وہ ایک نور جسے اب حیات ترستی ہے

0

(خیال ماخوذ)

اس کا گاؤں ایک نہایت خوبصورت وادی میں تھا، لیکن اس کا گھر گاؤں سے چند فرلانگ کی دوری پر ایک چھوٹی سی پہاڑی کی بلندی پر تھا۔ اس کی بلندی پر کھڑے ہوکر ہر کوئی ندی اور کھیتوں کی ان فصلوں کو اچھی طرح دیکھ سکتا تھا۔ جس میں خوب دانے آچکے تھے۔ تاہم اوپری حصے پر ابھی پھول بچے تھے۔ اور یہ کیفیت ایک اچھی فصل کے حصول کی علامت ہوتی ہے۔ لیکن ابھی کھیتوں کو ہلکے پانی کی شدید ضرورت تھی۔ اور تیز بارش تو ان کے لئے سراپا خیروبرکت ثابت ہوتی۔ اس وقت اس کے پاس کوئی کام نہیں تھا۔ وہ صبح وشام کھیت کی فصلوں کو بغور دیکھنے کے لئے کنارے کنارے چکر لگاتا، تو کبھی مسرت کے ساتھ آسمان کے اُن بادلوں کو دیکھتا جو فضا میں دکھتے لیکن بغیر کھیتوں کو کچھ نوازے رات کی تاریکی میں غائب ہوجاتے، اور اس کے وجود کو مایوسی اور دکھ کے حوالے کرجاتے۔
ایسے ہی ہوتا رہا کہ ایک دن جبکہ بادل کچھ زیادہ ہی گھنے اور پانی سے لدے دکھ رہے تھے، اس نے مسرت سے اپنی ’پتنی‘ سے کہا:
’جانو! آج لگتا ہے ورشا ضروری ہوگی‘
بیوی نے کہا: ’اے، پر بھوکرے بارش ہو!‘۔
ان کے بڑے بچے کھیتوں میں کام میں مشغول تھے۔ جبکہ چھوٹے بچے قریب ہی کھیل رہے تھے۔ عورت نے بچوں کو آوازدی۔ آؤچلو کھانا کھالو!
سب کھانے کے لئے زمین پر بیٹھے تھے، اور ابھی کھانا ختم بھی نہیں کیا تھا کہ بارش کی بڑی بڑی بوندیں گرنے لگیں۔
شمال مشرق کی جانب سے پہاڑوں کے مشابہ بادل کے ٹکڑے تیرتے نظر آرہے تھے۔ ہوا نہایت لطیف اور خوشگوار چل رہی تھی۔ کسان گھر سے باہر نکل گیا۔ کیونکہ بارش کی لذت سے خود کو خوش کرنا چاہتا تھا۔ جب واپس گھر آیا تو انتہائی مسرت کے ساتھ بیوی سے کہہ رہا تھا:’ارے ارے! آسمان کی یہ بوندیں تو جیسے چاندی کے نئے نئے سکے‘۔
بڑی بوندیں دس آنے کے برابر اور چھوٹی بوندیں پانچ آنے کے برابر لگ رہی ہیں۔
ان اطمینان بخش کلمات کے بعد! وہ بغور اس تیار فصل کو دیکھ رہا تھا جس میں ابھی کہیں کہیں پھول باقی تھے۔ جو بارش کی بوندوں کی گھونگھٹ میں انتہائی سنورے سنورے اور حسین دکھ رہے تھے۔ لیکن فوراً تیز ہوا چل پڑی اور اس کے ساتھ اولے گرنے لگے۔ بچے بے خوف وخطر میدانوں کی طرف بھاگ لیے ان جمے موتیوں کو اکھٹا کرنے کی خاطر۔
اولے دیرتک گرتے رہے، تباہی کے آثار نمایاں تھے، لیکن اس کے دل میں ابھی آشا تھی کہ ممکن ہے یہ بہت جلد تھم جائے۔ لیکن اس کی آشا مسلسل نراشا میں بدلتی رہی۔ اولے گھنٹوں تک برستے رہے۔ ہر جانب گھروں، باغوں، پہاڑی ، فصل ، اور پوری وادی میں۔
