چارلی ہیبڈو: فرانس میں آزادی رائے کی حقیقت

0

پیرس کے مشہور و بدنام زمانہ میگزین چارلی ہیبڈو کے ہیڈکوارٹر پر ۷؍ جنوری کو حملہ ہوا، جس کے نتیجے میں صحافیوں ، کارٹون سازوں اور پولیس اہلکاروں سمیت کئی لوگ موت کا نشانہ بنے ، اور متعدد زخمی ہوئے ۔ حملہ کس نے کیا ؟ الجیریا کے دو مسلم بھائیوں نے ، جن کا تعلق کسی مسلم شدت پسند تنظیم سے ہے ۔ حملہ کیوں ہوا ؟ کیونکہ چارلی ہیبڈو نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا مضحکہ خیز کارٹون بنایا، دین کا مذاق اڑایا، اور مسلمانوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچایا۔ چنانچہ اس کا بدلہ لینے کے لیے کچھ مسلمانوں نے اس پر حملہ کیا ۔ میڈیا اور سیاسی لیڈران کا اس پر کیا رد عمل سامنے آیا ؟ فرانس کے وزیر اعظم نے حملے کے فوراََ بعد بیان دیا کہ اب فرانس کو ریڈیکل اسلام سے جنگ کا سامنا کرنا ہے۔ فرانس کے صدر نے کہا شدت پسند اسلام کا خاتمہ ضروری ہے۔ میڈیا نے اس حملے کو آزادی اظہار رائے freedom of expressionپر مسلمانوں کا حملہ قرار دیا۔ اسے clash of civilization کا نام دیا۔ اس پر اسلام اور آزادی یا بربریت اور ثقافت کی جنگ کا لیبل دیا۔ اور اس کے لئے واقعہ کو ایک خاص فریم میں رکھ کر اس دعوے کو غلط ثابت کرنے والے واقعات اور چیزوں کو غائب کرنے اور چھپانے کی ناکام کوشش کی۔ جیسے حملہ آوروں کا مقابلہ کرتے ہوئے سب سے پہلے اپنی جان کا نذرانہ پیش کرنے والے احمد مرابت جو کہ ایک مسلمان پولیس افسر تھے ان کو منظرنامے سے بالکل ہی غائب کرنے کی کوشش کی۔ میڈیا نے اس حقیقت کو بھی پوری طرح نظر انداز کرنے کی کوشش کی کہ حملہ ہوتے ہی فوراََ عالمی سطح پر تمام مسلمانوں نے اس حملے کی مذمت کی اور اس حملے کے اسلام یا مسلمانوں سے متعلق ہونے سے بھی صاف انکار کیا۔ بہر کیف میڈیا نے اسے اسلام سے جوڑ کر پیش کرنے کی پوری کوشش کی اور یہ باور کرانے کی کوشش کی کہ فرانس اور اہل مغرب آزادئ افکار اور آزادی اظہار رائے اور امن وسلامتی کے علمبر دار ہیں ، جبکہ مسلمان تشدد پسند ، ریڈیکل اور آزادی کے محالف ہیں ۔ لیکن یہ سب کچھ اس میڈیا کے ذریعے پیش کیا گیا جس نے اپنی زبان معمولی قیمت پر دوسروں کے ہاتھ بیچ دی ہے، اپنے صحافتی فرائض کو فراموش کر بیٹھی ہے، اقدار سے ناطہ توڑ چکی ہے ، اور ایک مخصوص طبقے کے ہاتھوں کا کھلونا بن گئی ہے ۔ حالانکہ پس پردہ کیا ہے یہ جاننا بہت اہم اور بے انتہا ضروری ہے ۔
فرانس میں آزادی اظہار رائے کا دوہرا معیار

