0

اوروں کا تعصّب اور عوام کی حالت

حقیقتاََ ایک شخص جو اسلام کی تعلیم اور دنیا کے حالات سے واقف ہو، حیرت میں رہ جاتا ہے کہ روشنی ہونے پر بھی دنیا اس کا اعتراف نہیں کرتی۔ اس زمانے میں حکومتیں اور جماعتیں متعصب ہیں۔ لیکن اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ عوام میں علم کی وسعت نے، عقلی نشوونما نے، سائنس کی روشنی نے، یورپ وامریکہ میں ہزاروں نہیں بلکہ کروڑوں بے تعصب انسان پیدا کردیئے ہیں۔ اِن میں اتنی سچائی ہے کہ ہر حقیقت کو مان لیتے ہیں۔ بلاشبہہ ان کے اداروں میں اب بھی وہی تعصب کام کررہا ہے لیکن افراد اپنی چیزوں پر بھی نکتہ چینی کرتے ہیں، اور غیروں کی بھی اچھی چیزوں کو مان لیتے ہیں۔ پھر کیا وجہ ہے کہ اسلام عالمگیر صداقت کے ساتھ موجود ہے اور وہ متوجہ نہیں ہوئے؟ پھر دنیا جس کو ڈھونڈتی ہے، وہ اسلام کے سوا کچھ نہیں ہے۔ لیکن پھر بھی کوئی حرکت ایسی نہیں ہوتی، جو ان کو اپنی طرف متوجہ کرے، لوگ اس برکت سے محروم ہیں۔ ہزاروں، لاکھوں، کروڑوں نگاہیں روشنی کی تلاش میں بھٹکتی پھر رہی ہیں، روشنی سامنے ہے، اور وہ نہیں دیکھتے، کیوں؟ روشنی تو ایسی چیز ہے، جو دور ہی سے نظر آئے، لیکن روشنی پر اگر چادر ڈال دیں، تو روشنی باہر نہیں نکلے گی۔

میں صاف کیوں نہ کہوں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ اسلام تمام سچائیوں کے باوجود لوگوں کی غلط فہمیوں کا نشانہ بنا ہوا ہے۔ اس کے متعلق غلط فہمیاں پھیلائی گئی ہیں، پھیلی ہوئی ہیں اور پھیلائی جارہی ہیں؛ اور وہ ذوق طلب پیدا نہیں ہوتا، جو ہونا چاہئے تھا۔ اب ضرورت اس کی ہے کہ مدتوں کی لپٹی ہوئی چادر کو ہٹا دیا جائے، تاکہ روشنی کو سب دیکھ سکیں اور پروانوں کی طرح اس سے لپٹ جائیں۔
(مولانا ابوالکلام آزاد علیہ الرحمۃ، خطبات آزاد، صفحہ ۲۳۷۔۲۳۸)

آزادی
رامو چل اُٹھ بیٹا جلدی کر کھیتوں میں پانی چلانا ہے اوربھی بہت سے کام ہیں، اور آج تو مالک آنے والے ہیں شاید کچھ قرض کا بندو بست ہوجائے ’’باہر چھپر ڈالنے کے لیے‘‘، برسات بھی تو آنے میں دیر نہیں لگاتی….. رامو آنکھیں رگڑتے ہوئے اٹھ بیٹھا، اور جلدی سے ہاتھ منہ دھو کر دالان میں آگیاجہاں ماں باسی روٹی کا ملیدہ لے کر چارپائی پر اس کا انتظار کررہی تھی… جانے کیوں آج رامو کی طبیعت کچھ افسردہ تھی اور ناشتہ کرنے کا دل نہیں چاہ رہا تھا۔ اس نے یوں ہی ماں کا دل رکھنے کے لیے دو چار نوالے زبردستی کھائے اور باہر نکل آیا جہاں بابا کدال لیے اس کے منتظر تھے۔ دونوں کھیتوں کی طرف چل پڑے۔ رامو جو سر جھکائے بابا کے پیچھے چلا جارہا تھا۔ اچانک اسے بچوں کی آوازیں سنائی دیں، اس نے دیکھا کچھ بچے صاف ستھرے اسکولی یونیفارم میں ہشاش بشاش چلے جارہے ہیں۔ رامو نے پوچھا: بابا ان کے ہاتھوں میں کیا ہے؟ بابا نے کہا بیٹا آج ۲۶؍ جنوری ہے یعنی وہ دن جب ہمارا دیش انگریزوں کی غلامی سے آزاد ہوا تھا۔ یہ بچے جھنڈا لے کر اسی آزادی کا اظہار کر رہے ہیں۔ باتیں کرتے کرتے بابا آگے نکل گئے، کچھ دور جاکر پلٹے تو دیکھا رامو اپنی جگہ کھڑا سوچوں میں غرق تھا۔ پاس آکر بابا نے اس کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے پوچھا: بیٹا کیا بات ہے، یوں رک گئے؟ رامو نے سر اٹھایا تو اس کی ڈبڈبائی آنکھیں سوال کر رہی تھیں بابا کیا اس آزادی پر ہمارا بھی حق ہے؟ اور اس کا جواب شاید بابا جیسے کسان کے پاس نہیں تھا، جن کا ہر دن سامراج واد کے زندان میں گزرتا ہے۔
اسماء فیروز اعظمی، مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی، بھوپال سینٹر

انتظار
وہ قطرے جو اپنے اندر ٹھاٹھیں مارتا سمندر رکھتے تھے پتوں سے ٹپکنے کے لئے بیتاب تھے۔ گرد و پیش کا سکوت ایک حسین شور سا لگتا تھا۔ کھلے خوش رنگ پھول نئی سحر کے استقبال کے لئے تیار تھے۔ تتلیاں کسی برگِ پریشاں کی طرح حسین پھولوں کی تلاش میں اِدھر اُدھر اُڑتی پھرتی تھیں۔راستے میں پڑے چھوٹے چھوٹے کنکر کسی راہگیر کے منتظر نظر آتے تھے۔۔۔لیکن وہ سحر کہاں تھی جس کے لئے یہ سماں باندھا گیا تھا؟ ابھی تو اُفق پرصبح کا وہ تارا بھی نظر نہیں آیا تھا جسے دیکھ کر کلیاں اٹھلاتی تھیں، بھنورے جھوم جاتے تھے اور کو ئلیں ساز چھیڑ دیتی تھیں۔ سارے لطف ،ساری مستیاں اس سحر کے بغیر ادھوری تھیں۔ جس کے آنے کا ہر ذرے کو بیتابی سے انتظار تھا۔اب قطرے پتوں سے ٹپکتے اور ان کی باز گشت قرب وجوار میں پھیلتی چلی جاتی۔اب رنگیلے پھول رنگین ہونے کے باوجود بے رنگ سے لگتے تھے۔ سماں پر بوجھل سکوت تھا، اور ہر شئے سراپا انتظار تھی اُس سحر کی جو اَب تک نہیں آئی تھی۔ (محمد انس، الجامعہ الاسلامیہ شانتاپرم۔ کیرلا)

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Verified by MonsterInsights