میدان ایسے سفید نظر آرہے تھے۔ جیسے وہ نمک کے کھیت ہوں۔ درخت بالکل عریاں ہوگئے تھے۔ پھول گرچکے تھے۔ اور کسان کی آتما سراپا دردوغم کی تصویر بن چکی تھی۔ جب اولے تھم گئے تو وہ اپنے کھیتوں کے بیچ کھڑا تھا، اور بیٹوں سے کہہ رہا تھا؛
ٹڈیوں کی وبا سے فصلوں کو اتنا نقصان نہیں پہنچا ہوگا۔ اولے نے تو مکمل تباہی مچادی۔ اس سال ہم دانے دانے کو ترس جائیں گے۔
وہ رات ان کے لئے سراپا دردوغم تھی؛ان کی خاموش زبان کہہ رہی تھی کہ ہماری تمام سعی لا حاصل ہوگئی ۔کہیں سے مدد بھی تو نہیں مل سکتی ۔ اس سال فا قہ کشی ہمارے حصہ میں آئے گی، لیکن ان کسانوں کے بیچ ایک ایسا کسان تھا جو وادی کے ایک طرف پہاڑی پر رہتا تھا۔ اس کے دل میں ابھی بھی خدا سے مدد کی آشا تھی۔
اس تاریک اور بھیانک رات میں جب ہر کوئی مکمل درد و غم کی تصویر تھا۔ اس کسان کے دل میں امید کی کرن باقی تھی۔ وہ جانتا تھا کہ ’’جب امید کے سارے سہارے ٹوٹ جاتے ہیں، اور دور دور تک کوئی سہا را نظر نہیںآتا، اس وقت بھی خدا انسان کی مدد کرنے پر قادر ہوتا ہے‘‘۔
یہ وہ پیارا ’’سبق‘‘ تھا جو اس کے دادا نے زندگی کی متعدد راتوں میں اس کے دل و دماغ کو پلایا تھا، اور اس سچائی پر بہت زور دیا تھا کہ ’’بیٹا جب انسان کے تمام ظاہری سہارے ٹوٹ جاتے ہیں اور مدد کی کوئی شکل دور دور تک باقی نہیں رہ جاتی، ’’ خدا‘‘ اس وقت بھی انسان کی مدد کرنے پر قادر ہے کیو نکہ خدا بہت ہی لطیف اور حکیم ہے، اور انسان کے ضمیر کی گہرا ئیوں میں پو شیدہ دھڑکنوں کو بھی سننے پر قادر ہے۔‘‘
یہی وہ نر الا سبق تھا جو اس کسان کے درد و غم کو زائل کر رہا تھا۔ اسے مایوسی میں بھی امید کا روشن چراغ نظر آرہا تھا۔ ٹوٹنے کے بعد بھی بکھرجانے کے خوف سے محفوظ رکھ رہا تھا۔ لٹ جانے کے بعد بھی نالہ وشیون اور ماتم و غم کے بے جا اظہار سے مانع تھا؛
وہ بلا کا محنتی تھا۔ دن دن بھر کھیتوں میں کام کرتا تھا۔ علم سے اس کو صرف اتنا حصہ ملا تھا جس سے وہ حق و ناحق ، حلال و حرام میں امتیاز کر لیتا اور اپنی مافی الضمیر کی ادا ئیگی کر لیتا ۔
صبح اٹھ کر اس نے ایک خط لکھا اور سیدھے شہر کی راہ لی، اور ڈاک خانہ جاکر خطوط کے ڈبہ میں اپنا خط ڈال دیا۔ اس خط کے اوپر اس نے لفظ ’’خدا ‘‘ لکھا تھا۔
ڈاک خانے کا ایک ملا زم جو ڈاکیہ کے فرا ئض انجام دیتا تھا، اور ڈاک خا نہ میں دوسرے انسانوں کی مدد بھی کرتا تھا، اس نے اس خط کو نکالا اور زور دار قہقہہ لگاتے ہوئے ڈاک گھر کے ہیڈ کے پاس گیا اور خدا کے نام کا خط تعجب سے دکھانے لگا، کیونکہ پوری نوکری کے دورانیہ میں اس نے ایسا خط نہیں دیکھا تھا، جس پر اس طرح کا پتہ رہا ہو۔
