اقتباس
اختلاف کو برداشت کرنا، اختلاف رائے اور تنقید سے تعلق میں فرق نہ آنے دینا، تنقید کو حلم وتحمل اور فراخ دلی وعالی حوصلگی کے ساتھ سننا، اچھی بات کو قبول کرنا، غلط بات کو نظرانداز کردینا۔ اپنی غلطی کی ذمہ داری قبول کرنے میں کسی بزدلی کا شکار نہ ہونا، نہ کسی غلطی کے اعتراف میں بخل برتنا، نہ کسی پر تنقید وتعریض کرنے میں فیاض بننا، نہ کسی کی تعریف کرنے میں کنجوسی برتنا۔ کوئی منہ پر برا بھلا کہے تو وہ خود کو ہی برا بھلا کہہ رہا ہے، تم کیوں غصہ کرو۔ کوئی پیٹھ پیچھے برا بھلا کہے تو تمہارا کیا بگڑتا ہے۔ تم جواب نہ دوگے تو فرشتے تمہاری طرف سے جواب دیں گے۔ تم غصہ، انتقام، ذلت وعزت کے چکر میں پھنس جاؤگے تو اور دس گناہوں میں مبتلا ہوگے۔ خاموش رہوگے تو فرشتوں کی نصرت کے علاوہ برا بھلا کہنے والوں کی نیکیاں بھی تمہیں ملیں گی۔ تمہیں تو امام ابوحنیفہؒ کی طرح اسے ہدیے بھیجنا چاہئیں، کجاکہ تم غصے اور انتقام کی آگ میں خود کو جلانا شروع کردو۔ معترضین کا جواب دینے کے چکر میں بھی نہ پڑنا، خصوصا برسرعام۔ ہر معترض کی بات پر ٹھنڈے دل سے غور کرلینا۔ وہ کوئی صحیح بات کہیں، تو اپنی اصلاح کرلینا۔ اگر غلط لکھا ہے تو درگزر کردینا۔ درگزر کرنے سے تمہارا کچھ نہیں بگڑے گا، عزت میں کوئی کمی نہ آئے گی، تلخی نہ بڑھے گی، دل جیتنے کی شیرینی ہاتھ آسکتی ہے۔ لوگوں کے ساتھ اعتراض اور جواب اعتراض میں الجھنے سے زیادہ فضول اور کوئی کام نہیں۔ یہ نہ کروگے تو وقت بچے گا۔ وہی وقت خیر اور اجر کے حصول میں لگادینا۔ (خرم مراد علیہ الرحمۃ)
افسانچہ
زندگی
ہا ہا ہا ۔۔۔۔!!! ان دونوں کے قہقہوں سے رات کے سناٹے بھی شور مچانے لگے تھے۔ رات بہت اندھیری تھی اور تقریباً۱۲؍ بھی بج چکے تھے۔ یہ دونوں ۱۸؍۱۹؍ سال کے دو نوجوان تھے۔معمول کے مطابق آم کے باغ میں بیٹھے گپ شپ کر رہے تھے۔’’اچھا تو بڑا ہوکر کیا بنے گا؟‘‘ ساجد نے پوچھا ۔’’میں بڑا ہوکر انسان بنوں گا ‘‘۔قدیر کا یہ جواب تھا تو چھوٹا، پر سمندر کی سی گہرائی رکھتا تھا، پر ماجد اس گہرائی کو کیا جانے چنچل جو اتنا تھا۔’’کاہے؟‘‘ ماجد نے پوچھا اور زور زور سے ہنسنے لگا۔ یہ دونوں ساتھ گھومتے پھرتے نہ دنیا سے مطلب نہ دنیا داری سے، یتیم جو تھے۔ بس رات کو بیٹھ کر اپنے خوابوں کی دنیا میں رنگ بھرتے۔دونوں کی دوستی پورے گاؤں میں مشہور تھی۔ کوئی ان کو دو ہنسوں کا جوڑ ا کہتا، کوئی آندھی طوفان اور کوئی دو جسم ایک جان ۔’’ابے یار کاہے دیوداس بنے بیٹھے ہو؟‘‘ ماجد نے مضحکہ خیز لہجے میں کہا۔ قدیر دروازے کی چوکھٹ پہ بیٹھا کچھ سوچ رہا تھا۔ابے کیا سوچ رہے ہو؟ یہی کہ تو اب شہر جا رہا ہے، وہاں کمائے گا کھائے گا، اپنی دنیا بسائے گا، ممکن ہے کہ ہم کو بھول بھی جائے لیکن میں تو تیرے بن زندہ نہیں رہ سکتا، میں تو گھٹ گھٹ کر مر جاؤں گا۔ قدیر نے قدرے افسوس کے ساتھ کہا: ’’دیکھ یار زندگی کسی کے لئے نہیں رُکتی ہے بس جینے کی وجہ بدل جاتی ہے‘‘۔ یہ ماجد کے منہ سے اب تک کا پہلا سنجیدہ جملہ تھا ۔اچھا تجھ کو میری یاد آئے گی نا؟ قدیر نے پھر پوچھا: ’’کاہے نہیں آئے گی‘‘ ماجد نے برق رفتاری کے ساتھ جواب دیا،تبھی بارش شروع ہو گئی ۔دونوں اپنی گائے بیل کھول کر گھر کو بھاگے ۔
ماجد ممبئی جا چکا تھا، اور قدیر’’ تنہائی‘‘ میں۔لیکن ابھی ایک ہفتہ بھی نہ ہوا تھا کہ ماجد واپس آگیا ۔۔۔۔۔۔’’ابے تو ممبئی سے واپس کیو ں آ گیا؟‘‘ قدیر نے تعجب سے پوچھا ۔’’کیا کریں یار کہیں کام ہی نہیں ملا‘‘، ماجد نے افسوس سے کہا ۔۔۔۔۔پھردونوں کی وہی پرانی زندگی تھی، دن میں کھیتی باڑی کا کام اور رات میں کھلی آنکھوں سے سپنے بُننا ۔
قدیر کی شادی بھی ہو گئی ،ایک بچی اس کو پاپا،پاپا بلانے لگی۔۔۔۔ لیکن وہ اور ماجد ویسے ہی پرانے لنگوٹیا یار تھے،ہم نوالہ ہم پیالہ۔ ایک دن باغ میں بیٹھے ویسے ہی پرانے قصوں میں مگن تھے کہ آسمان پر کالی گھٹاؤں نے دستک دی اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے بارش تیز ہو گئی۔ دونوں بھیگتے بھاگتے گھر پہنچے ۔ دوسرے ہی دن ماجد کو سردی ہوگئی اور پھر تیز بخار۔۔۔گاؤں میں کوئی اسپتال نہیں تھا، اور شہر جا کر علاج کرانے کے لئے پیسے نہیں۔۔ایک ہفتہ ہو گیا ۔اس کی طبیعت کچھ زیادہ ہی خراب ہوتی جا رہی تھی۔قدیر اگر شہر جا کر علاج کرانے کے لئے اصرار بھی کرتا تو ماجد منع کردیتا۔وہ اب بس یہی کہتا تھا ’موت ہی آخری بس دوا ہے مری!‘ ۔۔۔ پھر ہنسنے لگتا مگر قدیر کی آکھیں ڈبڈبا جاتیں۔۔۔۔
’’ فردوس تیار ہو گئیں؟‘‘ قدیر نے اپنی بیٹی سے پوچھا،۔۔۔وہ اسے اسکول پہنچانے جا رہا تھا،تبھی ایک لڑکا دوڑتا ہوا آیا:’’ چا ۔۔چا۔۔ ہا ہ ۔۔ہاہ۔۔‘‘ ’’کیا ہو ا کچھ بو لے گا بھی ؟‘‘وہ پریشان ہوکر بولا:’’ چا چا۔۔۔ماجد چاچا۔۔۔‘‘ لڑکے کا جملہ مکمل بھی نہ ہوا تھا اور قدیر بے ساختہ ماجد کے گھر کی اَور دوڑ رہا تھا۔وہاں پہنچتے ہی اس کے پیروں کے نیچے سے زمین کھسک گئی۔آج یہ ہنس کا جوڑا ٹوٹ چکا تھا۔ماجد اس کو دار فانی میں چھوڑکر جا چکا تھا۔
ماجد کو گئے ہوئے تقریباً دس سال گزر چکے تھے۔قدیر باغ میں بیٹھاہوا تھا۔اس کے بچے باغ میں کھیل رہے تھے۔وہ ان کو دیکھ دیکھ کر مسکرا رہا تھا۔پھر وہ غمگین سا ہو گیا۔۔۔ ماجد کا یہ جملہ اس کے ذہن و دماغ میں گونج رہا تھا ’’زندگی کسی کے لئے نہیں رُکتی ہے۔بس جینے کی وجہ بدل جاتی ہے‘‘۔۔۔
(مجسم حسین، شانتاپرم کیرلا)