یہ ایک حقیقت ہے کہ ڈکٹیٹر شپ اور بادشاہت کی جہنم میں جھلسنے والے مسلم ممالک کے مقابلے میں یورپ اور فرانس میں اظہار رائے اور فکر و عمل کی آزادی زیادہ ہے، اور اس کی تازہ مثال رائف بدوی کے تعلق سے سعودی عدالت کا غیر انسانی فیصلہ ہے، جس کی رو سے ایک صحافی کو محض اپنے خیالات کا اظہار کرنے کے جرم میں دس سال کی قید اور ایک ہزار کوڑے کی سزا سنائی گئی ہے۔ اور اوپر سے منافقت کا یہ رویہ کہ سزا سنانے کے دو دن بعد فرانس کی چارلی ہیبڈو ریلی میں سعودیہ کے سفیر اور نمائندے نے شرکت کر کے اس نامناسب تصور آزادی کی حمایت بھی کی، اور یورپ کی دوہری پالیسی کہ وہ بھی اس موضوع پر چپ سادھے رہا ۔

تاہم فرانس میں بھی اس آزادی کا کوئی صاف، واضح اور غیر جانبدار پیمانہ نہیں ہے بلکہ مصلحتوں اور مفاد کے تحت کہیں آزادی کا اعلان کرتے ہیں ، کہیں آزادی کا گلا گھونٹ دیتے ہیں ۔صرف فرانس میں صحافت اور اظہار رائے کی آزادی کی حقیقت جاننی ہو تو درج ذیل واقعات سے سمجھا جا سکتا ہے۔ خود چارلی ہیبڈو نے ۲۰۰۸ ؁ء میں اپنے ایک مشہور کارٹونسٹ سائن کو اس بنا پر برخواست کر دیا تھا کہ اس نے فرانس کے صدر نکولس سرکوزی کے بیٹے کے بارے میں ایک ایسی خبر شائع کر دی تھی جس میں ان کے مطابق یہودیت کا مذاق اڑایا گیا تھا، اور پھر حکومت نے خوش ہو کر میگزین کے ایڈیٹر کو خصوصی اعزاز سے بھی نوازا تھا۔

اسی طرح فرانس کے ایک مشہور طنز و مزاح کے ماہر ڈیوڈن ایم بالا کو وہاں کی عدالت نے مجرم قرار دیتے ہوئے اس پر کافی جرمانہ عائد کیا تھا کہ اس نے ہولوکاسٹ کا ایک میموریل پورنوگرافی کے نام سے موسوم کیا تھا ۔
خود چارلی ہیبڈو سے پہلے اس طرز کا طنز و مزاح کا ایک میگزین Hara-kiriنکلتا تھا، جس کو محض اس بنا پر بند کر دیا گیا تھا کہ اس نے سابق فرانسیسی صدر چارلس دے گولے کی موت پر طنزیہ خبر شائع کی تھی ، چنانچہ اس کے بعد پھر چارلی ہیبڈو کے نام سے اسی کو دوبارہ شروع کیا گیا۔
حیرت یہ ہے کہ فرانس میں ہولوکاسٹ پر ایک سوال نہیں اٹھا سکتے۔ کوئی چیز یہود کے خلاف ہو تو شائع نہیں کرسکتے، صدر مملکت کے اوپر کوئی طنز نہیں کر سکتے، مگر دوہرے معیار کی داد دیجئے کہ یہی چارلی ہیبڈو جب رابعہ عدویہ کے میدان میں صدر مملکت محمد مرسی کی واپسی کے لئے پر امن مظاہرہ کرتے ہوئے پچاس افراد جاں بحق ہو جاتے ہیں تو ٹائٹل پر ان کا مضحکہ خیز کارٹون شائع کرتا ہے اور عدالت اسے فریڈم آف اسپیچ قرار دیتی ہے۔ فرانس کی دوہری پالیسی کی اس سے بڑی مثال کیا ہوگی کہ وہ بارہ افراد کے قتل پر اس قدر برہم و نالاں ہے اور ساتھ ہی اسرائیل کا دوست اور جرائم میں اس کا مددگار ہے، جس نے صرف گزشتہ دنوں ہوئے غزہ پر حملہ میں ۲۵۰۰؍ جوان، بچوں، بوڑھوں اور عورتوں کا قتل عام کیا، اور ۱۷ بڑے جرنلسٹوں کو بھی اپنے ظلم و ستم کی بھٹی میں جھونک دیا ۔

