0

ایک سے بڑھ کر ایک
ستمبر کے مشمولات ایک سے بڑھ کر ایک ہیں ۔اپنی باتیں بلا شبہ فکری کالم ہے ۔اس لیے لفظ ’’ اپنی باتیں ‘‘ میں ہی اس کی انفرادیت برقرار ہے۔(اختلاف رائے کی گنجائش ہے ) ترجیحات کا تعین جس شاندار اور مکمل انداز میں پیش کیا گیا ہے ۔ اس سے نوجوانوں کو سبق لینا چاہئے ۔
ڈریس کوڈ سے متعلق دونوں مضامین صاف گوئی اوربے باکی کا مظہر ہیں ۔ ہمارے ملک میں آئین کی توہین بالخصوص اقلیتوں کے حقوق کی پامالی اب کوئی نئی بات نہیں ہے۔ خواہ غذا ، لباس ، رہن سہن ، تعلیم……. ہی کیوں نہ ہوں۔یہاں ہر لمحہ قانون بنانے والے ہی قانون شکنی کرتے ہیں ۔ جب تک انسانوں کے بنائے ہوئے قانو ن کی پیروی ہوتی رہے گی انسانیت بے سکونی اور پریشانی میں مبتلا رہے گی ۔ مضمون نگار کا خدشہ بالکل درست ہے کہ جو پابندیاں AIPMT میں لگائی گئی ہیں وہ آئندہ اور آگے بڑھ کر بھی لگائی جاسکتی ہیں۔ اس پابندی کو سامنے رکھیں تو یہ کہنا مناسب ہوگا کہ وقت کی سب سے بڑی ضرورت اتفاق اور اتحاد کو برقرار رکھنا ہے ۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ مسلمان اپنے عقیدے پر ہر حال میں قائم رہیں، عقیدہ گیا تو ایمان جاتا رہے گا، لیکن اسلام کے اندر جو Flexibility ہے ۔اس سے بھی انھیں واقف ہوناچاہئے ۔ چونکہ امتحان میں جو سطحی ذہنیت سامنے آئی ہے بعید نہیں کہ اس کے پیچھے اور بھی کوئی سازش ہو۔کیا ان حالات میں بعض طلبہ و طالبات امتحان ترک کر دیں ۔ خودکو تعلیم حاصل کرنے سے محروم رکھیں ؟ ایسا ہوا تو یہ اور بھی سنگین بات ہوگی۔ جن افراد یا تنظیموں نے اس دھاندلی کی مخالفت کی ہے، اور جس منظم طریقے سے وہ نوجواں طبقے کی رہنمائی کر رہے ہیں،قابل تحسین ہی نہیں قابل تقلید بھی ہے۔ بقول مضمون نگار کہ اس سازش کی طرف کسی نے توجہ نہیں دی یا دلائی،تو کیا وہ گروہ جسے دنیا میں صرف اسی لیے برپاگیا ہے کہ وہ بھلائی کو پھیلائیں اور برائی کو روکیں، انھیںیہ کہنے کی ضرورت ہے! خدا تعالیٰ انھیں اس کار عظیم کا شاندار انعام دے گا ۔ ان شا ء اللہ ۔ ہاں یہ بات درست ہے کہ بعض تنظیمیں پوری طرح اپنی شرکت دینے سے قاصر رہیں۔
نازآفرین
رانچی۔ جھارکھنڈ

تنقید۔۔۔ کہ اصلاح
ماہ اگست کے شمارے میں میرے مضمون ’’مسلم بچوں کی تعلیم سے آراستگی: وقت کی اہم ترین ضرورت‘‘ کو جگہ ملی، جس میں حوالہ کے طور پر دو اشعار کو موضوع کی مناسبت سے پیش کیا گیا۔ بعد ازاں ماہ ستمبر میں برادر معاذ (جامعہ ملیہ اسلامیہ) جو علمی، ادبی، تنقیدی وتحقیقی فکر کے مالک ہیں، ان کا اس پر تنقیدی مراسلہ شائع ہوا۔ میں برادر کا مشکور ہوں کہ انہوں نے اس ضمن میں قلم اٹھایا، لیکن اس وقت مزید خوشی ہوتی جب وہ تنقید برائے اصلاح کرتے۔ تنقید کرتے وقت برادر کا طرز انتہائی غیرتحقیقی اور غیرضروری محسوس ہوا۔
بھائی نے دو اشعار میں جو غلطیاں تلاش کی ہیں، وہ بالکل بے بنیاد ہیں، میں ان سے گزارش کروں گا کہ وہ اس سلسلے میں اپنی اصلاح کرلیں، کیونکہ اصل شعر یہی ہے ؂
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا
برادر نے ’خیال‘‘ کی جگہ ’’شعور‘‘ لفظ بطور اصلاح پیش کیا ہے، جو کہ کسی بھی حوالے سے ثابت نہیں ہے۔
دوسری جگہ ’دیار عشق میں اپنا مقام پیدا کر‘‘ میں غالباََ کاتب کے سہو کی وجہ سے ’ر‘ چھوٹ گیا ہوگا۔
ہاتھوں کے زخم دیکھنے والا کوئی نہیں
شیشہ تراشنے کا ہنر دیکھتے ہیں لوگ
موصوف کو مزید یہ کہنا مناسب سمجھتا ہوں کہ فہرست اور بزم رفیق دونوں میں واضح طور پر مضمون نگار کا نام ’عبیدالرحمن‘ تحریر کیا گیا ہے، لیکن آپ نے تنقید کے وقت ’عبدالرحمن‘ لکھا ہے۔
چھوٹا منہ بڑی بات کے لیے معذرت خواہ ہوں، اورایک مرتبہ نظرثانی کی گزارش کرنا چاہتا ہوں۔ اللہ ہمارا حامی وناصر ہو۔
عبدالرحمن عبدالعظیم، ممبئی

دل اپنا کام کرے۔۔
رفیق کا تازہ شمارہ ویب سائٹ پر ہی دیکھا۔ ویب سائٹ پر آپ نے پی ڈی ایف اور یونی کوڈ دونوں ورژن دے کر یہ آسانی فراہم کردی کہ اس کو شیئر کرنا اور کاپی پیسٹ کرنا بہت آسان ہوگیا ہے۔ اس شمارے میں بھی حسب معمول مضامین کافی اچھے اور اہم ہیں۔ البتہ محی الدین غازی صاحب کا مضمون ’’دل اپنا کام کرے، دماغ اپنا کام کرے‘‘ ایسا ہے کہ اسے جتنا بھی عام کیا جائے کم ہے۔
راشد حسین، علی گڑھ

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Verified by MonsterInsights