0

قوم کے خواص
قوم دو طبقوں پر مشتمل ہوا کرتی ہے۔ ایک طبقہ عوام، دوسرا طبقہ خواص۔ طبقہ عوام اگرچہ کثیرالتعداد ہوتا ہے اور قوم کی عددی قوت اسی طبقہ پر مبنی ہوتی ہے۔ لیکن سوچنے اور رہنمائی کرنے والے دماغ اس گروہ میں نہیں ہوتے۔ نہ یہ لوگ علم سے بہرہ ور ہوتے ہیں، نہ ان کے پاس مالی قوت ہوتی ہے، نہ جاہ ومنزلت رکھتے ہیں، نہ حکومت کا اقتدار ان کے ہاتھ میں ہوتا ہے، اس لیے قوم کو چلانا ان لوگوں کا کام نہیں ہوتا، بلکہ محض چلانے والوں کے پیچھے چلنا ان کا کام ہوتا ہے۔ یہ خود راہیں بنانے اور نکالنے والے نہیں ہوتے، بلکہ جو راہیں ان کے لیے بنادی جاتی ہیں ان ہی پر چل پڑتے ہیں۔ راہیں بنانے اور ان پر پوری قوم کے چلانے والے دراصل خواص ہوتے ہیں۔ ان ہی پر قوم کے بننے اور بگڑنے کا مدار ہوتا ہے، ان کی راست روی پوری قوم کی راست روی پر اور ان کی گمراہی پوری قوم کی گمراہی پر منتج ہوتی ہے، جب کسی قوم کی بہتری کے دن آتے ہیں تو ان میں ایسے خواص پیدا ہوتے ہیں جو خود راہ راست پر چلتے اور پوری قوم کو اس پر چلاتے ہیں۔
(مولانا سید ابوالاعلی مودودیؒ ، تنقیحات: صفحہ: ۱۵۹؍)

روزہ اور عید دو شاندار تحفے ہیں !
۔۔۔ روزہ میں کئی پابندیاں لازمی تھیں، عید جائز آزادیوں کی نوید ہے۔
۔۔۔ روزہ مشقت اور محنت کا دور ہے اور عید آرام اور خوشی کا۔
۔۔۔ روزہ تیاری اور احتساب کی مشق ہے اور عید عزم اور شعور کے احیاء کے لمحات۔
۔۔۔ روزہ سمٹنے اور ٹھہراؤ کا لمحہ تھا اور عید آگے بڑھنے اور اقدام کا پیغام
۔۔۔ روزہ ایک مہینہ کا معاملہ تھا اور عید گیارہ مہینوں کی علامت۔
۔۔۔ روزہ خود کو خدا کے نور سے منور کرنے کا وقفہ تھا اور عید اس روشنی سے دنیا کو روشن کرنے کا اقدام۔
۔۔۔ روزہ مادی دنیا سے کٹنے کا وقفہ تھا اور عید مادی عالم میں ایک اور بہتر آغاز۔
۔۔۔ روزہ دنیا کی مطلوب زندگی کاتجربہ اور عید آخرت کی خوشیوں بھری زندگی کا احساس۔
۔۔۔ روزہ دنیا کی زندگی کی ابتدائی علامت ہے اور عید آخرت کی زندگی کی ابتدائی علامت۔
دونوں قیمتی تحفے آپ کو بہت بہت مبارک ہوں!
سید شجاعت حسینی، حیدرآباد

دل

غم کی حد سے جب گزر جاتا ہے دل
کیا بتاؤں جو مزا پاتا ہے دل

دوستوں سے جب یہ مل آتا ہے دل
کیوں یہ میرا بیٹھتا جاتا ہے دل

محفلوں سے کیوں یہ اکتاتا ہے دل
ہو جو تنہا، پھر سکوں پاتا ہے دل

خوف واندیشے ہیں راہِ عقل میں
شوق کا رہرو ہوا جاتا ہے دل

بے خودی کچھ حد سے بڑھ جاتی ہے جب
دے کے اک آواز چھپ جاتا ہے دل

کہتے ہیں ہوتی ہے دل کو دل سے رہ
ان کا شائد اس طرف آتا ہے دل

میں کہاں کہتا ہوں خالدؔ یہ غزل
مجھ سے یہ خود ہی کہلواتا ہے دل

مرزا خالد بیگ، حیدرآباد

تحریکیں کب ناکام ہوتی ہیں؟؟؟
n جب کارکنان میں للہیت، اخلاص اور انکساری کا فقدان ہوجائے۔nجذبات شعور پر غالب آجائیں۔ n خدمات کا صلہ خدا کے بجائے افراد سے ملنے کی خواہش پیدا ہونے لگے۔ n کارکنان کے اعتماد کو ٹھیس پہنچنے لگے اور اچھے کام پر حوصلہ افزائی ختم ہوجائے۔n ذمہ داریاں بوجھ بن جائیں اور حلف کی پاسداری باقی نہ رہے۔ n تنظیم میں نئے افراد کے داخل ہونے کی جنون کی حد تک فکروخواہش باقی نہ رہے۔n فرد کی اصلاح اور تنظیم میں بہتری کی غرض سے کیا جانے والا احتساب بے عزتی نظر آنے لگے۔n درگزر کے بجائے ہر وقت احتساب اور شکایتیں عام ہونے لگیں۔n شرعی عذر کے بغیر عدم اطاعت عام ہونے لگے۔ n حسد کی وبا پھیل جائے اور غیبت کا رواج عام ہوجائے۔n خاموشی کے بجائے علانیہ کاموں میں زیادہ سکون محسوس ہونے لگے۔ n خود آگے بڑھنے کے بجائے دوسروں سے کام لینے کی توقعات عام ہوجائیں۔n اپنے عیب پر پردہ ڈال لیں اور دوسروں کی کمزوریاں ہر وقت کھٹکنے لگیں۔ n تاریخ سے تعلق ٹوٹ جائے اور ماضی بھول جائے۔ n حالات پر گہری نظر رکھنے کے ساتھ ساتھ مستقبل کے چیلنجز کے ادراک کی صلاحیت کم ہوجائے۔
(فیس بک سے ماخوذ)

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Verified by MonsterInsights