کنفیوژن ہی کنفیوژن ہے

0

امتحانات کا موسم سر پر ہے۔کمر توڑ کاغذات کا پلندہ آنکھ اور منہ کے کپکپاتے پھاٹک سے دماغِ عالی وقارکی جانب قدم رنجہ، داخلہ کی ناکام کوشش میں مصروف کار ہے۔
کہا جاتا ہے کہ طالب علمی کا دور زندگی کا سب سے سنہری دور ہوتا ہے۔ لیکن آج کے تعلیمی نظام سے تو لگتا ہے جیسے یہ گویا دورِ اسیری ہے جسے ہر طالب علم جلد از جلد پور ا کر کے رہائی کا پروانہ حاصل کرنا چاہتا ہے۔ جس کا نتیجہ ہے کہ ’کسی طرح‘ مدت اسیری تمام کرنے کی فکر ایک نئی اسیری (نا پسندیدہ ؍غیر دلچسپ جاب )کی تنگیوں میں پہنچا دیتی ہے۔ پھرساری عمر آدمی خود کو اور دوسروں کو کوستا ہوا، بے دلی ، مایوسی، حسرت اور شکایات کا چلتا پھرتانشانِ عبرت بن کر زمین پہ بوجھ کی طرح جینے لگتا ہے۔
خود شناسی کے نہ ہونے سے یہی ہوتا ہے
جن کو فنکا ر نہ بننا تھا وہ فنکار بنے
لیکن سوال یہ ہے کہ یہ خود شناسی و خود آشنائی کس چڑیا کا نام ہے؟کہاں ملتی ہے؟کہاں سے لائی جائے؟ کیسے پیدا کی جائے؟
ڈاکٹر اقبال کہتے ہیں ؂
’اپنے من میں ڈوب کر پا جا سراغ زندگی‘
واٹس اپ اور فیس بک کی ہما ہمی میں ، جہاں انسان ہمیشہ’دوسروں‘ کی خاطر جینا چاہتا ہے (چہ خوب ) اپنے لیے کیونکر وقت نکالا جائے؟؟؟
پھر یہ بات بھی خلاف واقعہ نہیں ہے کہ سوائے اِلاّ ماشااللہ طلبہ کی اکثریت تذبذب اور کنفیوژن کا شکار رہتی ہے جس کی مختلف وجوہات ہوسکتی ہیں۔ لیکن یقین مانئے ، زندگی میں کنفیوژ ہونا نہ تو معیوب ہے ناہی نا پسندیدہ۔ بلکہ کنفیوژن اور بے چینی، شوق اور اطمینان کی اعلیٰ منزلوں کے لیے سمتِ سفر کا تعین کرسکتی ہے۔
تذبذب، اضطراب، بے چینی اور کنفیوژن طالب علم کاخاصہ ہوتا ہے۔ یہ ایک قدرتی عمل ہے۔یہ سنتِ براہیمی ہے۔ حق کی جستجواور یقین کی منزلِ منزّ ہ کا آغاز کنفیوژن سے ہی ہوتا ہے۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ساری عمر تذبذب ہی میں گزاردی جائے اور آدمی لفظِ کنفیوژن کا ’شاہکار‘ بن کر رہ جائے۔ عموماً طالب علم اپنے آئندہ کیرئر یا میدان تعلیم کو لے کر پریشان رہتے ہیں۔ اس سلسلہ میں کچھ گزارشات بطور خاص دہم (10th)اور انٹرمیڈیٹ(12th) کے طلبہ سے کرنی مطلوب ہیں:
) اپنی ساری توانائیوں کو امتحان پر مرکوز کیجئے قطع نظر اس سے کہ آپ کا رجحان اور انٹرسٹ کس جانب ہے۔ کیونکہ کسی غیر دلچسپ موضوع میں اعلیٰ نمبرات اس بات کا ثبوت فراہم کرتے ہیں کہ دلچسپی والے مضامین میں آپ صرف اعلیٰ نہیں بلکہ غیر معمولی کامیابی لانے کے متحمل ہیں۔ اس طرح آپ کا اپنے پسندیدہ میدانِ تعلیم میں منتقل ہونا(خواہ وہ کتنا ہی غیر مناسب (unconvetional) لگتا ہو) آسان ہوتا جائے گا۔
) اکثر اداروں کے فارم آگئے ہیں۔ آپ نے جس کسی کورس کے لئے بھی اپلائی کیا ہے، اس کے طریقہ کار اور تفصیلات سے پوری واقفیت حاصل کیجئے۔ بہتر ہے اگر آپ کسی سینئر سے ، جس نے ماضی قریب میں وہ۱ نٹرینس ٹیسٹ دیا ہو، رہنمائی حاصل کریں۔
