس طرح کی بہت سی باتیں ہیں جو روز روشن کی طرح عیاں ہیں، پھر بھی لوگوں نے انہیں نہ سلجھنے والا مسئلہ بنا رکھا ہے۔ ایسی واضح اور روشن باتوں میں اختلاف کیسے درست ہوسکتا ہے؟
مثال کے طورپر اہل کتاب کی عورتوں سے نکاح کرنے کا معاملہ ہے۔ اس سلسلے میں ایک رائے یہ ہے کہ ان سے نکاح کرنا جائز ہے جبکہ دوسری رائے یہ ہے کہ ان سے نکاح کرنا جائزنہیں ہے۔ اگر ہم غور کریں تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ یا تو ان سے نکاح کرنا جائز ہوگا یا تو ناجائز ہوگا، دونوں میں سے ایک ہی بات درست ہوگی اور جو بات درست ہو، یقیناًاس پر اتفاق ہونا چاہئے نہ کہ اختلاف۔یہ بات بھی واضح رہے اہل کتاب کی عوورتوں سے نکاح کا یہ مسئلہ آدمی کی پوری زندگی سے وابستہ ہے اور اس سے بڑھ کر اس کے ایمان سے کیونکہ آگے چل کر ان کے بچوں کی پرورش کا معاملہ پیش آئے گا اور پھر اسی سے ایک خاندان وجود میں آئے گا۔ اسی طرح بہت سی باتیں ہیں جن میں بے جا اختلافات نے اسلام اور مسلمانوں کو بہت نقصان پہنچایا ہے۔
ہاں! چند ایسے مسائل بھی ہیں جن سے ہماری زندگی میں کسی قسم کا کوئی فرق نہیں پڑتا اور نہ ہی ہمارے ایمان اور اسلام پر کوئی حرف آتا ہے۔ اس کے علاوہ اگر کسی مسئلے میں یہ واضح ہو کہ دونوں درست ہیں تو اس میں کسی بھی طریقے پر عمل کرنے میں کوئی حرج نہیں۔
محمد ندیم، اسلامی اکیڈمی۔نئی دہلی

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Verified by MonsterInsights