یمن کی موجودہ صورتِ حال: پس پردہ کیا ہے؟

0

ہر قصہ کی شروعات ایسے ہی ہوئی۔ پہلے حادثہ کی شکل میں ظاہر ہوا پھر سازشیں ہوئیں۔ پچھلی دہائی کہوں یا خاص کر اخیر ۵؍سال،چاہے وہ انقلاب تیونس ہو یا انقلاب مصر، سب ایک ہی انقلاب کی مالا کے مختلف موتی ہیں۔پہلے ایک موتی ٹوٹ کر گراپھر دوسرا ۔ یہ لہریں کسی کے لیے باعثِ مسرت ہوئیں تو کسی کے لیے سختِ جاں۔ ان لہروں کی شروعات ہمیشہ حادثوں کی شکل میں ہوئی ۔غورو فکر سے پتہ چلتا ہے کہ کہیں زخموں کا جواب تھا ،کہیں بنیادی ضروریات کے لیے لڑائی ، توکہیں سازشوں نے نقاب اتار کر اصلی چہرے دکھائے۔اور اس میں ہر ملک نے بہت ہی عقلمندی سے ان تماشوں میں اپنی بہترین کارکردگی دکھائی۔ایسے میں یمن کی کہانی ان تاروں کے جنجال میں کبھی مدھم اورکبھی تیز نظرآئی۔بظاہر سطح پر ایک معمہ نظر آتی ہے مگر خوفناک درندگی کی داستان ہے۔۲۰۱۱ ؁ء میںیمن کیسے تیونس اور مصرکے ساتھ انقلابی نعروں میں نمایاں نظر آیا۔دنیا انتظار میں تھی ، اور پھر رخ مڑگیا۔ ۲۰۱۵ ؁ء میں اچانک ملک کے لوگ آپس میں لڑ پڑے ،ہزاروں زخمی ہوئے، کئی شہید۔ یہ داستان پُرانی ہے۔پس پردہ کون ہے ؟ سعودی حکومت کیوں مخالف محاذ سنبھالے ہوئے ہے؟Arabian peninsula کا کیا مفاد ہے؟ کیوں امریکہ ایئرسٹریک سنبھالے ہوئے ہے؟ Gulf cooperation councilکا کیا رول ہے؟ یہ کچھ سوالات ہیں جو جواب ڈھونڈھ رہے ہیں۔
متحدہ یمن کا قیام اورعلی عبداللہ صالح
۱۹۹۰ ؁ء تک یمن دو حصوں میں تقسیم تھا ۔ساؤتھ (جنوبی )یمن اور نارتھ (شمالی )یمن۔۱۹۶۲ ؁ء میں اکثرجگہ برطانیہ حکومت تھی یا پھر بچی کچی خلافتِ عثمانیہ کے باقیات مختلف شکلوں میں۔بالکل اسی طرح نارتھ یمن میں ۱۹۱۸ ؁ء سے ۱۹۶۲ ؁ء تک Mutakawakilat kingdom of yemenشمالی عرب کی طرف ترک حکومت کر رہے تھے۔پھر ۱۹۶۲ ؁ء میں انہیں آزادی مل گئی ۔اور نام تبدیل کرکےYemen Arab Republicرکھ دیا۔اس کا نام ہی سعودی عرب کی طرف جھکاؤ کو صاف بتاتاہے۔ یہ اور بھی کئی ناموں سے یادکیا جاتا ہے۔جس میں مشہور’ یمن‘ تھا۔نہ ساؤتھ نہ نارتھ، جبکہ ساؤتھ یمن people’s democratic of yemen کے نام سے منسوب تھا ۔جس کی راجدھانی عدن تھی،جو حکومت برطانیہ کی غلامی میں جی رہا تھا۔۱۹۳۸ ؁ء میں سلطان محسن نے اسے حکومت برطانیہ کے حوالے کردیا۔اس کا جغرافیہ بہت اہم ہے اور ساتھ ہی سمندری علاقوں سے منسلک ہے۔ حکومت برطانیہ نے انہی وسائل کا استعمال کیا۔سمندر کی مدد سے برٹش ایسٹ انڈیا کمپنی سے تجارت شروع کردی اور پھر ایک نیا دروازہ تجارت کے لیے بحرِاحمر کی شکل میں کھل گیا۔جو سیدھا نہرِسوئز سے ملتا ہے۔اسی اثنا ء میں حکومت اور عوام میں تنازعات بڑھ گئے ۔اورحکومتِ برطانیہ نے ۱۹۶۳ ؁ء میں ملک چھوڑ نے کا اعلان کردیا اور اپنا باقی ماندہ بوریا بستر ۱۹۶۷ ؁ء تک لپیٹ لے گئے ۔
