غزل
مجھ کو دے دو سزائے پھانسی اب
بات حق تھی زباں پہ آئی ہے
ہم نے دامن بھرا ہے کانٹوں سے
تم نے پھولوں سے بیر کھائی ہے
دیکھو قاتل پھرے ہے آوارہ
موت حصے میں میرے آئی ہے
تہمتوں کا اثر کہاں ہوگا
ہم نے جینے کی قسم کھائی ہے
جاؤ تم سے قطع تعلق ہے…