آزادی اظہار رائے کا صحیح اور اسلامی موقف

اسلام کا موقف کیا ہے آزادی اظہار رائے کے تعلق سے ، یہ سمجھنے کے لئے قرآن مجید کی آیت لا اکراہ فی الدین کافی ہے ۔ جب اسلام دین و عقیدے کے معاملے میں انسان کو مکمل آزادی سے ہمکنار کرتا ہے تو دوسرے موضوعات پر اس کا موقف از خود عیاں ہے ۔ تاہم کسی بھی آزادی،فکر و عمل کی آزادی ہو، یا بولنے اور لکھنے کی آزادی کا بے لگام تصور کسی مہذب ، تعلیم یافتہ اور منظم سماج میں ناممکن ہے ۔ دوسروں کے جذبات ، عزت نفس ، حقوق اور آزادی کا تقاضا ہے کہ your freedom of rotating stick is limited when it reaches to an other\’s nose.. اور یہ رعایت جہاں انفرادی سطح پر کرنی ہوگی، وہیں اجتماعی طور پر ملکوں اور قوموں کے درمیان بھی ضروری ہے، اور اس کی مثال خود فرانس کے اندر موجود ہے ۔ چنانچہ فرانس میں درج ذیل چیزوں پر قانون کی رو سے آزادئ اظہار پر قدغن لگادی گئی ہے ۔ کوئی ایسی چیز شائع نہیں کی جا سکتی جو ڈرگس کو فروغ دینے والی ہو ۔ یا جو نسل و جنس کے نام پر نفرت پیدا کرنے والی ہو۔ یا قومی جھنڈے کی توہین کرنے والی ہو، اسی طرح ہولوکاسٹ پر کوئی سوال اٹھانا بھی ممنوع ہے ۔ خود ہندوستان کے دستور میں دفعہ نمبر ۱۹ کی شق( a) جہاں اظہار رائے کی آزادی دیتی ہے وہیں شق( b)اس کے کچھ حدود متعین کرتی ہے ۔ ضرورت ہے کہ ان ہی حدود کا خیال رکھا جائے۔
چنانچہ چارلی ہیبڈو سے متعلق بھی درست موقف یہ ہے کہ ہم حملے کی مذمت کرتے ہیں ، اور ساتھ ہی چارلی ہیبڈو کے غیر اخلاقی آزادی کے تصور کی بھی مخالفت کرتے ہیں ۔اور احمد مرابت کی تائید کرتے ہیں جس نے ظلم و تشدد کو روکنے کے لئے انسانی بنیادوں اور اپنے عہدے کی پاسداری میں اپنی جان کا نذرانہ پیش کردیا ۔