نارتھ یمن کی عوام سعودی حکومت کی مدد سے تیل اور کارخانوں میں کام کرکے زندگی بسر کرتے تھے جبکہ ساؤتھ یمن USSRکی مدد لے رہے تھے۔اور دونوں ممالک میں تیل کے ذخائر اور آبادی کو لے کر بحث چھڑ گئی تھی۔پھر ۱۹۷۲ ؁ء میں قاہرہ ایگریمنٹ ہوا تاکہ دونوں ملک مل جائیں ۔ نارتھ یمن چند حکومت مخالف دستوں سے پریشان تھا،اُس نے ساؤتھ یمن پر الزام لگایا کہ اس نے ان مخالف دستوں کی مدد کی ہے۔پھر سے دونوں ممالک میں بحث چھڑ گئی ۔اس موقع پر نارتھ کے صدرِاعلی علی عبداللہ صالح نے بہت کلیدی رول ادا کیا ۔
علی عبداللہ صالح۱۹۵۸ ؁ء میں ایک فوجی تھا۔کچھ سال بعد ملٹری افسر بنایا گیا اور پھر سیکنڈ رینک لیفٹنٹ بنایا گیا۔اس پر الزام ہے کہ سازشاًاُس نے وقت کے صدر احمد بن حسین کو قتل کروایا تھا۔ اس کے بعدعلی عبداللہ صالح۱۹۷۷ ؁ء میں نارتھ یمن کا صدر بن گیا۔ جب ۱۹۸۰ ؁ء کے آس پاس دونوں ملکوں میں بحث چل رہی تھی، علی عبداللہ صالح نے ایک تجویز رکھی ۔جس میں ایک دستور بنا جس کی بنیاد پر طے ہوا کہ دونوں ملک ایک ہو جا ئیں اور ایک دستور کی تحت چلیں، اور اس میں حکومتوں کا انتخاب جمہوری بنیاد پرہو۔دونوں ممالک کی ضرورتوں کو سامنے رکھ کر غوروفکر ہوا، اور بالآخر ۱۹۸۹ ؁ء میں علی عبداللہ صالح نے اور ساؤتھ یمن کے صدرِ اعلی سلیم البیض نے مل کر دستور کو منظور کرلیا۔ ۱۹۹۰ ؁ء میںیمن متحدہ ملک ہو گیا جس کا پہلا صدرِ اعلی’ علی عبداللہ صالح‘ اورنائب صدر، ساؤتھ یمن کے پرانے صدرسلیم البیض بنے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ عبداللہ صالح کے دماغ میں کچھ اور ہی چل رہا تھا جس نے بعد میں کرشمے دکھائے ۔
آگے کی تحریر سے پہلے یہ جان لینا ضروری ہے کہ عبداللہ صالح کو ان حکومت مخالف دستوں سے مقابلہ کرنا ہے جبکہ عوام کی بنیادی ضرورت پوری کرنے میں دقّت ہو رہی ہے ۔
کرنسی کا کھیل
ساؤتھ یمن چونکہ خلافتِ عثمانیہ کا حصّہ تھا تو دولت،ذرائع،اورمال ومتاع سے لیس تھا،اور جغرافیائی ہیئت بھی سازگار تھی۔ ساؤتھ یمن کا سکّہ دینار تھا جو اُس وقت پانچ ڈالر کے برابر تھا جبکہ نارتھ یمن برطانوی حکومت کا حصہ تھا۔ حکومتِ برطانیہ خود دوسروں پر منحصر رہتی تھی۔ وہ خاک عوام کی ضرورت پوری کرتی یا کرنسی کی قیمت بڑھاتی۔اُنھیں تو اپنی پڑی تھی۔ نارتھ یمن کا سکّہ ریال تھا جبکہ یہاں معاملہ الٹا تھا۔220ریال ایک ڈالر کے برابر ہوتا تھا۔ اس بنیاد پر ہوس عروج پر تھی کہ بس یہ درہم ودینار میرے ہو جائیں۔علی عبداللہ صالح نے سب سے پہلے متحدہ یمن کے قیام کی باگ ڈور سنبھالی۔یہ وہ کرشموں کا حصہ ہے جو علی عبداللہ صالح کے دماغ میں چل رہے تھے۔
