چلتا ہوں تھوڑی دور ہر ایک تیز رو کے ساتھ

0

رب کائنات نے مستقبل کو اس لئے بھی عالم غیب میں رکھا ہے کہ اس کے سبب انسان کے دل کے اندر چھپی ہوئی بات باہر آجاتی ہے مثلاً اگر مودی جی کو پتہ ہوتا کہ دہلی کے یہ نتائج آنے والے ہیں تووہ کبھی نہیں کہتے کہ جو ملک کا موڈ ہے وہی دہلی کا موڈ ہے۔ اس لئے کہ دہلی کا جو موڈ سامنے آیا وہ تو مودی جی کے لئے کسی بھیانک خواب سے کم نہیں ہے۔ انہوں نے کیجریوال پرپشت زنی کا الزام لگاکر اسے سزا دینے کے لئے اکسایا لیکن عوام نے انہیں یاد دلایا کہ جناب عالی آپ نے انتخابی مہم کے دوران جوسبز باغ دکھلائے تھے ان کو یکسر بھلا دینا پیٹھ میں چھرا گھونپنے کے مترادف ہے اس کی قرار واقعی سزاحاضر ہے۔ بازارو زبان میں کیجریوال کو بازارو کہنے والے مودی جی نہیں جانتے تھے اپنے آپ کو خوش قسمت سمجھنا اور کیجریوال کو بدقسمت ٹھہرانا ان کی کتنی بڑی غلطی ہے۔خیر اس مہم کا ایک فائدہ تو یہ ہوا کہ مودی جی اور شاہ جی کے غبارے سے ہوا نکل گئی اور دوسرے ان کے من کی بات بغیر آکاش وانی کے دھرتی کے باسیوں نے جان لی۔
دہلی کے ریاستی انتخابات پر جس قدر خوشی مسلمانوں کو ہوئی ہے یقیناًً بی جے پی اور آر ایس ایس نے مودی کی لوک سبھا میں کامیابی پر اتنی خوشی نہیں منائی تھی۔ اس لئے کہ اگر رائے دہندگان کی تعداد کو دیکھا جائے تو بی جے پی کو ۷۰؍ فیصد لوگوں نے ووٹ دینے سے گریز کیا تھا۔ اب اگر ان میں ۱۵؍ فیصد کو مسلمان مان لیا جائے تب بھی ۵۵؍ فیصد غیرمسلم بی جے پی کی کامیابی پر غمزدہ تھے لیکن جو کچھ دہلی میں ہوا اس سے تو خود بی جے پی کے شاہنواز حسین اور شاذیہ علمی تک پر مسرت نظر آئے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ جہاں بھی ہو اور جیسا بھی ہو،مسلمان آخر مسلمان ہوتا ہے۔ ویسے مودی جی اگر چاہتے تو مسلمانوں کو اس خوشی سے محروم کر سکتے تھے اور اس کے لئے انہیں کرنا یہ تھا کہ کچھ نہ کرتے۔ وہ اگر اعلان کردیتے کہ دہلی ایک نہایت مختصر اور غیر اہم ریاست ہے۔ ہم اتنا بڑاملک چلارہے ہیں، بین الاقوامی مسائل حل کررہے ہیں اس لئے ہمارے پاس اس انتخاب کے لئے وقت نہیں ہے۔ شاہ جی کہہ دیتے میں قومی صدر ہوں۔ ہماری جماعت کے اندر داخلی جمہوریت کی فراوانی ہے اس لئے مقامی رہنماؤں کا یہ کام ہے کہ انتخاب لڑیں اور کامیابی درج کرائیں، تو یہ بھرم قائم رہتا کہ مودی جی اور شاہ جی کی کنارہ کشی کے سبب یہ انہونی ہوگئی اگر وہ میدان میں آتے تو بی جے پی کا یہ حشر نہیں ہوتا لیکن مثل مشہور ہے جب گیدڑ کی موت آتی ہے تو وہ شہر کی طرف بھاگتا ہے اور جب مودی کی ۔۔۔۔ تو وہ ۔۔۔۔دہلی کی۔۔۔۔
