0

’’ذکر رفتگاں‘‘ کالم
جب سے میں ایس آئی او آف انڈیا سے وابستہ ہوا ہوں رفیق منزل کا پابندی سے مطالعہ کرتا ہوں۔ مجھے تاریخ سے بہت ہی دلچسپی ہے، رفیق منزل کا جب مطالعہ کرتا ہوں تو ذکر رفتگاں کا پہلے مطالعہ کرتا ہوں، رفیق منزل کے ’ذکر رفتگاں‘ کالم میں شائع مختلف شخصیات کے تعارف کا مجموعہ ’جی چاہتا ہے نقش قدم چومتے چلیں‘ کتاب بھی پڑھ رہا ہوں۔ خوشی اس بات کی ہورہی ہے کہ رفیق منزل میں آئی تبدیلی پر میں نے خدا کا شکر ادا کیا، اور دعا دی کہ اللہ رفیق منزل کو مزید ترقی دے، اور اس کی ٹیم کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ اکتوبر کے شمارے میں طیب پاشا مرحوم سے متعلق مضمون پڑھا، جس سے معلوم ہوا کہ بھائی کے اندر کس قدر نظم وضبط پایا جاتا تھا، قرآن وسنت سے کس قدر گہرا تعلق رکھتے تھے، تقوی اور اعتدال کا ان کا رویہ بھی معلوم ہوا، یقیناًانسان اپنی منزل کی طرف کشاں کشاں بڑھ رہا ہے۔
شیر علی عثمان علی،
بسواکلیان، کرناٹک
چند اہم نکات
عزیز م ابوالاعلی سید سبحانی، جزاکم اللہ، آپ نے والد مرحوم پر شاندار مضمون تحریر کیا۔ البتہ میرے ذہن میں کچھ مزید پوائنٹس ہیں، میری خواہش ہے کہ انہیں بھی رفیق میں آنا چاہئے تھا۔ خاص طور سے سنت اور بدعت کے تعلق سے مرحوم کا موقف، وہ اس بات کا بہت خیال رکھتے تھے کہ کوئی ایسا کام یا عمل ان سے سرزد نہ ہونے پائے جو دین میں نہ ہو، یا دین کا مزاج اس کی اجازت نہ دیتا ہو۔ اسی طرح جن چیزوں پر پردہ پڑا ہوا ہے یا لوگ ان سے ناواقف ہیں، ان کو وہ سامنے لانا چاہتے تھے۔ انہوں نے چار شادیاں کیں، کہتے تھے اگر اس پر عمل نہ کیا جائے تو لوگوں کے اس موقف کو تقویت ملے گی کہ چار بیویاں اسلام میں نہیں ہیں۔ اسی طرح ان کا کہنا تھا کہ جنازے کی نماز اور تدفین کے دوران جو بہت سی رسوم وروایات انجام دی جاتی ہیں، اور جو سماج میں بالکل عام ہوگئی ہیں، ان کے جنازے میں اُن چیزوں سے مکمل پرہیز کیا جائے۔ اسی طرح وہ ایک اچھے خطیب بھی تھے، اور شاہ بانو کیس کے دوران وہ کافی معروف ہوئے، اس دوران انہوں نے مارکسسٹ اور سیکولرسٹ رجحانات اور ان کی کمزوریوں پر خوب تقریریں کیں تھیں۔ ان کی سادگی کا یہ عالم تھا کہ اپنے بچوں کے پرانے شرٹ اور پینٹ پہننے میں کبھی کوئی تکلف نہیں کیا۔ یہ جان کر تعجب ہوگا کہ مسجد وغیرہ میں جو چپل اور ٹوتھ برش وغیرہ بچ جاتے تھے، انہیں وہ ۳؍سے ۶؍ماہ کے لیے مٹی میں دبا دیا کرتے تھے، اور اس کے بعد نکال کر اسے آرام سے استعمال کرلیا کرتے تھے۔ بہت ہی سادگی کے ساتھ اور خوش خوش زندگی گزاردی، جبکہ وفات کے وقت ان کے نام پر ایک گھر تک موجود نہیں تھا۔
وہ اپنے تمام بچوں سے بہت ہی پیار کرتے تھے، سوتے وقت وہ پرانے وقتوں کی کہانیاں سنایا کرتے تھے، کبھی کسی بچے پر کوئی غصہ نہیں کیا، سوائے زبان سیکھنے کے تعلق سے، وہ چاہتے تھے کہ ہم سب بھائی بہنوں کی زبان خوب اچھی ہوجائے۔ وہ تحریک سے قریب تھے اور ہم سب کو تحریک سے وابستہ دیکھنا چاہتے تھے۔
مجھے لگتا ہے کہ اللہ تعالی نے انہیں علم سے زیادہ حکمت سے نوازا تھا۔ انہوں نے مدرسے سے فارغ ہونے کے بعد قرآن مجید اور بعض نحووصرف کی کتابوں کے علاوہ کچھ نہیں پڑھا۔ اس کے علاوہ ان کی زندگی میں جوکچھ تھا وہ اللہ کی جانب سے عطا کردہ حکمت اور دانائی تھی، جس نے ان کی ذاتی، فیملی اور سماجی زندگی کو بہت ہی حسین بنارکھا تھا۔
بشرالدین شرقی

نومبر کا رفیق
ماہ نومبر کا رفیق ہاتھوں میں ہے، اداریہ معمول کے مطابق بہت ہی فکرانگیز ہے، زمانے کی ’زبان‘ اور ’ذرائع ابلاغ‘ کی طرف اچھی توجہ دلائی گئی ہے۔ مختصر انداز میں ایک ہی صفحہ کے اندر مدیر موصوف نے ایک بہت ہی اہم اور پیچیدہ مسئلہ کو بہت ہی آسان اور سادہ انداز میں پیش کردیا ہے، اس کی جانب توجہ تحریک اسلامی سے وابستہ ہم تمام افراد کو دینی ہوگی۔
یہ تو ایک حقیقت ہے اسلام پسند بالخصوص ہندوستان میں اسلام کے پیغام کو عوام تک پہنچانے میں بری طرح ناکام رہے ہیں، اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی معلوم ہوتی ہے کہ ہم نے نہ تو زمانے کے راگ کا لحاظ رکھا، اور نہ ساز کا، نتیجہ یہ ہوا کہ راگ بھی پرانا، اور ساز بھی پرانا، مگر ہماری خواہش رہی کہ سامعین خوب ملیں، ایسا کیونکر ممکن ہے ۔ مدیر موصوف نے اچھی توجہ دلائی ہے، امید کہ اس پر غور کیا جائے گا۔ اس کے علاوہ ڈاکٹر سلمان مکرم ، ڈاکٹر محی الدین غازی، محمد اطہراللہ شریف، ایڈوکیٹ ابوبکر سباق سبحانی، ڈاکٹر سلیم خان، عرفان وحید، مولانا نسیم غازی فلاحی صاحبان کے مضامین بھی کافی اہم اور مفید ہیں۔ اللہ سے دعا ہے کہ رفیق کو دن دونی رات چوگنی ترقی اور کامیابی عنایت فرمائے، اور اس کے پیغام کو مزید مؤثر بنائے۔
محمد اظہرالدین، مہاراشٹر

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Verified by MonsterInsights