مسلمانوں میں شدت پسندی ۔۔۔ایک طبعی ردعمل :
اس حملے کے تعلق سے دوسری جو توجہ طلب اور وضاحت طلب چیز ہے وہ یہ کہ حملے کے فوراََ بعد میڈیا سے لے کر ہر طرف یہ عام ہوگیا کہ یہ دہشت گردانہ حملہ تھا ، اور یہ دراصل ریڈیکل اسلام کی دَین ہے ۔ فرانس اور مغرب کا یہ دعوی ہے کہ مسلمانوں میں ایک تشدد پسند اور دہشت گرد ذہنیت موجود ہے اور وہ امن عالم کے لئے ایک بڑا خطرہ ہے۔ اس کے خاتمے کے بغیر امن کی بحالی محال ہے ۔ چنانچہ کوئی حادثہ ہونے سے پہلے میڈیا کے ذریعے یہ پھیلا دیا جاتا ہے کہ یہ مسلم دہشت گردانہ کارروائی ہے۔ سوال یہ ہے کہ دہشت گردی کی حقیقت کیا ہے ؟ کیا ریڈیکل اسلام نام کی کوئی چیز فی الواقع پائی بھی جاتی ہے؟ اگر ہے تو اس کے اسباب کیا ہیں ؟ اور اس کے خاتمے کا صحیح طریقہ کیا ہوسکتا ہے ؟ مغرب کا اس سلسلے میں کیا رول اور کیا رویہ ہونا چاہئے ؟
اس بات سے انکار کر پانا مشکل ہے کہ مسلمانوں کے درمیان ایک طبقہ ایسا ضرور ہے جو متشدد اور انتہاپسند ذہنیت سے دوچار ہے اور یہ ذہنیت افرادکی سطح پر بھی پائی جاتی ہے اور تنظیموں اور جماعتوں کی شکل میں بھی ۔ لیکن اس پر کبھی سنجیدہ غوروفکر نہیں ہوا کہ اس کی اصل وجہ کیا ہے ؟ اس کے اسباب اور محرکات کیا ہیں ؟ ایک عرصے تک تو میڈیا کے ذریعے ا سے اس طور پر پیش کیا گیا کہ اسلام کی تعلیمات اور پیروی نے ہی دراصل ایک شدت پسند طبقہ کو وجود بخشا ہے، جو دہشت گردانہ واردات انجام دیتا ہے۔پر ادھر کچھ عرصے سے مغربی مفکرین اور دانشوروں کی اس جانب توجہ ہوئی ہے اور وہ اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ اسلام کے اندر تشدد اور بربریت پر ابھارنے والی کوئی چیز نہیں ہے ، اور اگر بعض غیر مقبول اور شاذ تشریحات کی وجہ سے شدت پسند لٹریچر موجود بھی ہے تو وہ نہ تو عموماََ مسلمانوں میں مقبول ہے اور نہ اس کے ماننے والے دہشت گردانہ کار روائیوں میں ملوث ہوتے ہیں ، پروفیسر ارون کندانی اپنی ریسرچ رپورٹ A Decade lost میں اس بات کی کھلی وضاحت کرتے ہیں کہ دہشت گردی کے واقعات کو بلا تحقیق شدت پسند ذہنیت سے جوڑ دینا خلاف عدل و حقیقت ہے ۔