باب المندب کا دخل اور آبادی کا دخل
دراصل ساؤتھ یمن آبادی کے لحاظ سے نارتھ یمن کے بالمقابل بہت کم ہے اور تھا۔ جہاں نارتھ میں ۱۲؍ ملین (۱۹۸۰ء) آبادی تھی۔وہیں ساؤتھ یمن میں صرف تین ملین تھی۔ جبکہ ساؤتھ ذخائر کے اعتبار سے مالامال تھا،اور یہاں تھی اصل سونے کی چڑیا، جس کا نام باب المندب ہے۔پوری دنیا توانائی و طاقت کے لیے تیل پر منحصر ہے، باہر دنیااس کے لیے لڑ رہی ہے ا ور اس کی ضرورت باب المندب سے بہترین طریقے سے پوری ہو سکتی تھی۔ باب المندب بحرِ احمر کے قریب واقع ہے جس کے اطراف میں Arabian peninsulaکے ممالک آتے ہیں۔Arabian peninsulaمیں یمن، عمان، قطر، کویت،سعودی عرب ،یو اے ای،ساؤتھ عراق ، اوراردن آتے ہیں۔ان تمام ممالک کو تجا رت کے لیے یمن کے اس ٹکڑے کی ضرورت ہے۔یہ سیدھا جا کر نہرِ سوئز سے ملتا تھا،اور نہرِ سوئز کا علاقہ تجارت کا دوسرا سب سے بڑا مرکز تھا۔یہ بات علی عبداللہ صالح کو اچھی طرح سمجھ میں آ گئی تھی ۔ نارتھ یمن کے مسائل کا حل اس کے بغیر ممکن ہی نہیں ہو سکتا تھا۔ اس حساب سے دونوں مما لک کا متحدہ یمن ہونا بہت ضروری تھا۔ یہ تمام چیزیں ۱۹۸۹ ؁ ء کے اتحاد کے بعد علی عبداللہ صالح کو حاصل ہو گئیں اور اس نے کرنسی ریال رکھ لی۔یہ اس کا دوسرا بڑا کرشمہ تھا،لیکن یہاں شروع ہو گئی ایک نئی غلامی جو عنقریب عالمی منڈی میں یمن کی وقعت کو گرانے والی تھی ۔اس سے یمن کی حالت درست ہونے کے بجائے مزید بگڑ گئی۔کرنسی کا درجہ اورنیچے آگیا۔جس کا سیدھا تعلق عوام سے بھی تھا۔عوام کے معاش پر اس کا برا اثر پڑا،غربت اور بڑھنے لگی،کرپشن میں اضافہ ہوا،تعلیم متأثر ہونے لگی، ضرورتِ زندگی کا سوال آگیا۔ بظاہر جب عوام کے ان مسائل کو حل کرنے میں حکومت لگ گئی تو مخالف مزید سرگرم ہوگئے ۔
۱۹۹۹ ؁ء میں جب متحدہ یمن کا الیکشن ہو ا تو علی عبداللہ صالح کو 96.6%ووٹ حاصل ہوئے، اس نے اس موقع پرصدارتی میقات کو پانچ سال سے سات سال کردیا اور پارلیمینٹ کی میقات کو چار سے چھ سال کردیا ۔ صدر کی ان عجیب حرکتوں سے عوام میں دن بدن منفی سوچ کے ساتھ مخالفت اور بدطنی عام ہونے لگی،گویا ایک بڑے انقلاب کی اب آمد آمد تھی۔
حوثی قوم اورنظریات کی لڑائی