مسلمانوں کو چونکہ یہ خوش کن خبر بڑے عرصے کے بعد ملی اس لئے جوش و خروش کے ساتھ اس کومنانے کا انہیں پورا حق ہے اور اس کا بھرپور استعمال کرنے والوں میں خود میں بھی شامل ہوں لیکن جب یہ جوش کم ہوگیا تو خیال آیا کہ کیا یہ پہلی بار ہوا ہے؟ اس سے قبل قومی سطح پر بی جے پی کو صرف دو نشستوں پر اکتفاء کرنا پڑا ہے۔ اٹل جی اور اڈوانی جی شکست فاش سے دوچار ہوئے ہیں۔ راج نارائن نے اندرا گاندھی جیسی مضبوط رہنما کو رائے بریلی میں ہرادیا۔سنجے گاندھی امیٹھی سے ہار گئے۔اپنے نانا پنڈت نہرو سے بڑی کامیابی درج کرانے والے مسٹر کلین راجیو گاندھی کو راجہ مانڈہ نے بوفورس کی توپ سے اڑا دیا۔ دیوے گوڑا جیسا نامانوس انسان ہندوستان کا وزیر اعظم بن گیا اور منموہن سنگھ جیسے غیر سیاسی ماہر معاشیات نے دس سال بڑے آرام سے حکومت کی گویا ہندوستان کی انتخابی تاریخ اس طرح کے چمتکاروں سے اَٹی پڑی ہے لیکن ان انقلاباتِ زمانہ کے باوجود نہ تو ملک کے عام آدمی کی قسمت کا ستارہ چمکااور نہ مسلمانوں کے دن بدلے۔ ایسا کیوں ہوا ؟ یہ نہایت پیچیدہ سوال اگرکوئی چچا غالب سے پوچھتا تو وہ نہایت سہل انداز میں فرماتے ؂
چلتا ہوں تھوڑی دور ہر ایک تیز رو کے ساتھ
پہچانتا نہیں ہوں ابھی راہبر کو میں
غالب کی سہل پسندی سے قطع نظراس سوال پر سنجیدگی کے ساتھ غور کرنا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ سیاست کی عمارت تین ستونوں پر قائم ہوتی ہے گویا ان اجزائے ترکیبی کے بغیر اس کا تصور مہمل ہے۔ ان میں سے ایک محکوم ہے دوسرا حاکم اور تیسراا ن کے باہمی تعلق کو متعین کرنے والا سیاسی نظام مثلاًجمہوریت، آمریت یا ملوکیت وغیرہ۔ انسانی فطرت بلاوجہ کسی کی حکمرانی قبول نہیں کرتی سیاسی نظام حاکم کے لئے وجہ جواز فراہم کرتا ہے۔ اس کی ذمہ داریوں کو متعین کرکے اسے اصول و ضوابط کا پابند بناتا ہے اور محکوم کے حقوق کا تحفظ کرتاہے۔ بدقسمتی سے ہندوستان میں انتخابات کو سیاست کی اصل سمجھ لیا گیا ہے اور چونکہ اس کے ذریعہ آنے والی تبدیلیوں سے چند مظاہر تو بدلتے ہیں لیکن بنیادی ڈھانچہ پر کوئی اثر نہیں پڑتا اس لئے کوئی بڑی تبدیلی واقع نہیں ہوتی۔ گویا پتوں کی تراش خراش تو ہوجاتی ہے لیکن جڑ کے خصائل جوں کے توں قائم و دائم رہتے ہیں۔ ظاہری سر سبزی و شادابی فطرتاً امید وں اور توقعات کو جنم دیتی ہیں لیکن جڑ کا زہر بہت جلد حزن ویاس بن کر نس نس میں پھیل جاتاہے۔
جمہوری نظام سیاست میں بھی جہاں جمہور کا غلغلہ ہوتا ہے ، محکوم عوام کو سیاسی اعتبار سے دو طبقات میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ ایک بے شعور اور بے عمل (سیاسی) عوام کا جم غفیر اور دوسرا مختصر سا باشعورطبقہ جو سیاسی میدان میں مستقل مزاجی کے ساتھ سرگرم عمل رہتا ہے۔ مؤخر الذکر عوامی اقلیت عام طور پر کسی نہ کسی سیاسی جماعت سے جڑی ہوتی ہے۔ ان کی غالب اکثریت ابن الوقتی اور مفادپرستی کی بنیاد پر سیاسی جماعت سے منسلک ہو جاتی ہے اور ایک ننھی سی بے لوث اقلیت اصول و نظریہ کی بنیاد پر وابستگی اختیارکرتی ہے۔ اس طرح گویا عملی سیاست میں حصہ لینے والے بے لوث لوگوں کا تناسب نہایت قلیل ہوتا ہے۔ وقتی جوش میں سوڈا واٹر کی مانند نکل کھڑے ہونے والے اور پھر بہت جلد مایوسی کا شکار ہوکر اپنا راستہ بدل دینے والوں کو سنجیدہ سیاسی کارکن نہیں کہا جاسکتا لیکن یہی غیر سنجیدہ عوامی ریلہ کبھی غریبی ہٹاؤ کے نعرے سے متأثر ہو کر تو کبھی بدعنوانی کے خاتمہ کی خاطر ہوا کے رُخ کو وقتی طور پر تبدیل کردیتاہے جسے سیاسی زبان میں انتخابی لہر کا نام دیا جاتا ہے۔ چونکہ تبدیلی لانے والے خود سنجیدہ نہیں ہوتے ان کے اپنے اندر کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوتی اس لئے ان کے ذریعہ کوئی بڑی تبدیلی برپا نہیں ہوتی۔