اگر غیر جانبداری اور حقیقت پسندی کے ساتھ جائزہ لیا جائے تو یہ نتیجہ نکل کر آئے گا کہ جہاں کہیں بھی کوئی شدت پسند تنظیم یا ریڈیکل مسلم جماعت موجود ہے ، اس کے پیچھے سماجی ، عمرانی اور تاریخی اسباب ہیں، جس نے ان کو طبعی رد عمل کے طور پر وجود بخشاہے ، ایک سیاسی رد عمل ہے جو ماضی قریب کی تاریخ سے بالکل واضح ہے، اور ان سب کی اصل جڑ استعماریت اور colonialism میں پائی جاتی ہے، چنانچہ مکمل طور سے اس کے ذمہ دار یورپ اور فرانس و برطانیہ ہیں ۔ بات ابھی چارلی ہیبڈو کے حوالے سے چل رہی ہے ، اور الجیریا اور فرانس اس گفتگو کے محور ہیں، چنانچہ ابھی صرف اسی حوالے سے جائزہ لیتے ہیں ۔ الجیریا کے مسلمانوں میں فرانس کے تئیں وہی جذبات پائے جاتے ہیں جو ایک طلاق شدہ بیوی کے دل میں اپنے پرانے شوہر کے لئے پائے جاتے ہیں ۔یہ تأثر ہے مغربی دنیا کے معروف تجزیہ کار اور انصاف پسند صحافی رابرٹ فسک کا، اور یہ بجا طور پر مبنی بر حقیقت ہے ۔ فرانس نے ۱۳۲؍ سال الجیریا کو اپنی کالونی بنا کر اس کے شہریوں کو اپنا غلام بنا یا، اور اس کے وسائل کو سمیٹتے ہوئے اس کا زبردست استحصال کیا ۔ ۱۹۵۴ سے ۱۹۶۲ کے دوران آزادی حاصل کرنے کے لئے الجیریا نے لاکھوں جانوں کا نذرانہ پیش کیا اور آزادی کے بعد بھی فرانس نے اپنے کچھ ایجنٹوں اور وفاداروں کو ملک کی باگ دوڑ تھما دی ، چنانچہ اس کے بعد بھی فرانس نے وہاں کے شہریوں کے خلاف اپنا بھرپور اور مسلسل تعاون پیش کیا۔ چنانچہ ۱۹۸۰ میں جب فوج نے الیکشن کا دوسرا راؤنڈ پورا کرانے سے انکار کر دیا جس میں اسلام پسندوں کی حکومت بننے کے آثار بالکل واضح ہو چکے تھے اور پھر داخلی جنگ ہوئی تو فرانس نے وہاں کے نا اہل اور کرپٹ نظام ایف ایل این کا پورا ساتھ دیا، اور شہریوں کا بڑے پیمانے پر قتل عام کرایا۔ نوے کی دہائی میں پھر وہاں کے تیل کے لئے فرانس نے امریکہ اور وہاں کی ظالم حکومت کے ساتھ مل کر شہریوں پر حملہ کیا اور ہزاروں ناحق جانوں کے خون کا ارتکاب کیا ، اور الجیریا کے شہریوں کو یہ یقین ہو گیا کہ استعمار نے ہم کو آزاد نہیں ہونے دیا ہے ، وہ ایک طرف تو اپنے ایجنٹوں کو زبردستی ہم پر مسلط کر رہا ہے دوسری طرف استعمار کے نئے نئے لباس (IMF, WORLD BANK, MONETARY SYSTEM etc) پہن کر ہمیں کھوکھلا کر دینے کے درپے ہے ۔

