گلہائے رنگ رنگ سے ہے زینت چمن

0

دنیا اب ایک گائوں کی طرح سکڑ گئی ہے ۔ گلوبل ویلج!!! سالوں اور مہینوں کی دوریاں اب دنوں اور گھنٹوں میں طے ہو جاتی ہیں۔ مواصلاتی وسائل نے دنیا کے ایک کونے کو دوسرے کونے سے سکنڈوں کے فاصلے سے ملا دیا ہے۔ لیکن اس گائوں کی عجیب و غریب بات یہ ہے کہ یہاں ہر کوئی دوسرے سے مکمل طور پر نا واقف اور بے خبر ہے۔ ہر شخص اپنے پڑوسی کے بارے میں مکمل لاعلمی اور بے توجہی کا مظاہرہ کرتا ہے ۔ اسے نہیں پتہ کہ اس کا پڑوسی یہاں کیوں آیا، کہاں سے آیا اور اس کا سمت سفر کیا ہے ، اس کا دیکھنے اور سوچنے کا انداز اور نظریہ کیا ہے ، وہ اس دنیا کو کس نگاہ اور زاویہ سے دیکھتا اور سمجھتا ہے، اس کے نزدیک اس کائنات اور خود انسان کا فلسفۂ وجود کیا ہے۔ بلکہ اس سے زیادہ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ یہاں ہر کوئی خود اپنے آپ سے نا واقف ہے ۔ اسے خود اپنے مصدر اور منزل کا کوئی پتہ نہیں ہے ۔ اسے خود اپنی سمت سفر کا علم نہیں ۔ نہ اسے خود اپنے اوپر اعتماد ہے نہ اپنے خالق و مالک پر اعتماد ہے اور نہ مستقبل کے تعلق سے کوئی حسن ظن اور خوش امیدی کی کیفیت ہے ۔ ڈر ، شک اور بے اعتمادی نے دل و دماغ کو محصور کر لیا ہے۔ حالت زار یہ ہے کہ دوسروں کا وجود اس کے لیے منفی آئینہ بن گیا ہے ۔ دوسروں پر رد عمل لوگوں کی شناخت متعین کرتے ہیں اور لوگ اس شناخت کی بقا اور حفاظت کی لڑائی لڑتے ہیں ۔ گویا ــ’دوسرے‘ ’ہماری‘ شناخت کے لیے نقطۂ انعطاف Diversion بن چکے ہیں ۔ چنانچہ دوسروں نے ہماری توجہ خود ہماری ذات سے ، ہمارے مقصد، ہماری ناکامی اور ہمارے خوف سے منتشر کر دی ہے ۔
معانی کا ایک سمندر ہے ۔ حقائق کا ایک جہان ہے جس میں سب مشترک اور ایک دوسرے سے قریب ، کہیں موافق اور کہیں قدرے مختلف ہیں ۔ مگر ہر کوئی دوسرے سے ناواقف ہے۔ ہر کوئی اپنی عینک لگا کر یا اپنی کھڑکی اور دریچے پہ بیٹھ کر باہر کے اس سمندر کا مشاہدہ کر رہا ہے اور اس پورے سمندر کو اپنی اور صرف اپنی ملکیت سمجھے ہوئے ہے ۔اس پس منظر اور سیاق میں عالمی شہرت یافتہ اسلامی مفکر اور اسکالر پروفیسر طارق رمضان کی مایہ نازکتاب The Quest For Meaning تکثیری سماج کا ایک نیا فلسفہ پیش کرتی ہے ۔
یہ کتاب تمام لوگوں کو معانی و افکار کے اپنے محدود قید خانوں سے نکل کر فلسفیانہ سطح پر آفاقِ معانی کی سیر کرنے کی دعوت دیتی ہے ۔ اس کا فلسفہ یہ ہے کہ معانی اور حقائق کے سمندر میں سب اپنے اپنے دریچے سے جھانکتے ہیں مگر باہر نکل کر مشاہدہ کریں تو سب اس میں مشترک بھی ہیں، اس کے حصہ دار بھی مگر کسی کو اس سمندر پر مکمل ملکیت حاصل نہیں ہے ۔ عملًا کوئی اس پوری کائنات کا تنہا مالک نہیں ہے ۔
اس کا مطلب نہ تو یہ ہے کہ فرد اپنے مذہب یا فلسفے سے دل برداشتہ اور بد ظن ہو جائے اور بے یقینی اور شک کی کیفیت میں مبتلا ہو اور نہ یہ کہ ہر طرز فکر کو مکمل درست اور حق تسلیم کر لے۔ بلکہ یہ دراصل بلا تفریق اپنے پرائے، تلاش حق کی ایک دعوت ہے۔ یہ معانی کے سمندر کا ایک سفر ہے ۔ یہ ایک سفر جستجو ہے جس کا مقصد ایک بڑے سفر تک پہنچنا ہے ۔ یہ ایک بظاہر متضاد رویوں اور نتیجوں کا عمل ہے جس میں آدمی خود سے تھوڑا دور ہوتا ہے تا کہ خود کے قریب ہو جائے ۔ دوسروں کو سنتا اور سمجھتا ہے تاکہ خود کو سمجھ سکے ۔
