کچھ ہاتھ نہیں آتا بے آہ سحرگاہی

0

ماہ رمضان اپنی تمام ترر فعتوں اور رعنائیوں کے ساتھ جلوہ افروز ہوچکا ہے۔ جس کی ہر ساعت رحمتوں کے جلوئے بکھیر رہی ہے۔ جس کی صبح پر نور اورجس کی راتیں دل کا سرور بنتی جاتی ہیں۔ جی ہاں! یہ وہی ماہ مبارک ہے جس کے بارے میں رب دو جہاں کا ارشاد ہے: ’’شہر رمضان الذی أنزل فیہ القران‘‘ اور جس کی عظمت کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ’’اس ماہ مبارک کا اول حصہ رحمت، دوسرا مغفرت، اور تیسرا اور آخری حصہ جہنم اور آگ سے نجات کا ذریعہ ہے۔‘‘ مزید یہ کہ جس کی ایک رات ہزاز مہینوں سے بہتر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نبی اکرمؐ اِس مہینہ کی آمد سے قبل ہی اِس کے لئے سراپا منتظر ہو جا یا کرتے تھے اور زیادہ سے زیادہ عبادت و ریاضت کے لئے کمر کس لیتے تھے، آپؐ نے ارشاد فرمایا:
’’ رمضان کا مہینہ آتا ہے تو آسمان کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اور رحمتوں کی بارش ہوتی ہے، جنت کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں اور نیکی کے راستوں پر چلنے کی سہولت اور توفیق عام ہو جاتی ہے۔ جہنم کے دروازے بند کر دئیے جاتے ہیں اور روزہ بدی کے راستوں کی رکاوٹ بن جاتا ہے، شیطان کو زنجیروں میں جکڑ دیا جاتا ہے، اور برائی پھیلانے کے مواقع کم سے کم ہوجاتے ہیں۔‘‘
اب خوش نصیب ہے وہ نفس جو اپنے دامن میں اس کی بہاریں سمیٹ لے، عقلمند ہے وہ شخص جو اپنے گنہگار وجود کو ربِّ دو جہاں سے معافی دلوائے، اسی کے حصہ میں کامیابی ہوگی جو ان ایام میں اپنے زنگ آلود قلب کی تطہیر کرلے، وہ شخص قابل رشک قرار پائے گا جو اس ماہ مبارک کی ہر ساعت کو استعمال کرے گا۔
ماہ رمضان کی اصل عبادت روزہ ہے، مگر اس کے لوازمات میں تلاوتِ قرآن، تراویح، تہجد، قیام اللیل اور اللہ کی یاد ہے۔حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ؐ نے ارشاد فرمایا: ’’ جب ایک تہائی رات باقی رہ جاتی ہے تو ہمارا ربِ دوجہاں دنیا کے آسمان پر اترتا ہے اور فرماتا ہے:’’کوئی ہے جو مجھے پکارے میں اس کی پکار سنوں، کوئی ہے جو مجھ سے مانگے میں اسے دوں، کوئی ہے جو مجھ سے مغفرت چاہے میں اسے بخش دوں۔‘‘( بخاری مسلم)
مسلم کی روایت میں ہے: ’’پھر وہ اپنا ہاتھ پھیلاتا ہے اور فجر تک کہتا رہتا ہے: ’’کون ہے جو ایسی ذات کو قرض دے جو مفلس وقلاش ہے نہ ظالم‘‘۔
حضرت جابرؓ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہؐ کو یہ فرماتے سنا ہے: ’’ہر رات میں ایک وقت ہوتا ہے کہ مسلمان اس میں دین ودنیا کی جو بھلائی بھی مانگے اللہ اس کو عطا کردیتا ہے اور یہ لمحہ ہر رات آتا ہے‘‘۔ (مسلم)
حضرت عمر وبن عبسہؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہؐ نے ارشادفرمایا: ’’ رات کے آخری حصہ میں رب اپنے بندہ سے زیادہ قریب ہوتا ہے۔ اگر تم اس وقت اللہؐ کا ذکر کر سکو تو ضرور کرو۔‘‘(ترمذی)
قیام لیل اور معمولات نبویؐ
رسول اللہؐ رمضان و غیر رمضان میں رات کی نماز کا خاص اہتمام فرماتے تھے۔ حتیٰ کہ آپؐ کے قدم ہائے مبارک پر ورم آجاتا تھا۔ حضرت مغیرہؓ بیان کرتے ہیں کہ صحابہؓ نے کہا:
