0

عمارت کی کرسی
عمارت کی کرسی کی بات ایسی ہے جسے کوئی بھول نہیں سکتا۔ زندگی کی عمارت کی بھی کرسی ہوتی ہے۔ زندگی کی اصل کرسی آرام اور راحت کے سامانوں کی فراوانی نہیں ہے بلکہ فکر اور مقصد حیات کی بلندی، آفاقیت اور اس کے لیے جدوجہد ہے۔
خدا چاہے تو یہ مختصر مضمون زندگی میں انقلاب لانے کے لیے کافی ہے۔
(مولانا) محمد فاروق خان (صاحب)
معروف اسلامی دانشور، نئی دہلی
شاندار ٹائٹل اور کاغذ بھی عمدہ
ماہ دسمبر کا شمارہ اپنے متعینہ وقت پر حاصل ہوا۔ اوراق پلٹتے ہی دل باغ باغ اورطبیعت خوش ہو گئی۔ شاندار ٹائٹل اور کاغذ بھی عمدہ۔ اس پر ہم رفیق منزل گروپ آف پبلیکیشن کو مبارکباد پیش کرتے ہوئے دل کی گہرائیوں سے دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالی ان رسالوں کومزید ترقی عطافرمائے۔
الحمد للہ رفیق کے تمام ہی مضامین عمدہ ہیں، بالخصوص اس شمارے میں جناب عبداللہ جاوید صاحب کا مضمون ’’وہ اجتماعی مطالعہ قرآن آج بھی یاد ہے‘‘بہت اچھا لگا ۔ساتھ ہی ملت کے نوجوان قارئین کے اندر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا داعیانہ کردار بیدار کرنے کے لیے مضامین کی جو سیریز آپ نے شروع کی ہے ۔وہ بھی بہت اچھی ہے،اس کو مزید جاری رکھیے۔
ن ح خان (بدایونی)
ماہ دسمبر کا رفیق منزل
ماہ دسمبر کا رفیق منزل آن لائن پڑھنے کا موقع ملا، ایک ہی نشست میں بیشتر مضامین پڑھ ڈالے۔ محمد عبداللہ جاوید صاحب کا مضمون ’’وہ اجتماعی مطالعہ قرآن آج بھی یاد ہے!‘‘ بہت ہی مفید اور رہنما مضمون ہے۔ مضمون میں تمام ہی باتیں اہم ہیں، آخری پیراگراف میں لکھتے ہیں:
’’انسانوں کو نیکی کی راہ پر مصروف رکھنے اور برائیوں سے انہیں مجتنب ہونے میں اللہ کے ہاں جوابدہی کا احساس بڑا نمایاں رول ادا کرتا ہے۔ اگر حالات کے بگاڑ کے حقیقی اسباب میں ایک پہلو اللہ اور اس کے رسولؐ کی نافرمانی ہے تو دوسرا پہلو آخرت میں جوابدہی سے غفلت ہے۔ مختلف اقوام میں برائیوں کے پنپنے کی ایک بڑی وجہ عقیدہ آخرت کا نہ ہونا یا پھر اس کا ناقص تصور ہے‘‘۔
ڈاکٹر محی الدین غازی صاحب کے مضامین خوب ہی نہیں بہت خوب ہوتے ہیں۔ ’’عمارت کی کرسی اونچی رکھیں‘‘ اور عام آدمیوں کا آدمی ہونا‘‘، دونوں ہی مضامین بہت ہی دلچسپ ہیں اور مؤثر پیغام رکھتے ہیں، اول الذکر مضمون میں کتنی ہی اہم بات لکھی ہے:
’’یاد رہے کہ انسانی زندگی کی وہ عمارتیں مقام امامت کی سزاوار نہیں ہیں جو بظاہر اونچی نظر آتی ہوں لیکن ان کی کرسی اتنی نیچی ہو کہ کبھی بھی گندے پانی کا ریلا اندر گھس آئے، اور سب کچھ گند ا کرڈالے، جن کی نالیوں سے باہر کی گندگی اندر آتی ہو، اور جن کی زمین چاٹتی چوکھٹیں حشرات الارض کی گزرگاہ بنی ہوئی ہوں۔‘‘
دوسرے مضمون میں لکھتے ہیں:
’’عام آدمیوں کا آدمی‘‘ ہونا الگ بات ہے اور ’’عوام میں مقبول‘‘ ہونا الگ بات ہے۔ عام آدمیوں میں مقبول ہوجانا کوئی قابل رشک بات نہیں ہے۔ عوامی مقبولیت کے اسباب اکثر عامیانہ اور سوقیانہ ہوتے ہیں۔ عوام کی آنکھ کے تارے اکثر وہ لوگ ہوتے ہیں، جو ان کی زندگی اور ان کے مسائل سے کوئی دلچسپی نہیں رکھتے ہیں، بلکہ عوام ان کی نگاہ میں کیڑوں مکوڑوں کی طرح حقیر ہوتے ہیں، جو عوام کی پیٹھ پر سواری کرکے حکومت کے ایوانوں میں پہنچتے ہیں اور پھر ان کو بھول جاتے ہیں، جو عوام کے جذبات سے کھیل کر اپنی دکان چمکاتے ہیں، جو عوام کے اور اپنے درمیان احساس برتری اور معیار تعیش کے فاصلے رکھتے ہیں۔‘‘
سیرت رسولؐ کے دعوتی پہلووں پر اقبال حسین صاحب صدرتنظیم ایس آئی او آف انڈیا کے علاوہ ڈاکٹر محمد رفعت صاحب رکن مرکزی مجلس شوری جماعت اسلامی ہند اور دیگر مضمون نگاروں کی تحریریں بھی اہم ہیں۔ شارق انصر صاحب کا بہار الیکشن پر تجزیہ اچھا لگا، لیکن اس کو پڑھنے کے بعد کافی تشنگی کا احساس ہوا۔ اس پر مزید گہرا تجزیہ کرنے اور اس کی روشنی میں ملت اسلامیہ ہند کو ایک لائحہ عمل دینے کی ضرورت ہے۔ بالخصوص ۲۰۱۷ء کے انتخابات کے تناظر میں مختلف ریاستوں کے مسلم ووٹرس کی صحیح رہنمائی کی ضرورت ہے۔ ڈاکٹر سلیم خان کے سیاسی تجزیے بہت ہی شاندار ہوتے ہیں، بہار کے انتخابی نتائج پر بھی ان سے خصوصی تجزیہ تیار کرایا جاسکتا ہے۔ اللہ تعالی آپ لوگوں کی کوششوں کو قبول فرمائے۔
محمد ثاقب، نئی دہلی

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Verified by MonsterInsights