یہ کتاب ایک ایسا سفر ہے جو ایک بڑے سفر کے آغاز پر ختم ہو جاتا ہے۔کتاب عبارت ہے انانیت و خود پسندی اور غرور و تکبر سے نکل کر حق کی تلاش میں انکساری و فروتنی اختیار کرنے سے۔ معاملہ چاہے تہذیبی تصادم Clash of civilization کا ہو یا جہالت پر مبنی نزاع Clash of Ignorance کا یا پھر انداز فکر کے ٹکرائو Conflict of Perception کا ، یہ کتاب دل و دماغ کو اپیل کرنے والی زبردست رہنمائی اور حل پیش کرتی ہے ۔
کتاب چودہ عناوین پر مشتمل ہے اور ہر عنوان گتھیوں کے پورے ایک سلسلہ کو سلجھاتا ہے، اس طرح چودہ عناوین چودہ سلسلے سلجھاتے اور مزید اس سفر کو جاری و ساری رکھنے کا ذوق و نمونہ فراہم کر دیتے ہیں۔کتاب بذات خود پڑھنے اور محظوظ ہونے کی چیز ہے ۔ اس کی ترتیب میں ایک جادوئی تاثیر اور حسن بے پروا ہے ۔ یہاں اس تحریر میں اس کے بعض افکار کو اختصار کے ساتھ اردو قارئین کے لیے پیش کیا جاتا ہے ۔
بچپن عبارت ہے بے فکری اور سکون و اطمینان سے۔ تکلیفیں اور مشقتیں یہاں بھی ہیں مگر ذہن و دماغ سکون اور امن کی دولت سے آراستہ رہتے ہیں ۔ شک و شبہہ اور زندگی سے بے چینی یا اس پر سوالات کا وہاں گزر تک نہیں ہوتا۔ مگر جیسے ہی عقل کے ناخن نکلنا شروع ہوتے ہیں اور شعور کی بالیاں پھوٹتی ہیں ، سوالات کا ایک سیلاب دل و دماغ کو بے تاب اور ہلکان کر دیتا ہے ۔ یہ سوالات ہر انسان کے دروازے پر دستک دیتے ہیں اور انہی سوالات کا جواب تلاش کرنا ہر انسان کی منزل مقصود کا پہلا اور لازمی زینہ ہوتا ہے۔ جہاد و ایمان کو بھی اس پس منظر میں سمجھنا بہت آسان اور واضح ہوگا ۔انہی سولات کا حل تلاش کرنے کے لیے مذاہب کا وجود عمل میں آتا ہے اور اسی کی کوکھ سے فلسفہ جنم لیتا ہے اور اسی کے سائے میں قدیم روایتیں Traditions) (منظر عام پر آتی ہیں۔سب کا مطمح نظر انہی گتھیوں کو سلجھانا اور امن حاصل کرنا ہوتا ہے۔اور ان سوالات کا جواب دراصل بچپن کی اسی وادیٔ پرکیف کی واپسی ہے جہاں امن و سکون اور اطمینان بے چینی اور اضطراب پر غالب آ جاتے ہیںاور یہی کامیابی کی معراج اور مذاہب و فلسفے کا مقصد ہے ۔ چنانچہ کسی بڑے فلسفی کا مشہور قول ہے کہ جہاں سے دوبارہ بچپن کی وادی کا سراغ لگ جائے فلسفے کا کام تمام ہو جاتا ہے ۔انسان اپنے اس سفر میں کسی آفاقی اور کلی سچائی اور حق کا متلاشی ہوتا ہے ۔ مگر اس سفر کا پہلا زینہ انانیت ، خود فریبی اور نفس پرستی سے باہر نکلنا ہے ۔ دوسرے کے نظریات کو سننا اور سمجھنا ہر کسی کے اپنے سفر میں غیر معمولی طور پرفائدہ مند ثابت ہوسکتا ہے۔اکثر قدیم مذاہب اور روایتیں کسی ما فوق الفطرت مصدر اور آئیڈیل کو تسلیم کرتی رہی ہیں تاہم دوسرے نظریات اور نقطۂ نظر بھی موجود رہے ہیں۔ کہیں ما فوق الفطرت اور آئیڈیل آفاقیت ہے ۔ کہیں انسانی دل اورطبیعت کو آفاقیت کا مقام حاصل ہے اور کہیں عقل اور اسباب کو آفاقیت کا درجہ حاصل ہے اور کہیں فطرت اس جگہ جلوہ افروز ہے ۔ اور اس ضمن میں قرآن کی یہ آیت صورتحال کو اور واضح اور سفر کو آسان کرتی ہے ، ولو شاء ربک لجعل الناس امۃ واحدۃ (اگر تمہارا رب چاہتا تو پوری انسانیت کو ایک طریقے پر یکجا کر دیتا)۔ ہر کوئی اپنے ڈھونڈھے ہوئے راستے پر سرگرم سفر ہے۔ البتہ ان اختلافات کے تعلق سے یہ بات ملحوظ خاطر رہنی چاہیے کہ بعض دفعہ اختلافات متضاد contraditory نہ ہوکے معاون و مددگار ہوتے ہیں ۔ مثال کے طور پر اگر ما فوق الفطرت آفاقیت اور عقل و اسباب پر مبنی آفاقیت کو ضم کر دیا جائے تو ایک خوبصورت اور قابل عمل آفاقیت ظہور پذیر ہوسکتی ہے ۔ البتہ اس سفر میں جیسا کہ کہا جا چکا انانیت و خود پسندی dogmatism خطرناک بیماری ہے اور اس سے اجتناب پہلی شرط ہے ۔ اس سفر میں ہر فرد سے انفرادی طور پر یہ مطالبہ ہے کہ وہ اس آفاقیت کو حاصل کرنے کی بذات خود تگ و دو کرے اور پھر اپنا ایک سوچا سمجھا راستہ اختیار کرے ، چنانچہ اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ دوسروں کو سنے اور سمجھے۔ ورنہ پیدائشی اور نسلی بنیاد پر راستوں کو قبول کرلینا اور بلا غور و فکر اس پر چلتے رہنا اختیار نہیں بلکہ تھوپی ہوئی پیدائشی مجبوری کہلائے گی ۔
ایمان Faithدراصل انسانی زندگی کا جوہر ہے۔ دنیا میں جتنی قومیں بھی موجود ہیں اور جن کی تاریخ موجود ہے ان سب کے یہاں کسی نہ کسی شکل میں ایمان کی روشنی پائی جاتی رہی ہے۔ حتی کہ ملحدین اور مذہب بیزار خود ایمان کے قائل ہوتے ہیں گرچہ انہیں اس کا شعور نہ ہو یا اس کا مظاہرہ نہ کر سکیں ۔ ایمان در اصل سوالات کے وہ جوابات ہیں یا سفر کی وہ منزل ہے جس کا ہر کوئی متلاشی ہے ۔ اس بحث میں ایک اہم موضوع اختلاف یہ ہے کہ یقینی علم کے لیے کن وسائل پر اعتبار کیا جائے۔ اشیاء کی حقیقتوں کے تعلق سے کس کو مصدر علم مانا جائے۔ چنانچہ کچھ لوگ صرف حواس خمسہ کو اس کا مصدر مانتے ہیں ۔ کچھ لوگ عقل و دماغ کے اوپر اعتبار کرنے کو ترجیح دیتے ہیں اور کچھ لوگ دل یا ما فوق الفطرت رہنمائی کو یہ مرتبہ دیتے ہیں ۔ یہاں بھی اگر غور کریں تو یہ تینوں چیزیں تین الگ الگ محاذوں پر کار فرما ہیں اور تینوں چیزوں کو باہم اکٹھا کردیا جائے تو تصویر مکمل ہو جاتی ہے ۔ کائنات کے وجود کو ثابت کرنے والی مشین حواس ہیں، گویا یہ ’کیا ہے ؟‘ کا جواب دیتی ہیں ۔ ان چیزوں کی کیفیت اور طرز عمل کے بارے میں دماغ اور عقل رہنمائی کرتے ہیں ، گویا یہ ـ’کیسے ؟‘ کا جواب دیتے ہیں ۔ ان کی حقیقت اور وجہ کے بارے میں دل کی روشنی اجالا کرتی ہے ، گویا ’کیوں ؟ ‘ کا جواب دل سے ملتا ہے ۔ اور یہیں سے مذہب اور عقل یا سائنس کی جو ایک جنگ برپا ہے اس کا خاتمہ بھی ہو جاتا ہے ۔ دونوں کا اپنا میدان ہے جہاں دونوں پوری آزادی کے ساتھ پھلیں پھولیں اور انسانوں کی خدمت کریں۔ سائنس ’کیسے ‘ کے سوالات کا جواب فراہم کرے اور مذہب ’ کیوں ‘ سے متعلق تشنگی بجھائے۔
اخلاقیات مذہب کی جان اور روح بھی ہے اور ساتھ ہی یہ مذہب سے آزاد اور خود مختار بھی۔ تمام مذاہب اور فلسفوں کا اتفاق ہے کہ ہر فرد کے دل میں اخلاقیات کا جوہر موجود ہے ۔ چنانچہ وہ کسی بھی مذہب اور فلسفے کو قبول کرے یا ایمان سے خالی ہونے کا دعوی کرے تاہم اخلاقیات کے جوہر سے وہ آراستہ ہو سکتا ہے بشرطیکہ وہ دل کے اندر جو رہنما بیٹھا ہے اس سے بغاوت نہ کرے۔ اہل فلسفہ نے اخلاقیات کی دو قسمیں بتائی ہیں، ایک ethics جس کا مادہ ہر دل کے اندر موجود ہے اور اس کی روشنی میں وہ اس کو نکھارتا اور مزید سنوارتا ہے اور سماج کو خوبصورت رویہ کا آئینہ دکھاتا ہے ۔ اور دوسری قسم morality ہے جو دراصل آفاقی اور عام انسانی قانون اور اصول کی شکل میں پائی جاتی ہے ۔ اور یہ دونوں مل کر انسانی سماج کو ایک خوبصورت چمن بنا دیتی ہیں ۔ جہاں صرف امن و محبت اور بھائی چارگی اور پیار کا دور دورہ ہوتا ہے ۔