’’ آپؐایسا کیوں کرتے ہیں جبکہ آپؐ کے اگلے پچھلے تمام گناہ بخش دئیے گئے ہیں‘‘۔
آپؐ نے ارشاد فرمایا:’’ کیا میں شکر گزار بندہ نہ بنوں۔‘‘
بیشتر احادیث میں آپؐ کی قیام لیل میں آہ ورازی کا نقشہ موجود ہے۔ آپؐ کے رقت آمیز دعائیہ کلمات آپؐ کی عظمت کا پتہ دیتے ہیں۔
آپؐ نے رمضان کی راتوں میں قیام سے متعلق ارشاد فرمایا: من قام رمضان ایمانا واحتسابا غفرلہ ما تقدم من ذنبہ۔(بخاری ومسلم عن ابی ہریرہؓ) ’’جو شخص ایمان واحتساب کے ساتھ ماہ رمضان میں قیام کرتا ہے۔ اس کے پچھلے سارے گناہ معاف کردئیے جاتے ہیں‘‘۔
تقاضۂ محبت
جس رب کی محبت میں دن کی بھوک وپیاس بے معنیٰ سی لگتی ہے اسی رب کی محبت راتوں میں آہ سحر گاہی بن کر نمودار ہوتی ہے۔ قرآن ان ہی محبوب بندوں کی تصویر کشی ان الفاظ میں کرتا ہے: تتجافی جنو بھم عن المضاجع یدعون ربہم خوفا وطمعا ومما رزقنا ہم ینفقون۔ فلا تعلم نفس ما أخفی لھم من قرۃ أعین جزاء بما کانوا یعملون۔ ’’ان کے پہلو خواب گاہوں سے دور ہوتے ہیں۔ وہ اپنے رب کو خوف اور طلب کے ساتھ پکارتے ہیں اور جو ہم نے دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔ تو کوئی نہیں جانتا کہ ان کے لیے کیسی آنکھوں کی ٹھنڈک چھپا کر رکھی گئی ہے ان کاموں کے بدلے میں۔‘‘
یہ مسلم حقیقت ہے کہ اپنے رب کی محبت کے بغیر قیام اللیل جیسی جاں گسل عبادت نا ممکن ہے۔ اپنی نرم وگرم خواب گاہوں سے میٹھی نیند کو ترک کرنا، اپنے رب سے سچے عشق کا اظہار ہے۔ اندھیری راتوں میں رب کے حضور دھیمی دھیمی سرگوشیاں کرنا، اپنی معصیتوں کا اقرار، پھر معافی اور نصرت الٰہی کا سوال، یہ تمام چیزیں محبت کا حصہ ہیں، بلکہ محبت میں اضافہ کا سبب اور اس سے آگے بڑھ کر محبوب کے قرب کا غیر معمولی فارمولہ ہیں۔
تطہیر قلب وذہین
گناہوں کی کثرت اور اں کا بوجھ ہمیں مایوس کیے دیتا ہےِ نفس امارہ کی ریشہ دوانیوں میں ہمارے قلب سیاہ ہوتے چلے جارہے ہیں۔ ہم اپنے عمدہ اور نفیس لباسوں میں زنگ آلود دلوں کو چھپائے پھر رہے ہیں۔ شیطان کی ذہنی غلامی اب عادت سی بن چکی ہے۔ نہ فکر خالص ہے نہ خیال پاکیزہ۔۔۔
لیکن بندہ جب اپنے رب کی رضا کیلئے شب بیداری کرتا ہے اور قیام رکوع وسجود میں مشغول ہوجاتا ہے تو اللہ کی جانب سے اسے اطمینان قلب کی دولت نصیب ہوتی ہے، اور کیوں نہ ہو کہ رات کی تاریکی میں اس کے اور اس کے رب کے درمیان کوئی چیز حائل نہیں ہوتی۔ جب سونے والوں کے خراٹے بلند ہوتے ہیں تب خشیتِ الٰہی سے نکلنے والی ہچکیاں اللہ کی رحمت کو اپنی جانب متوجہ کرتی ہے۔ دن کی عبادتوں میں آمیزش ممکن ہے مگر نالۂ نیم شبی اور قیام لیل کی عبادتیں خالص اور ہر شرک سے آزاد ہوتی ہے۔ جب یہ معمول بن جائے تو اس سے بہتر اور اکسیر علاج نفس کو زیر کرنے کیلئے ناممکن ہے۔ قیام لیل میں کی جانے والی تلاوت قلب انسانی پرغیر معمولی اثرات رونما کرتی ہے: ’’ ان ناشءۃ اللیل ہی اشد وطأ واقوم قیلا۔‘‘’’بے شک رات کا اٹھنا نفس پر قابو پانے کے لئے بہت کارگر ہے، اور قرآن پڑھنے کے لئے بہت موزوں۔‘‘
داعیان حق کا شیوہ