نظام باطل نے فی زمانہ حکمرانوں کی سہولت کے لحاظ سے کئی برانڈ رائج کررکھے ہیں مثلاً ملوکیت، آمریت یا جمہوریت۔ ان سب میں حکمراں کے اقتدار میں آنے کا جواز اور طریقۂ کار مختلف ضرور ہوتا ہے لیکن اقتدار کی باگ دور سنبھال لینے کے بعد ان کی نفسیات اور رویہ یکساں ہوتا ہے۔جب ایک عام آدمی ممبئی میں شیوسینا کے پوسٹر پر بالاصاحب ٹھاکرے کے ساتھ ادھو ٹھاکرے اور ان کے بیٹے ادے ٹھاکرے کی تصویر دیکھتا ہے تو اسے بے ساختہ ملک عبدالعزیز، ملک سلیمان اور ولی عہد مقرن کی تصاویر یاد آجاتی ہیں۔ جب وہ دیکھتا ہے کہ کانگریس کے کارکنان کو صرف اور صرف پرینکا کے اندر اپنے خوابوں کی تعبیر نظر آتی ہے تو اسے امریکہ کی ری پبلکن پارٹی یاد آجاتی ہے جسے بل کلنٹن کے مقابلے جارج بش کے بیٹے جارج ڈبلیو بش کے علاوہ کوئی لائق وفائق امیدوار نظر نہیں آیا اور اس ناہنجار پر امریکیوں نے دومرتبہ اپنے اعتماد کا اظہار کیا۔ مودی کا وزیر اعلیٰ سے وزیراعظم بن جانا ویسا ہی ہے جیسے پوتن کا وزیراعظم سے صدر بن جانا۔
حکمرانوں کا مزاج دیکھئے کہ ایک امیر کبیر وکیل کا بیٹا جب ایک غریب ملک کا وزیراعظم بنتا ہو تو اپنے کپڑے دھلنے کے لئے پیرس بھجواتا ہے اسی طرح ایک چائے والاجب وزیراعظم کی کرسی سنبھالتا ہے تو برطانیہ سے اپنے کپڑے سلا کر منگواتا ہے۔ اقتدار وارثت میں ملے یا انتخابات سے عوام کی پسند کوببانگ دہل پامال کیا جاتا ہے ورنہ کیا وجہ ہے ۳۰۰؍ منتخب ارکان کو درکنار کرکے مودی جی حکومت کی اہم ترین ذمہ داریاں یعنی وزارت دفاع، وزارتِ خزانہ اور وزارتِ انسانی وسائل کے قلمدان ایسے لوگوں کو تھما دیتے ہیں جن کو عام آدمی نے یا تو مسترد کردیا یا منتخب ہی نہیں کیا۔ اقتدار پر اپنی پکڑ کو مضبوط کرنے کے لئے جس طرح ملک سلمان مختلف اہم عہدوں پر اپنے وفاداروں کو فائز کرتے ہیں اسی طرح مودی جی پارٹی کے اہل تر لوگوں کو کنارے کرکے اپنے مریدِ خاص شاہ جی کو پارٹی کا صدر بنادیتے ہیں۔ اگر شاہ جی کو وہ انعام اترپردیش کے انتخابات میں کامیابی کے لئے دیا گیا تھا تو دہلی کی ناکامی کے بعد انہیں اس سے محروم کردیا جانا چاہئے تھا لیکن جب تک مودی جی برسرِ اقتدار ہیں اوروہ مودی جی کی وفاداری کا دم بھرتے رہیں گے ان کا بال بیکا نہیں ہوگا لیکن جس دن ان کی وفاداری مشکوک ہوجائے گی یا مودی جی کا قتدار ختم ہوجائے گا شاہ جی کوبھی اڈوانی جی کی مانند سیاسی کوڑے دان کی نذر کردیا جائے گا۔ مختلف سیاسی جماعتوں اور رہنماؤں کے منفرد طرز زندگی کے سبب حکمرانوں کے رویہ سے چند نمائشی تبدیلیاں ضرور ظہور پذیر ہوتی ہیں لیکن ہر کوئی اقتدار سے چمٹے رہنا چاہتا ہے اور وہ اس بابت جائز و ناجائز یا حلال وحرام کا مطلق پاس و لحاظ نہیں کرتا۔