فرانس میں آباد چھ ملین مسلم آبادی میں سے پانچ ملین الجیریائی ہیں اور وہ افلاس ، غربت اور ظلم و بربریت کے طوفان سے مستقل دو چار ہیں ۔ فرانس پہلا ملک ہے جس نے فلسطین اور غزہ جو مسلمانوں کا بنیادی اور مذہبی حق ہے اس کے مظلوموں کے حق میں مظاہرے تک کرنے پر پابندی لگائی۔ فرانس نے مسلم خواتین کو اسکارف تک لگانے کی اجازت سے محروم کر رکھا ہے۔ فرانس دنیا کے چند بڑے اسلحہ ساز اور اسلحہ فروخت کرنے والے ملکوں میں سے ایک ہے ، اور اس نے دہشت گردی کے نام پر مسلم ممالک کو یرغمال بنانے والی ہر جنگ میں بڑھ چڑھ کر امریکہ کا ساتھ دیا ہے۔ اس کے بڑ ے خریدار تین ہیں ۔ ایک امریکہ جس نے مسلم ممالک کے خلاف ظلم و ستم کرنے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی ، دوسرا اسرائیل جو خود مسلمانوں کی زمین پر قابض ہے اور مستقل معصوم جانوں کے خون سے اپنے ہاتھ لال کرنے میں مصروف ہے ۔ تیسری عرب حکومتیں جو اپنے عوام کو غلام بنانے کے لئے وحشت و بربریت کی کسی بھی انتہا پر پہنچنے کو تیار ہیں ۔ یہ ماضی سے حال تک کا فرانس کا الجیریا اور خود فرانس کے مسلمانوں کے تئیں رویہ ہے ، چنانچہ اب مسلمان اگر اس کے خلاف تشدد پر اترتے ہیں تو یہ اسلام کا مسئلہ ہوگا یا خود فرانس اور اس کی جانب سے ہونے والے ظلم و ستم کا مسئلہ ہوگا ۔ یقیناًفرانس اور برطانیہ نے مسلمانوں کو ٹارگیٹ کر کے جس طرح ظلم کی چکی میں پیسا ہے اور پیس رہے ہیں اس پر اس طرح کے رد عمل کا ہونا بالکل فطری ہے ۔ یہ تو گفتگو تھی فرانس اور الجیریا کے حوالے سے اور الجیریا کے مسلمانوں میں رد عمل کے پائے جانے کے طبعی امکان کے بارے میں ۔ ورنہ حقیقت تو یہ ہے کہ جہاں کہیں کا بھی جائزہ لیں ، ہر شدت پسند تنظیم کے پیچھے ایسے ہی سیاسی اور معاشی محرکات پائے جاتے ہیں ، نائجیریا میں بوکوحرام کے پیچھے بھی یہی عوامل کار فرما رہے ، ساٹھ کی دہائی میں وہاں قتل و غارتگری کا ایسا بازار گرم کیا گیا کہ اس کی مثال ملنی مشکل ہے ۔ افغانستان میں خارجی ظلم و تشدد سے پہلے طالبان کا کوئی وجود نہیں تھا۔ عراق میں امریکہ اور برطانیہ کے استعمار سے پہلے داعش کا کوئی وجود نہیں تھا۔ القاعدہ کی کہانی بھی کچھ مختلف نہیں ہے۔ مصر میں جمہوریت کے راستے ظلم و ستم کا خاتمہ ہوا اور عدل و انصاف پر مبنی جمہوری حکومت کا قیام عمل میں آیا ، مگر بہت جلد ہی امریکہ اور یورپ کے تعاون سے عوام کی امیدوں کا خون کیا گیا اور عوام کی آواز کو کچلنے کے لئے ظلم اور جارحیت پر مبنی ہرطریقہ اختیار کیا گیا ، تاہم ابھی بھی عوام صبر کا دامن تھامے اپنے حقوق کے لئے کوشاں اور سرگرداں ہے ۔ شام کی صورتحال بالکل سامنے ہے۔ عوام نے بیداری اور جوانمردی کا ثبوت دیا، اور عوامی اور جمہوری حکومت قائم کرنے کی پیش قدمی کی، کامیابی کی دہلیز پر پہنچ چکے تھے کہ امریکہ ، روس، فرانس اور مغرب کے غیر معمولی تعاون سے عوام کی امیدوں پر پانی پھیر دیا گیا اور لاکھوں معصوم انسانوں کے کشتوں کے پشتے لگا دیے گئے ۔ اب باوجود اس کے کہ وہ مسلمان ہیں مگر انسانی فطرت کے تقاضے کے طور پر اگر وہ پر امن راستے سے تبدیلی سے مایوس ہو جائیں اور تشدد کی راہ پر نکل پڑیں تو اس میں اسلام یا ان کے عقائد کا کیا قصور ۔ مسلمانوں سے یہ امید کرنا کہ وہ شتر مرغ کے کان اور گینڈے کی کھال اور بے حس دل والی مخلوق بن جائیں تو یہ ایک عقل کا دھوکہ اور ناقابل تلافی جرم ہے ۔
چنانچہ یورپ اور فرانس اگر واقعی امن و انصاف چاہتے ہیں ، تشدد اور ریڈیکلزم کا خاتمہ چاہتے ہیں تو وہ اس کو اسلام اور مسلمانوں کے سر پر تھوپنے اور اپنے آپ کو اس سے سبک دوش کرنے کے بجائے حقیقت کو قبول کریں۔ اور اپنے رویہ میں مطلوبہ تبدیلی لائیں، ابھی تک اس شدت پسند ذہنیت کو ختم کرنے کے لئے کوئی باقاعدہ نہ ریسرچ ہوا اور نہ کوئی پیش قدمی ہوئی ہے ، یہ بات بھی واضح ہونی چاہئے کہ شدت پسندی کا خاتمہ کبھی بھی فوجی اور خونی کار روائیوں سے نا ممکن ہے، بلکہ اس کے لئے اس کے اسباب پر سنجیدہ غوروفکر کر کے اس کا حل تلاش کرنے کی ضرورت ہے، ورنہ ایک مستقل اور نا ختم ہونے والی جنگ تو حاصل ہو سکتی ہے مگر امن و سکون نہ یورپ اور فرانس کے حصے میں آئے گا اور نہ خود مسلم ممالک کے۔

زیڈ۔ ایچ۔ سبحانی

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Verified by MonsterInsights