) والدین اور سر پرستوں کا اعتماد: ہندوستان بلکہ سارے برِ صغیر کی تہذیبی قدروں میں یہ چیز شامل ہے کہ والدین اور سرپرست اولاد اور زیرِ نگرانی بچوں کی ساری ذمہ داری اٹھاتے ہیں اور طالب علم سے امید کی جاتی ہے کہ اس کی ساری توجہ حصولِ علم کی جانب مرکوز رہے گی۔ یہی وجہ ہے کہ سرپرست (پورے خلوص کے ساتھ)یہ چاہتے ہیں کہ ان کا بچہ ’بہترین‘ کورس میں تعلیم حاصل کرے۔ اب ’بہترین‘ کورس کی تعبیراور تطبیق فرد کی ذاتی سوچ ، رجحان اور زاویۂ نظر پر منحصر ہے۔ عموماً دیکھنے میں آتا ہے کہ طالب علم کسی اور میدان کو منتخب کرنا چاہتا ہے اور سرپرست کسی اور جانب مائل ہوتے ہیں۔ اور یہ Frequency Mismatch گھر میں ٹینشن پیدا کر دیتا ہے۔لیکن اس کا خوبصورت پہلو یہ ہے کہ ہر فرد اپنے خلوص اور اپنائیت کی بنا پر اڑا ہوتا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ طالب علم اور سر پرست مل کر بیٹھیں اور کھل کر بات چیت کریں۔ سرپرست اپنے ادھورے خوابوں کو زبردستی بچوں پر لادنے سے گریز کریں اور بچے اپنی محدودیت پر اسرار نہ کریں۔ بلکہ انٹرسٹ(Interest)، ایپٹیٹوڈ(Aptitude)، پرسنالٹی (Personality)، مواقع اور گھریلو صورتحال ۔۔ ان تمام کا بنظرِ غائر جائزہ لے کر کسی فیصلہ پر پہنچا جائے۔ اور جب کسی میدان کا انتخاب کیا جائے تو پھر اس میں پورے شوق کے ساتھ غوطہ زن ہوجایا جائے۔
زمانہ آج بین الموضوعاتی(Inter- disciplinary) اپروچ کی طرف گامزن ہے۔ہر مضمون دوسرے سے مربوط ہے۔ چنانچہ ، اگرچہ آپ نے سائنس کے میدان میں تعلیمی سفر کا آغاز کیا ہوگا لیکن کوئی وجہ نہیں کہ آپ آگے چل کرہیو مینٹیز یا سوشل سائنسس اور سائنس کے سنگم سے تخصص نہ کرسکیں۔ لیکن شرط یہ ہے کہ عزمِ مصمم ہو، جستجو کی چاہت ہو اور یقینِ خالص ہو، کہ کسی نے کہا ہے ؂
جب ولولہ صادق ہوتا ہے،جب عزم مصمم ہوتا ہے
تکمیل کا ساماں غیب سے خود اس وقت فراہم ہوتا ہے
حصول علم کے متبادل ذرائع:
دور جدید میں اللہ تعالیٰ کی عظیم نعمتوں میں سے ایک ’ٹکنالوجی‘ نے انسانی تمدن کو محیرالعقول آسا ئشوں سے روشناس کیاہے۔ ہر دور کی تاریخ رہی ہے کہ جہاں اکثریت تن آسانی کے حصول میں سرگرداں رہی، کچھ انسان دوست اور انسانیت نواز افراد ، تمدن کی برکات کو طبقاتِ مخصوص کی قید سے نکال کر مفاد عامہ کی خاطر، ممکن الحصول ذرائع کو فروغ دینے کی کوشش میں لگے رہے۔ ’موکس‘ (MOOCS – Massive Online Open Courses) اسی طرح کی ایک کوشش ہے جہاں آپ دنیا کے کسی بھی کونے میں بیٹھ کر دنیا کی نامور یونیورسٹیوں سے اپنی علمی تشنگی کو ، اپنی سہولت کے مطابق مفت میں یا مناسب فیس کے ساتھ پورا کر سکتے ہیں۔ ہارورڈ،ا سٹانفورڈ، برکلے، MIT، پرسٹن وغیرہ جیسے قدآور جامعات (www.edx.org) edX اور کورسیرہ (www.coursera.org) جیسے آن لائن تعلیمی مراکز مختلف النوع موضوعات پر کورسس پیش کرتے ہیں۔
خلاصۂ کلام یہ ہے کہ:
* کنفیوژن کو اللہ کی نعمت سمجھیں، کہ یہ آپ کومنزل کی جانب مہمیز کرے گا۔
* جو گزر گیا سو گزر گیا۔ آنے والے امتحانات پر بھرپور توجہ دیں۔
* سوچ سمجھ کر ، سرپرستوں کو اعتماد میں لے کر مستقبل کے میدان کا انتخاب کریں۔
* MOOCs کی سہولت سے بھر پور فائدہ اٹھائیں اور اپنے ذوق کی تکمیل کا سامان کریں۔
مستقبل صرف اُنہی کا ہے جو آنے والے کل کا خواب رکھتے ہیں اور اسے شرمندۂ تعبیر کرنے کا منصوبہ بھی۔ جو صرف پلان بنا کر نہیں رہ جاتے بلکہ اس کے حصول کا حوصلہ بھی رکھتے ہیں۔

صداقت فقیہ ملا، بنگلور

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Verified by MonsterInsights