راہ خدا میں داعیان حق کی اصل قوت معرفت رب اور قرب الٰہی ہے۔ جس کے بغیر اس عظیم المرتبت مشق کی تکمیل ناممکن ہے۔ اسی لیے رسول اللہؐ کو ان دونوں نعمتوں (معرفت اور قرب الٰہی ) کے حصول کا راستہ یہ کہہ کر دکھایا گیا کہ یا أیھا المزمل۔ قم اللیل الا قلیلا۔ نصفہ أو انقص منہ قلیلا أو زد علیہ۔۔۔’’ اے چادر میں لپٹنے والے! رات کو کھڑے رہا کرو(نماز میں) سوائے تھوڑے حصہ کے ۔ آدھی رات یا اس سے کچھ کم کردو یا اس سے کچھ زیادہ کردو۔‘‘
اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ یہ قولِ ثقیل جس کے آپؐ حامل ہیں، اور جس کے ذریعہ’’قم فانذر‘‘ کا عظیم الشان کام آپؐ کو سونپا گیا ہے، اس کی تکمیل کے لئے رات کی عبادت آپؐ کو نہ صرف حوصلہ فراہم کرے گی بلکہ پائے ثبات میں غیر معمولی مضبوطی آپ ؐ محسوس کریں گے، سکینت رب اور حلاوتِ ایمانی اس کے ثمرات ہوں گے۔
قیام لیل کے آخری پہر جب اندھیری رات کی تاریکی چھائی ہوتی ہے، مگر طلوع سحر کی پہلی ہی کرن اندھیروں کی موت بن کر آتی ہے، اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے دنیا منور ہوجاتی ہے۔ یہ منظر اللہ کے شب بیدار عابدوں کے لیے امید سحر کی نوید بن جاتا ہے۔
آج بھی دن کے اجالوں پر گمراہی کے اندھیروں کا غلبہ ہے، مگر عنقریب گمراہی وذلالت کے یہ اندھیرے چھٹنے کو ہے۔ اس کا یقینی احساس وہی کرسکتا ہے جو اندھیروں سے روشنی کے سفر کا بسر چشم مشاہدہ کرتا ہو۔
قیام لیل کی دعا
ویسے تو دن ورات میں نہ جانے ایسے کتنے لمحات گزرتے ہیں، جو قبولیت دعا کے لیے مخصوص ہیں۔ لیکن شب کے آخری پہر یعنی وقت سحر اس کی اہمیت اور بڑھ جاتی ہے، اور جسے رمضان المبارک جیسے لمحات میسر آجائیں، اور وہ نالۂ نیم شب میں خدائے ذوالجلال سے اپنی حاجتوں کے لئے دستِ سوال دراز کرے۔ اس بندے کی قبولیت دعا میں کیسے شک ممکن ہے؟
مگر دعاتو وہی ہے جس میں اپنی معصیت پر ندامت ہو، جس کے الفاظ قلب کی صدا بن جائیں، جو زبان کے ساتھ ساتھ دل سے ادا ہوں، اور عاجزی وانکساری اور خشیتِ الٰہی سے پر نم آنکھیں، خوف خدا سے لڑکھڑاتی زبان ہی دراصل صدائے قلب ہوتی ہے۔
احادیث میں رسول اللہ ؐ کے دعائیہ کلمات موجود ہیں جو ہمیں اندازِ دعا بھی سکھاتے ہیں، اور طلب دعا کا سلیقہ بھی عطا کرتے ہیں۔خاص طور سے قیامِ لیل میں آپؐ یہ دعا فرماتے:اللھم انک عفو تحب العفو فاعف عنی۔(ترمذی)’’اے اللہ تو معاف فرمانے والا، معافی ودرگذر کرنے کو پسند کرنے والا ہے، پس تو مجھے معاف فرمادے۔
حرف آخر:
اس رنگین دنیا نے ہماری ترجیحات کو بے انتہا متأثر کیا ہے۔ حب دنیا نے ہمارے وجود کو جکڑ کر رکھ دیا ہے۔ تلاشِ رزق میں ہم رزاق کو فراموش کئے دیتے ہیں، اور گناہوں کی کثرت نے ہم سے احساس گناہ بھی چھین لیا ہے۔ ہمارے دل پتھروں کی طرح سخت اور احساس ندامت سے عاری ہوتے جارہے ہیں۔نمازیں بے اثر اور رکوع وسجود بے کیف وبے سرور ہوتے جارہے ہیں۔ کہیں فرشِ زمین پکارنہ اٹھے۔
ترا دل تو ہے صنم آشنا تجھے کیا ملے گا نماز میں
اے کاش کہ یہ رمضان ہماری مغفرت اور قرب الٰہی کا ذریعہ بن جائے
سہیل امیر شیخ ، نوجوان داعی وممبر مرکزی مجلس شوری ایس آئی او آف انڈیا ۔ [email protected]

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Verified by MonsterInsights