جذبات کی رو میں بہہ جانا ، جذبات سے مغلوب ہو جانا اور جذباتیت کا شکار ہوجانا دراصل ایک بڑی انسانی کمزوری اور سیکڑوں پریشانیوں اور مصیبتوں کی جڑ ہے۔نیورو سائنس کی جدید تحقیقات کا یہ ماننا ہے کہ جذبات دراصل نیورو نظام میں ایک بڑے خلل کا نتیجہ ہے۔جس میں آدمی کی عقل و خرد بے بس اور معطل ہو جاتی ہے۔ اور آدمی کچھ بھی کر گزر نے کے لیے تیا ر ہو جاتا ہے اور اپنا سب کچھ دائو پر لگا سکتا ہے گرچہ کہ نتیجہ سوائے نقصان کے اور کچھ نہ ہو۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ جب نہ اس سائنس کا وجود تھا اور نہ ان تحقیقات کا، اس وقت تمام مذاہب اور روایات نے جذبات پر قابو پانے کو اپنا اہم موضوع بنایا اور اس پر غیر معمولی زور دیا۔
متعدد مذاہب ، فلسفوں اور نظریات کا وجود ایک انسانی اور طبیعی حقیقت ہے ۔یہاں ایک سوال اٹھنا فطری اور یقینی ہے کہ اب مذاہب کے درمیان باہم کیا ربط و تعلق ہو ۔ وہ ایک دوسرے کے ساتھ کیسا برتائو کریں ۔ اس سلسلے میں(عملاً اورتاریخ کی روشنی میں)کسی کے پاس بھی تشفی بخش حل اور مثال موجود نہیں ہے ۔ زیادہ سے زیادہ جہاں فراخ دلی اور کشادگی کی بات ہوتی ہے وہاں رواداری کو فروغ دینے کی بات کی جاتی ہے۔ مگر رواداری دراصل ایک نہایت منفی ذہنیت کی ترجمانی ہے ۔ رواداری کہہ دینے کا مطلب یہ ہوا کہ ہم نے حق پر کسی کی جاگیرداری کو تسلیم کر لیا اور یہ مان لیا کہ رہنے کا اصل حق صرف اسی کو ہے ۔ اب بقیہ ان کے رحم و کرم اور ان کی رواداری پر گزر بسر کریں۔رواداری دراصل انانیت اور خود فریبی کی غمازی کرنے والا لفظ ہے ۔ انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ سب سب کا احترام کریں ۔ سب کو رہنے اور جینے کا برابر حق دار سمجھیں۔ اپنے مذہب اور طریقے پر پابند رہتے ہوئے دوسروں کا احترام کریں اور محبت سے پیش آئیں۔
آزادی ایک سخت جد وجہد بھی ہے اور ذمہ داری کے لیے شرط بھی ۔ یہ ایک منزل ہے جسے پانا ہر ایک کی ذمہ داری ہے۔ایک خواب ہے جسے پورا کرنا ایک جوئے شیر لانا ہے۔ انسان پیدا ہوتا ہے غلامی کے مختلف بندھنوں میں ۔ جسمانی غلامی جس سے چھٹکارا پانے کے لیے آدمی کو اپنی بنیادی ضروریات کی تکمیل کرنا ضروری ہے ۔ سماجی اور تہذیبی غلامی جو انسان کو ایک متعین فریم اور ڈگر سے باہر سوچنے اور قدم رکھنے سے روکتی ہے ۔فطری غلامی جو اس کے اختیارات کی راہ میں مختلف رکاوٹیں پیدا کر سکتی ہے۔ اور مختلف دوسری حالتیں جو اس کی ہمہ گیر آزادی میں حائل ہوتی یا ہو سکتی ہیں ۔ ان سب کے بیچ آزادی کا راستہ نکالنا سب کی انفرادی اور اجتماعی ذمہ داری ہے۔سماجی اداروں کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ ہر فرد کی بنیادی ضرورتیں پوری کریں ۔ان کے لکھنے پڑھنے اور کھانے پینے کا انتظام کریں۔ اگر ایسا نہیں کرتے ہیں تو وہ آزادیوں کی ساری شقوں کے باوجود انسان کو غلامی میں جینے پر مجبور کرتے ہیں ۔