عموماً نارتھ یمن کے لوگ سنّی اور سلفی تھے جبکہ ساؤتھ یمن میں کچھ سیکولر، مارکسسٹ،اور زیادہ تر شیعہ تھے۔ ۱۹۹۰ ؁ ء کے آس پاس ان حوثیوں کا اثر و رسوخ زیادہ دیکھنے کو ملا۔ ۱۹۹۲ ؁ء میں ایک طرح سے زیدی عوام میں تجدیدِقوم ہوئی اور انقلابی شکل میں ابھرنے لگے ۔ انھوں نے (BY)Believing youth کے نام سے کام شروع کیا۔ جس میں اسکول کلب اورسمر کیمپ رکھے اور اپنے نظریات کو فروغ دینا شروع کیا۔ موضوع حالات کی ضرورتوں کو مخاطب کر رہا تھا۔عوام نے دلچسپی سے سنا۔اور راستوں پر آنے کے لیے تیار ہو گئے ۔ ان کا کام لبنان کے حزب اللہ جیسا تھا اور یہ آیت اللہ خمینی کے کاموں سے بے حد متأثر تھے۔ جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ یہ امریکہ اور اسرائیل کے خلاف تھے ۔ انھوں نے یہودی امریکہ کے خلاف نعرے دیے، اس وقت عراق موضوع گفتگو تھا،اور عراق کی تباہی کے پیچھے مغربی دنیا کاہاتھ تھا۔ عراق کی تباہی و بربادی کی وجہ سے یہ امریکہ پر مزید برہم ہو گئے۔ ۲۰۰۳ ؁ء میں اس آواز نے اور زور پکڑ لیا ۔ ۲۰۰۴ ؁ ء میں انھوں نے DEATH OF AMERICAکا نعرہ دیا۔ علی عبداللہ صالح نے اس بات کو بھانپ لیا ۔آج DEATH OF AMERICAکا نعرہ دیا کل DEATH OF PRESIDENT کا نعرہ لگنے والا ہے کیونکہ امریکہ نے INVASION OF KUWAITکے نام پر عراق کو تباہ و برباد کیا تھا۔اس سے حوثی عوام بہت زیادہ ناراض ہوگئے تھے۔اور ان کے علی عبداللہ صالح سے تعلقات خراب ہو گئے تھے۔ اس لیے مخالفت میں حوثیوں کے لیڈر حسن بلال الدین الحوثی کو ۲۰۰۴ ؁ء میں یمنی فوجیوں نے قتل کر دیا۔ تاکہ حالات قابو میں آجائیں۔ پھر اس کے بعد حوثی لیڈر ملک الحوثی بنے،اور حوثی مزید برہم ہو گئے، انھوں نے اور ترکیبیں شروع کر دیں۔ایکٹوزم بڑھایا، اور بڑی ملٹری بنائی۔ حکومت کے خلاف عوام کو بھڑکایا۔عدم اعتماد کی ریلیاں نکالیں اور کرپشن،بنیادی ضرورتوں کی عدم فراہمی ،قیمتوں میں اضافہ ، نوکریوں کی کمی ، یمنی عوام سے لاتعلقی اور مغرب کی طرف جھکاؤ کوموضوع بحث بنایا۔ عوام نے آگے بڑھ کر تائید کی جسے حسین بدرالدین الحوثی کے قتل نے مزید بھڑکا دیا۔ چونکہ یہ ایران کو سپورٹ کرتے تھے اور ایران اور ان کے نظریے میں شیعیت سے رشتے کی وجہ سے کافی یکسانیت تھی، اس لیے ایران نے حکومت کے خلاف لڑائی میں مدد کی ۔ ہتھیار اور ضروری سامان بہم پہنچائے ۔ جبکہ Wiki-leaks کا ماننا ہے کہ یہ ہتھیار اور اسلحہ انھوں نے یمنی بلیک مارکٹ سے حاصل کیا ہے۔