حاکم ومحکوم چونکہ اپنا طبعی وجود رکھتے ہیں اس لئے ان کی پرکھ نسبتاً آسان ہے لیکن نظام ایک غیر مرئی شئی ہے اس لئے اس کا ادراک خاصا پیچیدہ ہے۔ نظام کے متعلق غلط فہمیاں پیدا کرنا یا پروان چڑھانا سہل تر ہے۔ مثلاً جمہوریت میں اکثریت کی حکومت ہوتی ہے۔ اگر اقتدار کے دوسے زیادہ طاقتور دعویدار ہوں تو شاذو نادر ہی اکثریت کی حکومت ہوتی ہے جیسا کہ دہلی میں اس بار ہوا ورنہ اکثر اقلیت کا اقتدار پر قبضہ ہوتا ہے جیسا کہ مرکز میں ہے۔ اس نظام میں کون کس کو دانستہ یا نادانستہ طور پر فائدہ پہنچائے یہ بھی غیر یقینی ہوتا ہے۔ مثلاً دہلی میں سب سے بڑی پارٹی بننے کے لئے یعنی ۳۱؍ نشستوں پر اپنی کامیابی کا جھنڈا گاڑنے کے لئے بی جے پی نے جس قدر ووٹ حاصل کئے تھے اتنے ہی ووٹ حاصل کرنے کے بعد اسے۳؍ سیٹوں پر اکتفاء کرنا پڑا۔ دہلی کے اندر کانگریس کے نقصان نے بی جے پی کا بیڑا غرق کیا اس کے باوجود کانگریس اپنے نقصان پر رنجیدہ ہونے کے بجائے بی جے پی کی ناکامی شاداں و فرحاں ہے۔مصطفیٰ آباد میں بی جے پی امیدوار کو کامیاب کرنے کا سہرہ کانگریس کے بجائے عاپ کے سر بندھتا ہے اس لئے کہ وہاں دوسرے نمبر پرکانگریسی مسلمان امیدوار تھا اگر وہ جیت جاتا تو نہ صرف بی جے پی کاایک رکن اسمبلی کم ہوتا بلکہ مسلمان ارکان اسمبلی کی تعدادمیں ایک کا اضافہ ہوجاتا۔ ویسے تومجموعی طور پرمسلمانوں کے ارکان اسمبلی کی تعداد میں کوئی اضافہ نہیں ہوامگرکرن بیدی نے یہ کہہ کر مسلمانوں کو خوش کردیا کہ ان کی ہارکا سبب مسلمان ہیں۔ اب وجہ جو بھی ہو،مسلمان پھر ایک بار کنگ میکر بن گیا لیکن اس دعویٰ میں یہ اعتراف پنہاں ہے کہ جمہوری نظام میں کنگ اور کنگ میکر یعنی شاہ گدا کی تفریق موجود ہے۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ اس ظالمانہ سیاسی نظام میں عوام اپنی محکومیت کا جشن مناتے ہیں وہ دوسروں کے سر پر اقتدار کا تاج رکھ اپنا دل بہلاتے ہیں۔
انتخابات کے حوالے سے آج کل بہت ساری غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں۔مختلف قسم کے انتخابات ہر سیاسی نظام میں ہوتے رہتے ہیں لیکن جمہوری نظام میں چونکہ اس کی بنیاد پر حکومت چلانے والے ہاتھ بدل جاتے ہیں اس لئے بجا طور پر یہاں اسے غیرمعمولی اہمیت حاصل ہے۔ انتخابات اس لحاظ سے نعمت ہیں کہ اس کے ذریعہ عوام اندرا یا مودی جیسے ظالم حکمرانوں سے اپنا پیچھا چھڑا سکتے ہیں لیکن اس میں شک نہیں کہ یہی نظام ان لوگوں کو اقتدار پر فائز بھی کرتا ہے۔ اس لحاظ سے اگر یہ زحمت نہ سہی تو کم از کم رحمت بھی نہیں ہے۔ بھولے بھالے لوگ انتخابی عمل کو ہی کل سیاسی نظام سمجھ لیتے ہیں حالانکہ یہ سیاسی نظام کا ایک معمولی کل پرزہ ہے۔ اس کی مثال پریشر کوکر میں لگے سیٹی کی سی ہے جس کا شور تو خوب سنائی دیتا ہے لیکن رول بہت مختصر و محدودہوتا ہے۔ پریشر کوکر کے اندر اقتدار کی کھچڑی پکتی ہے جو سیاستداں پکاتے ہیں۔ اگر اس میں دال چاول نہ ڈالا جائے تو بیچاری سیٹی کیا کرے۔ یہ دال نہیں گلتی جب تک کہ عوام اپنا خون نہ جلائیں۔ ایندھن کے بغیر سیٹی کی کوک نہیں نکل سکتی۔ جمہوری نظام کو ایندھن محکوم فراہم کرتا ہے اور بریانی حکمراں کھاتے ہیں کچھ ہڈیاں عوام کے سامنے ڈال کراس کا احسان جتایا جاتا ہے۔