انسان کو آزادی چاہیے تاکہ وہ ان سوالات پر غور کر سکے جو اس کی زندگی کا اصل جوہر آشکار کریں ۔ تاکہ وہ فلسفے کی دنیا کی سیر کر سکے جو اس کے مستقبل کو واضح کرے۔ایسی مکمل آزادی حاصل ہونے کے بعد ہی انسان اس ذمہ داری کا متحمل ہوسکتا ہے جس کے لیے اسے دنیا میں بھیجا گیا ہے۔ البتہ آزادی سماجی اور فطری اصولوں کی تابعدار بھی ہوتی ہے اور یہ آزادی کا لازمی جزو ہے ۔ بلکہ اس سے بڑھ کر ہر شخص کا اپنے اوپر قابو رکھنا اور خود پر کنٹرول رکھنا قانون سے زیادہ اہم اور ضروری ہے۔ ظاہری بندشوں سے کہیں مشکل نفس اور روح کی بندشوںسے آزادی حاصل کرنا ہے اور یہ تمام مذاہب میں قدر مشترک ہے ۔ جذبات واحساس پر قابو پانا روحانی آزادی کے لیے ناگزیر ہے اور اس کے حصول کے لیے ادب اور فنون لطیفہ کارگرترین چیز ہے ۔ادب کے ذریعے جذبات کو کنٹرول کرنا اور اندرونی آزادی حاصل کرنا آسان ہوتا ہے ۔
اخوت و مساوات انسانیت کی روح اور تمام مذاہب کی مشترک تعلیم ہے ۔یہ ایک آئیڈیل ہے جس کو حاصل کرنے کی کوشش ہر مذہب اور ہر فلسفے میں موجود ہے۔اور اگر کسی مذہب یا روایت میں اس کے برعکس صورتحال ملتی ہے تو خود اسی مذہب کے پیروکار اس کے خلاف آواز بلند کرتے ہیں اور انسانیت کی برابری کا نعرہ بلند کرتے ہیں ۔ مثال کے طور پر ہندو مذہب میں اونچ نیچ کی پوری مذہبی بنیادیں موجود ہیں مگر گاندھی جی نے اس کے خلاف آواز بلند کی اور ادنی ترین طبقے کو ہریجن (خدا کی اولاد) کا خطاب دیا۔ اور ان کی بہبود و ترقی کی مہم شروع کی ۔ اخوت و مساوات باوجود ہر مذہب کی روح ہونے کے عملی دنیا میں ناپید یا ناقص ہیں ۔ انسانیت اور مساوات کا گن گانے والے ممالک میں خود طرح طرح کے ناموں پر عدم مساوات کا سلوک روا ہے ۔ کہیں کالے اور گوروں کے نام پر ، کہیں اصلی شہری اورمہاجرین کے درمیان اور کہیں مذہب کی بنیاد پر تفریق اور بھید بھائو کا سلسلہ جاری ہے۔ اخوت اور مساوات قائم کرنے کے لیے قوانین اور قاعدے بنانے کی ضرورت گرچہ ضرور پیش آئے گی مگر اس سے زیادہ اہم کردار عوامی اور سماجی بیداری کا ہوگا۔ مساوات اسی وقت کامیاب اور عملی ہوسکتی ہے جب تک اس کو فطری فریم میں رکھتے ہوئے نافذ کیا جائے ۔ مساوات کے نام پر یکساں مواقع فراہم کرنا ضروری ہے مگر فطری صلاحیتوں کے تفاوت کو نظر انداز کرناغیر عملی اور ناممکن ہے۔ اگر مساوات کے نام پر صلاحیتوں اور قابلیتوں کو دبایا جائے اور ان کو ضائع کیا جائے تو یہ مساوات کا بگڑا ہوا تصور قرار پائے گا۔
خواتین کے کردار اور ان کے سیاسی ، سماجی اور معاشی حقوق کو لے کر ماضی کی پوری تاریخ تقریبا ملتی جلتی ہے۔چند ایک استثنائی واقعات کو چھوڑ کر ہر مذہب اور ہر تہذیب کے ماننے والوں نے عورت کے ساتھ یکساں سلوک روا رکھا ہے اور اسے مکمل طور پر مرد کا تابع اور بے اختیار رکھا ہے۔ نیز علم و فلسفے کی دنیا سے اسے بالکل بے گانہ اور لا تعلق رکھا ہے ۔ اس کی بنا بعض لوگوں نے فطرت کو قرار دیا ہے اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ تمام مذہبوں اور روایات کا ایک عمل پر متفق ہوجانا اس کے عین فطری ہونے کی دلیل ہے ۔ دوسرے لوگوں نے اسے سماجی حرکیات اور ثقافتی وجوہات کے تحت پیش کیا ہے ۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ موجودہ دور میں عورت نے بہت سے حقوق حاصل کر لیے ہیں گرچہ ابھی سفر دراز ہے اور سوالات اور مسائل کا حل ابھی مزید تو جہ اور محنت کا طلبگار ہے ۔ موجودہ دور میں عورت کی برابری اور سماجی کردار کو لے کے مختلف تحریکات نسواں منظر عام پر آئی ہیںاور سب کے یہاں بے اعتدالی اور حقیقت سے بے توجہی مشترک رہی ہے۔ ایک طرف عورت کو مرد کے مقام پر کھڑا کرنے اور اس کے بالمقابل لانے کی کوشش ہے تو دوسری طرف مکمل طور سے عورت کے کردار کی نفی کا رجحان ہے۔اور دونوں ردعمل کی کیفیت کا شکار ہیں ۔ عورتوں کو اور مردوں کو اس بحث میں ایک نقطہ کو ملحوظ خاطر رکھنا چاہیے، عورت مرد کے برابر اور مساوی equal ضرور ہے پر دونوں ایک جیسےidentical نہیں ہوسکتے ۔ چنانچہ اگر ایک آفس میں مرد و عورت ایک جیسا کام کر رہے ہیں تو بلا شبہہ دونوں کی تنخواہیں بھی برابر ہونی چاہئیں، الیکشن میں دونوں کے ووٹ کی قیمت بلا شبہہ برابر ہونی چاہیے اور ترقی کے مواقع دونوں کو یکساں ملنے چاہئیں ۔ پر خود عورتوں کو یہ باور کرنا پڑے گا کہ وہ اپنے آپ کو پہچانیں اور اس کے مطابق سماجی رویے کی تبدیلی کی کوشش کریں ۔ اس سلسلے میں اعتدال ایک نہایت اہم اور مشکل ترین مسئلہ ہے۔عورت کا یہ جسمانی اور نفسیاتی فرق در اصل ایک اہم ضرورت اور فطرت کا انسانوں پر بہت بڑا احسان ہے ۔ جس کی گواہی معانی کا سمندر بھی دے رہا ہے اور ماں کے گود میں پرورش پا رہے بچوں کی آنکھیں اور دل بھی یہی صدا لگا رہے ہیں اور عورتوں کے دل سے نکلنے والے محبت کے لامحدود سوتے بھی اسی کی تائید میںسر ملا رہے ہیں ۔
تعلیم دراصل ایک مسلسل عمل کا نام ہے جس کا مقصد صحیح نشو و نما دینا اور رہنمائی فراہم کرنا بلکہ انسان کو صحیح معنوں میں انسان بنانا اور بلند انسانی اقدار سے آراستہ کرناہے۔ چنانچہ تعلیم میں جس قدر اہمیت محض علوم حاصل کرنے اور ہنر سیکھنے کی ہوتی ہے اس سے کہیں زیادہ قدیم اور مضبوط اقدار و بلند روایات کی پاسداری اور اعلی اخلاق و کردار کی منتقلی اور عظیم ثقافت کو نسل در نسل آگے بڑھانے کا کام بھی اس کا بنیادی حصہ ہیں ۔ تعلیم ایک ایسی چیز ہے جس کی اہمیت اور اولیت پر دنیا کے سارے مذاہب اور سارے فلسفے متفق ہیں ۔ گرچہ نظریۂ تعلیم میں باہم قدرے اختلاف نظر آئے مگر تمام مذاہب نے اسے انسانیت کی اولین شرط قرار دیا ہے۔قدیم زمانے اور تہذیبوں میں تعلیم گاہیں در حقیقت بچوں کی مکمل تربیت گاہ ہوا کرتی تھیں ۔ وہیں سے وہ اس دنیا کو سمجھتے تھے ، مذہب اور دین کا فہم حاصل کرتے تھے ، فلسفہ و اخلاق کی تعلیم حاصل کرتے تھے ، اپنے کردار اور فرائض کے تعلق سے بیداری حاصل کرتے تھے ۔لیکن موجودہ صنعتی انقلاب اور پھر کمر شیلائزیشن آف ایجوکیشن نے تعلیم اور تعلیم گاہوں کے تصور کویکسر تبدیل کر دیا ہے ۔اب یہ تعلیم گاہیں انسانوں کو محض سامان اور پیسہ پیدا کرنے والی مشینوں میں تبدیل کر رہی ہیں ۔ تاریخ اور فلسفہ جو تعلیم کی جان اور اس کے مقاصد کے حصول میںسب سے زیادہ نفع بخش اور مفید ہوتے تھے۔ اس سے نئی نسل کا ناطہ بالکل توڑ دیا گیا ہے ۔صورتحال اس وقت اور بھی نا گفتہ بہ ہو گئی جب تعلیم حاصل کرنے والی نسل نو اور ان کے اساتذہ اور والدین اور سماج کے پرانے اہل دانش و بینش کے درمیان ایک بڑا گیپ پیدا ہوگیا۔