بات اور بڑھ گئی ،حوثیوں کا عوام کے ساتھ تعلق اور بڑھنے لگا،حوثی ملٹری مضبوط ہونے لگی۔علی عبداللہ صالح کی پریشانیاں مزید بڑھنے لگیں اور جواباََ حملے شروع ہوگئے۔ اس طرح ایک خانہ جنگی کی طرف معاملہ بڑھنے لگا۔اِدھر مخالفت کا یہ پیمانہ بھرگیا۔یہ کسی بڑے طوفان کے انتظار میں تھا ۔اُدھر تیونس میں عوام نے حکومت کے عملی رویوں سے،مسائل زندگی سے پریشان ہو کر عوام روڈ پر آنکلی ۔وہاں کے صدرکو بھگا دیا۔ساتھ ہی ساتھ مصر کی عوام بھی اُسی اثناء میں اِسی طرزِعمل پر چلی۔وہاں کے صدر کو بھی ہٹا دیا گیا۔اورعرب دنیا کا یہ انقلاب متاثر کرتا ہواکئی ملکوں سے ہو تا ہوا نکلا۔لبیا کے عوام نے بھی کچھ گُل کھلائے۔وہاں کے صدر کا بھی یہی حال ہوا۔اسی کے تسلسل میں یمن کو بھی متاثر ہونا ہی تھا ۔۲؍فروری ۲۰۱۱ ؁ء کو حوثیوں نے حکومت کے خلاف دھاوا بول دیا۔ایک بڑا ملکی انقلاب رونما ہوا۔حوثیوں کا زیادہ اثرورسوخ راجدھانی صنعاء پر تھا۔راجدھانی میں صنعاء یونیورسٹی اسکوائر پر۱۰؍ مارچ ۲۰۱۱ ؁ء کو جھڑپیں ہوئیں،۵۲ مارے گئے ،۲۰۰زخمی ہوئے ۔کھل کر اس بات کا مطالبہ ہوا کہ علی عبداللہ صالح کو ختم کردیا جائے۔ یہ بات صنعاء سے بڑھ کر اور بھی علاقوں صدا، الجوف،اور حج کی طرف پھیل گئی ۔ علی عبداللہ صالح کو بھاگنے میں عافیت نظر آئی ۔وقتی طور پر نائب عبد ربع منصور ہادی نے کمان سنبھالی ۔اس درمیان GCC(Gulf Coopretion council)نے علی عبداللہ صالح کے بولنے پر دخل اندازی کی ۔
GCC یمن ، کویت،قطر،سعودی عرب ، UAE،وغیرہ ممالک کا ایک گروپ ہے جسے ۱۹۸۱ ؁ء میں اب سے ۳۴؍ سال پہلے بنایا گیا تھا۔جس میں پرشین عرب (Persian Arab)کے ممالک آتے ہیں۔اس کا مقصد مختلف محاذوں پر دیے گئے اصول کے تحت کام کرنا ہے جس میں مذہب، معاشیات ، تجارت ،ٹیکس ،ٹورزم،اور نظم و ضبط شامل ہے ۔ مزید سائنس اورٹکنالوجی،معدنیت، ذخائر، اور کھدائی، کاشت کاری ، پانی ، مویشی پالن ، اور ممالک کے متحدہ کام، پبلک سیکٹر ، عوامی مسائل کو حل کرناہے۔اور سب سے اہم چیز پوری دنیا سے ایک ہی کرنسی میں تجارت کرنا ۔ GCCدنیا کی دوسری تیل گیس کا حلقہ ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اس بات کا تذکرہ بھی اہم ہے کہ ان ممالک نے ساتھ مل کر Pensula shield forceبھی بنادیا ۔ جس کا قیام ۱۹۸۳ میں GCCنے کیا۔شروعات میں جن کی فوج ۱۰۰۰۰ تھی۔ہر ملک سے کچھ فوجی اس میں شامل تھے۔جس کا مقصدباہر کے ممالک سے ہونے والے مسائل سے نمٹنا اور حکومت کو اضافی مدد پہنچانا تھا۔ جس کی موجودہ فوج ۴۰ سے ۵۰ ہزار ہے۔ ان کے اصولوں میں یہ بات بھی شامل تھی کے داخلی معاملات میں دخل اندازی نہیں کریں گے۔ اس لئے انھوں نے بحریں کی Civil Warمیں دخل اندازی نہیں کی تھی۔ بات یہ چل رہی تھی کہ GCC نے ۲۰۱۱میںیمن میں دخل اندازی کی جبکہ یہ ایک Civil Warتھی۔جب بات بگڑتی ہی چلی گئی تو علی عبداللہ صالح نے برخاستگی دستخط کئے ۔معاملہ یہ تھا کہ یمن اب تک GCCکا حصہ نہیں تھا ۔ علی عبداللہ صالح اپنی سا لمیت اور مفاد کی خاطرGCCکا حصہ بننا چاہتا تھا۔ تاکہ اس کی حکومت سکون سے چل سکے۔ لیکن عوام کا غصہ بہت زیادہ تھا۔ آخر GCCآگے آئی اور دو مطالبات کئے، صدر علی عبداللہ کو پناہ دی جائے اور دوسرا اس میں بات چیت کرکے Coalition govt.بنائے۔عوام نہیں مانی اور ۱۱/۶/۳کو اس پر حملہ کر دیا گیا۔مسجد میں ہوئے اس حملہ میں علی عبداللہ صالح زخمی ہو گیا ۔ اسے فوری سعودی ملٹری ہوسپٹل لے گئے اور علاج ہوا اس کے دوسرے روز اعلان ہوا کہ نائب صدر عبدل ربیع جب تک ملک کو سنبھالیں گے ۔اگلے مہینے علی عبداللہ صالح TVپر آیا اور حکومت چھوڑ دینا کا اعلان کیا۔اوریمن کے صدر عبد ربیع منتخب ہوئے ۔ وقتی طور پر عوام اطمینان میں آگئی ۔ لیکن حوثیوں کو اس پر اکتفا کرنا نہیں تھا۔ جبکہ ۲۰۱۲ء تک حوثی SAADA,ALJAUF,HOJIH,SOMA,کے علاقوں تک پھیل گئے تھے۔اور ان کی فوج تمام علاقوں میں سر گرم تھی۔انھیں ساتھ میں RED SEAتک رسائی حاصل تھی۔ان کو ہٹانے کے لیے حکومت نے کوششیں کر وائی جس میں سر کردہ کوئی کہتا ہے القاعدہ کے لوگ تھے ،کوئی حکومت کے لوگوں پر نشاندہی کرتا ہے ۔حوثی اور جذباتی ہو گئے۔صنعاء کے بچے کچے علاقوں پربھی حملہ بول دیا ۔ اور ۲۰ جنوری ۲۰۱۵ء کو صدر محل وہاں بھی حملہ کر دیا۔ صدر عبدل ربیع کو جانے دیا جس پر حکومت نے ۲۲جنوری ۲۰۱۵ کو برہم ہو کر ان کے خلاف ان حرکتوں پر استعفیٰ طلب کیا۔اور اس کے تین ہفتوں کے بعد حوثیوں نے ملک پر اپنے کنٹرول کا اعلان کر دیا۔ پھر ۱۵ مارچ سے خانہ جنگی شروع ہوئی ۔پھر اسکے بعد ہزاروں موت کے گھاٹ اتر گئے ۔ دراصل اس میں بہت سے قوموں ، ملکوں ، عالمی سیاست اور تجارتی دنیا کا مفاد ہے ۔
۱۔حوثی چاہتے ہیں کہ ان کی حکومت ہو،ایران ان کی مدد کرتا رہے اور یہ امریکہ ، سعودی کے تسلط سے آزاد رہنا چاہتے ہیں ۔ حوثی ملک میں موجود القاعدہ کو سعودی اور امریکہ کا حصہ بتاتے ہیں ۔
۲۔سعودی کو ڈر ہے کہ یہ ان پر حملہ نہ کر دیں، سعودی اپنا دبدبہ چاہتا ہے اس لیے وہ بھی لڑ رہے ہیں ۔
۳۔امریکہ کا ماننا ہے کہ حوثی القاعدہ سے ملے ہوئے ہیں ۔
۴۔مصر کو ڈر ہے کہ باب المندب حوثی کے ہاتھ لگ گیا تو تجارت پر ضرب لگے گی ۔ اس لیے وہ دامن بچاتے سعودی ،GCC،امریکہ کو مدد کر رہا ہے ۔
۵۔ ایران کا مفاد مذہب اور نظریاتی موافقت سے ہیں ۔ اس لیے حوثیوں کو مدد کر رہے ہیں ۔
۶۔عوام ہمیشہ اور ہر جگہ کی طرح گاجر مولی کی طرح کٹتے چلے جا رہے ہیں


امین محمد توصیف، پونہ ۔ مہاراشٹر

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Verified by MonsterInsights