بنیادی طورپرسیٹی کے دوکام ہوتے ہیں ایک تو پریشر کو ریلیز کردینا۔ انتخابی عمل سے یہ ہوتا ہے کہ ظالم و بدعنوان حکمرانوں کے خلاف عوامی غم و غصہ کا دباؤ کافور ہوجاتا اور یہ استحصالی نظام ایک نئے استبداد کے ساتھ اپنا سفرجاری رکھتا ہے۔ ہندوستان میں منفی ووٹنگ عام سی بات ہے تمل ناڈو اور کیرالہ جیسی ریاستوں میں ہر پانچ سال بعد حکمراں کا بدل دیا جانا اس طرز عمل کا ترجمان ہے۔ سیٹی کے بجنے سے یہ اعلان بھی ہو جاتا ہے کہ اب کھانا پک چکا ہے اس لئے عوام کو مزید ایندھن فراہم کرنے کی ضرورت نہیں۔ انہوں نے اپنا فرض منصبی ادا کردیا اب وہ پانچ سال انتظار کریں اگر مظالم و استحصال قابل برداشت ہوں تواقتدارِ وقت کومزید موقع عنایت فرمائیں اور اگر ناگزیر ہوجائے تو اقتدار کی باگ ڈور حکمراں سے چھین کر کسی اور کے حوالے کردیں۔
کانگریس کو سبق سکھانے کے لئے بی جے پی کو لائیں یا بی جے پی کو عام آدمی پارٹی کے ذریعہ سبق سکھائیں۔ اس معاملے میں دوسروں کو سبق سکھانے والے کبھی خود کوئی سبق نہیں سیکھتے۔ وہ اس بات کو جاننے کی کوشش نہیں کرتے کہ ہر بار آسمان کو چھونے والی اصلاح کی لہر بار بار ان کے ہاتھ میں سبق سکھانے کی چھڑی تھما کرجھاگ کی مانند کہاں غائب ہو جاتی ہے۔ عوام مسلسل ایک سراب کے پیچھے بھاگتے رہتے ہیں۔ دور سے پانی کا عکس دیکھ کر خوش ہوجاتے ہیں اور جب پانی کے بجائے پیاس سے سابقہ پیش آتا ہے تو کسی نئے فریب میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ وہ حکمرانوں کو بدلنا چاہتے ہیں لیکن خود اپنے آپ کو بدلنا نہیں چاہتے۔ وہ دوسروں کو سبق سکھاتے ہیں لیکن خود کوئی سبق نہیں سیکھتے۔ ان انتخابی نتائج کا سب سے اہم سبق یہ ہے کہ پہلے عوام اپنے آپ کو بدلیں اور پھر اس کے بعد اس ملک میں رائج نظام سیاست کو تبدیل کریں۔ جب تک لوگ اس جمہوری گورکھ دھندے سے نہیں نکلیں گے اس وقت تک ان کے دامن میں دہلی کی مانندوقتی راحت اور دائمی زحمت آتی جاتی رہے گی لیکن جب وہ خود بدل جائیں گے اور پھر نظام کو تبدیل کردیں گے تو حکمراں اپنے آپ بدل جائیں گے۔معبود حقیقی کا باغی یہ خدا فراموش نظام سیاست ایک ایسی بھٹی کی مانند ہے کہ یہ اپنے اندر آنے والے ہر حکمراں کو بدل کر رکھ دیتا۔ یہ ہر حکمراں کو راکھ کے ڈھیر میں بدلنے کی صلاحیت اپنے اندر رکھتا ہے اس لئے اس نظام باطل کونظام حق سے بدلے بغیر کسی عظیم تبدیلی کی توقع کرنا عظیم ترین خام خیالی ہے۔

ڈاکٹر سلیم خان، معروف سیاسی تجزیہ نگار

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Verified by MonsterInsights