آزادی کے غلط تصور نے اس پر مزید نمک چھڑک کر نسل نو کو مزیدبے راہ روی کی طرف ڈھکیل دیا ۔ چنانچہ تعلیم گاہوں کو تو بے سود یا ضرر رساں کیا ہی ساتھ ہی والدین اگر کوئی تبدیلی چاہیں بھی تو ان کو بے بس کردیا ۔ایسے میں سماج کی اولین ذمہ داری ہے کہ اس صورتحال کا صحیح جائزہ لے ، بگاڑ کی جڑیں تلاش کرے جو در اصل سماج کے خود سمت سفر سے وابستہ ہے اور جس کے لیے ایک بڑی سماجی تبدیلی کی ضرورت پیش آنا ناگزیر ہے ، اور تعلیم کے تصور اور اس کے نظام کو از سر نو تشکیل دیں ۔ جو دراصل ایک مشکل اور محنت طلب کام ہے ۔ مذاہب اور فلسفے کی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ ان میں اعلی اقدار اور اخلاقیات کو تعلیم کا حصہ بنانے اور آسان انداز میں بچوں کو سکھانے کے لیے تمام مذاہب اور روایات نے ’رول ماڈل‘ کا استعمال کیا تھا جو خود اپنے آپ میں نہایت کارگر اور کامیاب طریقہ ثابت ہوا ۔ کسی نے رول ماڈل کے لیے نبیوں اور پیغمبروں کو استعمال کیا اور کہیں سنتوں کو اس کے لیے استعمال کیا گیا ۔ موجودہ تعلیم کے ماہرین نے بھی اس کی ضرورت کو تسلیم کیا ہے لیکن اس کے انتخاب اور تعیین میں غیر معمولی احتیاط اور توجہ کی ضرورت ہوگی ۔ ہر سماج کو یہ بات بالکل واضح طور سے مد نظر رکھنی چاہیے کی تعلیم کے ساتھ ذرا سی لا پراوہی ایک بڑی تباہی اور انسانیت دشمنی کا پیش خیمہ ثابت ہوگی۔اس کے تعلق سے یہ بات مد نظر رہنی چاہیے کہ تعلیم کو بنیادی حق قرار دے دینا یا اس کے بلند بانگ نعرے لگانا تعلیم کے لیے کسی طور سے بھی کافی نہیں ہوسکتا ۔ اور نہ ہی محض آزاد تعلیم کا قانون ہی کوئی بڑی تبدیلی لاسکتا ہے۔ بنیادی اور آزاد تعلیم کا تقاضا یہ ہے کہ ایسا نصاب اور نظام تعلیم مرتب کیا جائے جس میں طالب علم تمام مذاہب اور فلسفوں کا آزادی کے ساتھ علم حاصل کرے تاکہ وہ اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کے لیے عقل و شعور کے زینے سے کسی نتیجے تک پہنچ سکے۔
جدیدیت modernity اور روایات tradition دور حاضر میں کشمکش کا اہم موضوع رہے ہیں ۔ اور جدیدیت کے علمبرداروں کا یہ ماننا ہے کہ روایات اور ماضی کی اقدار سے بالکل بے تعلق ہو جایا جائے ۔ ماضی کے اوراق کو جلا دیا جائے ۔ اور ایک نئی دنیا میں جو جدیدیت کی کوکھ سے پیدا ہورہی ہے اس میں اپنا مستقبل بنایا جائے ۔ حالانکہ جدیدیت کے بارے میں یہ واضح ہونا چاہیے کہ یہ بھی اسی ماضی کے تسلسل کی ایک کڑی ہے جس کی بنیاد ماضی کے ہی اوراق میں مل سکتی ہے اور آنے والے کل میں یہ بھی محض قدیم روایات میں سے ایک روایت ہو جائے گی ۔ دوسری طرف یہ بات یاد رہنی چاہیے کہ ہمیشہ انہی کا مستقبل روشن اور تابناک ہوتا ہے جو ماضی سے اپنا رشتہ مضبوط رکھتے ہیں ۔ماضی کی روایتیں ہی ہمارے اوپر معانی اور شناخت کو آشکارا کرتی ہیں ۔اور ہمیں اس سلسلے سے جوڑ دیتی ہیں جو ہمیشہ گردش میں ہے اور ماضی سے مستقبل اور مستقبل سے ماضی جس کی گردش کا دائرہ ہوتا ہے ،اور خود جدیدت کو اگر اس کے مصدر اور اصل سے جدا کردیاجائے جو بلا شبہہ ماضی کی روایات میں پوشیدہ ہیں تو یہ خود بے معنی ہو کر رہ جائے گی ۔ جدیدیت کے بارے میں یہ بھی واضح رہنا چاہیے کہ یہ کوئی عالمی جدیدیت نہیں ہے بلکہ اس کا دائرہ محض مغربی دنیا تک محدود ہے ۔اور دنیا کی تمام تہذیبوں سے اگر موازنہ کیا جائے تو یہ محض ایک اقلیتی تہذیب ہے۔یہاں ایک چیز کی طرف اشارہ ضروری ہے کہ اگر کسی بھی نئی اور ترقی پذیر تہذیب میں تہذیبو ں کی کثرت اور تنوع کا خیا ل نہیں رکھا گیا اور محض کسی ایک تہذیب کو سب پر تھوپنے کی کوشش کی گئی تو یہ بھی ایک مخصوص اثر والی محدود تہذیب بن کر رہ جائے گی جس کا واضح ثبوت شمالی اور مشرقی دنیا کا گلوبلائزیشن کو محض مغربی تہذیب کے طور پر سمجھنا اور ساتھ ہی اسے اپنی تہذیب کے لیے ایک خطرہ سمجھنا ہے ۔
وابستگی چاہے وہ ملک سے ہو یا مذہب سے یا تہذیب سے ایک پسندیدہ چیز ہے تاہم اس وابستگی کو کسی ایک چیز میں محدود کرلینا اور اسی کی بنیاد پر سامنے والے کے بارے میں پوری رائے قائم کر لینا حقائق سے انحراف ہے۔ کوئی شخص شہریت کہیں کی اور ثقافت کہیں کی اور مذہب کوئی سا اختیار کر سکتا ہے۔ یہ اس کی آزادی اور اختیار کا مسئلہ ہے ۔ ساتھ ہی اس وابستگی کے نتیجے میں اندھا پن اختیا کرلینا اور اس کے دفاع کے لیے ہر سیاہ کو سپید کہہ دینا اور جھوٹ کو سچ قرار دے دینا یہ خود وابستگی کے لیے خطرناک ہے۔ وفا شعاری ایک اہم اور ضروری چیز ہے لیکن سچی وفا داری تنقیدی وفا داری critical loyaltyہے ۔ ا ندھی وفا داری دراصل وفا داری کے نام پر دھوکہ ہے ۔ یہ بات ہر ایک کے مد نظر ہونی چاہیے کہ گفتگو چاہے تہذیب کی ہو یا شہریت کی یا پھر مذہب اور روایات کی ۔اصولوں کی روشنی میں ہر ایک کا اور خصوصا اپنا جائزہ لینا چاہیے اور جہاں کہیں بھی اصول پسندی اور حق پسندی نظر آئے اس کو قبول کرنا اور اپناتے رہنا چاہیے ۔یہیں سے کشمکش کا ماحول ختم اور جستجوئے حق کا راستہ آسان ہوتا ہے جس میںہر گروہ دوسرے گروہ کی شعوری یا غیر شعوری طور پر مدد کرتا ہے اور انسانیت ترقی کے سفر پر گامزن رہتی ہے۔
زندگی در اصل محبت کرنے کا نام ہے اور یہی اس کتاب کا خلاصہ بھی ہے ۔ مگر محبت کرنا بے حد صبر آزما اور مشقت طلب کام ہے ۔to love is to suffer ۔ اور محبت کو کامیاب اور موثر بنانے کے لیے چیزوں سے در گزر کرنا ، بھول جانا اور معاف کرنا نا گزیر ہے ۔ محبت کا پہلا زینہ اور موضوع خود فرد کی ذات ہونی چاہیے۔ ہر فرد اپنے آپ سے محبت کرنا اور اپنی غلطیوں کو معاف کرنا سیکھے۔ خود سے محبت کرے تاکہ اپنے رب سے محبت کر سکے ۔ فطرت سے محبت کرسکے اور پوری انسانیت سے محبت کر سکے۔ اور یہ یاد رہے کہ محبت دو دھاری تلوار کے مانند ہے ۔ اسے اگر حدود اور اصول کے ساتھ برتا جائے تو انسان کو آزادی دلانے کا اہم ذریعہ ہے اور اگر بے توجہی اور فراط و تفریط کا شکار ہوئی تو ایک قید خانہ ہے ۔ محبت ہو لیکن ایک دوری کے ساتھ ۔ اعتدال کے ساتھ، تاکہ محبت بت پرستی کا پیش خیمہ نہ بن سکے ۔محبت زندگی کا خلاصہ ہے اور مشقت محبت کا راستہ ۔اور یہی اس پورے سفر کا خلاصہ بھی۔ یہ چند سنگ میل تھے اس سفر کے جو اپنے آپ میں ایک بڑا سفر مگر انجام کار کے اعتبار سے ایک بہت بڑے سفر کا محض مقدمہ تھا ۔

 

از: زوالقرنین حیدرسبحانیTariq_Ramadan__424829a

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Verified by MonsterInsights