ہیڈ آفس ایک زندہ دل انسان تھا۔ وہ بھی زور سے ہنسنے لگا، لیکن فوراً ہی سنجیدہ ہوگیا اور خط کو ٹیبل پر مارتے ہوئے حسرت اور استعجاب کے ملے جلے جذبات کے ساتھ ان جملوں کو زبان پر بار بار لا رہا تھا؛
’’ آہ رے یقین ! اے کاش مجھے بھی اس کے جیسی ایمان و یقین کی دولت ملی ہوتی ۔ جو دلوں کی دھڑکن ہے۔ رخسار کا پیارا غازہ ہے ۔ نینوں کا حسین کاجل ہے۔ غریبی کا سہارا ہے تو امیری کی پیاری لگا م ہے۔ کبرو غرور کی نکیل ہے تو تاریکی میں نور ہے۔
تخیل کے وہ حسین ماضی میں جا چکا تھا کہ اچانک اسے پھر خیال آیا کہ یہ پیارا اور نازک یقین کا بندھن کہیں ٹوٹ نہ جائے اور خدا کے باب میں صاحب خط سوئے ظن کا شکار نہ ہو جائے۔ اس لئے اس کے یقین کو مضبوطی عطا کرنے کے لئے اس نے سوچا کہ اس خط کا جواب ضرور دوں گا، لیکن جب اس نے خط کھولا تو اس کی تحریر سے یہ حقیقت آ شکارا تھی کہ صرف صاحب خط کو جواب میں خیر سگالی، کاغذ اور روشنائی مطلوب نہیں تھی بلکہ مددبھی مطلوب تھی؛
اس خواہش کی تکمیل کے لئے اس نے اپنے تمام دوستوں سے تعاون لیا، اور خود بھی اس میں حصہ لیا، لیکن تمام رقم پچاس سے تھوڑی ہی زیادہ تھی۔ جبکہ اس کو ایک روپیہ کی ضرورت تھی۔اس نے یہ رقم ایک لفافہ میں ڈال کر بند کر دی، اور خدا کے نام کا دستخط کیا اور اس پر کسان کا نام لکھ دیا۔
اگلے روز وہ کسان ڈاک گھر تھوڑا سو یرے آ یا اورپوسٹ چیک کرنے لگا۔ ڈاکیہ نے اسے اس کا خط دے دیا، جبکہ ہیڈ آفس چھپ کر آفس کی چوکھٹ سے اس کسان کے تأ ثرات کو پڑھ رہا تھا۔
کسان نے خط پاکر ذرا بھی استعجاب کا اظہار نہیں کیا، بلکہ انتہائی اطمینان و سکون سے خط کھولا اور پیسے گن رہا تھا۔ ایسا دِکھ رہا تھا گویا خدا کی ذات پر یقین اس کے رگ و پے میں سرایت تھا۔ اس کا یقین بہت مضبوط اور راسنح تھا۔’’کیوں‘‘ اور ’’کیا‘‘ سے اس کے یقین کی ذات ما وراء تھا، جو دیوانے یقین کے لئے سم قاتل ہے۔ اس کی متانت، اس کا اطمینان، اس کا خدا کی ذات پر گہرا یقین زبان خاموش سے کچھ یوں کہہ رہا تھا؛
تجھ سے لفظوں کا نہیں روح کا رشتہ ہے خدا
تو میری سانس میں تحلیل ہے خو شبو کی طرح
اور جب اس نے خط کھولا تو کافی غصہ اور ناراض ہوگیا کیونکہ اعانت کی رقم جو خدا نے بھیجی تھی وہ مشکل سے آدھے سے زیادہ تھی، وہ سیدھا آفس کے باہری حصّے تک آیا، اور ڈاکیہ سے قلم اور کاغذ مانگا اور پھر کچھ یوں لکھنا شروع کیا:
’’ اے خدا جو رقم تونے بھیجی ہے وہ مجھ تک آگئی ہے بقیہ رقم بھی بھیج دے، لیکن ڈاک سے مت بھیجنا کیونکہ ڈاک کے ملا زم چور اور مکار ہیں‘‘۔
شاہ عالم فلاحی، انگلش ٹیچر (بلریاگنج، اعظم گڑھ۔ یوپی)

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Verified by MonsterInsights